کیا فرماںبردار بیٹا تھا
دوسروں کے لیے کچھ کرنا اور جی جان سے کرتے ہی چلے جانا
PESHAWAR:
دوسروں کے لیے کچھ کرنا اور جی جان سے کرتے ہی چلے جانا، ان کی ادا تھی اور بے شمار لوگ ان کی اس ادا پر فدا تھے۔ وہ اقبال کی نظم کا جگنو تھے جو اندھیری رات میں چمک کر راستہ بھٹک جانے والوں کی اپنی بساط بھر رہنمائی کرتا ہے، وہ ان کی نظم کی وہ بجلی تھے جو برسات کی اندھیری راتوں میں چمک کر لوگوں کو ایک ٹوٹی ہوئی کٹیا دکھاتی ہے جس میں انھیں پناہ مل سکتی ہو۔ وہ جگنو کی طرح چمکے اور پھر ہمارے سماج کے لیے مشرق سے طلوع ہوتا ہوا آفتاب بن گئے، جس نے ضرورت مندوں کے لیے اپنی بساط سے بڑھ کر کیا۔
نادار عورتوں کے لیے جائے امان اور ان نوزائیدہ بچوں کے لیے جھولے جنھیں غیر مطلوب کہہ کر کچرے کے ڈھیر پر پھینک دیا جاتا تھا اور کتے انھیں بھنبھوڑ ڈالتے تھے۔ بلقیس نے جھولا اسکیم شروع کی تو ان پر اور ایدھی پر کیسے کیسے الزامات نہ لگے۔ مسجدوں سے اعلان ہوا کہ ایدھی کافر ہے، اسے قتل کردو، سنگسار کردو، یہ بے حیائی کو بڑھاوا دیتا ہے۔ کوشش کے باوجود ایدھی قتل نہ کیے جاسکے، نہ کسی کی جرأت انھیں سنگسار کرنے کی ہوئی۔ لوگ ان کی جھولی بھرتے رہے اور وہ زندوں کو زندہ رکھنے کے طریقے اختیار کرتے رہے، لاوارث لاشوں کو کفن پہناتے رہے۔ بد نہادوں نے کہا ایدھی گردوں کی تجارت کرتا ہے، ایدھی مسکراتے رہے اور کام کرتے رہے۔
بی بی سی چینل فور سے عزیز دوست ششی سنگھ کا فون آیا میں کراچی پہنچ رہی ہوں۔ میرا کریو ہوٹل میں ٹھہرے گا اور میں تمہارے گھر۔ ہم ایدھی صاحب پر فلم بنانے کے لیے آرہے ہیں۔ میں نے کہا صد بسم اللہ۔ سر آنکھوں پر آؤ، ششی آئیں، وہ میرے پاس ٹھہریں، ان کا کریو آواری ہوٹل میں۔ ایدھی صاحب اور بلقیس ایدھی کی سادگی اور بے ساختگی سے وہ سب لوگ اتنے متاثر تھے کہ جس کی حد نہ حساب۔
ششی کہنے لگیں کہ ضرورت مند انسانوں کے لیے ایدھی صاحب کی دریا دلی کا ایک سبب ان کا نو مسلم گجراتی ہونا ہے۔ تم ہماری گجرات اسٹیٹ چلے جاؤ، وہاں تمہیں چھوٹے پیمانے پر سہی لیکن بہت سے لوگ آس پاس کے لوگوں کے کام آتے ملیں گے۔ اور ہندو تو اس بارے میں بہت دریا دل ہوتے ہیں۔ میں ششی سنگھ سے اختلاف کی ہمت نہ کرسکی، اس لیے کہ بٹوارے سے پہلے کے پنجاب کی بات جانے دیجیے، ہمارے سندھ میں ہندوؤں نے دان پُن کے کیسے کام کیے تھے۔ بڑے بڑے تعلیمی ادارے بنائے، اسپتال تعمیر کیے۔ ان میں مفلسوں کا علاج مفت ہوتا تھا۔ کیسے کام کرگئے یہ لوگ اور ہم ہیں کہ آج انھیں یاد رکھنے کو تیار نہیں۔ کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح ان کا نام نئی نسل کے کانوں میں نہ پڑے۔
ایدھی صاحب 1928ء میں ہندوستانی ریاست گجرات میں پیدا ہوئے۔ وہ زندگی میں جو کچھ بھی بنے، اس کا سہرا ان کی ماں کے سر جاتا ہے۔ وہ جب اسکول کے لیے روانہ ہوتے تو ان کی ماں انھیں دو پیسے دیتیں۔ ایک پیسے سے وہ چنا چاٹ، آئسکریم یا آلو چھولے کھاسکتے تھے اور دوسرا پیسہ کسی غریب، بھوکے یا فقیر کے لیے تھا۔ ایدھی نے کبھی امانت میں خیانت نہیں کی اور 11 برس کی عمر تک اپنی ماں کے دیے ہوئے دو پیسوں میں سے ایک اپنی ذات پر اور دوسرا کسی ضرورت مند پر خرچ کرتے رہے۔ وہ گیارہ برس کے تھے کہ ان کی ماں پر فالج گرا اور وہ معذور ہوگئیں اور اس عالم میں ان کا بیٹا 8 برس تک اپنی مفلوج ماں کی خدمت کرتا رہا۔
بٹوارا ہوا تو دوسروں کی طرح وہ بھی پاکستان چلے آئے۔ کراچی میں ان کی برادری کے لوگ زیادہ تھے۔ انھوں نے بھی یہیں بسیرا کیا۔ 19 برس کا ایک بے یار و مددگار لڑکا جس کے سر سے ماں کا سایہ اٹھ چکا تھا۔ ترکِ وطن نے زمین و آسمان بھی چھین لیے تھے۔ وہ ادھڑی ہوئی چپل، پیوند لگے کپڑوں میں گلی گلی آواز لگا کر کپڑے بیچتا اور کبھی آڑھت بازار میں کسی دکان پر کمیشن ایجنٹی کرتا۔ وہ جو کچھ کماتا اس میں سے اپنا خرچ نکال کر بقیہ رقم آس پاس کے ضرورت مندوں میں تقسیم کردیتا۔ یہ بات ماں نے سکھائی تھی۔
اماں نہیں رہی تھیں لیکن اماں کی بات وہ کیسے بھلا سکتا تھا۔ پرانے کراچی یا کھارا ماچھی کے دو دروازے تھے۔ ایک کھارو در کہلاتا اور ایک میٹھودر۔ ایدھی نے میٹھادر میں پڑاؤ ڈالا اور آخر وقت تک وہیں رہے۔ پاکستان کو بنے ہوئے چند برس ہوئے تھے کہ شہر کراچی میں انفلوئنزا کی وبا پھیلی اور لوگ اس وبا کے سبب مرنے لگے۔ ایدھی صاحب فٹ پاتھ پر پڑے ہوئے لوگوں کو دیکھتے جن کا کوئی پرسان حال نہیں تھا۔ انھوں نے ان لوگوں کے لیے میڈیکل کالج میں پڑھنے والے لڑکوں کے ہاتھ پیر جوڑے کہ وہ روپے لیے بغیر ان لوگوں کا علاج کریں۔
وہ زمانہ کچھ اور تھا، اس زمانے میں ڈاکٹروں میں وہ لوگ پیدا ہوتے تھے جو آگے چل کر ڈاکٹر سرور، ڈاکٹر ادیب رضوی، ڈاکٹر ہاشمی اور ایسے ہی انسان بنے جن کے دل میں انسانوں کا درد تھا اور جو خدمت خلق کو اپنا بنیادی فرض سمجھتے تھے۔ آج کا زمانہ کچھ اور ہوگیا ہے جب خوشحال گھرانوں کے ینگ ڈاکٹر اپنی مراعات اور تنخواہوں میں اضافے کے لیے ہڑتال کرتے ہیں اور غریب مریضوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے دم توڑتے دیکھتے رہتے ہیں۔
شاید ایسے ہی لوگوں کے لیے ایدھی صاحب نے کہا تھا کہ 'لوگ تعلیم یافتہ ہوگئے ہیں لیکن وہ انسان نہیں بن سکے ہیں'۔
ماں کی آواز ایدھی کے کانوں میں گونجتی تھی، انھوں نے میٹھادر کی 8 فٹ ضرب 8 فٹ کی کھولی میں اپنی مفت ڈسپنسری کھولی اور جب وہ رخصت ہوئے تو پاکستان میں خدمت خلق کا ایک ایسا منظرنامہ چھوڑ گئے جس کا ان سے پہلے کوئی تصور بھی نہیں تھا۔ ان کے زمانے میں کراچی ایسی قتل و غارت گری سے گزرا کہ شاید وباید۔ ان کی ایمبولینسیں اور انھیں چلانے والے ڈرائیور گولیوں کی بوچھاڑ میں کراچی کی تنگ گلیوں سے ہلاک اور زخمی ہونے والوں کو اٹھاتے اور جائے امان لے آتے۔ انھوں نے ہزاروں لاوارث لاشوں کو اپنے ہاتھ سے غسل دیا، انھیں کفنایا اور امانتاً دفن کردیا۔
وہ اور بلقیس کچرا کنڈیوں سے نومولود بچوں کو اٹھا کر لاتے اور انھیں مطلوب بچوں کی طرح پالتے۔ انھوں نے جھولا اسکیم شروع کی تو ہزاروں بچے موت کے منہ میں جانے سے بچے اور پھر ایسے گھروں میں پلے جو بچوں کے بغیر سونے تھے۔ ان کے یہاں سے بچے لے جانے کے خواہشمندوں کی ایک طویل قطار تھی لیکن ایدھی اور بلقیس چھان بین کے ایک طویل طریقہ کار کے بعد ان بچوں کو کسی شریف اور اولاد کو ترسے ہوئے جوڑے کے حوالے کرتے۔ اس شرط کے ساتھ کہ وہ کبھی ان بچوں کی چھان بین کے لیے نہیں آئیں گے اور نہ ان بچوں کو اپنے ماضی کے بارے میں کچھ معلوم ہونا چاہیے۔
وہ بے گھر و بے در عورتوں کے سر پر سائبان تھے، چھوٹے بچے اور بچیاں انھیں اپنا باپ سمجھتے تھے۔ ان کی 15 سو ایمبولینسیں ان دنوں میں بھی سائرن بجاتی ہوئی سڑکوں پر رواں دواں رہیں جب کراچی میں دہشتگردی اپنے عروج پر تھی اور سپریمو کے حکم کے بغیر پتہ نہیں ہلتا تھا۔
1965ء میں انھوں نے بلقیس سے شادی کی، جنھوں نے نرسنگ کی ٹریننگ لی تھی۔ بلقیس کی سہیلیاں ایدھی کو اچھی طرح جانتی تھیں کیونکہ وہ بھی نرس تھیں اور انھیں اندازہ تھا کہ یہ نوجوان کس قدر سنکی ہے۔ وہ بلقیس سے کہتیں کہ تم غلطی کررہی ہو لیکن بلقیس نے اپنی سہیلیوں کی ایک نہ سنی۔ اس شادی نے بلقیس کو جس امتحان میں ڈالا، اس کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔ ایک ایسا شوہر جس نے زندگی دو سوتی جوڑوں اور پیوند لگی ربڑ کی چپل میں گزاردی، جس نے نئی دلہن کے بھی چاؤ چونچلے نہ کیے، وہ کس قدر مشکل رہا ہوگا۔
اس کے باوجود بلقیس نے ایک پل کے لیے بھی اپنے سخت گیر اور کفایت شعار شوہر سے جھگڑا نہیں کیا۔ اسی پر خوش رہیں کہ وہ دو بیٹیوں اور دو بیٹوں کی ماں ہیں اور انھیں اس ایدھی کا اعتماد حاصل ہے جسے پاکستان میں صدر مملکت اور وزیراعظم سے زیادہ عزت و احترام حاصل ہے۔ اس کی فاؤنڈیشن کے پاس کسی وقت روپوں کی کمی ہوجائے تو وہ کراچی، لاہور یا کسی دوسرے شہر میں کسی بھی چلتی ہوئی سڑک پر جھولی پھیلا کر کھڑا ہوجاتا ہے اور اس کے دامن کو فقیر اور امیر سکوں اور نوٹوں کی گڈیوں سے بھردیتے ہیں۔ انھیں یقین ہوتا ہے کہ ان کی رقم صرف ناداروں اور غربت کے ماروں کی ضرورت پر خرچ ہوگی۔
ایدھی صاحب ہمارے درمیان سے 88 برس کی عمر میں اٹھا لیے گئے تو ان کا قومی طور پر سوگ منایا گیا، قومی پرچم سرنگوں ہوا اور وہ پاکستان کے پہلے شہری تھے جو کسی سرکاری عہدے یا منصب پر نہ ہونے کے باوجود سرکاری اعزاز کے ساتھ دفن ہوئے۔ ان کی میت توپ گاڑی پر رکھ کر ایدھی قبرستان گئی، گارڈ آف آنر اور 19 توپوں کی سلامی دی گئی۔ ان کی ماں سے یہ جاکر کون کہے کہ تم نے اپنے بیٹے کو دو پیسے دے کر یہ کہا تھا کہ اس میں سے ایک پیسا تمہارے اور دوسرا کسی ضرورت مند کے لیے ہے۔ ماں کا یہ جملہ اسے انسانی خدمت کی بلندیوں پر لے گیا۔ کیا فرماں بردار بیٹا تھا اور کیسی انسان دوست ماں تھی۔