پاکستان سپر لیگ کا دوسرا ایڈیشن پشاور زلمی کے نام 

ڈیرن سیمی کو مین آف دی میچ جب کہ کامران اکمل کو مین آف دی ٹورنامنٹ کا ایوارڈ دیا گیا۔

ڈیرن سیمی کو مین آف دی میچ جب کہ کامران اکمل کو مین آف دی ٹورنامنٹ کا ایوارڈ دیا گیا۔ فوٹو: سوشل میڈیا

پاکستان سپر لیگ کے دوسرے ایڈیشن کے فائنل میں پشاور زلمی نے کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کو آؤٹ کلاس کرتے ہوئے ٹائٹل اپنے نام کرلیا۔

قذافی اسٹیڈیم لاہور میں کھیلے گئے پاکستان سپرلیگ کے سب سے بڑے معرکے میں پشاور زلمی نے پہلے کھیلتے ہوئے مقررہ 20 اوورز میں 6 وکٹوں کےنقصان پر 148 رنز بنائے جس کے جواب میں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز صرف 90 رنز تک محدود رہی اور یوں انہیں 58 رنز سے شکست ہوئی۔



کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی جانب سے احمد شہزاد اور مورنے وین نے اننگز کا آغاز کیا تو دوسرے ہی اوور میں مورنے وین ایک رن بنا کر آؤٹ ہوگئے جس کے بعد انعام الحق تیسرے نمبر پر بیٹنگ کے لیے آئے لیکن وہ بھی صرف 3 رنز پر پویلین واپس لوٹ گئے تاہم کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی مشکلات میں اس وقت اضافہ ہوا جب پانچویں اوور میں حسن علی کی گیند پر زوردار شارٹ مارنے کے چکر میں گیند فضاؤں میں بلند کردی جسے فیلڈر نے آسانی سے پکڑ کر احمد شہزاد کی اننگز کا خاتمہ کردیا، وہ صرف ایک رن بناسکے۔ کپتان سرفراز احمد اچھے موڈ میں دکھائی دے رہے تھے اور انہوں نے 11 گیندوں پر 22 رنز کی جارحانہ اننگز کھیلی لیکن محمد حفیظ کو آگے بڑھ کر کھیلنا انہیں مہنگا پڑگیا اور وہ کامران اکمل کے ہاتھوں اسٹمپ آؤٹ ہوگئے۔



وہاب ریاض نے 4 رنز بنانے والے سعد نسیم کی اننگز کا خاتمہ کرکے کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی رہی سہی امید بھی ختم کردی جب کہ سین ایروین کی ہمت بھی 24 رنز پر جواب دے گئی وہ محمد اصغر کا شکار بنے اور اگلی ہی گیند پر محمد نواز کو بھی واپس پویلین بھیج دیا یوں ان کے پاس پی ایس ایل کی ہیٹرک کرنے کا نادر موقع تھا لیکن ایمرٹ نے ان کی پہلی گیند روک کر محمد اصغر کو یہ موقع نہ دیا۔ انور علی بھی وکٹ پر موجود رہے لیکن تمام تر کوششوں کے باوجود وہ کوئی بڑی ہٹ لگانے میں ناکام رہے اور 24 گیندوں پر 20 رنز کی اننگز کھیل کر جورڈن کا شکار بنے۔ پشاور زلمی کی جانب سے محمد اصغر نے 3 ، حسن علی اور وہاب ریاض 2،2 جب کہ محمد حفیظ اور کرس جورڈن نے ایک ایک کھلاڑی کو آؤٹ کیا۔

ڈیرن سیمی کو جارحانہ اننگز کھیلنے پر مین آف دی میچ کا ایوارڈ دیا گیا تاہم ایوارڈز کا میلا ٹورنامنٹ میں زبردست کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے کامران اکمل نے لوٹ لیا، انہیں ٹورنامنٹ کے بہترین کھلاڑی اور بہترین بلے باز کا ایوارڈ دیا گیا جب کہ سب سے زیادہ وکٹیں حاصل کرنے پر کراچی کنگز کے سہیل خان کو ٹورنامنٹ کے بہترین بولر کا ایوارڈ ملا۔






اس سے قبل کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے کپتان سرفراز احمد نے ٹاس جیت کر پہلے ڈیرن سیمی الیون کو بیٹنگ کی دعوت دی تو پشاور زلمی کی جانب سے کامران اکمل اور ڈیوڈ مالان نے اننگز کا آغاز کیا، پہلے ہی اوور میں کامران اکمل نے 3 شاندار چوکے لگاتے ہوئے 12 رنز بنائے جب کہ دوسرے اوور میں ڈیوڈ ملان نے ایک چھکے اور ایک چوکے کی مدد سے 16 رنز بٹورے۔ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے بولر ایمرٹ نے اپنی شاندار بولنگ سے پشاور کے دونوں اوپنرز کو پریشان کیے رکھا اور آخرکار ڈیوڈ ملان کو 17 رنز پر بولڈ کرکے پہلی کامیابی حاصل کی۔ گلیڈی ایٹرز کے بولرز نے زلمی کے بیٹسمنوں کو 9 اوورز تک کھل کر کھیلنے کا موقع نہ دیا تاہم 10ویں اوور میں کامران اکمل اور مارلن سیموئلز نے حسن خان کے اوور میں 18 رنز بٹورے لیکن انہوں نے اوور کی آخری گیند پر کامران اکمل کو آؤٹ کردیا، انہوں نے 40 رنز کی اننگز کھیلی۔



11ویں اوور کی پہلی ہی گیند پر محمد نواز نے سیموئلز کو 19 رنز پر بولڈ کرکے زلمی کی مشکلات میں مزید اضافہ کیا جس کے بعد خوشدل شاہ اور محمد حفیظ بیٹنگ کیلیے آئے، حسن علی نے اگلے ہی اوور میں خوشدل شاہ کو صرف ایک رنز پر پویلین واپس بھیجا تو شاہد آفریدی کی جگہ ٹیم میں شامل کیے جانے والے افتخار احمد بیٹنگ کے لیے آئے لیکن تمام تر کوششوں کے باوجود وہ بڑے شارٹس لگانے میں ناکام رہے جس کی بدولت ابتدائی اوور میں اچھا آغاز کرنے کے باوجود پشاور زلمی بڑا اسکور کرنے میں ناکامی رہی جب کہ ایمرٹ نے پہلے محمد حفیظ کو 12 رنز پر آؤٹ کیا اور اگلی ہی گیند پر افتخار احمد کو بھی پویلین واپس بھیج دیا، انہوں نے 21 گیندوں پر 14 رنز بنائے۔ زلمی کے کپتان ڈیرن سیمی نےاختتامی لمحات میں 11 گیندوں پر 28 رنز کی اننگز کھیلی جس کی بدولت پشاور کوئٹہ کو 149 رنز کا ہدف دینے میں کامیاب رہی۔ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی جانب سے ریاد ایمرٹ نے 3، حسن علی 2 اور محمد نواز نے ایک وکٹ حاصل کی۔

قذافی اسٹیڈیم لاہور میں میچ سے قبل رنگا رنگ تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں نامور گلوکاروں نے فن کا شاندار مظاہرہ کیا اور شائقین کے دل موہ لیے، تقریب کے دوران اسٹیڈیم پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونجتا رہا جبکہ شائقین کرکٹ کا جوش وخروش دیدنی تھا۔ اسٹیڈیم کو دلہن کی طرح سجایا گیا تھا۔ اختتامی تقریب کی میزبانی کے فرائض احمد بٹ اور عائشہ عمر نے انجام دیے۔ تقریب کیلیے خصوصی طور پر اسٹیج بنایا گیا تھا جس میں20 فٹ اونچا بلا، 15فٹ اونچی وکٹیں اور بہت بڑی گیند بھی رکھی گئیں تھی، اسٹیڈیم تماشائیوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا،27ہزار کے قریب گنجائش والے اسٹیڈیم میں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔



نامور گلوکار علی ظفر نے پی ایس ایل کا ترانہ '' اب کھیل جمے گا'' گا کر تقریب میں رنگ بکھیرنے کا سلسلہ شروع کیا ، علی عظمت، علی ظفر کے بعد فاخر، فرہاد ہمایوں اور دیگر فنکاروں اور گلوکاروں نے فن کا مظاہرہ کر کے شائقین سے بھر پور داد وصول کی۔ پشاور زلمی کے کپتان ڈیرن سیمی فرہاد ہمایوں کے گانے پر جھومتے رہے،حسن علی اور کامران اکمل نے بھی ان کا ساتھ دیا۔اس موقع پر ڈھول بجانے کے فن کا بھی مظاہرہ کیا گیا۔ گلوکاروں کی شاندار پرفارمنس کے بعد دونوں ٹیموں کے کھلاڑی گراؤنڈ میں آئے اور ہاتھ ہلا کر شائقین کرکٹ کے نعروں کا جواب دیا۔ کھلاڑیوں نے مداحوں کے ساتھ سیلفیاں بھی بنوائیں۔ تیسرے پلے آف میں زخمی ہونے والے شاہد آفریدی گراؤنڈ میں پہنچے تو پورا گراؤنڈ ''لالہ لالہ'' کے نعروں سے گونج اٹھا۔

پاکستان سپر لیگ کے چیئرمین نجم سیٹھی نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ زندہ دلان لاہور، زندہ دلان پاکستان آپ کا بہت بہت شکریہ، آپ نے ہماری حوصلہ افزائی کی، پاکستان کی کرکٹ، پی ایس ایل آپ کا اثاثہ ہے،اگر آپ کی حمایت حاصل نہ ہوتی تو شاید پی ایس ایل کے فائنل کا میلہ یہاں نہ سج سکتا،آج پوری دنیا دیکھ رہی ہے کہ پاکستانی مہذب اور پر امن لوگ ہیں۔ ہمیں کرکٹ کھیلنی بھی اور کھلانی بھی آتی ہے،آج اس ایونٹ میں آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور چاروں صوبوں سے شائقین کرکٹ آئے ہوئے ہیں اور انھوں نے بتا دیا ہے کہ ہم کسی کے آگے سر نہیں جھکائیں گے،ہمارے پاس ایسی قوت ہے کہ ہم کچھ بھی کر سکتے ہیں، پاکستان کے لوگ کرکٹ سے اور ہم عوام سے پیار کرتے ہیں،میں سب سے پہلے پی سی بی اور پی ایس ایل کی انتظامیہ کا شکریہ ادا کرتا ہوں جن کی پورا سال کی انتھک محنت سے ہم اس ایونٹ کے لاہور میں انعقاد میں کامیاب ہو سکے ہیں،میں پنجاب کی انتظامیہ کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنھوں نے اس کی کامیابی کے لیے دن رات ایک کیا۔



قبل ازیں پاکستان بھر سے شائقین کی بڑی تعداد پی ایس ایل کا فائنل دیکھنے کیلیے لاہور پہنچی، میزبان لاہور کے علاوہ کراچی، پشاور، کوئٹہ، اسلام آباد، فیصل آباد، سیالکوٹ سمیت ملک کے مختلف شہروں سے تماشائیوں کی آمد کا سلسلہ رات کو ہی شروع ہوگیا تھا، ان میں سے کئی میچ کے روز بلیک میں ٹکٹ حاصل کرنے کی آس لیے قذافی اسٹیڈیم کی جانب آئے لیکن انہیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑا، واک تھرو گیٹس کے قریب بار بار اعلان کیا جاتا رہا کہ جن کے پاس ٹکٹ یا شناختی کارڈ نہیں، یہاں سے دور چلے جائیں۔ 3 بجے قذافی اسٹیڈیم کے دروازے کھلتے ہی پرجوش شائقین کرکٹ نے شور کر کے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ شائقین میں بچوں اورخواتین کی بڑی تعداد بھی شامل تھی۔ شائقین اپنے چہروں پر پینٹنگ بنواتے رہے۔
Load Next Story