سائنسدان ڈی این اے میں ڈیجیٹل ڈیٹا محفوظ کرنے میں کامیاب

یہ عمل تیز رفتار بنانے کے لیے ڈی این اے فاؤنٹین نامی تکنیک سے استفادہ کیا گیا ہے جو کوڈنگ تھیوری استعمال کرتی ہے


ویب ڈیسک March 04, 2017
یہ عمل تیز رفتار بنانے کے لیے ڈی این اے فاؤنٹین نامی تکنیک سے استفادہ کیا گیا ہے جو کوڈنگ تھیوری استعمال کرتی ہے، فوٹو؛ فائل

لاہور: امریکی ماہرین نے ڈی این اے میں ڈیجیٹل ڈیٹا ذخیرہ کرنے کا ایک نیا تجربہ کیا ہے جسے مستقبل میں ڈی این اے ہارڈ ڈرائیوز کی سمت ایک اہم عملی قدم بھی قرار دیا جارہا ہے۔

ریسرچ جرنل ''سائنس'' میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق کولمبیا یونیورسٹی اور نیویارک جینوم سینٹر کے سائنسدانوں نے مشترکہ طور پر ایک نظام وضع کرتے ہوئے اس میں ایک پرانی فرانسیسی فلم، ایک ایمیزون گفٹ کارڈ اور دوسری ڈیجیٹل فائلوں پر مشتمل ڈیٹا ڈی این اے میں نہ صرف کسی خامی کے بغیر محفوظ کیا ہے بلکہ اسے کامیابی سے پڑھ بھی لیا گیا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ صرف پچھلے 2 سال میں جتنا ڈیجیٹل ڈیٹا تخلیق کیا گیا ہے اس کی مقدار کمپیوٹر کی پوری تاریخ میں تخلیق کردہ ڈیجیٹل ڈیٹا سے زیادہ ہے اور اگر ڈیجیٹل ڈیٹا میں اضافے کا یہی سلسلہ جاری رہا تو آئندہ چند سال ہی میں ساری دنیا کی ہارڈ ڈسک ڈرائیوز، فلیش ڈرائیوز اور ڈیٹا اسٹوریج کے دوسرے تمام ذرائع ناکافی پڑجائیں گے۔

اگرچہ ڈی این اے میں ڈیجیٹل ڈیٹا محفوظ کرنے کی کوششیں پچھلے 20 سال سے جاری ہیں لیکن وہ بہت ہی ابتدائی نوعیت کی رہی ہیں جن سے عملی میدان میں کوئی فائدہ نہیں اٹھایا جاسکتا۔ البتہ امریکی ماہرین کا بنایا ہوا مذکورہ نظام ان سب کے مقابلے میں کہیں زیادہ تیز رفتار اور عملی نوعیت کا ہے جسے مزید پختہ کرتے ہوئے مستقبل میں ''ڈی این اے ہارڈ ڈرائیوز'' کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔

اس طریقے کے تحت پہلے ڈیجیٹل ڈیٹا ایک ایک بِٹ کرکے ڈی این اے نیوکلیوٹائیڈز میں محفوظ کیا جاتا ہے جس کے بعد ان نیوکلیوٹائیڈز کو ترتیب وار یکجا کرکے ایک ٹیسٹ ٹیوب میں رکھ دیا جاتا ہے۔ نیوکلیوٹائیڈز میں محفوظ ڈیجیٹل ڈیٹا ''پڑھنے'' کےلیے ان سالمات کی سلسلہ بندی (سیکوینسنگ) کی گئی۔ اس سارے عمل کو تیز رفتار اور خامیوں سے پاک بنانے کے لیے ''ڈی این اے فاؤنٹین'' کہلانے والی ایک حکمتِ عملی سے استفادہ کیا گیا جس کا مرکزی جزو ریاضی کی ''کوڈنگ تھیوری'' ہے۔

اپنی تیز رفتاری کے باوجود یہ تکنیک یو ایس بی فلیش ڈرائیو اور ہارڈ ڈسک ڈرائیو کے مقابلے میں اب بھی خاصی سست رفتار ہے لیکن ماہرین کو اُمید ہے کہ ڈی این اے فاؤنٹین کی تکنیک کو مزید بہتر اور تیز رفتار بناکر اس کے عملی اطلاق کی راہیں ہموار کی جاسکتی ہیں۔

اگر مستقبل میں ایسا ممکن ہوگیا تو ڈیٹا اسٹوریج کی دنیا میں انقلاب آجائے گا کیونکہ صرف ایک انسانی ڈی این اے پر 1.5 گیگا بائٹس جتنا ڈیٹا محفوظ کیا جاسکتا ہے جب کہ صرف ایک گرام ڈی این اے میں 215000 ٹیرا بائٹس ڈیجیٹل معلومات ذخیرہ کی جاسکتی ہیں جو بلاشبہ موجودہ دور کی کسی بھی سالڈ اسٹیٹ ہارڈ ڈسک کے مقابلے میں لاکھوں گنا زیادہ ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈی این اے پر مبنی ڈیٹا اسٹوریج کو حقیقت کا روپ دھارنے میں 10 سال سے بھی زیادہ کا عرصہ لگ جائے گا لیکن ایک بار یہ ٹیکنالوجی پختہ ہوگئی تو پھر آج کی ایک ٹیرا بائٹ والی ہارڈ ڈسک بھی 1970 کے عشرے میں صرف چند میگابائٹ گنجائش والی ہارڈ ڈسک جیسی بن کر رہ جائے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں