پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ایک مرتبہ پھر اضافہ
پٹرول کی قیمت میں 1.71 روپے جب کہ ڈیزل میں 1.52 روپے کا اضافہ کیا گیا ہے۔
TRIPOLI:
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بار بار تبدیلی شاید پاکستانی عوام کی قسمت میں لکھ دی گئی ہے، اس لیے لاکھ عوامی احتجاج کے باوجود وفاقی حکومت نے ایک مرتبہ پھر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کردیا ہے۔
بدھ کو پٹرول کی قیمت میں 1.71 روپے جب کہ ڈیزل میں 1.52 روپے کا اضافہ کیا گیا ہے، جس کے بعد پٹرول کی قیمت 73 روپے اور ڈیزل کی قیمت 82 روپے مقرر کردی گئی ہے، مٹی کے تیل اور لائٹ ڈیزل آئل کی قیمتوں میں بھی بالترتیب 75 پیسے اور 66 پیسے کا اضافہ کیا گیا ہے۔
کیا عجب امر ہے کہ عالمی سطح پر جب پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی ہوتی ہے تو ملک میں اس کا تذکرہ نہیں ہوتا لیکن حالیہ اضافے کی حمایت میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا موقف ہے کہ عالمی سطح پر گزشتہ ایک سال میں خام تیل کی قیمت میں 60 فیصد اضافہ ہوا جب کہ پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی قیتموں میں صرف 16فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ شاید اس بیان میں یہ حقیقت فراموش کردی گئی ہے کہ عالمی مارکیٹ میں پٹرول کی قیمت اب بھی پاکستان کے مقابلے میں کافی کم ہے اور دیگر ریاستیں اپنے عوام کو حقیقی ریلیف فراہم کررہی ہیں، مزید برآں کوئی بھی ملک پاکستان کی طرح پندرہ روز قیمتوں کا پلان جاری نہیں کرتا، باہر کے ممالک میں پٹرولیم کی قیمتوں میں استحکام کا باقاعدہ شیڈول ہے۔
جب کہ پاکستان میں محض پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے کے باعث بڑھنے والی مہنگائی پر بارہا بحث کی جاچکی ہے جس سے حکومتی زعما بخوبی واقف ہیں کہ کس طرح پٹرولیم قیمتوں کی بڑھوتری کے بعد نہ صرف ٹرانسپورٹیشن کے اخراجات بڑھ جاتے ہیں بلکہ دیگر مصنوعات کی پروڈکشن لاگت پر بھی اثرات مرتب ہوتے ہیں جس کا خمیازہ عوام کو مہنگائی کی صورت برداشت کرنا پڑتا ہے۔ واضح رہے کہ پٹرولیم کی قیمتوں میں اضافہ گزشتہ ماہ ہی کیا گیا تھا اور اس قدر جلد دوبارہ اضافے کے بعد عوام سخت مضطرب اور احتجاج کناں ہیں۔
عوامی حلقوں میں یہ بات بھی گردش کرتی ہے کہ ایک بار جس چیز کی قیمت بڑھ جائے وہ واپس نیچے نہیں آتی، خاص کر پٹرولیم کی قیمتوں میں ایسا بارہا دیکھنے میں آیا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ پٹرولیم کی قیمتیں مستحکم رکھنے کے لیے باقاعدہ تحقیقاتی پینل بنایا جائے، جس کی مرتب کردہ رپورٹ کے تناظر میں قیمتوں کا کم از کم ششماہی پلان بنایا جائے، نیز عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے پٹرولیم کی قیمتیں کم ترین سطح پر مقرر کی جائیں۔
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بار بار تبدیلی شاید پاکستانی عوام کی قسمت میں لکھ دی گئی ہے، اس لیے لاکھ عوامی احتجاج کے باوجود وفاقی حکومت نے ایک مرتبہ پھر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کردیا ہے۔
بدھ کو پٹرول کی قیمت میں 1.71 روپے جب کہ ڈیزل میں 1.52 روپے کا اضافہ کیا گیا ہے، جس کے بعد پٹرول کی قیمت 73 روپے اور ڈیزل کی قیمت 82 روپے مقرر کردی گئی ہے، مٹی کے تیل اور لائٹ ڈیزل آئل کی قیمتوں میں بھی بالترتیب 75 پیسے اور 66 پیسے کا اضافہ کیا گیا ہے۔
کیا عجب امر ہے کہ عالمی سطح پر جب پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی ہوتی ہے تو ملک میں اس کا تذکرہ نہیں ہوتا لیکن حالیہ اضافے کی حمایت میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا موقف ہے کہ عالمی سطح پر گزشتہ ایک سال میں خام تیل کی قیمت میں 60 فیصد اضافہ ہوا جب کہ پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی قیتموں میں صرف 16فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ شاید اس بیان میں یہ حقیقت فراموش کردی گئی ہے کہ عالمی مارکیٹ میں پٹرول کی قیمت اب بھی پاکستان کے مقابلے میں کافی کم ہے اور دیگر ریاستیں اپنے عوام کو حقیقی ریلیف فراہم کررہی ہیں، مزید برآں کوئی بھی ملک پاکستان کی طرح پندرہ روز قیمتوں کا پلان جاری نہیں کرتا، باہر کے ممالک میں پٹرولیم کی قیمتوں میں استحکام کا باقاعدہ شیڈول ہے۔
جب کہ پاکستان میں محض پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے کے باعث بڑھنے والی مہنگائی پر بارہا بحث کی جاچکی ہے جس سے حکومتی زعما بخوبی واقف ہیں کہ کس طرح پٹرولیم قیمتوں کی بڑھوتری کے بعد نہ صرف ٹرانسپورٹیشن کے اخراجات بڑھ جاتے ہیں بلکہ دیگر مصنوعات کی پروڈکشن لاگت پر بھی اثرات مرتب ہوتے ہیں جس کا خمیازہ عوام کو مہنگائی کی صورت برداشت کرنا پڑتا ہے۔ واضح رہے کہ پٹرولیم کی قیمتوں میں اضافہ گزشتہ ماہ ہی کیا گیا تھا اور اس قدر جلد دوبارہ اضافے کے بعد عوام سخت مضطرب اور احتجاج کناں ہیں۔
عوامی حلقوں میں یہ بات بھی گردش کرتی ہے کہ ایک بار جس چیز کی قیمت بڑھ جائے وہ واپس نیچے نہیں آتی، خاص کر پٹرولیم کی قیمتوں میں ایسا بارہا دیکھنے میں آیا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ پٹرولیم کی قیمتیں مستحکم رکھنے کے لیے باقاعدہ تحقیقاتی پینل بنایا جائے، جس کی مرتب کردہ رپورٹ کے تناظر میں قیمتوں کا کم از کم ششماہی پلان بنایا جائے، نیز عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے پٹرولیم کی قیمتیں کم ترین سطح پر مقرر کی جائیں۔