بے توقیر ہوتا پاکستانی سینما
کسی بھی ملک کی فلمی صنعت کی ترقی یا کامیابی کا اندازہ اس ملک کے سینما گھروں کی تعداد سے کیا جاتا ہے
TURBAT:
کسی بھی ملک کی فلمی صنعت کی ترقی یا کامیابی کا اندازہ اس ملک کے سینما گھروں کی تعداد سے کیا جاتا ہے۔ جس ملک میں جس قدر زیادہ سینما گھر ہوں گے وہاں فلموں کی تیاری یا ریلیز کا تناسب بھی زیادہ ہوگا اور فلم کے معیار سے اس کے بزنس کا تعین ہوپائے گا۔ ماضی میں ہمارے ہاں بہت ہی زیادہ تعداد میں سینما گھر تھے، جن پر فلموں کی یلغار ہوتی تھی۔ سینما گھروں کے ٹکٹوں کی شرح بھی کم تھیں، فلموں کے معیار یا اس کے شوق جنوں کے باعث سینما گھروں میں ٹکٹیں ملنی محال تھیں۔
ہماری فلمیں اپنے بنانے، خریدنے اور چلانے والوں کو منافع دیتی تھیں اور اسی منافع سے فلم ٹریڈ پھل پھول رہی تھی۔ پھر اچانک فلموں کا معیار پست ہونا شروع ہوا اور فلم بزنس کا گراف نیچے آنے لگا، ستم بالائے ستم سینما ٹکٹوں کی شرح میں اضافہ کردیاگیا، فلموں کی سالانہ تعداد میں تشویشناک حد تک کمی واقع ہوگئی۔ نتیجے میں سینما مالکان نے اپنے سینما مسمار کرکے انھیںشاپنگ سینٹر اور شادی ہال میں بدلنا شروع کردیا۔ اس سارے تماشے کو ہماری حکومتیں خاموشی سے دیکھتی رہیں، نتیجے میں پاکستانی سینما بے توقیر ہوکر رہ گیا۔
فلم جس قدر موثر ذریعہ ابلاغ ہے اس طرح سینما فلمی صنعت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں نہ کبھی فلم کو اہمیت دی گئی اور نہ ہی سینماؤں کو یوں بسی بسائی صنعت برباد ہوگئی، جس سے ہزاروں افراد بے روزگار ہوگئے۔
ایسے میں چند مفاد پرست لوگوں نے بیوروکریسی میں شامل لوگوں کی مٹھی گرم کرکے بھارتی فلموں کی نمائش کا ملک میں دروازہ کھول دیا اور اسی وجہ سے کارپوریٹ سیکٹرز، ملٹی نیشنل کمپنیز نے بزنس کے طور پر ملک بھر میں ملٹی سینماؤں کا جال بچھادیا اور بعض بند پڑے سینماؤں کو جدید خطوط پر اپ ڈیٹ کرواکر اسے اون کردیا۔ لیکن یہاں بھی اس طبقے نے اپنے سرمائے کی واپسی کو فوری اور مقدم جانا، چنانچہ ان سینماؤں کے ٹکٹوں کی شرح 500، 700 اور 1000 مقرر کردی۔
اس بات سے اتفاق کیا جاسکتا ہے کہ بھارتی فلموں کی ریلیز سے فلم بینوں کو ایک چوائس حاصل ہوئی، جدید سینما گھروں کو بھی ملک میں انہی کی وجہ سے فروغ ملا، لیکن مندرجہ بالا ٹکٹوں کی شرح انتہائی زیادہ اور ظالمانہ ہونے کی وجہ سے عام فلم بین ان سینماؤں کا رخ کرنے سے گریز کرتا ہے۔ ملک میں پہلے ہی سینما گھروں کو مسمار کیے جانے سے اور چھوٹے چھوٹے گاؤں، دیہات میں سینما گھر سرے سے نہ ہونے کی وجہ سے ملک کی غالب اکثریت فلم اور سینما سے دور کردی گئی ہے۔
ہماری دانست میں سینماؤں کی ٹکٹ سو روپے یا ایک سو پچاس روپے سے ہرگز زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ غیر ملکی باکس آفس یا سینماؤں کی کارکردگی پر نگاہ کی جائے تو وہاں سینماؤں کے ٹکٹوں کی شرح مہنگائی کے باوجود کم نظر آئے گی لیکن ہمارے ہاں اس قسم کی تعمیری اور دور رس سوچ کا کبھی بھی رواج نہیں رہا۔
ایک بار گاندھی نے نہرو سے کہا تھا کہ ''اگر تم اپنی حکومت کی بقا اور لمبی عمر چاہتے ہو تو آٹے، سائیکل اور سینما کی ٹکٹوں کی قیمتیں کبھی نہ بڑھانا''۔ دیکھ لیں آج تک اس سنہری بات یا نصیحت کو بھارتی حکومت نے اپنا شعار بنا رکھا ہے۔ آج وہاں کروڑوں ڈالر سے فلمیں بنتی ہیں اور دوسرے یا تیسرے ہفتے میں ہی اپنی لاگت اپنے بنانے والوں کے ہاتھ میں رکھ دیتی ہیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہاں بہترین سینماؤں کے ٹکٹوں کی شرح کم ہے اور کروڑوں بھارتی عوام کی سب سے سستی اور سب سے پہلی تفریح سینما ہی ہے۔ وہاں 24 گھنٹے فلمیں سینماؤں میں چلتی ہیں اور لوگ اپنی پسندیدہ فلموں کی کئی کئی شو شوق سے دیکھتے ہیں۔
پاکستان میں کسی فلم پالیسی کے رائج یا نافذ نہ ہونے کی وجہ سے کبھی اس انڈسٹری کو صنعت کا درجہ حاصل نہ ہو سکا۔ پاکستانی فلموں کے زوال اور معیار اور ان کی قلیل تعداد نے درحقیقت غیر ملکی (انڈین اور انگلش) فلموں کی راہ ہموار کی ہے اور ہمارا پاکستانی سینما غیر ملکی فلموں کا محتاج ہے۔ ہماری پاکستانی فلمیں اور ان کی تعداد سالانہ تو کیا ماہانہ ضرورت پوری کرنے کی بھی اہل نہیں ہیں اور اس وجہ سے سینما کا مستقبل خطرات سے دوچار ہے۔
دنیا بھر میں کوئی بھی انڈسٹری قائم کی جاتی ہے تو اس میں استعمال ہونے والے خام مال کی دستیابی کو یقینی بنایا جاتا ہے، اس کی بنیاد پر انڈسٹری بنائی جاتی ہے۔ وطن عزیز میں پاکستانی فلموں کی عدم دستیابی اور بالخصوص بھارتی فلموں کے غیر قانونی یا غیر بھروسے پر ریلیز جدید سینماؤں کی تعمیر یا ان کا قیام ایسے میں ناقابل فہم ہی کہا جاسکتا ہے۔
مندرجہ بالا وجوہات کی بنا پر ملک بھر میں ''ملٹی پلیکس سینماؤں'' کا وجود حد درجے خسارے کا سبب بنا ہوا ہے اور تفریح مہیا کرنے والے کروڑوں روپے کے سرمائے سے بنے یہ سینما ملکی اور غیر ملکی فلموں کی عدم دستیابی کے باعث اپنے قیام پر سوالیہ نشان بنے ہوئے ہیں۔ اس وقت سو سے زائد جدید سینما جو کراچی، لاہور، اسلام آباد، راولپنڈی، فیصل آباد، کوئٹہ اور حیدرآباد وغیرہ میں واقع ہیں ان کے ساتھ ساتھ سنگل اسکرین سینما ہاؤسز بھی فلموں کے نہ ہونے سے سر جھکائے اپنے مستقبل کو رو رہے ہیں اور ان سینماؤں پر اربوں روپے کی سرمایہ کاری کرنے والے اپنے سرمائے کی بربادی پر الگ نوحہ خوانی کررہے ہیں۔
پاکستان میں نئی فلموں کی قلت بلکہ قحط اور بھارتی فلموں کی نمائش کی موثر پلاننگ نہ ہونے کی وجہ سے ملک بھر کے سینماؤں کو سناٹے کا مسکن بنادیا ہے، نتیجے میں سینما اونر کو الیکٹرک اور واٹر اینڈ سیوریج کے ساتھ ساتھ ملازمین کی تنخواہوں کے لیے رقم کی فراہمی ناممکن ہوگئی ہے، اس لیے بیشتر سینما گھر بند کردیے گئے ہیں اور باقی ماندہ سینما مالکان نے ملازمین کی تعداد میں کٹوتی کردی ہے، اکثر سینما مالکان نے ہفتے میں صرف چار دن اپنے سینما کھولنے کا فیصلہ کیا ہے۔
یاد رہے یہ وہ جدید خطوط پر استوار سینما تھے جو روزانہ صبح 10 بجے سے اگلے دن 10 بجے تک ہاؤس فل ہوتے تھے اور یومیہ ڈیڑھ درجن کے لگ بھگ فلم کے شو کرتے تھے مگر نئی بھارتی اور نئی پاکستانی فلموں کی عدم دستیابی کے باعث ان سینماؤں میں صرف دو یا تین شو کیے جارہے ہیں۔
یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ پاکستانی فلمی صنعت و تجارت کا مستقبل بغیر کسی حکومتی پالیسی کے سنور نہیں سکتا۔ پاکستان کے ویران سینماؤں میں رونقیں لانے کے لیے پہلی تجویز یہ ہے کہ پاکستان کی پرانی سپر ہٹ فلموں کو رعایتی نرخوں پر چلانے سے ویران سینماؤں کی رونقو ں کی فی الفور بحال کیا جا سکتا ہے اور فلموں پر ٹیکس کی چھوٹ کم از کم پانچ سال دے دینے سے پاکستانی فلمی صنعت و تجارت میں خوش آئند تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔
اس کے علاوہ اگر کراچی، لاہور، اسلام آباد اور سندھ کے شہروں میں زیادہ سے زیادہ سنگل اسکرین سینما بنائے جائیں اور جو سینما بند پڑے ہیں انھیں اپ ڈیٹ کرکے ان کے شرح ٹکٹ کم سے کم رکھے جائیں تو ان سے پاکستانی سینما کی سالمیت اور بقا ممکن ہوسکتی ہے، وگرنہ ماضی کی یہ منافع بخش صنعت کوئی فائدہ نہ دے سکے گی۔
پاکستان میں سینما بزنس کی تنزلی کے تناظر میں یہ ایک کڑوی حقیقت ہے کہ ہمارے فلم میکرز جو ہمیشہ سے ملک میں بھارتی فلموں کی نمائش کے مخالف رہے ہیں لیکن خود فلمیں بنانے سے گریزاں چلے آرہے ہیں۔ یہ ایک تسلیم شدہ سچائی ہے کہ آج بھی ہمارے فلم بینوں کی غالب اکثریت پاکستانی فلموں میں دلچسپی رکھتی ہے اور اس کی ''اولین پسند'' بھی پاکستانی فلم ہی ہے۔ لہٰذا ہمارے فلم میکرز کو چاہیے کہ وہ اپنے بندھے ہاتھ پاؤں کو کھولیں اور پاکستانی سینما کی بحالی کے لیے اپنے قدم اپنے گھروں اور آفسز سے باہر نکالیں، انشاء اﷲ کامیابی ان کے قدم ضرور چومے گی۔
کسی بھی ملک کی فلمی صنعت کی ترقی یا کامیابی کا اندازہ اس ملک کے سینما گھروں کی تعداد سے کیا جاتا ہے۔ جس ملک میں جس قدر زیادہ سینما گھر ہوں گے وہاں فلموں کی تیاری یا ریلیز کا تناسب بھی زیادہ ہوگا اور فلم کے معیار سے اس کے بزنس کا تعین ہوپائے گا۔ ماضی میں ہمارے ہاں بہت ہی زیادہ تعداد میں سینما گھر تھے، جن پر فلموں کی یلغار ہوتی تھی۔ سینما گھروں کے ٹکٹوں کی شرح بھی کم تھیں، فلموں کے معیار یا اس کے شوق جنوں کے باعث سینما گھروں میں ٹکٹیں ملنی محال تھیں۔
ہماری فلمیں اپنے بنانے، خریدنے اور چلانے والوں کو منافع دیتی تھیں اور اسی منافع سے فلم ٹریڈ پھل پھول رہی تھی۔ پھر اچانک فلموں کا معیار پست ہونا شروع ہوا اور فلم بزنس کا گراف نیچے آنے لگا، ستم بالائے ستم سینما ٹکٹوں کی شرح میں اضافہ کردیاگیا، فلموں کی سالانہ تعداد میں تشویشناک حد تک کمی واقع ہوگئی۔ نتیجے میں سینما مالکان نے اپنے سینما مسمار کرکے انھیںشاپنگ سینٹر اور شادی ہال میں بدلنا شروع کردیا۔ اس سارے تماشے کو ہماری حکومتیں خاموشی سے دیکھتی رہیں، نتیجے میں پاکستانی سینما بے توقیر ہوکر رہ گیا۔
فلم جس قدر موثر ذریعہ ابلاغ ہے اس طرح سینما فلمی صنعت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں نہ کبھی فلم کو اہمیت دی گئی اور نہ ہی سینماؤں کو یوں بسی بسائی صنعت برباد ہوگئی، جس سے ہزاروں افراد بے روزگار ہوگئے۔
ایسے میں چند مفاد پرست لوگوں نے بیوروکریسی میں شامل لوگوں کی مٹھی گرم کرکے بھارتی فلموں کی نمائش کا ملک میں دروازہ کھول دیا اور اسی وجہ سے کارپوریٹ سیکٹرز، ملٹی نیشنل کمپنیز نے بزنس کے طور پر ملک بھر میں ملٹی سینماؤں کا جال بچھادیا اور بعض بند پڑے سینماؤں کو جدید خطوط پر اپ ڈیٹ کرواکر اسے اون کردیا۔ لیکن یہاں بھی اس طبقے نے اپنے سرمائے کی واپسی کو فوری اور مقدم جانا، چنانچہ ان سینماؤں کے ٹکٹوں کی شرح 500، 700 اور 1000 مقرر کردی۔
اس بات سے اتفاق کیا جاسکتا ہے کہ بھارتی فلموں کی ریلیز سے فلم بینوں کو ایک چوائس حاصل ہوئی، جدید سینما گھروں کو بھی ملک میں انہی کی وجہ سے فروغ ملا، لیکن مندرجہ بالا ٹکٹوں کی شرح انتہائی زیادہ اور ظالمانہ ہونے کی وجہ سے عام فلم بین ان سینماؤں کا رخ کرنے سے گریز کرتا ہے۔ ملک میں پہلے ہی سینما گھروں کو مسمار کیے جانے سے اور چھوٹے چھوٹے گاؤں، دیہات میں سینما گھر سرے سے نہ ہونے کی وجہ سے ملک کی غالب اکثریت فلم اور سینما سے دور کردی گئی ہے۔
ہماری دانست میں سینماؤں کی ٹکٹ سو روپے یا ایک سو پچاس روپے سے ہرگز زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ غیر ملکی باکس آفس یا سینماؤں کی کارکردگی پر نگاہ کی جائے تو وہاں سینماؤں کے ٹکٹوں کی شرح مہنگائی کے باوجود کم نظر آئے گی لیکن ہمارے ہاں اس قسم کی تعمیری اور دور رس سوچ کا کبھی بھی رواج نہیں رہا۔
ایک بار گاندھی نے نہرو سے کہا تھا کہ ''اگر تم اپنی حکومت کی بقا اور لمبی عمر چاہتے ہو تو آٹے، سائیکل اور سینما کی ٹکٹوں کی قیمتیں کبھی نہ بڑھانا''۔ دیکھ لیں آج تک اس سنہری بات یا نصیحت کو بھارتی حکومت نے اپنا شعار بنا رکھا ہے۔ آج وہاں کروڑوں ڈالر سے فلمیں بنتی ہیں اور دوسرے یا تیسرے ہفتے میں ہی اپنی لاگت اپنے بنانے والوں کے ہاتھ میں رکھ دیتی ہیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہاں بہترین سینماؤں کے ٹکٹوں کی شرح کم ہے اور کروڑوں بھارتی عوام کی سب سے سستی اور سب سے پہلی تفریح سینما ہی ہے۔ وہاں 24 گھنٹے فلمیں سینماؤں میں چلتی ہیں اور لوگ اپنی پسندیدہ فلموں کی کئی کئی شو شوق سے دیکھتے ہیں۔
پاکستان میں کسی فلم پالیسی کے رائج یا نافذ نہ ہونے کی وجہ سے کبھی اس انڈسٹری کو صنعت کا درجہ حاصل نہ ہو سکا۔ پاکستانی فلموں کے زوال اور معیار اور ان کی قلیل تعداد نے درحقیقت غیر ملکی (انڈین اور انگلش) فلموں کی راہ ہموار کی ہے اور ہمارا پاکستانی سینما غیر ملکی فلموں کا محتاج ہے۔ ہماری پاکستانی فلمیں اور ان کی تعداد سالانہ تو کیا ماہانہ ضرورت پوری کرنے کی بھی اہل نہیں ہیں اور اس وجہ سے سینما کا مستقبل خطرات سے دوچار ہے۔
دنیا بھر میں کوئی بھی انڈسٹری قائم کی جاتی ہے تو اس میں استعمال ہونے والے خام مال کی دستیابی کو یقینی بنایا جاتا ہے، اس کی بنیاد پر انڈسٹری بنائی جاتی ہے۔ وطن عزیز میں پاکستانی فلموں کی عدم دستیابی اور بالخصوص بھارتی فلموں کے غیر قانونی یا غیر بھروسے پر ریلیز جدید سینماؤں کی تعمیر یا ان کا قیام ایسے میں ناقابل فہم ہی کہا جاسکتا ہے۔
مندرجہ بالا وجوہات کی بنا پر ملک بھر میں ''ملٹی پلیکس سینماؤں'' کا وجود حد درجے خسارے کا سبب بنا ہوا ہے اور تفریح مہیا کرنے والے کروڑوں روپے کے سرمائے سے بنے یہ سینما ملکی اور غیر ملکی فلموں کی عدم دستیابی کے باعث اپنے قیام پر سوالیہ نشان بنے ہوئے ہیں۔ اس وقت سو سے زائد جدید سینما جو کراچی، لاہور، اسلام آباد، راولپنڈی، فیصل آباد، کوئٹہ اور حیدرآباد وغیرہ میں واقع ہیں ان کے ساتھ ساتھ سنگل اسکرین سینما ہاؤسز بھی فلموں کے نہ ہونے سے سر جھکائے اپنے مستقبل کو رو رہے ہیں اور ان سینماؤں پر اربوں روپے کی سرمایہ کاری کرنے والے اپنے سرمائے کی بربادی پر الگ نوحہ خوانی کررہے ہیں۔
پاکستان میں نئی فلموں کی قلت بلکہ قحط اور بھارتی فلموں کی نمائش کی موثر پلاننگ نہ ہونے کی وجہ سے ملک بھر کے سینماؤں کو سناٹے کا مسکن بنادیا ہے، نتیجے میں سینما اونر کو الیکٹرک اور واٹر اینڈ سیوریج کے ساتھ ساتھ ملازمین کی تنخواہوں کے لیے رقم کی فراہمی ناممکن ہوگئی ہے، اس لیے بیشتر سینما گھر بند کردیے گئے ہیں اور باقی ماندہ سینما مالکان نے ملازمین کی تعداد میں کٹوتی کردی ہے، اکثر سینما مالکان نے ہفتے میں صرف چار دن اپنے سینما کھولنے کا فیصلہ کیا ہے۔
یاد رہے یہ وہ جدید خطوط پر استوار سینما تھے جو روزانہ صبح 10 بجے سے اگلے دن 10 بجے تک ہاؤس فل ہوتے تھے اور یومیہ ڈیڑھ درجن کے لگ بھگ فلم کے شو کرتے تھے مگر نئی بھارتی اور نئی پاکستانی فلموں کی عدم دستیابی کے باعث ان سینماؤں میں صرف دو یا تین شو کیے جارہے ہیں۔
یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ پاکستانی فلمی صنعت و تجارت کا مستقبل بغیر کسی حکومتی پالیسی کے سنور نہیں سکتا۔ پاکستان کے ویران سینماؤں میں رونقیں لانے کے لیے پہلی تجویز یہ ہے کہ پاکستان کی پرانی سپر ہٹ فلموں کو رعایتی نرخوں پر چلانے سے ویران سینماؤں کی رونقو ں کی فی الفور بحال کیا جا سکتا ہے اور فلموں پر ٹیکس کی چھوٹ کم از کم پانچ سال دے دینے سے پاکستانی فلمی صنعت و تجارت میں خوش آئند تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔
اس کے علاوہ اگر کراچی، لاہور، اسلام آباد اور سندھ کے شہروں میں زیادہ سے زیادہ سنگل اسکرین سینما بنائے جائیں اور جو سینما بند پڑے ہیں انھیں اپ ڈیٹ کرکے ان کے شرح ٹکٹ کم سے کم رکھے جائیں تو ان سے پاکستانی سینما کی سالمیت اور بقا ممکن ہوسکتی ہے، وگرنہ ماضی کی یہ منافع بخش صنعت کوئی فائدہ نہ دے سکے گی۔
پاکستان میں سینما بزنس کی تنزلی کے تناظر میں یہ ایک کڑوی حقیقت ہے کہ ہمارے فلم میکرز جو ہمیشہ سے ملک میں بھارتی فلموں کی نمائش کے مخالف رہے ہیں لیکن خود فلمیں بنانے سے گریزاں چلے آرہے ہیں۔ یہ ایک تسلیم شدہ سچائی ہے کہ آج بھی ہمارے فلم بینوں کی غالب اکثریت پاکستانی فلموں میں دلچسپی رکھتی ہے اور اس کی ''اولین پسند'' بھی پاکستانی فلم ہی ہے۔ لہٰذا ہمارے فلم میکرز کو چاہیے کہ وہ اپنے بندھے ہاتھ پاؤں کو کھولیں اور پاکستانی سینما کی بحالی کے لیے اپنے قدم اپنے گھروں اور آفسز سے باہر نکالیں، انشاء اﷲ کامیابی ان کے قدم ضرور چومے گی۔