سعودی اور عراقی سلسلہ جنبانی

دونوں ملکوں کے درمیان 14 برس سے مخاصمت کی جو میل جمی ہوئی تھی آخرکار اس میں کچھ کمی نظر آئی

anisbaqar@hotmail.com

دونوں ملکوں کے درمیان 14 برس سے مخاصمت کی جو میل جمی ہوئی تھی آخرکار اس میں کچھ کمی نظر آئی۔ 14برس کے بعد ایک سعودی سفارتکار عادل الجبیرنے سعودی فرمانروا کی ہدایت پر بغداد میں قدم رکھا۔ وہاں گزشتہ ہفتے عراق کے وزیراعظم حیدر العابدی نے ان کا خیرمقدم کیا، جو ایک اہم تاریخی واقعہ ہے، کیونکہ عراق اور سعودی عرب کے تعلقات بہت نشیب و فراز سے گزرے ہیں۔

خاص طور سے اس وقت جب عراق کے صدر صدام حسین نے کویت پر حملہ کیا تھا اور بعدازاں امریکا نے عراق کو تہس نہس کر ڈالا، انھی دنوں میں دونوں ممالک میں نا صرف فکری اختلاف تھا بلکہ شدید قسم کا سیاسی اختلاف بھی رہا۔ امریکا اور نیٹو ممالک نے مل کر عراق پر شدید بمباری کی اور پوری دنیا دیکھتی رہی کہ بابل و نینوا کی تہذیب ایک بار پھر فنا ہو رہی تھی۔ کسی ملک کی طرف سے مزاحمت کی آواز بلند نہ ہوئی کیونکہ صدر صدام حسین نے بادشاہوں والی آمریت قائم کر رکھی تھی۔ گو ملک میں امن و امان کی ظاہری صورتحال ویسی ہی خاموش اور دھیمی تھی جیساکہ بادشاہوں اور سلطانوں کے ممالک میں ہوا کرتی ہے، جہاں ہر آواز پر قدغن ہوتی ہے۔

جہاں ایک طرف عراق پر تباہ کن نیٹو کا حملہ تھا تو دوسری جانب بیرون ملک اسرائیلی علاقے میں داعش کی نرسری تھی، جہاں پر ظاہری طور پر اسلام کی شکل بگاڑنے والی تنظیم پروان چڑھ رہی تھی۔ صدام حسین اور ان کی کابینہ کو نیست و نابود کرنے کے بعد عراق کی سرزمین کو ایک ایسی تنظیم کے حوالے کردیا جس نے اسلام کو ایک دہشت گرد قوت کے طور پر متعارف کیا۔

شام کے سرحدی علاقے سے لے کر عراق کے بیشتر علاقوں پر داعش حملہ آور ہوئی اور آناً فاناً پورے علاقے پر اس کا قبضہ ہوگیا، صرف کربلائے معلیٰ، نجف اشرف اور بعض کرد علاقے داعش کے حملوں سے محفوظ رہے۔ یہاں تک کہ خدشات تھے کہ داعش کی افواج بغداد کو بھی کسی وقت روند ڈالیں گی۔ مگر داعش کا اصل مقصد مغربی ممالک اور اسرائیل کو تیل کی معمولی رقم میں فراہمی تھی جوکہ جاری رہی اور دین اسلام میں مزید اختلافی مسائل کو جنم دینا تھا۔

یہ افواج جہاں سے گزرتیں مخالفین کا قتل عام کرتیں، اسی لیے موجودہ دنوں میں موصل کی مثال لے لیں جہاں عراقی فوجوں نے علاقے آزاد کرائے ہیں وہاں اجتماعی قبروں کا یہ عالم ہے کہ ایک ایک قبر کے کمپاؤنڈ سے چار چار ہزار افراد بازیاب ہو رہے ہیں جن کی آنکھوں پر پٹیاں بندھی ہوئی ہیں۔ ایسی صورتحال صرف عراق میں ہی نہیں شام کے جن علاقوں پر جو خود کو اسلامی شعار اور مملکت اسلامیہ کہلاتے تھے، تمام وہ علاقے جہاں پر ان کے حامی اکثریت میں تھے، ظلم روا رکھا تھا۔ اسلامی جذبہ جو انسانیت کی اولیت کا جذبہ تھا، اس کی نفی کرکے یہ لوگ تمام مسلم ممالک میں پھیل رہے تھے، مگر ان کا اصل مرکز جہاں سے ان کے رہنما ابوبکر بغدادی تھے وہ عراق کا علاقہ تھا۔

اب یہ مسلسل زوال پذیر ہیں اور اب جس طریقے سے عراق کی فوجیں اور عراقی ملیشیا جنگی حکمت عملی میں مصروف ہیں، اس سے یہ واضح ہوتا جا رہا ہے کہ اب ممکن ہے کہ چند ہفتوں میں داعش اپنے انجام کو پہنچ جائے۔ ممکن ہے کہ ذرایع ابلاغ نے حلب کی جنگ کو جس طرح نمایاں کیا اس جنگ کے فریق نمایاں تھے، مگر اس جنگ کے فریق منظر عام پر نہیں ہیں۔ جب تک داعش کا قبضہ تیل کے علاقوں پر تھا نیٹو کو تیل مفت مل رہا تھا اور نیٹو کا شور بظاہر داعش کے خلاف تھا۔ کیونکہ داعش کے اصل دشمن تو مسلم امہ تھی نہ کہ اسرائیل، کیونکہ داعش کے زخمیوں کا علاج معالجہ تو اسرائیل کے ذمے تھا۔ بعض لوگوں کو یہ ابہام تھا کہ داعش ہی اصل اسلامی قوت ہے جب کہ یہ مغرب کا شاخسانہ تھا جس کا اختتام ہونے کو ہے۔


افسوس کی بات یہ ہے کہ ابتدا میں سعودی حکومت نے داعش کے خلاف کوئی قدم نہ اٹھایا اور نہ ہی اسرائیل کی حکمت عملی کے خلاف صف آرا ہوئی۔ جب کہ شام کے علاقوں پر داعش حملہ آور تھی اور اسرائیل نے کئی بار شام پر بمباری کی لیکن اب سعودی سیاسی رویہ میں تغیر آرہا ہے، جیساکہ سعودی وزیر خارجہ نے واضح بیان دیا کہ موصل کی جنگ میں سعودی عرب عراق کا ساتھ دینے کو تیار ہے۔ سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر کے اس بیان سے علاقے میں امن کی کوششوں کو تقویت ملی ہے۔ ادھر سعودی وزیر خارجہ نے یہ مثبت بیان دیا ادھر دو روز بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی ایک بیان داغ دیا، وہ بھی داعش کے متعلق تھا کہ وہ داعش کو فنا کرنے کے لیے اپنے دستے عراق بھیجنے کو تیار ہیں۔

واقعی امریکا نے عراق کو ایک ایسے ملک کی شکل میں تبدیل کردیا جس کے حق حکمرانی کو نیٹو چٹ کرگیا۔ عراق میں امریکی جنگ جو 2013 میں ہوئی، تقریباً 13 لاکھ افراد لقمہ اجل بنے اور بعدازاں داعش نے لاکھوں بے گناہوں کو قتل کیا، جن کا پہلا شکار مسلم ہی تھے۔ سخت گیر تہذیب و تمدن کی دشمن انبیا و اولیا کے مزارات کو تباہ کرنے کا ہدف جو اس نے اٹھایا تھا بالآخر داعش جو اپنی حکمرانی کو اسلامی حکومت کی حکمرانی سمجھتی تھی، آخرکار سعودی عرب نے بھی کھلم کھلا اس سے برأت کا اعتراف کرلیا، جس کی وجہ سے مزارات مقدسہ کے مسئلے پر جو اختلافات تھے اس میں کمی پیدا ہونے کے امکانات روشن ہیں۔ مگر یہ عجیب ستم ظریفی ہے کہ مسلم امہ کا ساتھ دینے والی دو مخالف قوتیں ہیں جن کی وجہ سے مسلم ممالک میں پراکسی وار کے وسیع تر خدشات موجود ہیں۔ ایک سمت میں سعودی عرب ہے تو دوسری جانب شام ہے۔ شام کی پشت پناہی روس کے ذمے ہے اور سعودی عرب کا ہمنوا امریکا ہے۔

مگر اب دیکھنا ہے کہ شرق اوسط اور باقی دنیا میں کیا ہونے کو ہے۔ صورتحال واضح ہوگئی ہے کیونکہ یکم مارچ کو امریکی صدر نے کانگریس کے خطاب میں بعض اہم امور پر گفتگو کی ہے۔ اگر ہم انتخاب کے دوران ٹرمپ کی تقریروں کو یاد کریں تو یکم مارچ کی تقریر ان سب کا الٹ ہے۔ امیگریشن تو ان کا پہلا حملہ ظاہر ہے کمزور و بے سہارا لوگ ہیں۔ جو شرق اوسط کی امریکی شر انگیزی کی وجہ سے اپنا وطن چھوڑ کر امریکا اور دیگر ممالک گئے، جن میں عراق، شام، لیبیا اور دیگر ممالک شامل ہیں۔ ان کے ساتھ زیادتی آسانی سے ہوسکتی ہے۔

اور ٹرمپ فرماتے ہیں کہ اپنے مسلم اتحادیوں کا ساتھ دیں گے اور اپنے جنگی بجٹ میں زبردست اضافہ کیا ہے۔ دوران الیکشن فرماتے تھے کہ جنگ سے دوری اور خلق خدا سے رواداری، رقم کو فلاح کے لیے خرچ کرنا۔ درحقیقت ڈونلڈ ٹرمپ امریکی اسلحہ سازوں اور دوسرے ہمنواؤں کے نمایندے ہیں۔ اس بات کے واضح ثبوت تو ملیں یا نہ ملیں کہ فوراً کیا ہوگا مگر امریکی پالیسی میں کسی وقت بھی یوٹرن آسکتا ہے، جس کا محور اسرائیل، بھارت اور امریکا ہی ہوگا۔

اس صورتحال میں افسوس کی بات ہے کہ پاکستانی وزارت خارجہ نے نہ محسوس کیا بلکہ جنرل باجوہ نے بھانپ لیا، اس لیے انھوں نے روس کے ساتھ تعلقات خصوصاً فوجی تعاون کو اولیت دی اور یہ بیان ملک کے تمام تر میڈیا کی زینت بنا رہا، جب کہ یہ معاملہ تو سیاسی لیڈروں کی جانب سے اگر اٹھایا جاتا تو زیادہ بہتر ہوتا، خصوصاً مرکزی حکومت کے لیڈران کی جانب سے۔ مگر ان کی غفلت کی وجہ سے خطے کی خلیجی ریاستیں ملک کے گمراہ اور دشمن لوگوں کی پناہ گاہیں بنی ہوئی ہیں اور ملکی سرمایہ کو ہڑپ کرنے کا ذریعہ بن گئی ہیں۔

پاکستانی لیڈروں کو ملکی سلامتی اور ترقی کی کوئی فکر نہیں، محض ذاتی منفعت کو اولیت حاصل ہے۔ کچھ ماہ قبل سعودی قیادت میں 50 ملکوں کا اتحاد بن رہا تھا جو عملی طور پر وجود میں نہ آیا، ورنہ اس کو خطے میں پراکسی وار میں استعمال کیا جاسکتا تھا، مگر پاکستانی فوجی حکمت عملی نے اس کو روک دیا۔ اس لیے خطے میں امن کے امکانات میں وسعت پیدا ہوئی اور خصوصاً سعودی عرب کی جانب سے عراق سے رابطہ بڑھانے کے عمل سے عرب دنیا اور خصوصاً مسلم دنیا میں شیعہ سنی یگانگت میں اضافہ ہوگا۔ مگر میڈیا نے بڑی کوشش کی کہ عراق میں فرقہ وارانہ فساد ہوں اور داعش کی کوتاہ نظری اور عمل نے بھی مجموعی طور پر اس اتحاد کو ٹوٹنے نہ دیا۔

حالانکہ داعش کے خلاف جو پہلی صف میں حالت جنگ میں مصروف ہے وہ شیعہ ملیشیا ہے، جو عراقی فوج کی معاونت کر رہی ہے، یہ ایک ایسا عمل ہے جس سے عراق اور عرب ریاستوں میں تعاون بڑھے گا اور دنیا بھر میں فرقہ وارانہ کشیدگی میں کمی واقع ہوگی، کیونکہ اسرائیل اور اس کے ہمنواؤں نے تو مشرق وسطیٰ کو تاراج کردیا اور اب بھارت کے مذہبی انتہا پسندوں کے تعاون سے افغانستان اور پاکستان میں جنگ چاہتے ہیں۔ مگر عراق کے حکمران جو بدترین جنگ سے گزر رہے ہیں کسی نئی جنگ کے تانے بانے سے پرہیز کریں گے۔ حال میں سعودی عرب اور عراق کا سلسلہ جنبانی کسی نئے المیے کو جنم نہیں دے گا، حالانکہ خطے میں یمن کی چنگاری ابھی تک بھڑک رہی ہے اور اس مسئلے کا سیاسی حل علاقے کے امن کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔
Load Next Story