تاریخی مواقع

قومی سلامتی کے اداروں نے جو کچھ بتایا اس کے بارے میں کوئی ٹھوس اور سنجیدہ سوالات بھی نہ اٹھائے جاسکے ۔

nusrat.javeed@gmail.com

ہماری اپنے تئیں خود مختار بنی بیٹھی پارلیمان کی قومی سلامتی کے بارے میں بنائی گئی کمیٹی میں کافی تجربہ کار،زیرک اور ذہین سیاستدان بیٹھے ہوئے ہیں ۔سینیٹر رضا ربانی اس کمیٹی کے سربراہ ہیں ۔وہ ایک نیک نام آدمی ہیں جو بہت خلوص اور ایمان داری کے ساتھ صاف ستھری اور اصولی سیاست کی ایک توانا علامت ہیں ۔ان باتوں کا اعتراف کرنے کے بعد میں یہ لکھنے پر مجبور ہو رہا ہوں کہ اس کمیٹی نے قومی سلامتی کے اداروں کو ایک تازہ ترین خط لکھ کر درحقیقت اپنی بے بسی کو مکمل طورپر بے نقاب کردیا ہے ۔

2008ء کے انتخابات کے بعد ہمارے سیاستدانوں نے تمام ریاستی معاملات اور خاص طور پر سیکیورٹی اور دوسرے ملکوں سے تعلقات سے متعلقہ امور کی رہ نمائی اور نگہبانی کرنے کا عہد کیا تھا ۔مگر یوسف رضا گیلانی کے وزیر اعظم بن جانے کے بعد سوات میں جاری شورش کا علاج ڈھونڈنے کے لیے جو اجلاس بلایا گیا اس کے اختتام پر ایک باقاعدہ اعلامیہ جاری ہوا۔اس اجلاس میں وزیر اعظم بھی موجود تھے اور نواز شریف بھی ۔

ان دونوں کے ہوتے ہوئے بھی جو اعلامیہ جاری ہوا اس میں پاکستان کی فوج اور اس کے سربراہ کو کل اختیار دے دیا گیا کہ وہ سوات کے معاملات سلجھانے کے لیے جو چاہیں حکمت عملی تیار کریں۔ صاف الفاظ میں اس بات کا ایک حوالے سے اعتراف کرلیا گیا کہ ہمارے سیاستدان محض بیان بازی کرسکتے ہیں ۔ان کے پاس بڑی سوچ بچار کے بعد تیار کیے کوئی ایسے نسخے موجود نہیں ہیں جو جنرل ضیاء اور مشرف کے دور میں بنائی پالیسیوں کا مثبت اور قابلِ عمل متبادل ثابت ہوسکیں۔اس اعتراف کے بعد پارلیمان کی قومی سلامتی کے امور کے بارے میں کمیٹی بنانے کی کوئی ضرورت ہی نہ تھی ۔خاص طور پر اس تناظر میں بھی کہ منتخب اداروں کی متعدد بار متفقہ طورپر منظور کی گئی قراردادوں کے باوجود ڈرون حملے ابھی تک جاری ہیں۔

2مئی 2012ء کی رات ایبٹ آباد آپریشن کے ذریعے اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد ہمارے منتخب حکمرانوں کو قومی سلامتی کے امور کا تفصیلی جائزہ لینے کا ایک تاریخی موقعہ ملا تھا ۔یہ جائزہ لیتے ہوئے قومی سلامتی والی کمیٹی صحیح معنوں میں خود مختار اور بااختیار بنتی نظر آسکتی تھی۔ مگر کچھ بھی نہ ہوا۔ پارلیمان کے بند اجلاس میں تقریریں ہوئیں ۔قومی سلامتی کے اداروں نے جو کچھ بتایا اس کے بارے میں کوئی ٹھوس اور سنجیدہ سوالات بھی نہ اٹھائے جاسکے ۔


ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پارلیمان کی ایک کمیٹی خود پر یہ ذمے داری لیتی کہ کم ازکم اس سوال کا جواب ڈھونڈ لیا جائے کہ کیوں اور کس طرح ایک دو ماہ نہیں پورے پانچ سال تک اسامہ ایبٹ آباد کے ایک محل نما مکان میں اپنے بیوی اور بچوں کے ساتھ بڑے اطمینان سے موجود رہا اور ہمارے کسی بھی ادارے کو کبھی اس کی موجودگی کی بھنک تک محسوس نہ ہوئی ۔اس معاملے پر ازخود تھوڑی جانفشانی کے ساتھ تحقیق اور تفتیش کرنے کے بجائے ہمارے ''خود مختار منتخب اداروں'' میں بیٹھے لوگوں نے باقاعدہ قرارداد کے ذریعے درخواست کی کہ جسٹس جاوید اقبال کی سربراہی میں بنی ایک کمیٹی اسامہ والے قصے کا جائزہ لے ۔

تاریخ نے ایک اور موقع اسی کمیٹی کو سلالہ والے واقعے کے بعد بھی دیا ۔اپنے فوجیوں کی شہادت کے بعد ہم نے احتجاجاً پاکستانی راستوں سے افغانستان میں مقیم غیر ملکی افواج کو پہنچائے جانے والی رسد پر پابندی لگا دی تھی ۔فیصلہ ہوا کہ قومی سلامتی والی کمیٹی میں موجود سیانے سرجوڑ کر بیٹھیں اور پاکستانی فوج اور وزارت خارجہ کو بتائیں کہ امریکا کے ساتھ تعلقات کے ضمن میں کون سے نئے راستے نکالے جائیں ۔کئی طویل اجلاسوں کے بعد اس کمیٹی نے جو سفارشات مرتب کیں وہ سراسر بڑھکوں اور نعرہ بازی پر مشتمل تھیں ۔

پاکستان جیسے کمزور معیشت والے ملک کی بہت مجبوریاں ہوتی ہیں ۔ان مجبوریوں کا قابل عمل علاج ڈھونڈنے کے ساتھ ساتھ سیاسی رہ نمائوں کو بہت سارے تخلیقی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہوتی ہے جو امریکی رعونت والی سپرطاقت کے ساتھ معاملہ کرتے ہوئے قومی مفاد کا تحفظ بھی کرسکے ۔یہ سب کچھ نہ ہوسکا۔ بالآخر ڈاکٹر حفیظ شیخ سے درخواست کرنا پڑی کہ وہ اپنے ورلڈ بینک کے دنوں بنائے گئے تعلقات کے ذریعے امریکی انتظامیہ سے بات چیت کریں ۔

قومی سلامتی والی کمیٹی تو رہی ایک طرف ،شیخ صاحب وزارتِ خارجہ سے بھی بالا بالا امریکنوں سے یہ مذاکرات کرتے رہے۔سات مہینے امریکی رسد بند کردینے کے بعد بھی ہمیں واشنگٹن سے ایک رسمی اور کمزور معذرت کا صرف اظہار ملا۔ہم نے افغانستان جانے والی رسد کھول دی اور Coalition Support Fundکے روکے ہوئے بلوں کی ادائیگی کا انتظار کرنا شروع ہوگئے۔ ہماری سرکار کو پورا یقین تھا کہ رسد کھول دینے کے بعد اس کو واشنگٹن سے تقریباً ڈیڑھ ارب ڈالر مل جائیں گے ۔وہ اس رقم کا وافر حصہ بجلی پیدا کرنے والوں کا قرضہ اتارنے میں خرچ کردینے کے بعد لوڈشیڈنگ کا مسئلہ حل کردے گی اور اسی بنیاد پر آیندہ انتخاب بھی جیت جائے گی ۔ایسا نہیں ہوسکا ۔

مگر اب قومی سلامتی والی کمیٹی نے متعلقہ ریاستی اداروں کو یہ چٹھی لکھ دی ہے کہ وہ پاکستان میں گرفتار طالبان کو رہا کیوں کررہے ہیں ۔یہ چٹھی لکھتے ہوئے ہماری قومی سلامتی والی کمیٹی میں بیٹھے بڑے زیرک اور تجربہ کار سیاستدان یہ بات بھی بھول گئے کہ انھوں نے خود ہی ریاستی اداروں کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے تمام تر مناسب اقدامات اٹھائے ۔کچھ طالبان کی رہائی اسی سمت میں ایک ٹھوس پیش رفت ہے ۔اب اس کے نتائج کا انتظار کرنا ہوگا ۔قومی سلامتی کی کمیٹی والے یہ انتظار کریں اور آیندہ انتخابات کی تیاری ۔انھوں نے ریاستی معاملات اور خاص طورپر سیکیورٹی اور دوسرے ملکوں سے تعلقات سے متعلقہ امور کی رہ نمائی اور نگہبانی کرنے کے بہت سارے تاریخی مواقعے کھودیے ہیں اور گیا وقت دوبارہ ہاتھ نہیں آیا کرتا ۔
Load Next Story