آپریشن اسٹورم سے آپریشن ردالفساد تک
فتنہ وفساد کے اس بھیانک طوفان کی المناک داستان جس نے پچھلے اڑتیس برس سے وطن عزیز پر دھاوا بول رکھا ہے۔
یہ 27 اپریل 1978ء کا واقعہ ہے جب افغان کمیونسٹوں نے افغانستان میں شاہی حکومت کا خاتمہ کرکے اقتدار سنبھال لیا۔
نور محمد ترکئی جمہوریہ افغانستان کے پہلے صدر بن گئے۔ تاہم جلد ہی کمیونسٹ لیڈروں کے مابین اقتدار کی جنگ چھڑ گئی۔ چناں چہ 14 ستمبر 1979ء کو ترکئی کے نائب، حفیظ اللہ امین نے حکومت پر قبضہ کیا اور اپنے صدر کو موت کی نیند سلادیا۔ اس وقت تک سویت یونین افغانستان کے معاملات میں بہت دخیل ہوچکا تھا۔ اسے حفیظ اللہ امین کی حرکت پسند نہ آئی۔ چناں چہ 27 دسمبر 1979ء کو سویت فوج اور سویت خفیہ ایجنسی، کے جی بی کے ایجنٹوں پر مشتمل ایک دستے نے تاج باغ محل پر دھاوا بول دیا جہاں حفیظ اللہ امین کی رہائش گاہ واقع تھی۔ اس حملے کو ''آپریشن سٹورم 333'' کا نام دیا گیا۔
آپریشن میں حفیظ اللہ امین مارا گیا اور سویت فوج نے افغان حکومت کو باقاعدہ اپنی مٹھی میں لے لیا۔ اس وقت کسی کے وہم وگمان میں نہ تھاکہ یہ حملہ تاریخ ِانسانی میں ایسا انقلاب انگیز ثابت ہوگا جس کے اثرات آج تک کافور نہیں ہوسکے۔ اسی حملے نے خصوصاً عالم اسلام میں ہزارہا ایسے جنگجو پیدا کردیئے جن میں آج بیک وقت تین نمایاں رجحان کارفرما ہیں...اول وہ مغربی استعمار سے نبرد آزما ہیں۔دوم اسلامی حکومتوں کو مرتد قرار دے کر ان پر حملے کرتے ہیں۔ سوم بعض اسلامی فرقے اور غیر مسلم بھی ان کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔
سویت حملے نے سب سے زیادہ پاکستان پر اثرات مرتب کیے۔ پاکستانیوں نے بے یارومددگار لاکھوں افغانیوں کو پناہ دی۔ افغان جہاد میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس باعث پاکستان کو سویت، افغان اور بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی خون ریز کارروائیوں کا نشانہ بننا پڑا۔ لیکن بدقسمتی سے افغان جنگ کا حصّہ بن کر پاکستان کو نقصانات بھی اٹھانے پڑے۔افغان اسمگلروں نے پاکستان کے چپے چپے میں ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر پھیلا دیا۔
اسلحے کی فراوانی اور عام دستیابی کے باعث ملک میں فرقہ وارانہ اور قومیت کی بنیاد پر بننے والی تنظیموں کو بڑھاوا ملا اور وہ بتدریج تشدد وفساد کی جانب مائل ہوگئیں۔1989ء تک پاکستان مختلف مذہبی فرقوں اور قومیتی تنظیموں کے مابین جنگ کا نشانہ بن چکا تھا۔اسّی کے عشرے میں ایران اور عرب ممالک کے تصادم نے بھی عالم اسلام کو نقصان پہنچایا۔ عرب ممالک کا نمائندہ، صدام حسین آٹھ سال ایران سے نبرد آزما رہا۔ اس دوران سوویت یونین اور امریکا، دونوں بڑی طاقتوں نے برسرپیکار اسلامی ممالک کو اسلحہ بیچ کر خوب کمائی کی۔ اُدھر دونوں ملک لڑ لڑ کے بے حال ہوگئے۔
افغان جہاد میں ہزارہا غیر ملکی مسلم نوجوانوں نے بھی حصہ لیا۔ جب 1988ء میں افغان جنگ ختم ہوئی، تو ان نوجوانوں نے تمنا کی کہ غاصبوں سے دیگر اسلامی خطے بھی آزاد کرائے جائیں۔ امیر کبیر عرب نوجوان، اسامہ بن لادن نے ان کی خواہشات کو عملی جامہ پہناتے ہوئے ''القاعدہ'' کی بنیاد رکھ دی۔1991ء میں جب سویت یونین کا خاتمہ ہوا، تو امریکہ دنیا کی اکلوتی سپرپاور بن گیا۔ وہ چاہتا تھا کہ القاعدہ اپنا عالمی جہاد ترک کردے۔
اسامہ نے انکار کیا، تو فریقین کے مابین طویل تصادم نے جنم لیا۔واقعہ نائن الیون کے بعد امریکا نے القاعدہ اور دیگر اسلامی جنگجو تنظیموں کے خلاف کھلی جنگ چھیڑ دی۔ اس جنگ میں جن اسلامی ممالک نے امریکا کا ساتھ دیا، اسلامی جنگجوؤں کے نزدیک ان کی حکومتیں بھی دشمن بن گئیں۔ جوں جوں تصادم بڑھا، جنگجو بھی زیادہ شدت پسند ہوگئے۔ رفتہ رفتہ مخالف اسلامی ممالک کے عوام بھی مرتد قرار دے کر مارے جانے لگے۔ یہ اعجوبہ پاکستان اور عراق میں سب سے زیادہ نمایاں ہوا۔
ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق 1995ء سے 2017ء تک پاکستان میں ''432'' خودکش حملے ہوچکے۔ ان کی زد میں آکر ''23 ہزار'' سے زیادہ پاکستانی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ حملے ان اسلامی جنگجو تنظیموں نے انجام دیئے جو اپنے مذہبی نظریات سے اتفاق نہ کرنے والے پاکستانیوں کو واجب القتل سمجھتی ہیں۔ گویا سویت۔ افغان جنگ کے دوران جن پاکستانی و غیر ملکی مسلم نوجوانوں نے فنون حرب سیکھے، ان کی اکثریت بعدازاں سیاسی یا مذہبی اختلافات کی وجہ سے پاکستان دشمن بن بیٹھی۔پاکستان مخالف تنظیموں کے مراکز قبائلی علاقے بن گئے۔ مخصوص طرز فکر رکھنے کے باعث کئی قبائلی شہری پاکستانیوں کو نام کا مسلمان سمجھتے تھے۔
لہٰذا تنظیموں کو قبائلی علاقوں میں گڑھ بنانے اور پروان چڑھنے میں زیادہ دشواری پیش نہیں آئی۔ مزید براں جب تنظیمیں اپنے کارکنوں کو بھاری تنخواہیں دینے لگیں، تو رقم کا لالچ بھی غریب و بیروزگار لوگوں کو ان کی جانب کھینچ لایا۔جب 2002ء میں امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا، تو وہاں سے القاعدہ کے سیکڑوں ازبک، تاجیک اور عرب ارکان قبائلی علاقوں میں بھاگ آئے۔ 2004ء میں پاک فوج نے سب سے پہلے انہی غیر ملکی جنگجوؤں کے خلاف آپریشن کیا اور انہیں زبردست نقصان پہنچایا۔ یہی وجہ ہے، آج تک ازبک اور تاجیک جنگجو پاکستان میں کبھی خودکش حملہ کرتے تو کبھی کسی منظم حملے کا حصہ بن جاتے ہیں۔
پاکستانی حکومت نے بہت کوشش کی کہ جنگجو اور شدت پسند تنظیمیں راہ راست پر آجائیں مگر نتیجہ ڈھاک کے تین پات نکلا۔ شروع میں پاکستانی عوام کا ایک بڑا حصّہ مجاہدین سمجھ کر شدت پسند لیڈروں کے ساتھ تھا۔ مگر جب یہ لیڈر فرقہ وارانہ فسادات میں ملوث ہوئے اور عام پاکستانیوں کو بلا کھٹکے نشانہ بنانے لگے، تو پاکستانی عوام کی اکثریت ان کی مخالف بن گئی۔عالم اسلام میں حکمرانوں سے لے کر عوام تک کے باہمی اختلافات سے ہمیشہ مسلم دشمن قوتوں نے فائدہ اٹھایا ہے۔ تاریخ شاہد ہے، یہ قوتیں مسلمانوں میں منافرت و دشمنی پھیلانے کی خاطر باقاعدہ سازشیں کرتی ہیں۔ چناں چہ سیاسی یا مذہبی بنیاد پر پاکستان کی مخالفت کرنے والے مسلمانوں کو بھارت، اسرائیل اور امریکا کی بھی درپردہ حمایت حاصل ہوگئی۔
وطن عزیز کی محافظ، پاک افواج نے شدت پسندوں اور وطن دشمنوں کو ختم کرنے کے لیے کئی آپریشن کیے۔ ان میں آپریشن سائیلنس (2007ء)، آپریشن راہ حق (2007ء)، آپریشن زلزلہ (2008ء)، آپریشن صراط المستقیم (2008ء)، آپریشن شیردل (2009ء)، آپریشن بلیک تھنڈر سٹورم (2009ء)، آپریشن راہ نجات (2009ء)، آپریشن اورک زئی اورکرُم (2010ء)، آپریشن ٹائٹ اسکریو (2010ء)، آپریشن راہ شہادت (2013ء) اور آپریشن ضرب عضب (2014ء) شامل ہیں۔ان آپریشنوں اور باہمی تصادم کے باعث آخر شدت پسند تتر بتر ہوگئے۔
بہت سے لیڈر پاکستانی قبائلی علاقوں سے متصل افغان صوبوں، ننگرہار، کنٹر، خوست اور پکتیکا میں جاچھپے۔ اسی دوران افغانستان میں بھی عراقی شدت پسند تنظیم، داعش کا ظہور ہوچکا تھا۔ چناں چہ بہت سے پاکستانی اور افغان طالبان داعش میں شامل ہوگئے۔داعش نے القاعدہ سمیت پاکستان اور افغانستان کے تمام شدت پسندوں سے مطالبہ کیا کہ اسے لیڈر تسلیم کرلیا جائے۔ افغان طالبان، القاعدہ اور تحریک پاکستان طالبان کی بعض تنظیموں نے یہ مطالبہ تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ لہٰذا دونوں ممالک میں متحارب تنظیموں کے مابین لڑائی چھڑگئی جو اب تک جاری ہے۔
2015ء سے چین، پاکستان اور روس قریب آنے لگے۔ سی پیک منصوبہ خصوصاً تکمیل کے بعد پاک چین دوستی مزید مضبوط کردے گا۔ جب امریکا نے اپنے دو اہم مخالفوں کو جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا میں پر پھیلاتے دیکھا، تو اس نے بھارت اور اپنی کٹھ پتلی افغان حکومت کو ساتھ ملا کر خصوصاً پاکستان کے خلاف ''پراکسی وار'' یا خفیہ جنگ چھیڑ دی۔
اس جنگ کا بنیادی مقصد پاکستان میں ابتری پیدا کرکے سی پیک منصوبے کو ناکام بنانا ہے۔ درج بالا پراکسی وار میں حال ہی میں اس لیے شدت آئی کہ بھارت اور افغان حکومت پاکستان دشمن تنظیموں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے میں کامیاب رہیں۔ خاص طور پر تحریک طالبان پاکستان کی دو سب سے طاقتور تنظیموں، لشکر جھنگوی اور جماعت الاحرار کا اتحاد داعش سے کرادیا گیا۔ چناں چہ اب تینوں تنظیمیں مل کے پاکستان بھر میں سول و عسکری ٹارگٹوں پر حملے کر رہی ہیں۔ ان تنظیموں کو پاکستان دشمن ٹرائیکا سے بہ شکل نقدی، اسلحہ اور لاجسٹک سپورٹ خوب مدد ملتی ہے۔
پاکستان دشمن طاقتوں کا بخوبی مقابلہ کرنے کی خاطر پاک فوج نے 22 فروری 2017ء کو ایک نئے ''آپریشن ردالفساد'' کا آغاز کردیا۔ آپریشن کا مقصد یہ ہے کہ اندرون و بیرون ملک سے بچے کھچے شدت پسندوں اور دہشت گردوں کا صفایا کردیا جائے۔ آپریشن میں پاک فوج کے علاوہ فضائیہ، بحریہ، رینجرز، پولیس اور دیگر سکیورٹی فورسز کے جوان بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے۔ امید ہے کہ اس آپریشن کے ذریعے پاکستان دشمن قوتوں کی کمر توڑ دی جائے گی تاکہ وہ وطن عزیز کے لیے خطرہ ثابت نہ ہوسکیں۔ بقول شاعر
نفرتوں کے دروازے خود پے بند رکھنا
اس وطن کے پرچم کو سربلند ہی رکھنا
یہ وطن تمہارا ہے، تم ہو پاسباں اس کے
یہ چمن تمہارا ہے، تم ہو نغمہ خواں اس کے
نظریاتی آپریشن بھی ہونا چاہیے
آپریشن ردوالفساد سے یقیناً شدت پسندوں کا قلع قمع کرنے میں مدد ملے گی، لیکن ضروری ہے کہ اس ''نظریے'' کو بھی نشانہ بنایا جائے جس کے بطن سے پاکستان اور افغانستان ہی نہیں عالم اسلام کے دیگر ممالک میں بھی شدت پسند جنم لیتے ہیں۔ وطن عزیز میں خصوصاً یہ وقت کی ضرورت ہے کہ شدت پسندوں کے نظریات کے خلاف بھی افواج اور شہری مل کر ایک جامع اور بھر پور آپریشن شروع کریں۔
ان نظریات کے خاتمے سے شدت پسندی بھی اپنی موت آپ مرجائے گی۔عالم اسلام میں شدت پسندی ان ملکوں میں زیادہ ہے جہاں جہالت و غربت کا دور دورہ ہے۔ پاکستان و افغانستان ہی کو لیجیے۔ دونوں ممالک میں بمشکل 20 تا 30 فیصد باشندے ہی صحیح معنوں میں تعلیم یافتہ اور باشعور کہلائے جا سکتے ہیں۔ خصوصاً دیہات میں مقیم 60 تا 70 فیصد آبادی کی اکثریت ناخواندہ ہے۔ شدت پسند اپنے مفادات کی خاطر اسلامی تعلیمات توڑ مروڑ کر ناخواندہ نوجوانوں کے سامنے رکھتے اور انہیں اپنا حامی بنالیتے ہیں۔ بعض اوقات تنخواہ کا لالچ بھی بیروزگار نوجوانوں کو شدت پسند تنظیموں کا حصہ بنا ڈیتا ہے۔
عالم اسلام کے سبھی شدت پسندوں کا دعویٰ ہے کہ وہ اسلامی حکومت قائم کرنے کی خاطر جہاد کر رہے ہیں۔ اس حکومت میں عدل و انصاف کا دور دورہ ہوگا اور قانون کی حکمرانی ہوگی۔ یقیناً سبھی مسلمان تو کیا ہر انسان ایسی فلاحی حکومت میں آباد ہونا پسند کرے گا۔ لیکن حالات اور واقعات شاہد ہیں کہ جب بھی شدت پسندوں کو اقتدار ملا، تو ان کا طرز عمل اسلامی تعلیمات اور خلافت راشدہ سے بالکل مختلف رہا۔مثال کے طور پر داعش نے عراق اور شام میں حکومت قائم کی تو وہ ان غیر مسلموں اور مختلف روحانی نظریات کے حامل گرہوں کو نشانہ بنانے لگی جو مسلمانوں سے برسرپیکار نہیں تھے۔
یہ عمل اسلامی جنگی اصولوں کے عین الٹ ہے۔ یہی نہیں، انہوں نے بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو قتل کیا، نیز مخالفین آگ میں جھونک ڈالے۔ قرآن و حدیث میں ایسے اعمال کی ممانعت آئی ہے۔ تاہم قائدین داعش نے انتہا پسند فقہا کے اقوال و احکام کو قرآن و سنت پر ترجیح دے ڈالی۔اسی طرح قرآن پاک میں صریح طور پر خودکشی کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ لیکن آج خودکش حملے شدت پسندوں کا اہم ہتھیار بن چکا۔ شدت پسندوں کی نظریاتی دلیل یہ ہے کہ صحابہؓ بھی جنگ میں اپنی جانیں دیا کرتے تھے۔ مگر آج کے شدت پسندوں اور صحابہ کرامؓؓ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
صحابہ کرامؓؓ میدان جنگ میں دشمن کا مقابلہ کرتے بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ یہ دلیری واستقامت کا بلند ترین درجہ ہے۔ مگر شدت پسندخودکش حملہ آور چوروں کی طرح چھپتا چھپاتا آتا ہے اور بے گناہوں کو مار ڈالتا ہے۔ یہ کوئی دلیری نہیں بلکہ سراسر ظلم و جہالت ہے۔مزید براں صحابہ کرامؓ نے تمام جنگیں اس لیے لڑیں تاکہ حق و انصاف کا بول بالا ہوسکے اوردنیا میں امن و امان قائم ہو۔ اسلام میں صرف اسی نقطہ نگاہ سے جنگ کرنے کی اجازت ہے ۔ مگر آج شدت پسندوں کی جنگ نے اکثر اسلامی ممالک میں فساد برپا کررکھا ہے۔ قرآن و سنت کی رو سے ایسی جنگ ''فتنہ'' کہلاتی ہے۔یہی وجہ ہے، یہ جنگ امت مسلمہ کا اتحاد پارہ پارہ کرکے اسے بہت کمزور کرچکی۔یہ ستم کیا کم ہے کہ ان کی سرگرمیوں سے مقبوضہ کشمیر، فلسطین اور دیگر مقبوضہ اسلامی علاقوں میں حقیقی جہاد پس منظرمیں جا چکا ہے۔
یہ شدت پسند تلوار کے زور پر سبھی غیر مسلموں کو مسلمان بنا لینا چاہتے ہیں۔ ان جہلا کو علم نہیں کہ یوں وہ ہمارے دین پر مغربی دانشوروں کے اس سب سے بڑے الزام کی توثیق کرڈالتے ہیں کہ دنیا میں اسلام تلوار کے بل پر پھیلا۔ حالانکہ یہ بالکل غلط بات ہے۔ شدت پسندوں میں تمام غیر مسلموں کو بزور مسلمان بنالینے کا نظریہ اس لیے پھیل گیا کہ وہ سیاق و سباق کو ملحوظ خاطر رکھے بغیر آیات قرآنی کا مطالعہ کرتے ہیں۔ یہ غلطی تمام شدت پسندوں کو گمراہ کردیتی ہے۔ ایسے حالات دیکھتے ہوئے پاکستان کے علماء و فضلا کا فرض ہے کہ وہ عوام و خواص میں حقیقی اسلامی تعلیمات کی تبلیغ کریں جو دنیا میں جنگ اور فساد ختم کرکے امن و شانتی قائم کرنا چاہتی ہیں۔
اسلامی تعلیمات کی آگاہی سے خصوصاً ناخواندہ مسلم نوجوان مفاد پرست شدت پسندوں کے زہریلے نظریات کے جال سے بچ سکیں گے۔دور جدید کے سبھی شدت پسند لیڈر سمجھتے ہیں کہ اقتدار سنبھال کر وہ عالم اسلام کو تمام مسائل سے نجات دلا دیں گے۔ ایک عام مسلمان بھی اُمت کو ترقی کرتا اور خوشحال ہوتا دیکھنے کا خواہش مند ہے۔ لیکن شدت پسندوں نے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے جو راہ اپنائی، وہ الٹا عالم اسلام کو زبردست نقصان پہنچا رہی ہے۔ اب یہ شدت پسند فسادی و فتنہ بن چکے ہیں اور اسلام دشمن طاقتوں کے آلہ کار کا کردار ادا کررہے ہیں۔
نور محمد ترکئی جمہوریہ افغانستان کے پہلے صدر بن گئے۔ تاہم جلد ہی کمیونسٹ لیڈروں کے مابین اقتدار کی جنگ چھڑ گئی۔ چناں چہ 14 ستمبر 1979ء کو ترکئی کے نائب، حفیظ اللہ امین نے حکومت پر قبضہ کیا اور اپنے صدر کو موت کی نیند سلادیا۔ اس وقت تک سویت یونین افغانستان کے معاملات میں بہت دخیل ہوچکا تھا۔ اسے حفیظ اللہ امین کی حرکت پسند نہ آئی۔ چناں چہ 27 دسمبر 1979ء کو سویت فوج اور سویت خفیہ ایجنسی، کے جی بی کے ایجنٹوں پر مشتمل ایک دستے نے تاج باغ محل پر دھاوا بول دیا جہاں حفیظ اللہ امین کی رہائش گاہ واقع تھی۔ اس حملے کو ''آپریشن سٹورم 333'' کا نام دیا گیا۔
آپریشن میں حفیظ اللہ امین مارا گیا اور سویت فوج نے افغان حکومت کو باقاعدہ اپنی مٹھی میں لے لیا۔ اس وقت کسی کے وہم وگمان میں نہ تھاکہ یہ حملہ تاریخ ِانسانی میں ایسا انقلاب انگیز ثابت ہوگا جس کے اثرات آج تک کافور نہیں ہوسکے۔ اسی حملے نے خصوصاً عالم اسلام میں ہزارہا ایسے جنگجو پیدا کردیئے جن میں آج بیک وقت تین نمایاں رجحان کارفرما ہیں...اول وہ مغربی استعمار سے نبرد آزما ہیں۔دوم اسلامی حکومتوں کو مرتد قرار دے کر ان پر حملے کرتے ہیں۔ سوم بعض اسلامی فرقے اور غیر مسلم بھی ان کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔
سویت حملے نے سب سے زیادہ پاکستان پر اثرات مرتب کیے۔ پاکستانیوں نے بے یارومددگار لاکھوں افغانیوں کو پناہ دی۔ افغان جہاد میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس باعث پاکستان کو سویت، افغان اور بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی خون ریز کارروائیوں کا نشانہ بننا پڑا۔ لیکن بدقسمتی سے افغان جنگ کا حصّہ بن کر پاکستان کو نقصانات بھی اٹھانے پڑے۔افغان اسمگلروں نے پاکستان کے چپے چپے میں ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر پھیلا دیا۔
اسلحے کی فراوانی اور عام دستیابی کے باعث ملک میں فرقہ وارانہ اور قومیت کی بنیاد پر بننے والی تنظیموں کو بڑھاوا ملا اور وہ بتدریج تشدد وفساد کی جانب مائل ہوگئیں۔1989ء تک پاکستان مختلف مذہبی فرقوں اور قومیتی تنظیموں کے مابین جنگ کا نشانہ بن چکا تھا۔اسّی کے عشرے میں ایران اور عرب ممالک کے تصادم نے بھی عالم اسلام کو نقصان پہنچایا۔ عرب ممالک کا نمائندہ، صدام حسین آٹھ سال ایران سے نبرد آزما رہا۔ اس دوران سوویت یونین اور امریکا، دونوں بڑی طاقتوں نے برسرپیکار اسلامی ممالک کو اسلحہ بیچ کر خوب کمائی کی۔ اُدھر دونوں ملک لڑ لڑ کے بے حال ہوگئے۔
افغان جہاد میں ہزارہا غیر ملکی مسلم نوجوانوں نے بھی حصہ لیا۔ جب 1988ء میں افغان جنگ ختم ہوئی، تو ان نوجوانوں نے تمنا کی کہ غاصبوں سے دیگر اسلامی خطے بھی آزاد کرائے جائیں۔ امیر کبیر عرب نوجوان، اسامہ بن لادن نے ان کی خواہشات کو عملی جامہ پہناتے ہوئے ''القاعدہ'' کی بنیاد رکھ دی۔1991ء میں جب سویت یونین کا خاتمہ ہوا، تو امریکہ دنیا کی اکلوتی سپرپاور بن گیا۔ وہ چاہتا تھا کہ القاعدہ اپنا عالمی جہاد ترک کردے۔
اسامہ نے انکار کیا، تو فریقین کے مابین طویل تصادم نے جنم لیا۔واقعہ نائن الیون کے بعد امریکا نے القاعدہ اور دیگر اسلامی جنگجو تنظیموں کے خلاف کھلی جنگ چھیڑ دی۔ اس جنگ میں جن اسلامی ممالک نے امریکا کا ساتھ دیا، اسلامی جنگجوؤں کے نزدیک ان کی حکومتیں بھی دشمن بن گئیں۔ جوں جوں تصادم بڑھا، جنگجو بھی زیادہ شدت پسند ہوگئے۔ رفتہ رفتہ مخالف اسلامی ممالک کے عوام بھی مرتد قرار دے کر مارے جانے لگے۔ یہ اعجوبہ پاکستان اور عراق میں سب سے زیادہ نمایاں ہوا۔
ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق 1995ء سے 2017ء تک پاکستان میں ''432'' خودکش حملے ہوچکے۔ ان کی زد میں آکر ''23 ہزار'' سے زیادہ پاکستانی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ حملے ان اسلامی جنگجو تنظیموں نے انجام دیئے جو اپنے مذہبی نظریات سے اتفاق نہ کرنے والے پاکستانیوں کو واجب القتل سمجھتی ہیں۔ گویا سویت۔ افغان جنگ کے دوران جن پاکستانی و غیر ملکی مسلم نوجوانوں نے فنون حرب سیکھے، ان کی اکثریت بعدازاں سیاسی یا مذہبی اختلافات کی وجہ سے پاکستان دشمن بن بیٹھی۔پاکستان مخالف تنظیموں کے مراکز قبائلی علاقے بن گئے۔ مخصوص طرز فکر رکھنے کے باعث کئی قبائلی شہری پاکستانیوں کو نام کا مسلمان سمجھتے تھے۔
لہٰذا تنظیموں کو قبائلی علاقوں میں گڑھ بنانے اور پروان چڑھنے میں زیادہ دشواری پیش نہیں آئی۔ مزید براں جب تنظیمیں اپنے کارکنوں کو بھاری تنخواہیں دینے لگیں، تو رقم کا لالچ بھی غریب و بیروزگار لوگوں کو ان کی جانب کھینچ لایا۔جب 2002ء میں امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا، تو وہاں سے القاعدہ کے سیکڑوں ازبک، تاجیک اور عرب ارکان قبائلی علاقوں میں بھاگ آئے۔ 2004ء میں پاک فوج نے سب سے پہلے انہی غیر ملکی جنگجوؤں کے خلاف آپریشن کیا اور انہیں زبردست نقصان پہنچایا۔ یہی وجہ ہے، آج تک ازبک اور تاجیک جنگجو پاکستان میں کبھی خودکش حملہ کرتے تو کبھی کسی منظم حملے کا حصہ بن جاتے ہیں۔
پاکستانی حکومت نے بہت کوشش کی کہ جنگجو اور شدت پسند تنظیمیں راہ راست پر آجائیں مگر نتیجہ ڈھاک کے تین پات نکلا۔ شروع میں پاکستانی عوام کا ایک بڑا حصّہ مجاہدین سمجھ کر شدت پسند لیڈروں کے ساتھ تھا۔ مگر جب یہ لیڈر فرقہ وارانہ فسادات میں ملوث ہوئے اور عام پاکستانیوں کو بلا کھٹکے نشانہ بنانے لگے، تو پاکستانی عوام کی اکثریت ان کی مخالف بن گئی۔عالم اسلام میں حکمرانوں سے لے کر عوام تک کے باہمی اختلافات سے ہمیشہ مسلم دشمن قوتوں نے فائدہ اٹھایا ہے۔ تاریخ شاہد ہے، یہ قوتیں مسلمانوں میں منافرت و دشمنی پھیلانے کی خاطر باقاعدہ سازشیں کرتی ہیں۔ چناں چہ سیاسی یا مذہبی بنیاد پر پاکستان کی مخالفت کرنے والے مسلمانوں کو بھارت، اسرائیل اور امریکا کی بھی درپردہ حمایت حاصل ہوگئی۔
وطن عزیز کی محافظ، پاک افواج نے شدت پسندوں اور وطن دشمنوں کو ختم کرنے کے لیے کئی آپریشن کیے۔ ان میں آپریشن سائیلنس (2007ء)، آپریشن راہ حق (2007ء)، آپریشن زلزلہ (2008ء)، آپریشن صراط المستقیم (2008ء)، آپریشن شیردل (2009ء)، آپریشن بلیک تھنڈر سٹورم (2009ء)، آپریشن راہ نجات (2009ء)، آپریشن اورک زئی اورکرُم (2010ء)، آپریشن ٹائٹ اسکریو (2010ء)، آپریشن راہ شہادت (2013ء) اور آپریشن ضرب عضب (2014ء) شامل ہیں۔ان آپریشنوں اور باہمی تصادم کے باعث آخر شدت پسند تتر بتر ہوگئے۔
بہت سے لیڈر پاکستانی قبائلی علاقوں سے متصل افغان صوبوں، ننگرہار، کنٹر، خوست اور پکتیکا میں جاچھپے۔ اسی دوران افغانستان میں بھی عراقی شدت پسند تنظیم، داعش کا ظہور ہوچکا تھا۔ چناں چہ بہت سے پاکستانی اور افغان طالبان داعش میں شامل ہوگئے۔داعش نے القاعدہ سمیت پاکستان اور افغانستان کے تمام شدت پسندوں سے مطالبہ کیا کہ اسے لیڈر تسلیم کرلیا جائے۔ افغان طالبان، القاعدہ اور تحریک پاکستان طالبان کی بعض تنظیموں نے یہ مطالبہ تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ لہٰذا دونوں ممالک میں متحارب تنظیموں کے مابین لڑائی چھڑگئی جو اب تک جاری ہے۔
2015ء سے چین، پاکستان اور روس قریب آنے لگے۔ سی پیک منصوبہ خصوصاً تکمیل کے بعد پاک چین دوستی مزید مضبوط کردے گا۔ جب امریکا نے اپنے دو اہم مخالفوں کو جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا میں پر پھیلاتے دیکھا، تو اس نے بھارت اور اپنی کٹھ پتلی افغان حکومت کو ساتھ ملا کر خصوصاً پاکستان کے خلاف ''پراکسی وار'' یا خفیہ جنگ چھیڑ دی۔
اس جنگ کا بنیادی مقصد پاکستان میں ابتری پیدا کرکے سی پیک منصوبے کو ناکام بنانا ہے۔ درج بالا پراکسی وار میں حال ہی میں اس لیے شدت آئی کہ بھارت اور افغان حکومت پاکستان دشمن تنظیموں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے میں کامیاب رہیں۔ خاص طور پر تحریک طالبان پاکستان کی دو سب سے طاقتور تنظیموں، لشکر جھنگوی اور جماعت الاحرار کا اتحاد داعش سے کرادیا گیا۔ چناں چہ اب تینوں تنظیمیں مل کے پاکستان بھر میں سول و عسکری ٹارگٹوں پر حملے کر رہی ہیں۔ ان تنظیموں کو پاکستان دشمن ٹرائیکا سے بہ شکل نقدی، اسلحہ اور لاجسٹک سپورٹ خوب مدد ملتی ہے۔
پاکستان دشمن طاقتوں کا بخوبی مقابلہ کرنے کی خاطر پاک فوج نے 22 فروری 2017ء کو ایک نئے ''آپریشن ردالفساد'' کا آغاز کردیا۔ آپریشن کا مقصد یہ ہے کہ اندرون و بیرون ملک سے بچے کھچے شدت پسندوں اور دہشت گردوں کا صفایا کردیا جائے۔ آپریشن میں پاک فوج کے علاوہ فضائیہ، بحریہ، رینجرز، پولیس اور دیگر سکیورٹی فورسز کے جوان بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے۔ امید ہے کہ اس آپریشن کے ذریعے پاکستان دشمن قوتوں کی کمر توڑ دی جائے گی تاکہ وہ وطن عزیز کے لیے خطرہ ثابت نہ ہوسکیں۔ بقول شاعر
نفرتوں کے دروازے خود پے بند رکھنا
اس وطن کے پرچم کو سربلند ہی رکھنا
یہ وطن تمہارا ہے، تم ہو پاسباں اس کے
یہ چمن تمہارا ہے، تم ہو نغمہ خواں اس کے
نظریاتی آپریشن بھی ہونا چاہیے
آپریشن ردوالفساد سے یقیناً شدت پسندوں کا قلع قمع کرنے میں مدد ملے گی، لیکن ضروری ہے کہ اس ''نظریے'' کو بھی نشانہ بنایا جائے جس کے بطن سے پاکستان اور افغانستان ہی نہیں عالم اسلام کے دیگر ممالک میں بھی شدت پسند جنم لیتے ہیں۔ وطن عزیز میں خصوصاً یہ وقت کی ضرورت ہے کہ شدت پسندوں کے نظریات کے خلاف بھی افواج اور شہری مل کر ایک جامع اور بھر پور آپریشن شروع کریں۔
ان نظریات کے خاتمے سے شدت پسندی بھی اپنی موت آپ مرجائے گی۔عالم اسلام میں شدت پسندی ان ملکوں میں زیادہ ہے جہاں جہالت و غربت کا دور دورہ ہے۔ پاکستان و افغانستان ہی کو لیجیے۔ دونوں ممالک میں بمشکل 20 تا 30 فیصد باشندے ہی صحیح معنوں میں تعلیم یافتہ اور باشعور کہلائے جا سکتے ہیں۔ خصوصاً دیہات میں مقیم 60 تا 70 فیصد آبادی کی اکثریت ناخواندہ ہے۔ شدت پسند اپنے مفادات کی خاطر اسلامی تعلیمات توڑ مروڑ کر ناخواندہ نوجوانوں کے سامنے رکھتے اور انہیں اپنا حامی بنالیتے ہیں۔ بعض اوقات تنخواہ کا لالچ بھی بیروزگار نوجوانوں کو شدت پسند تنظیموں کا حصہ بنا ڈیتا ہے۔
عالم اسلام کے سبھی شدت پسندوں کا دعویٰ ہے کہ وہ اسلامی حکومت قائم کرنے کی خاطر جہاد کر رہے ہیں۔ اس حکومت میں عدل و انصاف کا دور دورہ ہوگا اور قانون کی حکمرانی ہوگی۔ یقیناً سبھی مسلمان تو کیا ہر انسان ایسی فلاحی حکومت میں آباد ہونا پسند کرے گا۔ لیکن حالات اور واقعات شاہد ہیں کہ جب بھی شدت پسندوں کو اقتدار ملا، تو ان کا طرز عمل اسلامی تعلیمات اور خلافت راشدہ سے بالکل مختلف رہا۔مثال کے طور پر داعش نے عراق اور شام میں حکومت قائم کی تو وہ ان غیر مسلموں اور مختلف روحانی نظریات کے حامل گرہوں کو نشانہ بنانے لگی جو مسلمانوں سے برسرپیکار نہیں تھے۔
یہ عمل اسلامی جنگی اصولوں کے عین الٹ ہے۔ یہی نہیں، انہوں نے بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو قتل کیا، نیز مخالفین آگ میں جھونک ڈالے۔ قرآن و حدیث میں ایسے اعمال کی ممانعت آئی ہے۔ تاہم قائدین داعش نے انتہا پسند فقہا کے اقوال و احکام کو قرآن و سنت پر ترجیح دے ڈالی۔اسی طرح قرآن پاک میں صریح طور پر خودکشی کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ لیکن آج خودکش حملے شدت پسندوں کا اہم ہتھیار بن چکا۔ شدت پسندوں کی نظریاتی دلیل یہ ہے کہ صحابہؓ بھی جنگ میں اپنی جانیں دیا کرتے تھے۔ مگر آج کے شدت پسندوں اور صحابہ کرامؓؓ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
صحابہ کرامؓؓ میدان جنگ میں دشمن کا مقابلہ کرتے بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ یہ دلیری واستقامت کا بلند ترین درجہ ہے۔ مگر شدت پسندخودکش حملہ آور چوروں کی طرح چھپتا چھپاتا آتا ہے اور بے گناہوں کو مار ڈالتا ہے۔ یہ کوئی دلیری نہیں بلکہ سراسر ظلم و جہالت ہے۔مزید براں صحابہ کرامؓ نے تمام جنگیں اس لیے لڑیں تاکہ حق و انصاف کا بول بالا ہوسکے اوردنیا میں امن و امان قائم ہو۔ اسلام میں صرف اسی نقطہ نگاہ سے جنگ کرنے کی اجازت ہے ۔ مگر آج شدت پسندوں کی جنگ نے اکثر اسلامی ممالک میں فساد برپا کررکھا ہے۔ قرآن و سنت کی رو سے ایسی جنگ ''فتنہ'' کہلاتی ہے۔یہی وجہ ہے، یہ جنگ امت مسلمہ کا اتحاد پارہ پارہ کرکے اسے بہت کمزور کرچکی۔یہ ستم کیا کم ہے کہ ان کی سرگرمیوں سے مقبوضہ کشمیر، فلسطین اور دیگر مقبوضہ اسلامی علاقوں میں حقیقی جہاد پس منظرمیں جا چکا ہے۔
یہ شدت پسند تلوار کے زور پر سبھی غیر مسلموں کو مسلمان بنا لینا چاہتے ہیں۔ ان جہلا کو علم نہیں کہ یوں وہ ہمارے دین پر مغربی دانشوروں کے اس سب سے بڑے الزام کی توثیق کرڈالتے ہیں کہ دنیا میں اسلام تلوار کے بل پر پھیلا۔ حالانکہ یہ بالکل غلط بات ہے۔ شدت پسندوں میں تمام غیر مسلموں کو بزور مسلمان بنالینے کا نظریہ اس لیے پھیل گیا کہ وہ سیاق و سباق کو ملحوظ خاطر رکھے بغیر آیات قرآنی کا مطالعہ کرتے ہیں۔ یہ غلطی تمام شدت پسندوں کو گمراہ کردیتی ہے۔ ایسے حالات دیکھتے ہوئے پاکستان کے علماء و فضلا کا فرض ہے کہ وہ عوام و خواص میں حقیقی اسلامی تعلیمات کی تبلیغ کریں جو دنیا میں جنگ اور فساد ختم کرکے امن و شانتی قائم کرنا چاہتی ہیں۔
اسلامی تعلیمات کی آگاہی سے خصوصاً ناخواندہ مسلم نوجوان مفاد پرست شدت پسندوں کے زہریلے نظریات کے جال سے بچ سکیں گے۔دور جدید کے سبھی شدت پسند لیڈر سمجھتے ہیں کہ اقتدار سنبھال کر وہ عالم اسلام کو تمام مسائل سے نجات دلا دیں گے۔ ایک عام مسلمان بھی اُمت کو ترقی کرتا اور خوشحال ہوتا دیکھنے کا خواہش مند ہے۔ لیکن شدت پسندوں نے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے جو راہ اپنائی، وہ الٹا عالم اسلام کو زبردست نقصان پہنچا رہی ہے۔ اب یہ شدت پسند فسادی و فتنہ بن چکے ہیں اور اسلام دشمن طاقتوں کے آلہ کار کا کردار ادا کررہے ہیں۔