اغوا بھتہ بم حملے شہر سے 30ہزار تاجر اندرون ملک منتقل
کراچی میں تاوان کے بغیر تجارت مشکل ہوگئی، بھتے نے ٹریڈ لائسنس فیس کی شکل اختیار کرلی.
کراچی میں جاری بدامنی اور بڑھتے ہوئے جرائم کی شرح کے باعث گذشتہ 3 سال کے دوران 30 ہزار سے زائد تاجروں نے اپنا کاروبار دیگر شہروں میں منتقل کردیاہے۔
بدامنی سے خوف زدہ ہوکرسرمایہ کاروں نے کثیر سرمایہ ملک کے دیگر شہروں اور بیرون ملک منتقل کردیا ہے، گذشتہ3 سال میں زیادہ تر تاجر پنجاب منتقل ہوئے ہیں کراچی میں عرصے سے کاروبار کرنے والے پرانے تاجروں نے اب لاہور کو اپنا مرکز بنالیا ہے، ان عوامل کے سبب کراچی کے اہم تجارتی علاقوں میں جائیدادوں کی قیمتیں تشویشناک حد تک کم ہوگئی ہیں جبکہ اسکے برعکس لاہور میں جائیدادوں کی قیمتیں دگنی ہوگئی ہے۔
تجارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ کراچی میں بدامنی کی موجودہ صورتحال مزیدکچھ عرصے کے لیے برقرار رہی تو کراچی جرائم کا جنگل اور لاہور ملک کا نیا تجارتی حب بن جائے گا،اس ضمن میںآل کراچی تاجر اتحاد کے چیئرمین عتیق میر نے گفتگو میں اس بات سے اتفاق کیا کہ اندرون ملک کاروباری تعلقات رکھنے والے تاجروں کی اکثریت کراچی میں جاری بدامنی سے خوف زدہ ہوکر ملک کے دیگر شہروں میں اپنے کاروبار اور رہائش کو ترجیح دے رہے ہیں،تاجروں کی نقلِ مکانی اورسرمائے کی منتقلی پرنجی شعبے کو اگرچہ تشویش ہے لیکن حکومت اور متعلقہ ذمے داروں کی عدم توجہی برقرار ہے۔
کراچی میں بڑھتے کاروبارکی امید دم توڑ رہی ہیں،تاجر برادری مایوسی کا شکار ہے ، امن و امان کی بہتری کیلیے حکومتی اقدامات کا فقدان ہے، کراچی میں تاوان کے بغیر تجارت مشکل بن گئی ہے، بھتے نے ٹریڈ لائسنس فیس کی شکل اختیار کرلی ہے، جرائم پیشہ کھلے عام مطالبہ کرتے ہیں کہ بھتہ دو ورنہ کاروبار بند کردو، مجرموں نے اپنی ذاتی عدالتیں قائم کرلی ہیں جہاں پیش نہ ہونے پر تاجروں کو سرِعام اغوا کرلیا جاتا ہے، شہر کے اہم اور مرکزی تجارتی علاقوں میں بھی بھتے کی عدم ادائیگی پر دکانوں پر براہ راست فائرنگ، گرینیڈ حملوں اور کریکر سے حملے کرکے تاجروں کو ہراساں کیا جارہا ہے۔
ملک کے دیگر شہروں سے تعلق رکھنے والے تاجر اب اپنے آبائی شہروں کا رخ کررہے ہیں ، بیشتر تاجروں نے ماضی میں جزوی طور پر بیرونِ شہرکاروبار قائم کیے تھے جنھیں اب مرکزی حیثیت حاصل ہوگئی ہے جبکہ کراچی میں جرائم پیشہ عناصر کے بڑھتے اثر و رسوخ کے باعث تاجر، صنعتکار اور سرمایہ کار غیریقینی صورتحال سے دوچار ہوکر مایوسی کا شکار ہیں، بمشکل5 فیصد تاجر مستقبل میں شہر کے حالات میں بہتری کیلیے پرامید ہیں۔
انھوں نے کہا کہ 80 فیصد تاجروں و صنعتکاروں کیلیے بینکوں سے وصول کیے گئے کاروباری قرضوں کی اقساط کی واپسی مشکل ہوگئی ہے، 60فیصد تاجر سرمائے سے محروم ہوکر ادھار کے مال سے کاروبار پر مجبور ہیں، عوام اور تاجروں کو پولیس اور رینجرز کی صورت میں بے اختیار باوردی پتلوں کی قطعاً ضرورت نہیں ہے،سیکیورٹی اہلکاروں کی حیثیت پرفریب حفاظتی احساس سے زیادہ نہیں ہے،مجرم دیدہ دلیری کے ساتھ ان کی موجودگی میں لوٹ مار کرکے فرار ہوتے ہیں۔
بدامنی سے خوف زدہ ہوکرسرمایہ کاروں نے کثیر سرمایہ ملک کے دیگر شہروں اور بیرون ملک منتقل کردیا ہے، گذشتہ3 سال میں زیادہ تر تاجر پنجاب منتقل ہوئے ہیں کراچی میں عرصے سے کاروبار کرنے والے پرانے تاجروں نے اب لاہور کو اپنا مرکز بنالیا ہے، ان عوامل کے سبب کراچی کے اہم تجارتی علاقوں میں جائیدادوں کی قیمتیں تشویشناک حد تک کم ہوگئی ہیں جبکہ اسکے برعکس لاہور میں جائیدادوں کی قیمتیں دگنی ہوگئی ہے۔
تجارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ کراچی میں بدامنی کی موجودہ صورتحال مزیدکچھ عرصے کے لیے برقرار رہی تو کراچی جرائم کا جنگل اور لاہور ملک کا نیا تجارتی حب بن جائے گا،اس ضمن میںآل کراچی تاجر اتحاد کے چیئرمین عتیق میر نے گفتگو میں اس بات سے اتفاق کیا کہ اندرون ملک کاروباری تعلقات رکھنے والے تاجروں کی اکثریت کراچی میں جاری بدامنی سے خوف زدہ ہوکر ملک کے دیگر شہروں میں اپنے کاروبار اور رہائش کو ترجیح دے رہے ہیں،تاجروں کی نقلِ مکانی اورسرمائے کی منتقلی پرنجی شعبے کو اگرچہ تشویش ہے لیکن حکومت اور متعلقہ ذمے داروں کی عدم توجہی برقرار ہے۔
کراچی میں بڑھتے کاروبارکی امید دم توڑ رہی ہیں،تاجر برادری مایوسی کا شکار ہے ، امن و امان کی بہتری کیلیے حکومتی اقدامات کا فقدان ہے، کراچی میں تاوان کے بغیر تجارت مشکل بن گئی ہے، بھتے نے ٹریڈ لائسنس فیس کی شکل اختیار کرلی ہے، جرائم پیشہ کھلے عام مطالبہ کرتے ہیں کہ بھتہ دو ورنہ کاروبار بند کردو، مجرموں نے اپنی ذاتی عدالتیں قائم کرلی ہیں جہاں پیش نہ ہونے پر تاجروں کو سرِعام اغوا کرلیا جاتا ہے، شہر کے اہم اور مرکزی تجارتی علاقوں میں بھی بھتے کی عدم ادائیگی پر دکانوں پر براہ راست فائرنگ، گرینیڈ حملوں اور کریکر سے حملے کرکے تاجروں کو ہراساں کیا جارہا ہے۔
ملک کے دیگر شہروں سے تعلق رکھنے والے تاجر اب اپنے آبائی شہروں کا رخ کررہے ہیں ، بیشتر تاجروں نے ماضی میں جزوی طور پر بیرونِ شہرکاروبار قائم کیے تھے جنھیں اب مرکزی حیثیت حاصل ہوگئی ہے جبکہ کراچی میں جرائم پیشہ عناصر کے بڑھتے اثر و رسوخ کے باعث تاجر، صنعتکار اور سرمایہ کار غیریقینی صورتحال سے دوچار ہوکر مایوسی کا شکار ہیں، بمشکل5 فیصد تاجر مستقبل میں شہر کے حالات میں بہتری کیلیے پرامید ہیں۔
انھوں نے کہا کہ 80 فیصد تاجروں و صنعتکاروں کیلیے بینکوں سے وصول کیے گئے کاروباری قرضوں کی اقساط کی واپسی مشکل ہوگئی ہے، 60فیصد تاجر سرمائے سے محروم ہوکر ادھار کے مال سے کاروبار پر مجبور ہیں، عوام اور تاجروں کو پولیس اور رینجرز کی صورت میں بے اختیار باوردی پتلوں کی قطعاً ضرورت نہیں ہے،سیکیورٹی اہلکاروں کی حیثیت پرفریب حفاظتی احساس سے زیادہ نہیں ہے،مجرم دیدہ دلیری کے ساتھ ان کی موجودگی میں لوٹ مار کرکے فرار ہوتے ہیں۔