آخر انسان میں کچھ خوبیاں بھی تو ہیں
آج کے دور میں پے درپے ہونے والے ہولناک واقعات ذہنوں کو بری طرح سے متاثر کر رہے ہیں۔
NEW DEHLI:
زندگی تضادات کا مجموعہ ہے، آج کے اس پر آشوب دور نے انسان سے اس کا ذہنی سکون چھین لیا ہے، غیر یقینی صورت حال کی وجہ سے مزاج بھی غیر متوازن اور پیچیدہ ہو چکے ہیں۔ منفی سوچ، پریشانی و خوف زندگی کو مزید الجھا دیتے ہیں۔ درحقیقت یہ منفی رویے انسان کی اپنی ذات کو زیادہ نقصان پہنچاتے ہیں۔
سائیکو نیورو امیونالوجی کی ماہر Candace Pert کہتی ہیں ''انسان کا ذہن اس کے جسم کے ہر سیل میں موجود رہتا ہے'' جس کے مطابق ذہن، نیورو ٹرانسمیٹرز (جسم کو معلومات پہنچانے والے مالیکیولزم کے توسط سے اپنا پیغام جسم کے سیلز تک پہنچاتا ہے۔ خوف، شدید غصے یا ہیجانی کیفیت کی صورت میں یہ کیمیکلز جسم میں پھیل جاتے ہیں۔ اس کیفیت کے ختم ہونے کے بعد یہ سیل اپنی عام حالت میں واپس آ جاتے ہیں۔
مگر مسلسل ذہنی دباؤ، خوف، غصے یا پریشانی کو دبانے سے یہ واپس نارمل حالت میں آنے کے بجائے جسم میں بڑھتے، پھلتے اور پھولتے رہتے ہیں اور مختلف ذہنی و جسمانی بیماریوں کا سبب بنتے ہیں، اس کے علاوہ یہ جسم کے مدافعتی نظام پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ لہٰذا جسم میں قید منفی سوچ انسان کے ذہن و جسم کی تباہی کا سبب بنتی ہے۔
آج کے دور میں پے درپے ہونے والے ہولناک واقعات ذہنوں کو بری طرح سے متاثر کر رہے ہیں، لوگ بے یقینی اور خوف کی کیفیت میں مبتلا رہنے لگے ہیں اور کسی اچانک حادثے کی صورت میں خود کو سنبھال نہیں پاتے۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ اسٹیٹ لائف کی بلڈنگ میں اچانک آگ بھڑک اٹھی۔ یہ عمارت صدر کراچی میں واقع ہے۔ وہاں پر موجود تئیس سالہ نوجوان اویس جو انٹرویو دینے آیا تھا، اس صورت حال سے بوکھلا گیا اور لوگوں کے منع کرنے کے باوجود وہ آٹھویں منزل کی کھڑکی سے باہر لٹک گیا۔ کچھ دیر وہ باہر لٹکا رہا، اسی دوران اس کی تصویریں کھینچی گئیں اور ایک پرائیویٹ چینل نے اس کی فلم بھی بنا ڈالی۔ مگر کسی نے بھی اسے بچانے کی کوشش نہ کی اور وہ آٹھویں منزل سے نیچے گر کے بری طرح زخمی ہو گیا اور اسپتال میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا۔ بعد میں فائر بریگیڈ نے وہاں پہنچ کر عمارت کی آگ بجھائی اور تمام لوگوں کو بحفاظت باہر منتقل کر دیا گیا۔ اس واقعے میں فقط اویس اپنے خوف اور گھبراہٹ کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ ایسے لوگ آگ سے خوفزدہ ہوتے ہیں۔
اس خوف کو پائروفوبیا (Pyro Phobia) یا ارسن فوبیا (Arson Phobia) کا نام دیا جاتا ہے۔ اس خوف کے پس منظر میں آگ لگنے کے کچھ واقعات بھی ہو سکتے ہیں۔ آگ لگنے کا دل دہلا دینے والا واقعہ 11 ستمبر کو علی انٹر پرائز گارمنٹس فیکٹری کراچی میں پیش آیا تھا، جس میں کئی لوگ لقمہ اجل بنے۔ اکتوبر میں ہی کراچی کی ایک پلاسٹک فیکٹری میں آگ لگی تھی۔ جس میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔ البتہ عمارت کے کئی حصے منہدم ہونے کی وجہ سے سات سو پچاس لوگ بے روزگار ہو گئے۔ حقیقت میں اویس کے ذہن کا خوف ہی اس کی موت کی وجہ بنا۔ ملک میں ہونے والے بم دھماکوں، ڈرون حملوں، حادثات اور قاتلانہ حملوں کی وجہ سے بچوں اور نوجوانوں کے ذہن بری طرح سے متاثر ہو رہے ہیں۔ بچوں کے ذہنوں میں پھول، پرندوں اور تتلیوں کی جگہ خون خرابے سے بھرپور بدصورت مناظر بھرے ہوئے ہیں۔
آج کے بچے اپنی عمر کے فطری پن سے محروم ہو کر رہ گئے ہیں۔ بچوں کی معصوم خوشی اس کائنات کا خوبصورت سرمایہ ہے۔ مگر یہ بچے حالات کی ستم ظریفی کا شکار ہو کر، خوف کی مستقل کیفیت میں مبتلا ہیں۔ والدین الگ زندگی کی مشکلات سے برسر پیکار ہیں۔ والدین اور بچوں کے درمیان فاصلے اور کشیدگی کی فضا پائی جاتی ہے۔ بچوں کے غیر یقینی رویوں سے پریشان والدین، ان کی بے چین حرکات کے پیچھے چھپے خوف اور عدم تحفظ کے احساس کو سمجھنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ منفی رویوں کے شکار بچوں اور نوجوانوں میں خودکشی کا رجحان بھی پایا جاتا ہے۔ والدین کا تلخ رویہ اور جسمانی تشدد ان سے خود اعتمادی چھین لیتا ہے۔ جو آگے چل کر ایسے ناگہانی حادثات کا پیش خیمہ بنتی ہے۔ نئی نسل کو گھر میں سکون، توجہ اور محبت ملنی چاہیے جو باہر کی دنیا میں مفقود ہے۔
بہت سے لوگ جو قاتلانہ حملوں کے چشم دید گواہ ہوتے ہیں یا بم دھماکوں میں بچ جاتے ہیں، یا ان کے تجربے میں کوئی نہ کوئی المناک واقعہ ہوتا ہے وہ PSTD یعنی پوسٹ ٹرامٹک ڈس آرڈر Post Traumatic Disorder کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جس کے پس منظر میں ناگہانی آفات، جنگ، ایکسیڈنٹ اور جسمانی تشدد وغیرہ بھی پائے جاتے ہیں۔ ایسے لوگ شدید اینگزائٹی (تشویش) کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اینگزائٹی میں مبتلا بچے، بڑے یا نوجوان کام میں عدم دلچسپی ظاہر کرتے ہیں۔ ان کی ذات میں یکسوئی کی کمی ہوتی ہے، ایسے لوگ مختلف خوف اور واہموں میں مبتلا رہتے ہیں۔ نفسیات کی جدید تحقیق کے مطابق ''ذہن میں پیدا ہونے والا خیال کبھی فنا نہیں ہوتا، بلکہ وہ تکمیل تک پہنچنے کے لیے کائنات کی مختلف سمتوں کی طرف محو سفر رہتا ہے۔'' سچ تو یہ ہے کہ خوف، واہمے اور قیاس آرائیاں بھی حقیقت کا روپ دھار لیتی ہیں۔ کیونکہ زندگی ہماری سوچ کا عکس ہے۔
19 ویں صدی میں مائنڈ پاور سائنس پر بہت کام ہوا ہے۔ جس کے مطابق انسان کا ذہن اس قدر طاقتور ہے کہ اگر وہ چاہے تو نامساعد حالات کو اپنی موافقت میں بدل سکتا ہے۔ لیکن ذہن کا خوف و انتشار اسے ایک قوت بن کر ابھرنے سے روکتا ہے۔ ایک بہت ہی ضدی اور بدمزاج بچے کو اس کے والدین ماہر نفسیات کے پاس لے گئے، جس نے والدین کو یہ بات سمجھائی کہ آپ لوگ بچے کے لیے اپنا سوچنے کا انداز تبدیل کریں۔
اسے برا بھلا کہنا چھوڑ دیں اور تصور میں اس کی اچھائیوں کو لے آئیں، آپ بہت جلد اسے سعادت مند اور خوش مزاج بچے کے روپ میں دیکھیں، یوں والدین کی سوچ میں تبدیلی نے بچے پر مثبت اثرات مرتب کیے اور اس نے والدین کو تنگ کرنا چھوڑ دیا۔ ہمارے یہاں صورت حال یہ ہے کہ گھر ہوں، ادارے ہوں یا ایوان سیاست ہر طرف منفی اور جارحانہ رویے پائے جاتے ہیں۔ آخر انسان میں کچھ خوبیاں بھی ہوتی ہیں۔ ہم نے ان خوبیوں کو سراہنا کیوں چھوڑ دیا ہے؟ ہم اگر ان تمام مسائل کو مثبت تناظر میں دیکھنے لگیں تو ہمارے تصور کی یہ طاقت ایک دن ناممکن کو ممکن کا روپ دینے کی مجاز ہو گی۔
زندگی تضادات کا مجموعہ ہے، آج کے اس پر آشوب دور نے انسان سے اس کا ذہنی سکون چھین لیا ہے، غیر یقینی صورت حال کی وجہ سے مزاج بھی غیر متوازن اور پیچیدہ ہو چکے ہیں۔ منفی سوچ، پریشانی و خوف زندگی کو مزید الجھا دیتے ہیں۔ درحقیقت یہ منفی رویے انسان کی اپنی ذات کو زیادہ نقصان پہنچاتے ہیں۔
سائیکو نیورو امیونالوجی کی ماہر Candace Pert کہتی ہیں ''انسان کا ذہن اس کے جسم کے ہر سیل میں موجود رہتا ہے'' جس کے مطابق ذہن، نیورو ٹرانسمیٹرز (جسم کو معلومات پہنچانے والے مالیکیولزم کے توسط سے اپنا پیغام جسم کے سیلز تک پہنچاتا ہے۔ خوف، شدید غصے یا ہیجانی کیفیت کی صورت میں یہ کیمیکلز جسم میں پھیل جاتے ہیں۔ اس کیفیت کے ختم ہونے کے بعد یہ سیل اپنی عام حالت میں واپس آ جاتے ہیں۔
مگر مسلسل ذہنی دباؤ، خوف، غصے یا پریشانی کو دبانے سے یہ واپس نارمل حالت میں آنے کے بجائے جسم میں بڑھتے، پھلتے اور پھولتے رہتے ہیں اور مختلف ذہنی و جسمانی بیماریوں کا سبب بنتے ہیں، اس کے علاوہ یہ جسم کے مدافعتی نظام پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ لہٰذا جسم میں قید منفی سوچ انسان کے ذہن و جسم کی تباہی کا سبب بنتی ہے۔
آج کے دور میں پے درپے ہونے والے ہولناک واقعات ذہنوں کو بری طرح سے متاثر کر رہے ہیں، لوگ بے یقینی اور خوف کی کیفیت میں مبتلا رہنے لگے ہیں اور کسی اچانک حادثے کی صورت میں خود کو سنبھال نہیں پاتے۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ اسٹیٹ لائف کی بلڈنگ میں اچانک آگ بھڑک اٹھی۔ یہ عمارت صدر کراچی میں واقع ہے۔ وہاں پر موجود تئیس سالہ نوجوان اویس جو انٹرویو دینے آیا تھا، اس صورت حال سے بوکھلا گیا اور لوگوں کے منع کرنے کے باوجود وہ آٹھویں منزل کی کھڑکی سے باہر لٹک گیا۔ کچھ دیر وہ باہر لٹکا رہا، اسی دوران اس کی تصویریں کھینچی گئیں اور ایک پرائیویٹ چینل نے اس کی فلم بھی بنا ڈالی۔ مگر کسی نے بھی اسے بچانے کی کوشش نہ کی اور وہ آٹھویں منزل سے نیچے گر کے بری طرح زخمی ہو گیا اور اسپتال میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا۔ بعد میں فائر بریگیڈ نے وہاں پہنچ کر عمارت کی آگ بجھائی اور تمام لوگوں کو بحفاظت باہر منتقل کر دیا گیا۔ اس واقعے میں فقط اویس اپنے خوف اور گھبراہٹ کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ ایسے لوگ آگ سے خوفزدہ ہوتے ہیں۔
اس خوف کو پائروفوبیا (Pyro Phobia) یا ارسن فوبیا (Arson Phobia) کا نام دیا جاتا ہے۔ اس خوف کے پس منظر میں آگ لگنے کے کچھ واقعات بھی ہو سکتے ہیں۔ آگ لگنے کا دل دہلا دینے والا واقعہ 11 ستمبر کو علی انٹر پرائز گارمنٹس فیکٹری کراچی میں پیش آیا تھا، جس میں کئی لوگ لقمہ اجل بنے۔ اکتوبر میں ہی کراچی کی ایک پلاسٹک فیکٹری میں آگ لگی تھی۔ جس میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔ البتہ عمارت کے کئی حصے منہدم ہونے کی وجہ سے سات سو پچاس لوگ بے روزگار ہو گئے۔ حقیقت میں اویس کے ذہن کا خوف ہی اس کی موت کی وجہ بنا۔ ملک میں ہونے والے بم دھماکوں، ڈرون حملوں، حادثات اور قاتلانہ حملوں کی وجہ سے بچوں اور نوجوانوں کے ذہن بری طرح سے متاثر ہو رہے ہیں۔ بچوں کے ذہنوں میں پھول، پرندوں اور تتلیوں کی جگہ خون خرابے سے بھرپور بدصورت مناظر بھرے ہوئے ہیں۔
آج کے بچے اپنی عمر کے فطری پن سے محروم ہو کر رہ گئے ہیں۔ بچوں کی معصوم خوشی اس کائنات کا خوبصورت سرمایہ ہے۔ مگر یہ بچے حالات کی ستم ظریفی کا شکار ہو کر، خوف کی مستقل کیفیت میں مبتلا ہیں۔ والدین الگ زندگی کی مشکلات سے برسر پیکار ہیں۔ والدین اور بچوں کے درمیان فاصلے اور کشیدگی کی فضا پائی جاتی ہے۔ بچوں کے غیر یقینی رویوں سے پریشان والدین، ان کی بے چین حرکات کے پیچھے چھپے خوف اور عدم تحفظ کے احساس کو سمجھنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ منفی رویوں کے شکار بچوں اور نوجوانوں میں خودکشی کا رجحان بھی پایا جاتا ہے۔ والدین کا تلخ رویہ اور جسمانی تشدد ان سے خود اعتمادی چھین لیتا ہے۔ جو آگے چل کر ایسے ناگہانی حادثات کا پیش خیمہ بنتی ہے۔ نئی نسل کو گھر میں سکون، توجہ اور محبت ملنی چاہیے جو باہر کی دنیا میں مفقود ہے۔
بہت سے لوگ جو قاتلانہ حملوں کے چشم دید گواہ ہوتے ہیں یا بم دھماکوں میں بچ جاتے ہیں، یا ان کے تجربے میں کوئی نہ کوئی المناک واقعہ ہوتا ہے وہ PSTD یعنی پوسٹ ٹرامٹک ڈس آرڈر Post Traumatic Disorder کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جس کے پس منظر میں ناگہانی آفات، جنگ، ایکسیڈنٹ اور جسمانی تشدد وغیرہ بھی پائے جاتے ہیں۔ ایسے لوگ شدید اینگزائٹی (تشویش) کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اینگزائٹی میں مبتلا بچے، بڑے یا نوجوان کام میں عدم دلچسپی ظاہر کرتے ہیں۔ ان کی ذات میں یکسوئی کی کمی ہوتی ہے، ایسے لوگ مختلف خوف اور واہموں میں مبتلا رہتے ہیں۔ نفسیات کی جدید تحقیق کے مطابق ''ذہن میں پیدا ہونے والا خیال کبھی فنا نہیں ہوتا، بلکہ وہ تکمیل تک پہنچنے کے لیے کائنات کی مختلف سمتوں کی طرف محو سفر رہتا ہے۔'' سچ تو یہ ہے کہ خوف، واہمے اور قیاس آرائیاں بھی حقیقت کا روپ دھار لیتی ہیں۔ کیونکہ زندگی ہماری سوچ کا عکس ہے۔
19 ویں صدی میں مائنڈ پاور سائنس پر بہت کام ہوا ہے۔ جس کے مطابق انسان کا ذہن اس قدر طاقتور ہے کہ اگر وہ چاہے تو نامساعد حالات کو اپنی موافقت میں بدل سکتا ہے۔ لیکن ذہن کا خوف و انتشار اسے ایک قوت بن کر ابھرنے سے روکتا ہے۔ ایک بہت ہی ضدی اور بدمزاج بچے کو اس کے والدین ماہر نفسیات کے پاس لے گئے، جس نے والدین کو یہ بات سمجھائی کہ آپ لوگ بچے کے لیے اپنا سوچنے کا انداز تبدیل کریں۔
اسے برا بھلا کہنا چھوڑ دیں اور تصور میں اس کی اچھائیوں کو لے آئیں، آپ بہت جلد اسے سعادت مند اور خوش مزاج بچے کے روپ میں دیکھیں، یوں والدین کی سوچ میں تبدیلی نے بچے پر مثبت اثرات مرتب کیے اور اس نے والدین کو تنگ کرنا چھوڑ دیا۔ ہمارے یہاں صورت حال یہ ہے کہ گھر ہوں، ادارے ہوں یا ایوان سیاست ہر طرف منفی اور جارحانہ رویے پائے جاتے ہیں۔ آخر انسان میں کچھ خوبیاں بھی ہوتی ہیں۔ ہم نے ان خوبیوں کو سراہنا کیوں چھوڑ دیا ہے؟ ہم اگر ان تمام مسائل کو مثبت تناظر میں دیکھنے لگیں تو ہمارے تصور کی یہ طاقت ایک دن ناممکن کو ممکن کا روپ دینے کی مجاز ہو گی۔