سارک ممالک معاشی اہداف پر نظر رکھیں

دل کی کشادگی کا حوالہ بھی سارک ممالک اور خاص طور پر پاک بھارت تعلقات میں برف پگھلنے کا ایک بلیغ اشارہ ہے۔


Editorial January 09, 2013
اگر سارک ممالک یورپی ممالک کی طرح اپنے اختلافات اور تنازعات مذاکرات کے ذریعے حل کرکے وسائل عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کریں تو یہ خطہ دنیا کا ترقی یافتہ ترین علاقہ بن سکتا ہے۔ فوٹو: فائل

وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے کہا ہے کہ ہمیں اپنے تنازعات کے حل کے لیے کھلے دل اور اخلاص نیت کے ساتھ آگے بڑھنا ہو گا۔ جب دل کھل جاتے ہیں تو بارڈرز کی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی، ہم سارک ممالک کے درمیان روابط کو مستحکم بنانے اور تجارت کے فروغ کے خواہاں ہیں۔ بڑھتی ہوئی آبادی اس خطے کے ممالک کے لیے چیلنج بن چکی ہے جو وسائل کھا رہی ہے۔ خطے کے عوام صحت اور تعلیم جیسی بنیادی ضروریات سے محروم ہیں۔

ان تمام مسائل کے حل کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے، کھیل، سیاحت، تعلیم، ثقافت کے فروغ اور غربت کے خاتمے سمیت ایسے بہت سے معاملات میں سارک کے رکن ممالک میں رابطہ بڑھایا جا سکتا ہے۔ ہم سارک کو دنیا کی دیگر ایسی علاقائی تنظیموں کے مقابلے میں زیادہ موثر بنانے کے خواہاں ہیں۔ خطے کے ممالک نے تنگ نظری کا مظاہرہ کیا تو تاریخ معاف نہیں کریگی، جنوبی ایشیا کے عوام کے اجتماعی مفاد کو کسی ایک ملک کی خواہش پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ ہمیں اپنی خوشی اور خوشحالی ہمسایوں کے ساتھ بانٹنا ہو گی۔ وہ گورنر ہائوس لاہور میں سیفما کے زیر اہتمام تقریب سے بطور مہمان خصوصی خطاب کر رہے تھے۔

جنوبی ایشیا اور سارک ممالک کی اقتصادی صورتحال اور انسانی وسائل کے وسیع تر استفادے کے قومی اہداف کو پیش نظر رکھئے تو وزیر اعظم کی باتیں نہ صرف فکر انگیزی کا پہلو رکھتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں بلکہ معاشی ترقی اور جمہوری ایجنڈے کے اشتراک عمل کی ایک خواہش بھی اس گفتگو میں پنہاں ہے۔ دل کی کشادگی کا حوالہ بھی سارک ممالک اور خاص طور پر پاک بھارت تعلقات میں برف پگھلنے کا ایک بلیغ اشارہ ہے۔ چنانچہ اس حقیقت کا اعتراف کیے بغیر نہیں رہا جا سکتا کہ آج خطے میں معاشی بحرانوں کے خاتمے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ ممالک اپنے وسائل عوام کی فلاح و بہبود کے منصوبوں کی تکمیل میں خرچ کریں، بین الملکی نقل و حمل اور رکن ممالک کے شہریوں کی آزادانہ آمد و رفت یقینی بنائی جائے تو تہذیبی، سیاسی، ثقافتی اور جغرافیائی فاصلے مٹ سکتے ہیں اور سارک ممالک میں اجتماعیت اور کثیر الجہتی اشتراک عمل اور امن و ترقی کے امکانات روشن تر ہوں گے۔

اس ضمن میں صحافیوں پر ایک دوسرے کے ملک میں آنے جانے پر پابندیوں کے خاتمے کی تجویز بلاشبہ وزیر اعظم نے بروقت دی ہے تاہم ان کا یہ مشورہ درست ہے کہ اس کے لیے ان ممالک کے صحافیوں کو چاہیے کہ وہ اپنی اپنی حکومتوں کے ساتھ مل کر کوئی لائحہ عمل تیار کریں۔ اہل صحافت اور ادیبوں کو سارک ممالک کے عوام کی حالت کا بخوبی اندازہ ہے، وہ تاریخ، جغرافیہ، اقتصادیات اور سیاست کے تناظر میں خطے کے رازدان کہلا سکتے ہیں، اور اطلاعات کی ترسیل اور زمینی حقائق سے عوام کو روشناس کرانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ پاکستان کو دہشت گردی کا چیلنج درپیش ہے، پاکستان حالت جنگ میں ہے اس لیے ہمیں اپنے ہمسایوں کے دکھ سکھ میں حصہ دار بننا چاہیے۔ یہ کہہ کر وزیر اعظم نے اہل وطن کے جذبوں کی عکاسی کی ہے۔

اپنے خطاب میں انھوں نے یہ پیشکش بھی کی کہ وہ سارک ممالک کے صحافیوں کے لیے ویزا پابندیاں ختم کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ رکن ممالک میں آزادانہ اختلاط، انسانی رابطہ، ثقافتی وفود کے تبادلے، اطلاعات اور خبروں کی ترسیل کے حوالے سے پاکستان ایک بنیادی تبدیلی کا خواہاں ہے تاکہ خطے میں دوستی، یگانگت اور امن کے قیام کے لیے مستقبل پر نگاہیں مرکوز کیے ہوئے اہداف کی طرف گرم سفر رہا جائے۔ وزیر اعظم نے یہی انداز فکر صدارت کا دوبارہ منصب سنبھالنے پر امریکی صدر بارک اوباما کے نام تہنیتی پیغام میں بھی پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہم امریکی صدر اور ان کی نئی انتظامیہ کے ساتھ کام کے تسلسل کے لیے آگے کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ اہم معاملات پر امریکا کے ساتھ اسٹرٹیجک تعلقات میں پیشرفت چاہتے ہیں۔

وفاقی وزیر داخلہ رحمٰن ملک کا بیان سامنے آیا ہے جس میں انھوں نے کہا کہ حکومت کی کوشش ہے کہ صوبہ سندھ کے لوگوں کو بھارتی ویز ے کے حصول میں آسانی ہو اور انھیں کراچی میں ہی یہ سہولت مل سکے۔ ادھر سیفما کے زیراہتمام میڈیا کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کو مسئلہ کشمیر سمیت تمام مسائل مذاکرات کے ذریعے حل کرنا ہونگے۔ نواز شریف نے کہا کہ بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے سے باہمی تجارت کو فروغ ملے گا، توانائی کے شعبے میں تعاون تمام سارک ممالک کے لیے اولین ترجیح ہونا چاہیے اور اس معاملے پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

کیونکہ توانائی کے بحران پر قابو پائے بغیر نہ تو معاشی استحکام یقینی بنایا جا سکتا ہے اور نہ ہی علاقائی تعاون کے بغیر توانائی سے مالا مال وسط ایشیائی ریاستوں تک رسائی ممکن ہے، سارک میں شامل چھوٹے ممالک کی سوچ اس حد تک غلط نہیں کہ پاکستان اور بھارت کی باہمی مسائل حل کرنے میں ناکامی کی وجہ سے سارک کے بہت سے کامیاب اقدامات پر عمل نہیں ہو سکا۔ جب کہ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے سائوتھ ایشین فری میڈیا ایسوسی ایشن (سیفما) کے ارکان کے اعزاز میں منعقدہ تقریب کے دوران اپنی تقریر میں انتہائی مدلل انداز میں سارک ممالک کے باہمی تنازعات کے حل کے لیے ٹھوس تجاویز پیش کیں جسے سیفما کے ارکان نے بہت سراہا، وزیر اعلیٰ کے مطابق سارک ممالک کو اپنے مسائل اور تنازعات کے حل کے لیے یورپی یونین کا ماڈل اپنا کر آگے بڑھنا ہو گا۔

اگر سارک ممالک یورپی ممالک کی طرح اپنے اختلافات اور تنازعات مذاکرات کے ذریعے حل کرکے وسائل عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کریں تو یہ خطہ دنیا کا ترقی یافتہ ترین علاقہ بن سکتا ہے۔بلاشبہ ارباب اختیار نے متذکرہ بالا ارشادات میں بعض اہم حقائق کی طرف توجہ دلائی ہے۔ جنوبی ایشیا کے ملکوں کو اپنے معاشی اہداف، انفرااسٹرکچر، مانیٹری اور سماجی پالیسیوں میں عوامی فلاح و بہبود کو مد نظر رکھتے ہوئے اشتراک عمل کو یقینی بنانا چاہیے۔ گلوبل ولیج میں مالیاتی معاونت، بینکاری کے فروغ، دوطرفہ تجارت کے بغیر اقتصادی ترقی دشوار ہو گی، سارک ممالک کو ایک متحرک، پائیدار، مثالی اور نتیجہ خیز میکنزم وضع کرنے کی ضرورت ہے جس کے ذریعے انسانی وسائل اور افرادی قوت کے بہتر استعمال سے سماجی کایا پلٹ ممکن ہو سکے۔

اس مقصد کے تحت یہ ممالک تھنک ٹینک قائم کریں، غربت کے خاتمہ اور جنگ سے نفرت کا ایک نکاتی ایجنڈا تیار کریں۔ جنوبی ایشیا کو قدرت نے وسائل کے بے پناہ خزانے مہیا کیے ہیں، ان سے موثر استفادہ اصل شرط ہے۔ عالمی آزاد منڈی کے اتار چڑھائو سے جڑے رہتے ہوئے سارک ممالک اپنے اقتصادی ماڈلز تیار کریں تو یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ ترقی سب کا مقدر ہو گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں