نوجوان اور کھیل کی سرگرمیاں
نئے الیکشن 2018 میں ہوں گے
KIEV:
نئے الیکشن 2018 میں ہوں گے، کئی ایسے شدید ترین مواقع اس حکومت کے لیے آئے کہ لگا حکومت اب گئی، سو گئی۔ مگر معاملات ہوتے ہوتے رہ گئے اور اسکولوں میں بم بلاسٹ ہوتے رہے۔ کورٹ و کچہری میں لوگ مرتے رہے۔ مگر الحمدللہ حکومت چلتی رہی اور چل رہی ہے، حکومت والے اس کو کامیابی کہتے ہیں، اپوزیشن والے بے ایمانی کہتے ہیں اور عوام اس کو اپنے لیے بدقسمتی قرار دیتے ہیں۔ فروری کے مہینے میں اعداد و شمار کے مطابق 33 افراد کراچی میں مارے گئے، رینجرز اور پولیس کے ہوتے ہوئے دہشت گردی، چھیناجھپٹی کا موسم الگ چل رہا ہے۔
مگر حکومت کی اطمینان بخشی کا عالم یہ ہے کہ الحمدللہ حکومت چل رہی ہے اور الیکشن 2018 میں ہی ہوں گے، دہشت گردی کی نئی لہر نے پورے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے، اس لہر کے ساتھ ساتھ پاکستانی عوام کرکٹ کی لہر میں زیادہ مست نظر آتے ہیں، بے تحاشا اموات کے باوجود تمام اہل وطن اس بات پر متفق ہیں کہ PSL کا فائنل میچ شہر لاہور میں ہی کھیلا جائے اور یہ جوش و ولولہ دیکھتے ہوئے حکومت نے 5 مارچ بروز اتوار PSL کا فائنل میچ اناؤنس بھی کردیا ہے اور ایک ہی دن میں میچ کے لیے ٹکٹ خریدے جانے کے ریکارڈ بھی بن گئے، اندازہ لگائیے نوجوانوں کی فرسٹریشن کا کہ اتنی اموات ہونے کے باوجود، اتنی ایمرجنسی کے باوجود، ایک ہیجان اور مایوسی کی کیفیت سے عوام نکلنا چاہتے ہیں، تازہ ہوا میں سانس لینا چاہتے ہیں، اپنے آپ کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں۔ بہت سے ٹین ایجر ایسے بھی ہوں گے جنھوں نے کرکٹ کے انٹرنیشنل کھلاڑیوں کو ہوم گراؤنڈ میں کھیلتے نہیں دیکھا ہوگا۔
اور اب اگر ان کو یہ موقع مل رہا ہے تو وہ جوش و جذبہ ظاہر بھی ہو رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ PSLکے فائنل کے موقع پر شہر لاہور میں بے انتہا سخت انتظامات کیے جائیں گے، تمام اہم شاہراہوں کو بلاک کردیا جائے، اسٹیڈیم میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات ہوں گے، گو بہت شدید ترین سیکیورٹی کے ساتھ عوام کی بڑی تعداد اسٹیڈیم میں موجود کھلاڑیوں کے کھیل سے لطف اندوز ہوگی۔ عمران خان نے اس فیصلے کو ان حالات میں پاگل پن قرار دیا ہے کہ اللہ نہ کرے کہ کوئی ناخوشگوار سانحہ ہوجائے۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ جو حکومت اپنی پالیسی لے کر چل رہی ہے اور جس طرح اور جن جن حالات میں بھی حکومت قائم و دائم ہے اس کو دیکھتے ہوئے انشا اللہ کچھ نہیں ہوگا۔
پاکستانی قوم تو ویسے بھی دعاؤں پر ہی چل رہی ہے، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں، بنیادی سہولتوں کا فقدان، قانون کی خلاف ورزیاں وغیرہ وغیرہ۔ سیہون شریف پر سو سے زائد شہادتیں ہوگئیں اور بدقسمتی دیکھیے کہ جہاں ایسے شاندار قلندر موجود ہیں، جہاں سالہا سال سے لوگوں کا تانتا بندھا رہتا ہو، وہاں اسپتال جیسی سہولت ناپید ہے۔ اس ترقی یافتہ دور میں جس میں بے نظیر کا بیٹا بھی سیاست میں داخل ہوگیا ہو، تعلیم یافتہ نوجوان بھی سندھ حکومت کا حصہ ہو، اور اسپتال نہ ہوں، کروڑوں کا بجٹ آخر کہاں جاتا ہے؟ لاڑکانہ بھی بدحال، سیہون شریف کا یہ حال، تھر برسوں سے غربت کی آگ میں جل رہا ہو، عورتیں اور بچے بھوک، افلاس سے مر جائیں، تو عوام کہاں جائیں۔
عوام اور نوجوان طبقہ ایک شدید ترین حبس کے عالم میں، اسپورٹس کی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہوگئی ہیں اور کرکٹ تو جیسے ہمارے خون میں شامل ہے، بچہ بچہ اس کھیل کے لیے جذباتی ہے، حالانکہ ہاکی ہمارا قومی کھیل ہے، مگر اس کھیل کے ساتھ جو سلوک ہوا ہے وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ کرکٹ نے عمران خان دیا، اظہر عباس، جاوید میانداد، وسیم اکرم، شاہد آفریدی اور ایسے ہی بہت سے آنے والے دنوں میں ہیروز بنیں گے کہ یہ قوم ہیروز بنانا جانتی ہے، جان دینا جانتی ہے۔ مگر اللہ کے واسطے اس قوم کو کیڑے مکوڑوں کی طرح نہ ماریے، زندہ انسانوں کے حقوق انھیں دیجیے، عورتوں کو جینے دیجیے، بچوں کو پھلنے پھولنے دیجیے، حکومتیں تو آنی جانی ہوتی ہیں اور انسان خود فانی مخلوق ہے، آج مرے کل دوسرا دن۔ اپنی ذات کو اہم بنانے کے بجائے قانون کو، اداروں کو مضبوط تر بنائیں، وہ ورثہ چھوڑ کے جائیں کہ بچہ بچہ آپ کو عزت کی نگاہ سے دیکھے۔
آج کل حالات یہ ہیں کہ ایک دوسرے کو چور کہا جا رہا ہے۔ ثبوت تک پیش ہو رہے ہیں۔ مگر ایسی بدنامی کے باوجود نہ ماتھے پر شکن نہ ہی آنکھوں میں شرمندگی اور مزید عوام کا ستیا ناس، ٹیکس کی شکل میں مزید ٹیکس لگائے جا رہے ہیں، بے روزگاری کی شرح بڑھ رہی ہے، نوجوانوں میں مایوسی پھیل رہی ہے۔
اس طرح کی فضا میں PSL کرکٹ ایک خوشگوار جھونکا ہے۔ کھیل کے میدان آباد ہوں، ایک سے بڑھ کر ایک کھلاڑی سامنے آئے،انٹرنیشنل گیمز میں شاندار کارکردگی ہو، اور پھر سے کھیل کے میدان میں پاکستانی کھلاڑی جھنڈے گاڑدیں۔ جہانگیر خان کے بعد اسکواش کا شعبہ ایک اور جہانگیر خان کی تمنا کرتا ہے۔ سمیع اللہ، کلیم اللہ کی طرح کے ہاکی کے کھلاڑی بھی ہیرو بننا چاہتے ہیں۔ سب کچھ کہیں گم ہوگیا ہے، ایک بدمستی کا عالم ہے اور سب بے بسی کی تصویر بنے انتظار میں ہیں کہ یہ سارا ماحول پھر سے زندگیوں کی نوید دیں۔
نوجوانوں کے لیے مثبت کھیل کی سرگرمیاں بہت زیادہ ضروری ہیں۔ بہترین کھلاڑی بنانے کے لیے بہترین ماحول بھی بنانے کی ضرورت ہے۔ براہ کرم اے موجودہ حکومت! آپ سے درخواست ہے کہ لڑکے اور لڑکیوں کے لیے کھیل کی سرگرمیاں، لوکل اور انٹرنیشنل دونوں پر بھرپور توجہ دی جائے۔ جس طرح ناچنا گانا پروموٹ ہو رہا ہے اسی طرح اگر کھیل اور کھیل کے معیار سے کرپشن کو نکال دیا جائے تو اچھے کھلاڑیوں کی نشوونما ہوسکتی ہے۔ کھیل کود کی سرگرمیاں، سیاست سے بالاتر ہوں، اور سیاسی لوگوں کو ان سے دور ہی رکھا جائے، اور جو بڑے بڑے کھلاڑی ریٹائرمنٹ کے بعد گھر بٹھا دیے گئے ہیں ۔
ان کی صلاحیتوں کو کام میں لاتے ہوئے ان کے ذمے نئے کھلاڑیوں کی تربیت کی ذمے داری ڈالی جائے۔ اجڑے ہوئے کھیل کے میدانوں کو آباد کیا جائے، طالب علم کھلاڑیوں کی مکمل ذمے داری لی جائے تاکہ کھیل کے ساتھ ساتھ علم کی بھی کمی نہ ہو۔ اسمارٹ فون کی اس دنیا میں انسانوں کو بھی اسمارٹ فون کی طرح کارآمد بنایا جائے نا کہ منہ میں گٹکا ہو، غربت و افلاس ہو اور اسمارٹ فون ہو۔ ترقی کے اس دور میں نوجوان طبقہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ہمیں اپنی بھرپور صلاحیتیں اور وسائل اپنی نوجوان نسل کے لیے صرف کرنے چاہئیں نہ کہ ان کو ایسے معاشرے کا حصہ بنادیں جہاں کرپشن، گندگی و غلاظت ہو جہاں کی ہوائیں گندگی سے بھری ہوئی ہوں۔
تازہ ہوا کے جھونکے زندگی کی نوید لے کر آتے ہیں اور زندگی کسے اچھی نہیں لگتی، زندگی کو پنپنے دیجیے، کھیلوں کی سرگرمیوں کو پوری توانائیوں کے ساتھ زندہ کیجیے،دہشت گردی کو جڑ سے نکال پھینکیے، ہمارے بچے ہمارا مستقبل ہیں انھیں آباد کیجیے۔