اردو زبان تُرکوں کا ورثہ ہے
فریدہ خانم اور نورجہاں کی آواز اچھی لگتی ہے، غالب کا ترجمہ کرنا خاصا دشوار ثابت ہوا
محبت، ایک پُراسرار جذبہ، جس کی دستک انسان کو اجنبی زبانوں سے آشنا کرتی ہے، نئی زمینوں کی اُور لے جاتی ہے، وہاں آباد کرتی ہے، اپنے جیسوں سے جُوڑتی ہے۔ یہی جذبہ اردو کے عاشق، ڈاکٹر دُرمُش بُلگر کو اپنی زمین سے میلوں دُور، پاکستان کھینچ لایا۔ نئے ماحول سے ہم آہنگ ہونے کا حوصلہ دیا، جس کے پہلو میں نئے امکانات دمکتے تھے۔
استنبول یونیورسٹی کے کلیہ ادبیات سے منسلک ڈاکٹر دُرمُش بُلگر گذشتہ ایک برس سے اپنے خاندان کے ساتھ لاہور میں مقیم ہیں۔ یونیورسٹی آف پنجاب کے ''رومی چیئر برائے ترکی زبان و ثقافت'' کی ذمے داری اُن کے کاندھوں پر ہے۔ تُرکی اور اردو زبان و ادب کے درمیان پُل کا کردار ادا کرنے والے اِس مُدرس، محقق اور ادیب نے انقرہ یونیورسٹی سے برصغیر کی اسلامی و فکری تحاریک جسے دقیق موضوع پر پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔ مولانا جلال الدین رومی، مولانا مودودی اور اردو کے کلاسیکی شعرا پر کام کیا۔ لغت مرتب کی۔ اردو صرف و نحو پر قلم اٹھایا۔
2011 میں وہ ایک سال کے معاہدے پر یہاں آئے تھے۔ معاہدے میں توسیع ہوگئی ہے، اب اگلا برس بھی یہیں بیتے گا۔ رومی چیئر کی ذمے داری سنبھالنے والے، پروفیسر کے منصب پر فائز، وہ پہلے شخص ہیں۔ رومی چیئر کو قائم ہوئے تو چار برس بیت گئے ہیں، مگر حقیقی معنوں میں اِس تحقیقی ادارے نے اُن کی آمد کے بعد ہی کام شروع کیا۔ پاکستان میں تدریس کا تجربہ نیا نہیں کہ 2007 میں بھی یہاں آنا ہوا تھا۔ ایک برس تک اُنھوں نے نمل یونیورسٹی، اسلام آباد کے شعبۂ ترکی کے صدر کی حیثیت سے فرائض انجام دیے۔
دُرمش کے معنی ہیں، زندگی۔ اور بُلگر سے مراد ہے دلیا! قصۂ زندگی کچھ یوں ہے کہ اُنھوں نے 1968 میں ترکی کے جنوب مشرقی شہر، غازی عنتاب میں مقیم ایک متوسط گھرانے میں آنکھ کھولی۔ اُن کے والد، عبداﷲ قالین کی خریدوفروخت کے کاروبار سے منسلک تھے۔ ایک جانب جہاں والد کے مزاج میں شفقت نمایاں تھی، وہیں وہ سختی بھی برتتے۔ غلطیوں پر سزا ملا کرتی۔ تین بھائی، تین بہنوں میں وہ سب سے چھوٹے ہیں۔ بچپن میں شمار شرمیلے بچوں میں ہوتا تھا۔ مسکراتے ہوئے کہتے ہیں، کل کی طرح وہ آج بھی کم گو ہیں۔ کھیلوں کے میدان میں اُنھوں نے فٹ بال اور باسکٹ بال کا تجربہ کیا۔
87ء میں عنتاب کے ایک سرکاری اسکول سے بارہویں کا مرحلہ طے کرنے کے بعد انقرہ یونیورسٹی کا رخ کیا، جہاں شعبۂ اردو اُن کا منتظر تھا۔ اردو کا چنائو شعوری نہیں تھا، یہ ایک اتفاقی معاملہ تھا۔ یادیں کھنگالتے ہوئے کہتے ہیں، انگریزی ڈیپارٹمنٹ اُن کا پہلا انتخاب تھا، مگر نمبر کم ہونے کی وجہ سے وہاں داخلہ نہیں مل سکا۔ داخلہ فارم میں انتخاب کی فہرست میں شعبۂ اردو بھی لکھا تھا۔ نمبر اُسی کی مناسبت سے تھے۔ نوجوان درمُش اُس سمے اردو کی ''الف، بے'' سے بھی ناواقف تھے، یہ زبان یک سر اجنبی تھی، لیکن کیا کیجیے کہ قسمت کو یہی منظور تھا۔
اُس زمانے میں پورے ترکی میں فقط انقرہ یونیورسٹی میں اردو کا مضمون پڑھایا جاتا تھا۔ جس برس اُنھوں نے داخلہ لیا، ''بیج'' گیارہ طلبا و طالبات پر مشتمل تھا۔ تمام اساتذہ تُرک تھے، البتہ پاکستانی سفارت خانے کے پریس اتاشی کلاسیں لینے آیا کرتے تھے۔ بعد کے برسوں میں پاکستان سے وقتاً فوقتاً اساتذہ آتے رہے۔ اردو سے ابتدائی تعارف حیرتیں ساتھ لایا۔ بتاتے ہیں،''اساتذہ نے ہمیں بتایا کہ اردو تُرکوں کا ورثہ ہے۔ ہم یہ سن کر حیران رہ گئے۔ ہمارے استفسار پر اُنھوں نے بتایا کہ دسویں صدی عیسوی سے لے کر انیسویں صدی کے وسط تک برصغیر پر تُرکوں کی حکومت رہی ہے۔ ہاں، چند برس دیگر خاندانوں نے بھی حکومت کی، مگر بڑے حصے پر تُرک ہی حکم راں رہے، اور اُنھوں نے جو کچھ چھوڑا، وہ تُرکوں کا ورثہ تھا۔ اردو بھی اِس میں شامل ہے، جس پر ہمیں فخر کرنا چاہیے۔''
چار سال لگا کر اُنھوں نے بی اے آرنرز کا مرحلہ طے کیا۔ اردو کو کیریر بنا چکے تھے، سو اِسی مضمون میں ماسٹرز کا ارادہ باندھا۔ 94ء میں یہ زینہ عبور کرنے کے بعد پی ایچ ڈی کے لیے کمر کس لی۔ بہاالدین زکریا یونیورسٹی سے منسلک ڈاکٹر اے بی اشرف اُن کے سپروائزر تھے۔ 98ء میں اُنھیں پی ایچ ڈی کی ڈگری ملی۔ وہ ایک خوش گوار لمحہ تھا۔
92ء میں پیشہ ورانہ سفر کا آغاز ہوا، جو اُنھیں مولانا جلال الدین رومی کے شہر، قونیہ لے گیا، جہاں اُنھوں نے سلجُگ یونیورسٹی میں، دو برس قبل قائم ہونے والے شعبۂ اردو میں ذمے داریاں سنبھالیں۔ اگلے پندرہ برس وہاں بیتے۔ آج وہ قونیہ میں بیتے اُن پندرہ برسوں کا ذکر ایک خاص نوع کی مسرت کے ساتھ کرتے ہیں۔ اُسی زمانے میں ایک برس کے لیے نمل یونیورسٹی آنا ہوا۔ 2008 میں استنبول یونیورسٹی کا حصہ بن گئے۔ گذشتہ برس پاکستان آگئے۔
پاکستان میں قیام کا تجربہ کیسا رہا؟ اِس سوال کے جواب میں کہتے ہیں،''مشکلات تو ہوتی ہیں۔ پاکستانیوں کا اپنا انداز ہے، مگر ہم محبتوں، تاریخی رشتوں کو نظرانداز نہیں کرسکتے۔ سچ تو یہ ہے کہ محبت کی کشش ہی مجھے یہاں کھینچ لائی۔ محبت واحد شے ہے، جو ساری مشکلیں آسان کر دیتی ہے۔''
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر درمُش کہتے ہیں، ترکی کی چھے جامعات میں شعبۂ اردو قائم ہوچکے ہیں، جن میں سے تین فعال ہیں۔ ہر سال اوسطاً پچیس طلبا و طالبات شعبۂ اردو میں داخلہ لیتے ہیں۔ طالبات کی تعداد زیادہ ہوتی ہے، اور اس کا سبب وہ اردو سے جُڑے معاش کے محدود امکانات کو قرار دیتے ہیں۔
پاک و ہند میں ہونے والی ادبی سرگرمیوں کو وہ سودمند قرار دیتے ہیں۔ کہنا ہے، اُن کے مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں، اُن کے طفیل نئے آنے والوں کو قدآور شخصیات سے ملنے، اُنھیں سننے کا موقع ملتا ہے۔
اردو رسم الخط کے خاتمے پر بات ہوئی، رومن اسکرپٹ کے اطلاق کا موضوع زیر بحث آیا، تو کہنے لگے،''یہ تجربہ قابل اطلاق نہیں۔ اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ برصغیر پر انگریزوں کے تسلط کے زمانے سے یہ تحریک، کسی نہ کسی شکل میں چلی آرہی ہے۔ انگریزوں نے بھی اردو رسم الخط ختم کرنے کی کوشش کی تھی، مگر علما نے اِس اقدام کی بھرپور مخالفت کی۔ جب یہ سو سال قبل ممکن نہیں ہوسکا، تو اب اِس کا امکان کس طرح ہوسکتا ہے۔'' اس نکتے سے کمال اتاترک کے زمانے میں عثمانی ترکی رسم الخط کے خاتمے اور لاطینی رسم الخط کے اطلاق کا موضوع نکل آیا۔ اِس تعلق سے کہنے لگے،''اتاترک کے زمانے میں بہت سے علما کا سر قلم کر دیا گیا تھا۔ یہ بہت بڑا اقدام تھا، مگر آج کے ترقی یافتہ دور میں ایسا کوئی اقدام ممکن نہیں۔''
تحقیقی سفر 2005 میں اُنھیں ہندوستان لے گیا تھا۔ تین ماہ وہاں بیتے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی اور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں کام کیا۔ پاکستان اور ہندوستان کی ادبی سرگرمیوں کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے کہتے ہیں،''شاید پاکستان میں زیادہ کام ہورہا ہوں، مگر زبان کی شیرینی جو ہندوستان میں ہے، وہ پاکستان میں کم ہی نظر آتی ہے۔ ہاں، کراچی میں وہ رنگ نظر آتا ہے، جس کا میں نے دہلی میں تجربہ کیا۔'' اردو کا مستقبل اُنھیں روشن نظر آتا ہے، البتہ اپنے پاکستانی بھائیوں سے یہ درخواست ضرور کرتے ہیں کہ اردو بولتے ہوئے انگریزی الفاظ کے استعمال سے اجتناب برتیں کہ اِس سے زبان کی شیرینی اور خالص پن متاثر ہوتا ہے۔
تراجم پر بات نکلی، تو کہنے لگے، اردو زبان ترکوں کے لیے یک سر اجنبی ہے، ترجمہ ہی واحد وسیلہ ہے، جس کی مدد سے اُنھیں اردو زبان اور اِس میں تخلیق ہونے والے ادب سے متعارف کروایا جاسکتا ہے، مگر بدقسمتی سے اس ضمن میں زیادہ کام نہیں ہوا۔ ''ترجمے کے ذریعے ہم اردو کے ورثے کو ترکی میں منتقل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، مگر ابھی بہت کام باقی ہے۔ اچھے طالب علم کم ہی ملتے ہیں، مگر ہم کوشش کر رہے ہیں۔''
ترک ادیب، اورخان پامک کو ملنے والے نوبیل انعام کا موضوع نکلا، تو کہنے لگے،''میں نے اُن کے زیادہ ناول نہیں پڑھے، مگر میں اُنھیں سراہتا ہوں۔ اُنھوں نے ترکوں اور کردوں کے مسئلے پر جب پہلی بار بات کی، تو خاصا سخت ردعمل آیا، مگر جسارت کے ساتھ اِس مسئلے کو عوام کے سامنے اجاگر کرنے کے طفیل ہی شاید آج اِس ضمن میں کام ہورہا ہے۔'' کہنا ہے، ماضی میں ہمیشہ کردوں کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے ترک حکومت نے عسکری حکمت عملی اپنائی، جس کے مثبت نتائج سامنے نہیں آئے، مگر اب سیاسی حکمت عملی کے نتائج سامنے آرہے ہیں۔
ترکی کی موجودہ حکومت پر اُنھیں اعتماد ہے۔ عدالت و ترقی پارٹی، اور وزیراعظم، رجب طیب اردوغان کو سراہتے ہیں۔ کہنا ہے،''کچھ دہشت گرد ہیں، جن کا مقصد ترکی کو تقسیم کرنا ہے۔ مگر تقسیم سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ اُن دہشت گردوں کو بیرون طاقتوں کی حمایت بھی حاصل ہے، البتہ مجھے امید ہے کہ جلد یہ مسئلہ حل ہوجائے گا۔''
94ء میں اُن کی شادی ہوئی۔ خدا نے دو بیٹوں، دو بیٹیوں سے نوازا۔ زوجہ تو اردو جانتی ہیں کہ وہ انقرہ یونیورسٹی میں اردو کی طالبہ رہیں۔ بچے بھی یہاں آکر تھوڑی بہت اردو سیکھ گئے ہیں۔ اردو شاعری کے میدان میں دُرمش صاحب کو میردرد، اقبال اور حسرت موہانی پسند ہیں۔ غالب کا ذکر بھی آتا ہے۔ کہنا ہے، غالب کے کلام کا تُرکی میں ترجمہ کرنا خاصا دشوار ثابت ہوا، تشریح کی مدد سے اُن کے اشعار سمجھے۔ اردو فکشن کا مطالعہ زیادہ نہیں کیا۔ گائیکی میں فریدہ خانم اور نورجہاں کی آواز اچھی لگتی ہے۔ یش چوپڑا کی فلم ''ویرزارا'' بہت پسند ہے۔ امیتابھ بچن کی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔ بتاتے ہیں، ترکی میں ہندوستانی فلمیں شوق سے دیکھی جاتی ہیں، وہاں امیتابھ بچن، شاہ رخ خان اور ایشوریا رائے بہت مقبول ہیں۔ خواہش ہے کہ پاکستان اور ترکی کے تعلقات مضبوط ہوں۔
استنبول یونیورسٹی کے کلیہ ادبیات سے منسلک ڈاکٹر دُرمُش بُلگر گذشتہ ایک برس سے اپنے خاندان کے ساتھ لاہور میں مقیم ہیں۔ یونیورسٹی آف پنجاب کے ''رومی چیئر برائے ترکی زبان و ثقافت'' کی ذمے داری اُن کے کاندھوں پر ہے۔ تُرکی اور اردو زبان و ادب کے درمیان پُل کا کردار ادا کرنے والے اِس مُدرس، محقق اور ادیب نے انقرہ یونیورسٹی سے برصغیر کی اسلامی و فکری تحاریک جسے دقیق موضوع پر پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔ مولانا جلال الدین رومی، مولانا مودودی اور اردو کے کلاسیکی شعرا پر کام کیا۔ لغت مرتب کی۔ اردو صرف و نحو پر قلم اٹھایا۔
2011 میں وہ ایک سال کے معاہدے پر یہاں آئے تھے۔ معاہدے میں توسیع ہوگئی ہے، اب اگلا برس بھی یہیں بیتے گا۔ رومی چیئر کی ذمے داری سنبھالنے والے، پروفیسر کے منصب پر فائز، وہ پہلے شخص ہیں۔ رومی چیئر کو قائم ہوئے تو چار برس بیت گئے ہیں، مگر حقیقی معنوں میں اِس تحقیقی ادارے نے اُن کی آمد کے بعد ہی کام شروع کیا۔ پاکستان میں تدریس کا تجربہ نیا نہیں کہ 2007 میں بھی یہاں آنا ہوا تھا۔ ایک برس تک اُنھوں نے نمل یونیورسٹی، اسلام آباد کے شعبۂ ترکی کے صدر کی حیثیت سے فرائض انجام دیے۔
دُرمش کے معنی ہیں، زندگی۔ اور بُلگر سے مراد ہے دلیا! قصۂ زندگی کچھ یوں ہے کہ اُنھوں نے 1968 میں ترکی کے جنوب مشرقی شہر، غازی عنتاب میں مقیم ایک متوسط گھرانے میں آنکھ کھولی۔ اُن کے والد، عبداﷲ قالین کی خریدوفروخت کے کاروبار سے منسلک تھے۔ ایک جانب جہاں والد کے مزاج میں شفقت نمایاں تھی، وہیں وہ سختی بھی برتتے۔ غلطیوں پر سزا ملا کرتی۔ تین بھائی، تین بہنوں میں وہ سب سے چھوٹے ہیں۔ بچپن میں شمار شرمیلے بچوں میں ہوتا تھا۔ مسکراتے ہوئے کہتے ہیں، کل کی طرح وہ آج بھی کم گو ہیں۔ کھیلوں کے میدان میں اُنھوں نے فٹ بال اور باسکٹ بال کا تجربہ کیا۔
87ء میں عنتاب کے ایک سرکاری اسکول سے بارہویں کا مرحلہ طے کرنے کے بعد انقرہ یونیورسٹی کا رخ کیا، جہاں شعبۂ اردو اُن کا منتظر تھا۔ اردو کا چنائو شعوری نہیں تھا، یہ ایک اتفاقی معاملہ تھا۔ یادیں کھنگالتے ہوئے کہتے ہیں، انگریزی ڈیپارٹمنٹ اُن کا پہلا انتخاب تھا، مگر نمبر کم ہونے کی وجہ سے وہاں داخلہ نہیں مل سکا۔ داخلہ فارم میں انتخاب کی فہرست میں شعبۂ اردو بھی لکھا تھا۔ نمبر اُسی کی مناسبت سے تھے۔ نوجوان درمُش اُس سمے اردو کی ''الف، بے'' سے بھی ناواقف تھے، یہ زبان یک سر اجنبی تھی، لیکن کیا کیجیے کہ قسمت کو یہی منظور تھا۔
اُس زمانے میں پورے ترکی میں فقط انقرہ یونیورسٹی میں اردو کا مضمون پڑھایا جاتا تھا۔ جس برس اُنھوں نے داخلہ لیا، ''بیج'' گیارہ طلبا و طالبات پر مشتمل تھا۔ تمام اساتذہ تُرک تھے، البتہ پاکستانی سفارت خانے کے پریس اتاشی کلاسیں لینے آیا کرتے تھے۔ بعد کے برسوں میں پاکستان سے وقتاً فوقتاً اساتذہ آتے رہے۔ اردو سے ابتدائی تعارف حیرتیں ساتھ لایا۔ بتاتے ہیں،''اساتذہ نے ہمیں بتایا کہ اردو تُرکوں کا ورثہ ہے۔ ہم یہ سن کر حیران رہ گئے۔ ہمارے استفسار پر اُنھوں نے بتایا کہ دسویں صدی عیسوی سے لے کر انیسویں صدی کے وسط تک برصغیر پر تُرکوں کی حکومت رہی ہے۔ ہاں، چند برس دیگر خاندانوں نے بھی حکومت کی، مگر بڑے حصے پر تُرک ہی حکم راں رہے، اور اُنھوں نے جو کچھ چھوڑا، وہ تُرکوں کا ورثہ تھا۔ اردو بھی اِس میں شامل ہے، جس پر ہمیں فخر کرنا چاہیے۔''
چار سال لگا کر اُنھوں نے بی اے آرنرز کا مرحلہ طے کیا۔ اردو کو کیریر بنا چکے تھے، سو اِسی مضمون میں ماسٹرز کا ارادہ باندھا۔ 94ء میں یہ زینہ عبور کرنے کے بعد پی ایچ ڈی کے لیے کمر کس لی۔ بہاالدین زکریا یونیورسٹی سے منسلک ڈاکٹر اے بی اشرف اُن کے سپروائزر تھے۔ 98ء میں اُنھیں پی ایچ ڈی کی ڈگری ملی۔ وہ ایک خوش گوار لمحہ تھا۔
92ء میں پیشہ ورانہ سفر کا آغاز ہوا، جو اُنھیں مولانا جلال الدین رومی کے شہر، قونیہ لے گیا، جہاں اُنھوں نے سلجُگ یونیورسٹی میں، دو برس قبل قائم ہونے والے شعبۂ اردو میں ذمے داریاں سنبھالیں۔ اگلے پندرہ برس وہاں بیتے۔ آج وہ قونیہ میں بیتے اُن پندرہ برسوں کا ذکر ایک خاص نوع کی مسرت کے ساتھ کرتے ہیں۔ اُسی زمانے میں ایک برس کے لیے نمل یونیورسٹی آنا ہوا۔ 2008 میں استنبول یونیورسٹی کا حصہ بن گئے۔ گذشتہ برس پاکستان آگئے۔
پاکستان میں قیام کا تجربہ کیسا رہا؟ اِس سوال کے جواب میں کہتے ہیں،''مشکلات تو ہوتی ہیں۔ پاکستانیوں کا اپنا انداز ہے، مگر ہم محبتوں، تاریخی رشتوں کو نظرانداز نہیں کرسکتے۔ سچ تو یہ ہے کہ محبت کی کشش ہی مجھے یہاں کھینچ لائی۔ محبت واحد شے ہے، جو ساری مشکلیں آسان کر دیتی ہے۔''
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر درمُش کہتے ہیں، ترکی کی چھے جامعات میں شعبۂ اردو قائم ہوچکے ہیں، جن میں سے تین فعال ہیں۔ ہر سال اوسطاً پچیس طلبا و طالبات شعبۂ اردو میں داخلہ لیتے ہیں۔ طالبات کی تعداد زیادہ ہوتی ہے، اور اس کا سبب وہ اردو سے جُڑے معاش کے محدود امکانات کو قرار دیتے ہیں۔
پاک و ہند میں ہونے والی ادبی سرگرمیوں کو وہ سودمند قرار دیتے ہیں۔ کہنا ہے، اُن کے مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں، اُن کے طفیل نئے آنے والوں کو قدآور شخصیات سے ملنے، اُنھیں سننے کا موقع ملتا ہے۔
اردو رسم الخط کے خاتمے پر بات ہوئی، رومن اسکرپٹ کے اطلاق کا موضوع زیر بحث آیا، تو کہنے لگے،''یہ تجربہ قابل اطلاق نہیں۔ اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ برصغیر پر انگریزوں کے تسلط کے زمانے سے یہ تحریک، کسی نہ کسی شکل میں چلی آرہی ہے۔ انگریزوں نے بھی اردو رسم الخط ختم کرنے کی کوشش کی تھی، مگر علما نے اِس اقدام کی بھرپور مخالفت کی۔ جب یہ سو سال قبل ممکن نہیں ہوسکا، تو اب اِس کا امکان کس طرح ہوسکتا ہے۔'' اس نکتے سے کمال اتاترک کے زمانے میں عثمانی ترکی رسم الخط کے خاتمے اور لاطینی رسم الخط کے اطلاق کا موضوع نکل آیا۔ اِس تعلق سے کہنے لگے،''اتاترک کے زمانے میں بہت سے علما کا سر قلم کر دیا گیا تھا۔ یہ بہت بڑا اقدام تھا، مگر آج کے ترقی یافتہ دور میں ایسا کوئی اقدام ممکن نہیں۔''
تحقیقی سفر 2005 میں اُنھیں ہندوستان لے گیا تھا۔ تین ماہ وہاں بیتے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی اور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں کام کیا۔ پاکستان اور ہندوستان کی ادبی سرگرمیوں کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے کہتے ہیں،''شاید پاکستان میں زیادہ کام ہورہا ہوں، مگر زبان کی شیرینی جو ہندوستان میں ہے، وہ پاکستان میں کم ہی نظر آتی ہے۔ ہاں، کراچی میں وہ رنگ نظر آتا ہے، جس کا میں نے دہلی میں تجربہ کیا۔'' اردو کا مستقبل اُنھیں روشن نظر آتا ہے، البتہ اپنے پاکستانی بھائیوں سے یہ درخواست ضرور کرتے ہیں کہ اردو بولتے ہوئے انگریزی الفاظ کے استعمال سے اجتناب برتیں کہ اِس سے زبان کی شیرینی اور خالص پن متاثر ہوتا ہے۔
تراجم پر بات نکلی، تو کہنے لگے، اردو زبان ترکوں کے لیے یک سر اجنبی ہے، ترجمہ ہی واحد وسیلہ ہے، جس کی مدد سے اُنھیں اردو زبان اور اِس میں تخلیق ہونے والے ادب سے متعارف کروایا جاسکتا ہے، مگر بدقسمتی سے اس ضمن میں زیادہ کام نہیں ہوا۔ ''ترجمے کے ذریعے ہم اردو کے ورثے کو ترکی میں منتقل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، مگر ابھی بہت کام باقی ہے۔ اچھے طالب علم کم ہی ملتے ہیں، مگر ہم کوشش کر رہے ہیں۔''
ترک ادیب، اورخان پامک کو ملنے والے نوبیل انعام کا موضوع نکلا، تو کہنے لگے،''میں نے اُن کے زیادہ ناول نہیں پڑھے، مگر میں اُنھیں سراہتا ہوں۔ اُنھوں نے ترکوں اور کردوں کے مسئلے پر جب پہلی بار بات کی، تو خاصا سخت ردعمل آیا، مگر جسارت کے ساتھ اِس مسئلے کو عوام کے سامنے اجاگر کرنے کے طفیل ہی شاید آج اِس ضمن میں کام ہورہا ہے۔'' کہنا ہے، ماضی میں ہمیشہ کردوں کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے ترک حکومت نے عسکری حکمت عملی اپنائی، جس کے مثبت نتائج سامنے نہیں آئے، مگر اب سیاسی حکمت عملی کے نتائج سامنے آرہے ہیں۔
ترکی کی موجودہ حکومت پر اُنھیں اعتماد ہے۔ عدالت و ترقی پارٹی، اور وزیراعظم، رجب طیب اردوغان کو سراہتے ہیں۔ کہنا ہے،''کچھ دہشت گرد ہیں، جن کا مقصد ترکی کو تقسیم کرنا ہے۔ مگر تقسیم سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ اُن دہشت گردوں کو بیرون طاقتوں کی حمایت بھی حاصل ہے، البتہ مجھے امید ہے کہ جلد یہ مسئلہ حل ہوجائے گا۔''
94ء میں اُن کی شادی ہوئی۔ خدا نے دو بیٹوں، دو بیٹیوں سے نوازا۔ زوجہ تو اردو جانتی ہیں کہ وہ انقرہ یونیورسٹی میں اردو کی طالبہ رہیں۔ بچے بھی یہاں آکر تھوڑی بہت اردو سیکھ گئے ہیں۔ اردو شاعری کے میدان میں دُرمش صاحب کو میردرد، اقبال اور حسرت موہانی پسند ہیں۔ غالب کا ذکر بھی آتا ہے۔ کہنا ہے، غالب کے کلام کا تُرکی میں ترجمہ کرنا خاصا دشوار ثابت ہوا، تشریح کی مدد سے اُن کے اشعار سمجھے۔ اردو فکشن کا مطالعہ زیادہ نہیں کیا۔ گائیکی میں فریدہ خانم اور نورجہاں کی آواز اچھی لگتی ہے۔ یش چوپڑا کی فلم ''ویرزارا'' بہت پسند ہے۔ امیتابھ بچن کی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔ بتاتے ہیں، ترکی میں ہندوستانی فلمیں شوق سے دیکھی جاتی ہیں، وہاں امیتابھ بچن، شاہ رخ خان اور ایشوریا رائے بہت مقبول ہیں۔ خواہش ہے کہ پاکستان اور ترکی کے تعلقات مضبوط ہوں۔