ملک کی مجموعی آبادی میں سندھ کا حصہآخری حصہ
جب 1981 میں اگلی آدم شماری ہوئی تو ملک میں ضیا الحق کی آمریت تھی جو سندھ پر خاص طور پر ’’مہربان‘‘ تھے
جب 1981 میں اگلی آدم شماری ہوئی تو ملک میں ضیا الحق کی آمریت تھی جو سندھ پر خاص طور پر ''مہربان'' تھے۔ دوسرے صوبوں کی آبادی کے مقابلے میں سندھ کی آبادی میں کہیں زیادہ تیز رفتاری سے اضافے کی اوپر دی ہوئی واضح وجوہات کے باوجود اس مردم شماری میں سندھ کی آبادی کو ملک کی مجموعی آبادی کا 22.8 فیصد دکھایا گیا۔ گویا ملک کی مجموعی آبادی کے حصے کے طور پر نو سال میں ضیا الحق کی برکت سے سندھ کی آبادی صرف ایک فیصد بڑھی۔ ہر انصاف پسند شخص اس بات کوکہے گا کہ اس سے پہلے کے دس سال میں 2.2 فیصد اضافے کی رفتارمیں اضافہ ہونا چاہیے تھا نہ کہ اس میں کمی دکھائی گئی۔ ہم اوپر دی گئی وجوہات کی بنا پر اس تناسب کو رد کرتے ہیں اور اس سے پہلے کے دس سال کی شرح کو برقرار رکھتے ہوئے سمجھتے ہیں کہ 1981 میں سندھ کی آبادی ملک کی آبادی کا کم ازکم 24 فیصد تھی۔
ضیا الحق کی افغان پالیسی بالخصوص ملک کے شمالی علاقوں میں بہت بڑی تباہی کا سبب بنی اور ان علاقوں سے بہت بڑی تعداد میں لوگوں نے نقل مکانی کی۔ ان افراد کی منزل سندھ تھا کیونکہ یہاں پہلے سے ہی فاٹا اور پختونخوا کے تقریباً ہرگاؤں اور ہر خاندان کے افراد موجود تھے اور آنے والے لوگوں کے لیے قدم رکھنے کو ٹھکانہ موجود تھا۔ نیز یہ بھی ایک عام مشاہدے کی بات ہے کہ افغانستان سے آنے والے بھی سندھ میں کسی کیمپ میں نہیں رہ رہے بلکہ انھوں نے اپنے کاروبار جمالیے ہیں اور جائیدادیں خریدلی ہیں۔ افغانستان اور ہمارے شمالی علاقوں میں آنے والی یہ بدقسمت تباہی دیگر وجوہات کے علاوہ سندھ کی آبادی میں تیزی سے اضافے کا سبب بنی ہے۔
اس کے باوجود بھی 1998 میں سترہ سال بعد میاں نواز شریف کی حکومت میں کی جانے والی آدم شماری میں ہم دیکھتے ہیں کہ مجموعی آبادی میں سندھ کے حصے میں کسی قسم کا اضافہ نہیں ہوا اور وہ مجموعی آبادی کے صرف 23 فیصد کی سطح پر قائم رہی۔ میاں صاحب کی یہ حکومت فوج کی نگرانی میں کیے جانے والے انتخابات اور اس میں ہونے والی یادگار دھاندلی سے وجود میں آئی تھی۔ 1998 میں ہونے والی آدم شماری بھی انھوں نے فوج کے ذریعے کرانا مناسب سمجھا اور بلاشبہ اپنے صوبہ پنجاب کے حق میں جانے والے مطلوبہ نتائج حاصل کیے۔
اگر 1972 کے بعد میں رونما ہونے والے سندھ میں انتقال آبادی کی تمام نئی وجوہات کو نظر انداز کرکے 1972 کی آدم شماری کے پہلے دس سال میں مجموعی آبادی میں سندھ کے حصے کے 2.2 فیصد اضافے ہی کو سامنے رکھا جائے تو 1981 میں سندھ کے آبادی ملک کی مجموعی آبادی کا 24 فیصد، 1991 میں 26.2 فیصد، 2001 میں 28.4 فیصد، 2011 میں 30.6 فیصد اور 2017 میں 32 فیصد بنتی ہے۔
1998 کی کرائی گئی مردم شماری کے بارے میں سب سے مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ اس میں دیہی سندھ میں خاندان کا اوسط سائز 5.5 افراد دکھایا گیا ہے، دیہی سندھ اور خاندان میں صرف 5.5 افراد اس پر جتنا بھی تعجب کیا جائے وہ کم ہے۔
2010 اور اس کے بعد سیلابوں میں جہاں ہر سال دیہی سندھ سے ستر لاکھ سے ترانوے لاکھ افراد سیلاب زدہ دیہی علاقوں سے شہروں میں بنائے گئے کیمپوں میں مقیم ہوئے، صوبائی حکومت کی جانب سے مجھے بھی کچھ فرائض تفویض کیے گئے تھے۔ عام طور پر سندھ میں بیس سال یا اس سے بھی زیادہ عمر کے افراد اپنے ماں باپ کے ساتھ رہتے ہیں اور افراد خاندان ہی سمجھے جاتے ہیں، لیکن کیمپوں میں ہم بارہ سال سے کم عمر کے بچوں کے اعداد وشمار رکھ رہے تھے، کیونکہ ان کو خصوصی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے اعداد وشمارکے مطابق کیمپوں میں 68 فیصد افراد کی عمریں بارہ سال سے کم تھیں، یعنی یہ کہ دیہی سندھ میں ہر شادی شدہ جوڑے کے کم ازکم 5 سے 6 بچے تھے۔
ویسے مجھے ایک کیمپ میں موجود ایک شخص کے بارے میں بتایا گیا، جس کی تین بیویاں اوران سے تئیس بچے تھے۔ اس کیمپ میں ہرخاندان کو روٹیاں پکانے کے لیے ایک ایک توا دیا گیا تھا۔ اس شخص کا انتہائی جائز مطالبہ تھا کہ اس کو روٹیاں پکانے کے لیے تین توے دیے جائیں۔ میری چھوٹی بہن پہلے تو بضد رہیں کہ اس کو بھی دوسرے خاندانوں کی طرح ایک ہی توا ملے گا لیکن جب دیکھا کہ اس کے بچوں کو روٹیاں پکنے کے لیے دو سے ڈھائی گھنٹے انتظارکرنا پڑتا ہے اور بیگمات میں کشمکش رہتی ہے کہ پہلے کس کے بچے کھانا کھائیں تو پسیج گئیں اور ہر بیوی کے لیے ایک توا جاری کردیا۔
ہم خود آٹھ بہن بھائی ہیں، لیکن میرے لیے دیہی سندھ میں آبادی کے بے تحاشا اضافے اور خاندانی منصوبہ بندی کی ناکامی انتہائی تشویش کا باعث تھی۔ میں نے اپنے بزرگ سید قائم علی شاہ سے عرض کیا کہ جناب عالی دریا اور بارش کا سیلاب توگزر جائے گا اور ہم اس سے حفاظت بھی کرلیںگے، دیہی سندھ میں اس آبادی کے سیلاب کا مقابلہ کس طرح ہوگا؟ قائم علی شاہ، ماشا اﷲ کثیر العیال ہیں اور ان کی ہر اولاد نے اپنی محنت اور لیاقت کے بل بوتے پر اپنے اپنے شعبے میں بڑا نام کمایا ہے۔ انھوں نے مسکرا کر جواب دیا ''تاج حیدر، اﷲ بڑا بادشاہ ہے'' میرے پاس بھی اس مسئلے کا کوئی حل نہیں تھا۔ میں بھی جواب میں مسکرا دیا۔
سائیں محترم اور مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ دیہی سندھ میں خاندانی منصوبہ بندی کا کام مرکزی حکومت کا ادارہ شماریات فیڈرل بیوروآف اسٹیٹسٹکس (FBS) بڑی خوبی سے انجام دے رہا ہے۔
ضیا الحق کی افغان پالیسی بالخصوص ملک کے شمالی علاقوں میں بہت بڑی تباہی کا سبب بنی اور ان علاقوں سے بہت بڑی تعداد میں لوگوں نے نقل مکانی کی۔ ان افراد کی منزل سندھ تھا کیونکہ یہاں پہلے سے ہی فاٹا اور پختونخوا کے تقریباً ہرگاؤں اور ہر خاندان کے افراد موجود تھے اور آنے والے لوگوں کے لیے قدم رکھنے کو ٹھکانہ موجود تھا۔ نیز یہ بھی ایک عام مشاہدے کی بات ہے کہ افغانستان سے آنے والے بھی سندھ میں کسی کیمپ میں نہیں رہ رہے بلکہ انھوں نے اپنے کاروبار جمالیے ہیں اور جائیدادیں خریدلی ہیں۔ افغانستان اور ہمارے شمالی علاقوں میں آنے والی یہ بدقسمت تباہی دیگر وجوہات کے علاوہ سندھ کی آبادی میں تیزی سے اضافے کا سبب بنی ہے۔
اس کے باوجود بھی 1998 میں سترہ سال بعد میاں نواز شریف کی حکومت میں کی جانے والی آدم شماری میں ہم دیکھتے ہیں کہ مجموعی آبادی میں سندھ کے حصے میں کسی قسم کا اضافہ نہیں ہوا اور وہ مجموعی آبادی کے صرف 23 فیصد کی سطح پر قائم رہی۔ میاں صاحب کی یہ حکومت فوج کی نگرانی میں کیے جانے والے انتخابات اور اس میں ہونے والی یادگار دھاندلی سے وجود میں آئی تھی۔ 1998 میں ہونے والی آدم شماری بھی انھوں نے فوج کے ذریعے کرانا مناسب سمجھا اور بلاشبہ اپنے صوبہ پنجاب کے حق میں جانے والے مطلوبہ نتائج حاصل کیے۔
اگر 1972 کے بعد میں رونما ہونے والے سندھ میں انتقال آبادی کی تمام نئی وجوہات کو نظر انداز کرکے 1972 کی آدم شماری کے پہلے دس سال میں مجموعی آبادی میں سندھ کے حصے کے 2.2 فیصد اضافے ہی کو سامنے رکھا جائے تو 1981 میں سندھ کے آبادی ملک کی مجموعی آبادی کا 24 فیصد، 1991 میں 26.2 فیصد، 2001 میں 28.4 فیصد، 2011 میں 30.6 فیصد اور 2017 میں 32 فیصد بنتی ہے۔
1998 کی کرائی گئی مردم شماری کے بارے میں سب سے مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ اس میں دیہی سندھ میں خاندان کا اوسط سائز 5.5 افراد دکھایا گیا ہے، دیہی سندھ اور خاندان میں صرف 5.5 افراد اس پر جتنا بھی تعجب کیا جائے وہ کم ہے۔
2010 اور اس کے بعد سیلابوں میں جہاں ہر سال دیہی سندھ سے ستر لاکھ سے ترانوے لاکھ افراد سیلاب زدہ دیہی علاقوں سے شہروں میں بنائے گئے کیمپوں میں مقیم ہوئے، صوبائی حکومت کی جانب سے مجھے بھی کچھ فرائض تفویض کیے گئے تھے۔ عام طور پر سندھ میں بیس سال یا اس سے بھی زیادہ عمر کے افراد اپنے ماں باپ کے ساتھ رہتے ہیں اور افراد خاندان ہی سمجھے جاتے ہیں، لیکن کیمپوں میں ہم بارہ سال سے کم عمر کے بچوں کے اعداد وشمار رکھ رہے تھے، کیونکہ ان کو خصوصی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے اعداد وشمارکے مطابق کیمپوں میں 68 فیصد افراد کی عمریں بارہ سال سے کم تھیں، یعنی یہ کہ دیہی سندھ میں ہر شادی شدہ جوڑے کے کم ازکم 5 سے 6 بچے تھے۔
ویسے مجھے ایک کیمپ میں موجود ایک شخص کے بارے میں بتایا گیا، جس کی تین بیویاں اوران سے تئیس بچے تھے۔ اس کیمپ میں ہرخاندان کو روٹیاں پکانے کے لیے ایک ایک توا دیا گیا تھا۔ اس شخص کا انتہائی جائز مطالبہ تھا کہ اس کو روٹیاں پکانے کے لیے تین توے دیے جائیں۔ میری چھوٹی بہن پہلے تو بضد رہیں کہ اس کو بھی دوسرے خاندانوں کی طرح ایک ہی توا ملے گا لیکن جب دیکھا کہ اس کے بچوں کو روٹیاں پکنے کے لیے دو سے ڈھائی گھنٹے انتظارکرنا پڑتا ہے اور بیگمات میں کشمکش رہتی ہے کہ پہلے کس کے بچے کھانا کھائیں تو پسیج گئیں اور ہر بیوی کے لیے ایک توا جاری کردیا۔
ہم خود آٹھ بہن بھائی ہیں، لیکن میرے لیے دیہی سندھ میں آبادی کے بے تحاشا اضافے اور خاندانی منصوبہ بندی کی ناکامی انتہائی تشویش کا باعث تھی۔ میں نے اپنے بزرگ سید قائم علی شاہ سے عرض کیا کہ جناب عالی دریا اور بارش کا سیلاب توگزر جائے گا اور ہم اس سے حفاظت بھی کرلیںگے، دیہی سندھ میں اس آبادی کے سیلاب کا مقابلہ کس طرح ہوگا؟ قائم علی شاہ، ماشا اﷲ کثیر العیال ہیں اور ان کی ہر اولاد نے اپنی محنت اور لیاقت کے بل بوتے پر اپنے اپنے شعبے میں بڑا نام کمایا ہے۔ انھوں نے مسکرا کر جواب دیا ''تاج حیدر، اﷲ بڑا بادشاہ ہے'' میرے پاس بھی اس مسئلے کا کوئی حل نہیں تھا۔ میں بھی جواب میں مسکرا دیا۔
سائیں محترم اور مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ دیہی سندھ میں خاندانی منصوبہ بندی کا کام مرکزی حکومت کا ادارہ شماریات فیڈرل بیوروآف اسٹیٹسٹکس (FBS) بڑی خوبی سے انجام دے رہا ہے۔