آخر ٹکٹ گئے تو گئے کہاں
کرکٹ کو شائقین کرکٹ سے دور کرتے ہوئے اشرافیہ کا کھیل تماشہ نہ بنایا جائے اور اُنہیں سستے ٹکٹس مہیا کئے جائیں۔
کرکٹ کا جب آغاز ہوا تو یہ اشرافیہ کا کھیل سمجھا جاتا تھا، وائسرائے اور گورے کُھلے میدانوں میں سفید یونیفارم پہنے کئی دِنوں پر مشتمل ٹیسٹ میچ کھیلتے تھے اور دھوپ میں وٹامن ڈی کی کمی پوری کرتے تھے، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اِس کھیل سے متعلق عوامی دلچسپی میں اضافہ ہوتا رہا اور یہ کھیل 'خاص' لوگوں سے نکل کر 'عام' لوگوں کی پہنچ میں آگیا۔ اِسی مقبولیت کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ کھیل ٹیسٹ کرکٹ کی سرحد عبور کرکے ایک روزہ کے دائرے میں آگیا۔ لوگوں نے اِس کھیل کو خوب سراہا، لیکن کچھ عرصے بعد یہ محسوس کیا گیا کہ وقت کی کمی کی وجہ سے اب لوگ پورا دن صرف کرکے کرکٹ دیکھنے میں اکتاہٹ کا شکار ہورہے ہیں، بس اِسی اکتاہٹ کے احساسات کا بروقت احساس کرتے ہوئے ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کو متعارف کروادیا گیا، پھر کیا تھا، کرکٹ گلی، محلوں میں کھیلی جانے لگی، اور کرکٹ کی کامیابی کا سفر جاری و ساری ہے۔
دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی کرکٹ کو سب سے زیادہ مقبول کھیل کا درجہ حاصل ہے۔ اِس کھیل کی چمک دمک عوام اور شائقین کی حوصلہ افزائی سے ہی وابستہ ہے۔ لیکن بدقسمتی سے دہشتگردی کی لہر کی وجہ سے یہاں کے میدان ویران پڑگئے۔ بین الاقوامی ٹیموں نے پاکستان میں کھیلنے سے انکار کردیا۔ 3 مارچ 2009ء کو سری لنکن ٹیم پر حملے کے بعد سے 2015ء تک یہ میدان مکمل ویران رہے مگر پھر 22 مئی 2015ء میں زمبابوے نے جرات مندانہ قدم اٹھاتے ہوئے پاکستان میں طویل عرصے بعد کرکٹ کا میدان آباد کیا۔ زمبابوے کی ٹیم کو سرکاری مہمان کا درجہ دیا گیا، شائقینِ کرکٹ نے بھی پاکستان سے بڑھ کر زمبابوے کی ٹیم کی حوصلہ افزائی کی، مگر افسوس کہ اس کا تسلسل قائم نہ رہ سکا اور اُس دورہ کے بعد کوئی بھی ٹیم پاکستان نہیں آئی۔
جب انٹرنیشنل کرکٹ پاکستان میں بحال نہ ہوسکی تو پاکستان سپر لیگ کی صورت انتظامیہ نے کوشش کی کہ پاکستان کے میدان آباد کئے جاسکیں۔ ابتدائی خیال تو یہی تھا کہ یہ لیگ پاکستان میں منعقد کروائی جائے مگر غیر ملکی کھلاڑیوں کے انکار پر ایسا نہیں ہوسکا اور متحدہ عرب امارات میں پہلے سیزن کی شاندار کے بعد ہی یہ بات کہہ دی گئی تھی کہ دوسرے سیزن کا فائنل لاہور میں ہی کھیلا جائے گا۔ اب کی بار غیر ملکی کھلاڑی فائنل کھیلنے لاہور آجاتے مگر افسوس کہ 13 فروری کو لاہور مال روڈ پر دھماکہ ہوگیا، جس کے بعد ایک بار پھر خوف کے بادل چھا گئے، مگر اچھی بات یہ ہوئی کہ دشمن کی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیا گیا اور اعلان کیا کہ اگر غیر ملکی کھلاڑی پاکستان نہ بھی آئیں تب بھی فائنل لاہور میں ہی منعقد ہوگا۔ بس یہ اعلان ہونا تھا کہ پاکستانیوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
اگرچہ پاکستان سُپر لیگ کے میچز دبئی اور شارجہ کے میدان میں کھیلے جارہے ہیں مگر سیٹیاں پاکستان میں بج رہی ہیں، کھیل اُدھر جما ہوا ہے شور اِدھر اُٹھ رہا ہے۔ پاکستان کے گھر گھر میں میدان سجا ہوا ہے، ہر پاکستانی فائنل کا منتظر ہے کہ جب پاکستان کے دل لاہور میں میدان سجے گا تو یہاں کھیل بھی جمے گا اور سیٹی بھی بجے گی، اور پاکستان زندہ باد، پائندہ باد کے نعرے بھی بلند ہوں گے۔ شائقینِ کرکٹ خوشی کی بوند بوند کو ترسے کرکٹ کی بحالی کے ذریعے اپنی خوشی کا اظہار کرنے میں پُرجوش دکھائی دیتے ہیں۔
غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے فائنل میچ کے لئے ٹکٹس کی فروخت میں پہلے تو تاخیر کی گئی، لیکن جب ٹکٹ مارکیٹ میں آئے تو عام لوگوں کو بہت زیادہ مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ فرنچائز کی آڑ میں من پسند افراد کو نوازا گیا۔ یہ عام رواج ہے کہ سستے ٹکٹس کی تعداد زیادہ رکھی جاتی ہے، تاکہ عام لوگوں کو زیادہ سے زیادہ میچ سے لطف اندوز ہونے کا موقع فراہم کیا جاسکے، لیکن پی ایس ایل کے فائنل کے لئے تو یہاں اُلٹی گنگا بہہ رہی ہے۔
بینکوں میں سب سے کم قیمت 500 روپے والے ٹکٹ رکھے گئے۔ بینک اور آؤٹ لٹس کے سامنے تالے کُھلنے سے کئی گھنٹے قبل طویل قطاریں لگ چکی تھیں۔ اِس جدوجہد کے بعد بھی جب بینک کُھلے تو صرف ایک فیصد لوگوں کو ٹکٹ دینے کے بعد کہا گیا کہ ٹکٹ ختم ہوچکے ہیں۔ اِس حوالے سے ذاتی تجربہ بیان کرتا چلوں کہ بینک آف پنجاب میں ایک دوست بطور مینجر اپنی ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں، سوچا کہ اُن سے ٹکٹ طلب کیا جائے، لیکن اُس وقت حیران ہوا جب مجھ پر یہ راز افشا ہوا کہ پوری برانچ میں 500 روپے والے صرف 25 ٹکٹس آئے تھے، اب ننگا نہائے گا کیا اور نچوڑے گا کیا۔
یہ زیادتی صرف قطاروں میں لگے لوگوں کے ساتھ نہیں ہوئی، بلکہ کچھ اس سے بھی بُرا حال آن لائن ٹکٹس خریدنے والوں کا بھی ہے۔ صبح سویرے ویب سائٹ وزٹ کی گئی تو بیشتر انکلوژرز پر ٹکٹس سولڈ آؤٹ کے بینر آویزاں تھے، یعنی چند ہی دیر میں اکثر ٹکٹ فروخت ہوگئے۔
پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ کرپشن جہاں ہمارے سرمایہ داروں اور سیاست دانوں کا وطیرہ ہے، وہیں یہ ناسور قوم میں بھی سرائیت کرچکا ہے۔ خدا خدا کرکے میدان آباد ہوئے ہیں تو ٹکٹس کی خریداری میں شائقین کو بلیک میل کیا جارہا ہے۔ افسوس کا پہلو یہ ہے کہ یہ ہمارے بھائی ہی ہیں جو اپنے تعلقات اور اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے زیادہ ٹکٹس لے کر مُنہ مانگی قیمت وصول کر رہے ہیں۔
اب گزشتہ روز سے ایک اور خبر گردش کررہی ہے کہ صوبائی حکومت نے 80 فیصد ٹکٹ اپنے نمائندوں کو دے دیئے ہیں اور یہ حکم صادر کیا گیا ہے کہ ن لیگی کارکنان کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں میدان میں لایا جائے تاکہ 'گو نواز گو' کے نعروں سے بچا جاسکے۔ چونکہ اِس خبر کی کوئی تصدیق نہیں ہوسکی ہے اس لیے ہم اِس رائے کو غلط تصور کرلیتے ہیں، لیکن میں بطور ایک عام شہری یہ پوچھنے میں حق بجانب ہوں کہ آخر 25 ہزار ٹکٹس چند منٹوں میں کس طرح فروخت ہوسکتے ہیں؟ ہمیں بھی یہ راز بتایا جائے۔
خدارا، کرکٹ کو شائقین کرکٹ سے دور کرتے ہوئے اشرافیہ کا کھیل تماشہ نہ بنایا جائے، اِس کھیل کے عوض اہلِ پاکستان بہت قربانیاں دے رہے ہیں، اُنہیں سستے ٹکٹس مہیا کئے جائیں کیونکہ ہم یہ سمجھتے ہیں یہ عام پاکستانی ہی ہیں جو بیروزگاری، غربت، مہنگائی اور آئے روز کی دہشت گردی سے لڑ کر پاکستان کے میدان آباد کرنا چاہتے ہیں، چاہے اِس کے لئے کتنی ہی قربانی کیوں نہ دینی پڑے۔ اسی طرح انتظامیہ کو بھی چاہیئے کہ اِن شائقین کو مایوس نہ کرے اور ٹکٹس جاری کرے۔
[poll id="1333"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی کرکٹ کو سب سے زیادہ مقبول کھیل کا درجہ حاصل ہے۔ اِس کھیل کی چمک دمک عوام اور شائقین کی حوصلہ افزائی سے ہی وابستہ ہے۔ لیکن بدقسمتی سے دہشتگردی کی لہر کی وجہ سے یہاں کے میدان ویران پڑگئے۔ بین الاقوامی ٹیموں نے پاکستان میں کھیلنے سے انکار کردیا۔ 3 مارچ 2009ء کو سری لنکن ٹیم پر حملے کے بعد سے 2015ء تک یہ میدان مکمل ویران رہے مگر پھر 22 مئی 2015ء میں زمبابوے نے جرات مندانہ قدم اٹھاتے ہوئے پاکستان میں طویل عرصے بعد کرکٹ کا میدان آباد کیا۔ زمبابوے کی ٹیم کو سرکاری مہمان کا درجہ دیا گیا، شائقینِ کرکٹ نے بھی پاکستان سے بڑھ کر زمبابوے کی ٹیم کی حوصلہ افزائی کی، مگر افسوس کہ اس کا تسلسل قائم نہ رہ سکا اور اُس دورہ کے بعد کوئی بھی ٹیم پاکستان نہیں آئی۔
جب انٹرنیشنل کرکٹ پاکستان میں بحال نہ ہوسکی تو پاکستان سپر لیگ کی صورت انتظامیہ نے کوشش کی کہ پاکستان کے میدان آباد کئے جاسکیں۔ ابتدائی خیال تو یہی تھا کہ یہ لیگ پاکستان میں منعقد کروائی جائے مگر غیر ملکی کھلاڑیوں کے انکار پر ایسا نہیں ہوسکا اور متحدہ عرب امارات میں پہلے سیزن کی شاندار کے بعد ہی یہ بات کہہ دی گئی تھی کہ دوسرے سیزن کا فائنل لاہور میں ہی کھیلا جائے گا۔ اب کی بار غیر ملکی کھلاڑی فائنل کھیلنے لاہور آجاتے مگر افسوس کہ 13 فروری کو لاہور مال روڈ پر دھماکہ ہوگیا، جس کے بعد ایک بار پھر خوف کے بادل چھا گئے، مگر اچھی بات یہ ہوئی کہ دشمن کی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیا گیا اور اعلان کیا کہ اگر غیر ملکی کھلاڑی پاکستان نہ بھی آئیں تب بھی فائنل لاہور میں ہی منعقد ہوگا۔ بس یہ اعلان ہونا تھا کہ پاکستانیوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
اگرچہ پاکستان سُپر لیگ کے میچز دبئی اور شارجہ کے میدان میں کھیلے جارہے ہیں مگر سیٹیاں پاکستان میں بج رہی ہیں، کھیل اُدھر جما ہوا ہے شور اِدھر اُٹھ رہا ہے۔ پاکستان کے گھر گھر میں میدان سجا ہوا ہے، ہر پاکستانی فائنل کا منتظر ہے کہ جب پاکستان کے دل لاہور میں میدان سجے گا تو یہاں کھیل بھی جمے گا اور سیٹی بھی بجے گی، اور پاکستان زندہ باد، پائندہ باد کے نعرے بھی بلند ہوں گے۔ شائقینِ کرکٹ خوشی کی بوند بوند کو ترسے کرکٹ کی بحالی کے ذریعے اپنی خوشی کا اظہار کرنے میں پُرجوش دکھائی دیتے ہیں۔
غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے فائنل میچ کے لئے ٹکٹس کی فروخت میں پہلے تو تاخیر کی گئی، لیکن جب ٹکٹ مارکیٹ میں آئے تو عام لوگوں کو بہت زیادہ مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ فرنچائز کی آڑ میں من پسند افراد کو نوازا گیا۔ یہ عام رواج ہے کہ سستے ٹکٹس کی تعداد زیادہ رکھی جاتی ہے، تاکہ عام لوگوں کو زیادہ سے زیادہ میچ سے لطف اندوز ہونے کا موقع فراہم کیا جاسکے، لیکن پی ایس ایل کے فائنل کے لئے تو یہاں اُلٹی گنگا بہہ رہی ہے۔
بینکوں میں سب سے کم قیمت 500 روپے والے ٹکٹ رکھے گئے۔ بینک اور آؤٹ لٹس کے سامنے تالے کُھلنے سے کئی گھنٹے قبل طویل قطاریں لگ چکی تھیں۔ اِس جدوجہد کے بعد بھی جب بینک کُھلے تو صرف ایک فیصد لوگوں کو ٹکٹ دینے کے بعد کہا گیا کہ ٹکٹ ختم ہوچکے ہیں۔ اِس حوالے سے ذاتی تجربہ بیان کرتا چلوں کہ بینک آف پنجاب میں ایک دوست بطور مینجر اپنی ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں، سوچا کہ اُن سے ٹکٹ طلب کیا جائے، لیکن اُس وقت حیران ہوا جب مجھ پر یہ راز افشا ہوا کہ پوری برانچ میں 500 روپے والے صرف 25 ٹکٹس آئے تھے، اب ننگا نہائے گا کیا اور نچوڑے گا کیا۔
یہ زیادتی صرف قطاروں میں لگے لوگوں کے ساتھ نہیں ہوئی، بلکہ کچھ اس سے بھی بُرا حال آن لائن ٹکٹس خریدنے والوں کا بھی ہے۔ صبح سویرے ویب سائٹ وزٹ کی گئی تو بیشتر انکلوژرز پر ٹکٹس سولڈ آؤٹ کے بینر آویزاں تھے، یعنی چند ہی دیر میں اکثر ٹکٹ فروخت ہوگئے۔
پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ کرپشن جہاں ہمارے سرمایہ داروں اور سیاست دانوں کا وطیرہ ہے، وہیں یہ ناسور قوم میں بھی سرائیت کرچکا ہے۔ خدا خدا کرکے میدان آباد ہوئے ہیں تو ٹکٹس کی خریداری میں شائقین کو بلیک میل کیا جارہا ہے۔ افسوس کا پہلو یہ ہے کہ یہ ہمارے بھائی ہی ہیں جو اپنے تعلقات اور اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے زیادہ ٹکٹس لے کر مُنہ مانگی قیمت وصول کر رہے ہیں۔
اب گزشتہ روز سے ایک اور خبر گردش کررہی ہے کہ صوبائی حکومت نے 80 فیصد ٹکٹ اپنے نمائندوں کو دے دیئے ہیں اور یہ حکم صادر کیا گیا ہے کہ ن لیگی کارکنان کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں میدان میں لایا جائے تاکہ 'گو نواز گو' کے نعروں سے بچا جاسکے۔ چونکہ اِس خبر کی کوئی تصدیق نہیں ہوسکی ہے اس لیے ہم اِس رائے کو غلط تصور کرلیتے ہیں، لیکن میں بطور ایک عام شہری یہ پوچھنے میں حق بجانب ہوں کہ آخر 25 ہزار ٹکٹس چند منٹوں میں کس طرح فروخت ہوسکتے ہیں؟ ہمیں بھی یہ راز بتایا جائے۔
خدارا، کرکٹ کو شائقین کرکٹ سے دور کرتے ہوئے اشرافیہ کا کھیل تماشہ نہ بنایا جائے، اِس کھیل کے عوض اہلِ پاکستان بہت قربانیاں دے رہے ہیں، اُنہیں سستے ٹکٹس مہیا کئے جائیں کیونکہ ہم یہ سمجھتے ہیں یہ عام پاکستانی ہی ہیں جو بیروزگاری، غربت، مہنگائی اور آئے روز کی دہشت گردی سے لڑ کر پاکستان کے میدان آباد کرنا چاہتے ہیں، چاہے اِس کے لئے کتنی ہی قربانی کیوں نہ دینی پڑے۔ اسی طرح انتظامیہ کو بھی چاہیئے کہ اِن شائقین کو مایوس نہ کرے اور ٹکٹس جاری کرے۔
[poll id="1333"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔