مرگی کا مرض اور حکومتی بے حسی

مرگی کے مریضوں کا نہ صرف علاج کیا جائے بلکہ ووکیشنل ٹریننگ کرکے معاشرے کا ایک کارآمد فرد بنایا جائے۔

یہ وہ بیماری ہے کہ جو دوا سے قابلِ علاج ہے۔ اگر مریض کو دوا دی جائے تو 90 فیصد مریض دوروں سے نجات پاسکتے ہیں، اور معاشرے کا ایک عملی حصہ بن جاتے ہیں۔ فوٹو: فائل

مرگی ایک ایسا مرض ہے، جس کا نام پہلی مرتبہ میں نے آج سے کوئی 30 سال قبل اپنے بچپن میں ایک مشہور بھارتی فلم ''قلی'' کے مشہور ڈائیلاگ میں سُنا۔ جب دورہ پڑتے ہوئے شخص کو فوری حواس میں لانے کے لئے فلم کا ہیرو امیتابھ بچن کہتا ہے کہ
''مجھے تو یہ مرگی لگتی ہے، چپل سنگھاؤں کیا۔''

اور جیسے ہی وہ اپنی چپل ہاتھوں میں لیتا ہے، سامنے والے شخص کا دورہ ایک دم ختم ہوجاتا ہے۔ گوکہ فلم کے اُس سین میں مذکورہ اداکار دورے کا ڈھونگ کررہا تھا لیکن فلم میں جس برجستہ انداز سے دورے کو مرگی سے جوڑا گیا، اور سین کے دوران یہ سمجھایا گیا کہ مرگی ایک ایسا مرض ہے، جِس میں مریض کو کسی قسم کا دورہ پڑتا ہے اور اُس کے علاج کے لئے چپل سونگھانے سے وہ ٹھیک ہوسکتا ہے۔میرے لئے مِرگی کے مرض کا یہ ابتدائی سمعی و بصری علم ثابت ہوا اور گویا یہ بات ذہن میں بیٹھ گئی کہ یہ بھی ''آپا'' کا کوئی آزمودہ ٹوٹکا ہے۔

گزرتے وقت کے ساتھ مزید معلومات حاصل ہوئیں تو پتہ چلا کہ مِرگی کو اِس خطے (پاک و ہند) میں آسیب یا دیگر توہمات سے جوڑا جاتا ہے۔ اِس بیماری کے نام سے ایک خوف کا منظر بندھ جاتا ہے، کیونکہ اِس مرض میں مریض کے دوروں، جھٹکوں یا غشی کی کیفیت ہی کچھ ایسی ہوجاتی ہے۔ مریض کو جوتا یا چپل سونگھانا یا کسی اور طریقہِ علاج پر لے جانا خود مریض کے لئے تکلیف کا باعث بنتا ہے، اور اہلِ خانہ کے لئے بھی مسائل ہی جنم دیتا ہے۔ مِرگی ایک دماغی مرض ہے، جس کی کئی اقسام بھی ہیں۔ اِن کو مختلف ٹیسٹ کے ذریعہ جانا جاسکتا ہے کیونکہ ہر دورے کا علاج ہے لیکن قابلِ غور بات یہ ہے کہ ہر دورہ مرگی کا نہیں ہوتا۔

13 فروری کو پوری دنیا میں مِرگی کا دن منایا جاتا ہے اور یہ دن ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے کہنے پر اور اُن کے تعاون کے ساتھ مختلف ممالک میں نیورولوجی کی مختلف تنظیموں اور اداروں کے تحت منایا جاتا ہے، تاکہ پوری دنیا میں مرگی کے بارے میں آگہی پیدا ہو۔ اِس مرض کے بارے میں جامع تحقیقات ہوچکی ہیں اور تمام ماہرین دماغ و اعصاب اِس مرض کو قابلِ علاج قرار دے چکے ہیں۔ اس لئے ہماری بھی ذمہ داری ہے کہ ہم اِس حوالے سے آگہی و شعور پھیلائیں تاکہ ایک صحت مند معاشرہ تشکیل دیا جاسکے۔ اِس کے ساتھ ساتھ جب یہ آگہی پیدا ہو تو اِس کے نتیجے میں ایسے اقدامات کئے جائیں کہ جس میں اِس بیماری کی شرح کو قابو کیا جاسکے، جو بیماری بڑھ رہی ہے اس کو روکا جاسکے اور جن کو یہ بیماری ہے اُن کا علاج کیا جاسکے۔

لیکن ہماری بڑی بدقسمتی ہے کہ پچھلے کئی برسوں سے مِرگی کا عالمی دن منایا جاتا ہے، جس کے ضمن میں مختلف سرگرمیوں کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے۔ مفت طبی کیمپ لگتے ہیں اور دیگر آگہی کے پروگرام منعقد کئے جاتے ہیں، اِن سب کے باوجود پاکستان سوسائٹی آف نیورولوجی اور نیورولوجی اویرنیس اینڈ ریسرچ فاؤنڈیشن کی جانب سے اُن کی مختلف پریس بریفنگ میں پیش کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 20 لاکھ سے زائد مرگی کے مریض ہیں جن کو اب بھی مناسب سہولیات و علاج دستیاب نہیں ہے۔

نیورولوجی اویرنیس اینڈ ریسرچ فاؤنڈیشن کی جانب سے پاکستان میں اِس مرض کی ماہر ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے اس حوالے سے قومی گائڈ لائنز برائے مرگی بھی تیار کی ہیں جو کہ ملک بھر کے تمام جنرل پریکٹیشنز کو اِس مرض کے علاج میں ہر لحاظ سے معاونت کے لئے تیار کی گئی ہیں۔ بقائی یونیورسٹی اسپتال سے تعلق رکھنے والے بچوں اور بڑوں کے ماہر نیورولوجسٹ ڈاکٹر عارف ہریکر سے نارف کے ایک پروگرام میں کچھ بات چیت ہوئی، جس میں انہوں نے بچوں میں مرگی کے حوالے سے بتایا کہ،
''بچے کا دماغ growing brain ہے، اگر اِس وقت مرگی کے دورے بڑھتے رہیں گے تو دماغ زخمی ہوجائے گا اور معذوریت کا غالب امکان ہوگا۔ بچوں کے ساتھ ایسا ہوتا ہے تو سب سے پہلے قریبی ڈاکٹرز کے پاس لے جایا جاتا ہے، اگر اُن ڈاکٹرز کو اِس مرض سے متعلق آگاہی ہوگی تو مریض کو یا تو درست جگہ بھیجیں گے یا پھر پورے کیس کو خراب کردیں گے۔ اگر ایک مرگی کے مریض کا علاج صحیح طریقے سے ہو تو وہ اپنا نارمل لائف اسٹائل برقرار رکھ سکتا ہے۔''

آغا خان اسپتال کے شعبہ نیورولوجی کے سربراہ ڈاکٹر واسع کا پاکستان میں مسائل کے حوالے سے کہنا ہے کہ

''اِس ضمن میں حکومت کی بے حسی اہم ہے کہ جہاں اتنے بڑے پیمانے پر لوگ بیمار ہیں یا مر رہے ہیں (کیونکہ یہ بیماری مہلک بھی ثابت ہوسکتی ہے) اور حکومت کی طرف سے کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔ جتنے اقدامات متعلقہ سوسائٹیز نے تجویز کئے کہ پاکستان میں اِس بیماری کو روکنے کے لئے کیا اقدامات ہونے چاہئیں، اُن پر عمل نہیں ہوسکا۔ اہم بات یہ ہے کہ اس طرح کی تجاویز دیگر ممالک میں نافذ ہوچکی ہیں، جن میں انڈیا، بنگلہ دیش اور سری لنکا بھی شامل ہیں۔ اِن ممالک میں تو حکومت نے اِس بیماری کے لئے باقاعدہ سرکاری سطح پر ٹاسک فورس قائم کی جاچکی ہیں جس میں اِس بات کا اہتمام کیا جاتا ہے کہ بیماری کو روکنے کی کوشش کی جائے گی۔ لیکن پاکستان میں چونکہ وفاقی سطح پر وزارتِ صحت عملاً فنکشنل نہیں ہے، اس لئے کوئی اقدامات بھی نہیں کئے گئے ہیں۔''

نیورولوجی اویرنیس اینڈ ریسرچ فاؤنڈیشن کے زیرِ اہتمام ایک تقریب میں مختلف ڈاکٹرز سے یہ جانا کہ حکومت کی جانب سے سرکاری سول اسپتالوں اور ڈسٹرکٹ اسپتالوں میں ماہرین دماغ و اعصاب کی دستیابی کے لئے کوئی پالیسی نہیں بنائی گئی ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ یہ وہ بیماری ہے کہ جو دوا سے قابلِ علاج ہے۔ آپ مریض کو دوا دیں تو 90 فیصد مریض دوروں سے نجات پاسکتے ہیں، اور معاشرے کا ایک عملی حصہ بن جاتے ہیں۔

ایک طالبِ علم کو اگر مرگی کی بیماری ہے تو اِس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ جب تک دوروں کو روک نہ لیا جائے وہ طالب علم اسکول نہیں جاسکتا۔ یہ معاملہ صرف طالب علموں کو درپیش نہیں ہے بلکہ نوکری پیشہ افراد بھی روزگار پر اُس وقت تک نہیں جاسکیں گے جب تک وہ مکمل طور پر ٹھیک نہ ہوجائیں۔ جب تک معاملہ ٹھیک نہ ہوجائے، ایک اچھا خاصہ انسان بھی معاشرے کا ایک معذور فرد بن جاتا ہے، لیکن اگر آپ اُن کے دوروں کو قابو کرسکیں تو وہ معاشرے کے لیے کارآمد ثابت ہوسکتے ہیں۔

اس مرض کا شکار دنیا بھر میں خود ڈاکٹرز حضرات بھی ہیں، کئی تو پی ایچ ڈیز ہیں، انجینئرز ہیں، فیکٹریوں میں کام کرنے والے ہیں، طلبہ ہیں، گھر میں رہنے والی خواتین ہیں جو بچے پالتی ہیں۔ یہ سب اِس مرض کے ہوتے ہوئے نارمل زندگی گزار رہے ہیں، صرف اس لئے کہ ادویات کے استعمال سے انہوں نے مرگی کی بیماری کو قابو کر رکھا ہے۔

یہی نہیں دنیا کی چند معروف ہستیاں جنہیں مرگی کا مرض رہا اور وہ ادویات کے سہارے کامیاب زندگی گزارتے رہے۔ اُن میں اکیڈمی ایوارڈ ونر ہالی ووڈ اداکار ڈینی گلور، گرامی ایوارڈ ونر امریکی گلوکار پرنس، امریکی ہاکی ٹیم کے اولمپک کھلاڑی چند اگن، معروف آسٹریلین اداکار ہوگو ویون اور چھبیسویں امریکی صدر تھیوڈور روز ویلٹ نمایاں ہیں۔

حکومت کے کرنے کا دوسرا کام یہ ہے کہ مریضوں کے لئے مرگی کی دوائیاں دستیاب ہونی چاہئیں۔ کبھی کوئی دوا کم یاب ہے کبھی کوئی۔ ایک مریض کو اگر دوا میسر نہ ہو تو اُس کا سارا توازن بگڑ جاتا ہے۔ دو، تین سال دورے کنٹرول میں رہتے ہیں پھر دوبارہ شروع ہوجاتے ہیں۔ اِس لئے کہ دوا مارکیٹ سے غائب ہوجاتی ہے۔ یہ ذمہ داری ہے چاہے وہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی ہو یا حکومت، انہیں اِس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ جو زندگی بچانے والی ادویات ہیں، وہ باآسانی دستیاب ہوں۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ مرگی کے مریضوں کا نہ صرف علاج کیا جائے بلکہ اُن کی ووکیشنل ٹریننگ کرکے معاشرے کا ایک کارآمد فرد بنایا جائے، جو اپنی نجی زندگی کے ساتھ ملک کی بہتری میں بھی اپنا کردار ادا کرسکیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔
Load Next Story