میرے زمانہ تعلیم کی سیاست

تقسیم برصغیر سے قبل جب میں کالج میں پڑھتا تھا تب بھی سیاست ہوتی تھی

تقسیم برصغیر سے قبل جب میں کالج میں پڑھتا تھا تب بھی سیاست ہوتی تھی لیکن اس سیاست میں آج کی مانند فرقہ پرستی بالکل نہیں ہوتی تھی، اس زمانے میں دشمن برطانیہ تھا اور یہاں سب لوگ اس کو باہر نکالنے کی جدوجہد کر رہے تھے۔ یہ 1940ء کے عشرے کی بات ہے جب قائداعظم محمد علی جناح لا کالج لاہور میں تشریف لائے اور ہم سب پر زور دیا کہ برطانیہ کو نکالنے کے لیے مشترکہ طور پر کوشش کی جائے۔ بالآخر حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ پانی بھی ہندو گھڑے اور مسلم گھڑے میں تقسیم ہو گیا لیکن ہم طلباء پر اس کا کوئی منفی اثر نہیں ہوا اور ہم بدستور ایک ہی میز پر بیٹھ کر کھانا کھاتے اور ہندو کچن اور مسلم کچن سے کھانا منگواتے رہے۔

آج تقسیم در تقسیم نے ہندو برادری کو تعصب سے بھر دیا ہے جس میں ذات پات کی شدید تفریق پیدا ہو چکی ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی کا دعویٰ ہے کہ وہ اس تقسیم کو نہیں مانتے اور حال ہی میں انھوں نے قبرستان اور شمشان بھومی کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ شمشان بھومی میں کوئی بجلی کا بندوبست نہیں ہے جب کہ قبرستان میںمسلسل بجلی ملتی ہے۔ ریاستی وزیراعلیٰ آکھلیش یادیو نے وزیراعظم کی تصحیح کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگرچہ ریاست میں توانائی کی قلت ہے اس کے باوجود قبرستان اور شمشان بھومی دونوں کو مسلسل 24گھنٹے بجلی فراہم کی جاتی ہے۔

مسلمانوں کو جو شکایت ہے کہ ان کی آبادی میں اے ٹی ایم مشینوں کی تعداد بہت کم ہے اس وجہ سے انھیں رقم نکلوانے میں مشکل پیش آتی ہے، ممکن ہے یہ درست ہو لیکن مسلمانوں نے اصل وجہ کی نشاندہی نہیں کی۔ اصل میں انھوں نے قیام پاکستان کے بعد اپنی اہمیت کھو دی ہے جو کہ مذہبی بنیادوں پر قائم کیا گیا۔ کانگریس لیڈر مولانا ابوالکلام آزاد نے اس سوچ کے خلاف برطانوی دور حکومت میں تن تنہا لڑائی لڑی۔ ان کا موقف تھا کہ اگر مسلمان غیرمنقسم انڈیا میں ہندوؤں کے ہاتھوں خود کو غیرمحفوظ سمجھتے ہیں تو ہندو انھیں منقسم انڈیا میں کہا کریں گے کہ تم پاکستان چلے جاؤ کیونکہ تم نے اپنا حصہ لے لیا ہے اور دیکھا جائے تو ایسا ہی ہوا۔ یہ جواہر لعل نہرو تھے۔

جنہوں نے مسلمانوں کے زیادہ بڑی تعداد میں بھارت سے نقل مکانی سے روکا جب کہ ان کے ساتھ سردار پٹیل تھے جو نہیں چاہتے تھے کہ مسلمان بھارت میں رہیں مگر مہاتما گاندھی جنہوں نے انگریزوں کے برصغیر سے جانے میں نمایاں کردار ادا کیا تھا ان کا کہنا تھا کہ بھارت میں ہندوؤں اور مسلمانوں میں کوئی تفریق نہیں کی جائے گی۔ لیکن تقسیم کے بعد مسلمانوں کی سرکاری معاملات میں کوئی اہمیت نہ رہی۔ بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں کی تعداد 17کروڑ سے زائد ہے لیکن نریندرا مودی کی کابینہ میں انھیں کوئی بھی اہم قلمدان نہیں دیا گیا۔ مختار عباس نقوی صرف ایک مسلمان وزیر کابینہ میں تھا جب کہ بعد میں ایم جے اکبر کو بھی وزیر مملکت کے طور پر شامل کر لیا گیا۔ لیکن اس سے ہندوتوا کی طرف حکومت کے جھکاؤ میں کوئی فرق نہیں پڑا۔


یو پی میں جو انتخابی سرگرمیاں جاری ہیں ان میں صرف مودی کو اہمیت دی جا رہی ہے یا بی جے پی کی سوچ نمایاں ہے۔ یہ درست ہے کہ ملک میں ہندوؤں کی اکثریت ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ملک پر اصل حاکمیت آئین کی ہے جس کے تحت تمام شہریوں کو بلاامتیاز ووٹ ڈالنے کا حق حاصل ہے۔ جب اس آئینی شق پر آئین ساز اسمبلی میں بحث ہو رہی تھی تو سردار پٹیل نے مسلمانوں کے لیے نشستیں مخصوص کرنے کی تجویز پیش کی لیکن مسلمانوں نے اسے مسترد کر دیا۔ ان کا موقف تھا کہ اس طرح ملک میں تقسیم در تقسیم پیدا ہو جائے گی۔

ہم دیکھ سکتے تھے کہ تمام پارٹیوں کے لیڈر مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے انھیں راغب کرنے کی کوشش کر رہے تھے ۔ جسٹس سچر کمیشن رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کی بھارت میں حالت دلتوں (اچھوتوں) سے بھی کہیں زیادہ بدتر ہے۔ مسلمانوں کو بجلی رعایتی نرخوں پر دینے اور کسانوں کے قرضے معاف کرنے کی لالچ دی جا رہی ہے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مسلمانوں کو محض ووٹ بینک کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ بدقسمتی سے یہ ساری رعایتیں صرف اسی وقت تک ہیں جب تک ووٹ نہیں ڈالے جاتے۔ آئین میں جو وعدے و عید کیے گئے ہیں وہ محض سراب ثابت ہوتے ہیں۔ مسلمانوں کو دوبارہ پیچھے دھکیل دیا جاتا ہے اور اگلے الیکشن تک ان کی کوئی بات نہیں سنتا۔ میں نے جب اپنا آبائی شہر سیالکوٹ چھوڑا تو وہاں بھی یہی منظر دکھائی دے رہا تھا۔ اس زمانے میں بھی ہم شہر میں برابر کے شہریوں کے طور پر رہ رہے تھے۔

ہندو اور مسلمان کا کوئی امتیاز نہیں تھا۔ میں نے تو اپنے مسلمان دوستوں کے کہنے پر اپنے بازو پر ہلال کا ٹیٹو کھدوا رکھا تھا۔ البتہ میرے مسلمان دوستوں میں کوئی بھی اوم کا ٹیٹو کھدوانے پر تیار نہیں تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسا کرنے پر ان کے گھر والے انھیں ماریں گے۔ اس وقت سے اب تک ہم نے بڑا طویل فاصلہ طے کر لیا ہے۔ اب معاشرہ اس حد تک تقسیم در تقسیم کا شکار ہو چکا ہے کہ کسی قسم کا ٹیٹو کھدوانے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جو اپنی برادری کے اصولوں کو توڑنے کی کوشش کرتا ہے وہ یقیناً ایک بہادر شخص ہوتا ہے۔

مسلمان ایسی آبادی میں رہائش اختیار کرتے ہیں جہاں انھی کی کمیونٹی ارد گرد رہتی ہو۔ وہ ملی جلی برادری یا سیکولر کمیونٹی میں خود کو محفوظ خیال نہیں کرتے۔ بعینہ ایک مسلمان کسی پوش آبادی میں رہائش اختیار کرنے یا پراپرٹی خریدنے کے بارے میں نہیں سوچتا۔ وہ تو اس بارے میں بھی احتجاج نہیں کرتے کہ انھیں غلط کیوں سمجھا جاتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ عدالتی مداخلت کے بعد کسی ہندو آبادی میں مسلمانوں کی جائیداد حاصل کرنے کی خال خال مثالیں موجود ہو سکتی ہیں۔ تاہم ہندوتوا کے زور کے باوجود لوگ ملک میں بدستور مل جل کر رہنے کی خواہش رکھتے ہیں جس طرح کہ وہ صدیوں سے رہتے چلے آئے ہیں اور یہی بھارت کا اصل رنگ ہے جو قائم رہنا چاہیے۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)
Load Next Story