کراچی پر اطلاق کیوں نہیں

کراچی کی آمدنی سے ملک چل رہا ہے


Muhammad Saeed Arain March 02, 2017

نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) ملک کا واحد ادارہ ہے جو ملک میں بجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنیوں کے معاملات دیکھتا ہے۔ بجلی پیدا کرنے کے اخراجات دیکھنے کے بعد بجلی کے نرخ مقرر کرنے کی ذمے داری پر بھی مامور ہے جو اب وفاقی وزارت بجلی و پانی کے ماتحت ہے۔

نیپرا جب بھی بجلی کے نرخوں میں صارفین کے لیے فائدے کا فیصلہ دیتا ہے یا گزرے ہوئے مہینوں میں بجلی کمپنیوں کی طرف سے زائد رقم وصولی کی مد میں قیمتوں میں کمی کرتا ہے تو میڈیا پر عوام کو یہ خوش خبری سنائی جاتی ہے مگر کراچی کے صارفین کے لیے ایسی خبریں خوش خبری کا درجہ نہیں رکھتی کیونکہ وہ کراچی کو چھوڑ کر پورے ملک کے لیے ہوتی ہیں ۔کراچی کے صارفین کے لیے یہ بری خبر ہوتی ہے کیونکہ دوسروں کو دی گئی خوش خبری کے ساتھ واضح کر دیا جاتا ہے کہ اس کمی کا اطلاق کراچی کے صارفین بجلی پر نہیں ہو گا۔

یونیورسٹی روڈ پر گزشتہ دنوں ٹریفک حادثات میں جو چھ طالبات اور دیگر افراد جاں بحق ہوئے ان کے جاں بحق ہونے پر سندھ کے وزیرٹرانسپورٹ ناصر حسین شاہ نے بھی نیپرا جیسی خبر اہل کراچی کو سنائی کہ ٹریفک حادثات میں جاں بحق ہونے والوں کوکوئی معاوضہ دینے کا کوئی قانون موجود نہیں۔ اتفاقی ٹریفک حادثات اور جان بوجھ کر تیز رفتاری سے حادثات کرنے میں نمایاں فرق ہے جو ایک لحاظ سے قتل عمد ہے اور اپنے مالک کے مالی مفاد کے لیے جان بوجھ کرکھٹارا بسوں کو تیز دوڑانے والوں کو اس کی کوئی فکر نہیں ہوتی کہ جس سڑک پر وہ بسیں دوڑا رہے ہیں وہ اس قابل بھی ہیں کہ نہیں۔

یہ تیز رفتار ڈرائیور جن میں اکثر کا تعلق کراچی سے نہیں ہوتا انسانی جانوں کے انتہائی قیمتی ہونے کا احساس نہیں رکھتے اور وہ یہ تیزرفتاری بس مالکان کے ایما پرکرتے ہیں جنھیں ڈرائیوروں اورکنڈیکٹروں سے زیادہ سے زیادہ کمائی لاکر دینے کی فکر ہوتی ہے جس میں زیادہ کمائی کرکے لاکر دینے والوں کا بھی معقول کمیشن طے ہوتا ہے، اس لیے انھیں اپنی کھٹارا گاڑیوں کی حالت زار بہتر بنانے کی کوئی فکر نہیں ہوتی کہ اس کمائی سے ان گاڑیوں پر بھی کچھ رقم خرچ کرلیں کہ جو کھٹارا ہواکر بھی مالکان کوکماکر دے رہی ہیں۔

حادثات کے بعد اکثر بس ڈرائیور اور کنڈیکٹر آسانی سے فرار ہونے ہی میں عافیت سمجھتے ہیں اورفرار ہوکر اپنے بس مالک کو اطلاع دے کر بے فکر ہوکر چھپ جاتے ہیں، جس کے بعد معاملات سنبھالنے کی ذمے داری بس مالک اور ٹرانسپورٹ یونین کی بن جاتی ہے ۔ یونین کے عہدیدار ان کے بچاؤ، ضمانت یا ضمانت قبل از گرفتاری کی کوشش میں لگ جاتے ہیں اور ان کے ساتھ جن پولیس افسروں کے اچھے اور مالی تعلقات ہوتے ہیں وہ بھی ان کی بھرپور مدد کرتے ہیں۔ ٹرانسپورٹ یونین کے پاس معقول فنڈ ہوتا ہے جو یونین تمام مالکان سے باقاعدگی سے وصول کرتی ہیں یہ فنڈ حادثات کے ذمے داروں کو بچانے، متاثرین سے صلح کرانے اور پولیس معاملات نمٹانے کے لیے مختص ہوتا ہے۔ اس فنڈ سے ٹریفک پولیس کے اعلیٰ افسروں کی گھریلوضروریات بھی پوری کی جاتی ہیں۔ ٹرانسپورٹ یونین کے رہنما ارشاد بخاری نے گڈز ٹرانسپورٹرز کی ایک تقریب میں تقریرکرتے ہوئے کہا تھا کہ ڈی آئی جی ٹریفک کی بیگم کی ساڑھی بھی ٹرانسپورٹروں کے پیسے سے خریدی جاتی ہے۔

اب تو ٹرانسپورٹ یونین کے اخراجات مزید بڑھ گئے ہیں کیونکہ اب پورے سندھ کے لیے ایڈیشنل آئی جی ٹریفک اور دیگر ٹریفک افسروں کی تعداد اورکراچی میں اضلاع بھی بڑھ گئے ہیں اور پبلک ٹرانسپورٹ کم ہوگئی ہے۔ کراچی کے مختلف روٹس پراب بسیں کم یا غائب ہوچکی ہیں کیونکہ پرانی اورکھٹارا بسیں کب تک چلتیں جب وہ بالکل ہی ناکارا ہوگئیں تو ان کے مالکان نے ان ہی بسوں کی کمائی سے اندرون ملک روٹس پر چلانے کے لیے بڑی بسیں خرید کر خراب بسوں کو اسکریپ میں فروخت کرکے جان چھڑالی۔ شہر قائد کے لوگ بھی اب برداشت کے عادی نہیں رہے اور حادثے کی صورت میں ان بسوں کو آگ لگانے میں دیر نہیں کرتے۔ ہنگاموں کے برسوں میں بھی جو بسیں جلائی گئی تھیں ٹرانسپورٹ یونین بھی ان کا حکومت سے معاوضہ مانگتی ہیں۔ کراچی کی ٹرانسپورٹ مافیا نے صرف کرائے بڑھانے کا اصول اپنایا ہوا ہے جو ڈیزل مہنگا ہونے پر کرایہ بڑھادیتی ہے اور ڈیزل سستا ہونے پر حکومت کے کہنے پر بھی کرایہ کم نہیں کرتی۔ سی این جی کے استعمال کا فائدہ عوام کوکبھی نہیں ہوا یہ فائدہ صرف سی این جی گاڑیوں، ٹیکسیوں اور رکشا مالکان کا سرکاری حق بنادیاگیا ہے۔

کراچی جو بانی پاکستان کا شہر ہے اور ملک کا دارالحکومت رہا ہے صرف حکومتوں ہی کے لیے نہیں لٹیروں، گراں فروشوں، اغوا کاروں اور اسٹریٹ کرائمرز کے لیے سونے کی چڑیا ہے۔ کراچی کی آمدنی سے ملک چل رہا ہے اورکراچی میں رہ کر کی جانے والی ناجائز کمائی سے اندرون ملک جائیدادوں کے نرخ بڑھ گئے ہیں۔ کراچی اب صرف کسی ایک زبان بولنے والوں کا شہر نہیں، دوسری زبانیں بولنے والے بھی اب یہاں لاکھوں کی تعداد میں رہتے ہیں جس کی وجہ سے کراچی منی پاکستان بھی کہلاتا ہے۔ یہاں کے رہنے والوں دو کروڑ سے زائد افراد پر رعایتوں کا اطلاق نہیں ہوتا صرف مہنگائی بڑھانے کی ہر ادارے، دکانداروں، پتھاریداروں اور ٹھیلے والوں کو اجازت ہے جنھیں کوئی پوچھنے یا روکنے والا نہیں ہے۔

کراچی کے بجلی صارفین وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے مطالبات کر کر کے تھک گئے ہیں مگر ان کی کوئی شنوائی ہورہی ہے نہ عدالت عظمیٰ اور عالیہ کی طرف سے کوئی سوموٹو ایکشن لیا جارہاہے ۔ جس سے صارفین بجلی شدید مایوس ہیں اور زمین پر ان کا واحد آسرا وفاقی محتسب کا کراچی کا ریجنل آفس رہ گیا ہے جس کے پاس صارفین بجلی کی اٹھارہ ہزار سے زائد شکایات وصول ہوچکی ہیں۔ وفاقی محتسب اعلیٰ کے ریجنل آفس کے ایڈوائزر نے کہاہے کہ اگر کے الیکٹرک اپنا قبلہ درست کرلے تو کراچی کے صارفین بجلی کی شکایات کا ازالہ ہوسکتا ہے کیونکہ صارفین بجلی محتسب عدالت میں آکر بتاتے ہیں کہ کے الیکٹرک کے علاقائی دفاتر میں کوئی شکایت سننے کو تو کیا سیدھے منہ بات کرنا بھی گوارا نہیں کرتا۔ جس کی وجہ سے محتسب آفس کو کے الیکٹرک کے خلاف سب سے زیادہ شکایات وصول ہورہی ہیں۔ ملک کا سب سے بڑا شہر اہم معاملات میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے مسلسل نظر انداز کیا جارہاہے کیونکہ کراچی سے انھیں مینڈیٹ نہیں ملا تھا اور جنھیں مینڈیٹ ملا وہ اپوزیشن میں رہنے کی وجہ سے بے بس اور حکومتی توجہ کے مسلسل مطالبے کررہے ہیں۔

ہر طرف کراچی سے نا انصافی اور محض کاغذی بیانات عوام کو مطمئن نہیں کرسکتے ۔ اس لیے آخری سہارا سپریم کورٹ کا رہ گیا ہے جو بلدیاتی اداروں کو اختیار دلانے اور کراچی پر اطلاق نہ ہونے کا سوموٹو ایکشن لے سکتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں