حدیبیہ کیس اپیل نہ کرنیکا فیصلہ پراسیکیوشن کی متفقہ رائے پر کیا گیا
ذرائع کے مطابق پراسیکیوٹر جنرل نیب سے لیکر اسسٹنٹ ڈپٹی پراسیکیوٹر تک سب نے ایک ہی رائے دی کہ اپیل دائر نہ کی جائے۔ نیب کے اس وقت کے پراسیکیوٹر جنرل اور سندھ ہائیکورٹ کے موجودہ جج جسٹس کے کے آغا نے اپنی رائے میں لکھا کہ لاہور ہائیکورٹ کے 3 ججز نے ریفرنس کالعدم قرار دینے کا حکم دیا جبکہ ان میں سے2 ججز نے دوبارہ تفتیش کو بھی ناممکن قرار دیا، صرف ایک جج نے دوبارہ تفتیش کے حق میں لکھا۔
ذرائع کے مطابق پراسیکیوٹر جنرل نے کہا کہ کیس بادی النظر میں اپیل دائر کرنے کے زمرے سے باہر ہے اور اگر چیئرمین کی جانب سے اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو اس پر متعدد سوالات اٹھیں گے۔ انھوں نے سوال اٹھایا کہ اگر نیب کی دوبارہ تفتیش کی اپیل منظور بھی ہوگئی تو کیا نیب اس15 سال پرانے کیس میں تحقیقات کرسکے گا اور کیا ایسی تحقیقات نیب کے وسائل اور وقت کا مناسب استعمال ہوگا؟۔ کیا نیب کی جانب سے اپیل دائر کرنے کو انتقامی کارروائی کی نظر سے نہیں دیکھا جائے گا اور ایسی صورت میں نیب کی ساکھ متاثر نہیں ہوگی، سمری میں میاں شریف کی وفات کا بھی ذکر کیا گیا۔
ادھر پراسیکیوٹر جنرل نے اپنی رائے میں ایڈیشنل پراسیکیوٹر اور اسسٹنٹ ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل کی رائے کو بھی شامل کیا جبکہ ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل کی رائے میں بھی اپیل دائر نہ کرنے کا کہا گیا جبکہ اسسٹنٹ پراسیکیوٹر جنرل نے اپیل کو قانونی نکات پر کمزور لکھا۔
ذرائع کے مطابق چیئرمین نیب مقدمات میں اپیل دائر کرنے یا نہ کرنے سے متعلق پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ کی رائے کو ہمیشہ اہمیت دیتے ہیں۔