کس شیخ کی آمد ہے کہ…

حکومت کی معیاد ختم ہونے میں تقریباً ڈھائی مہینے رہ گئے ہیں، یہ ٹائم پاس کرنے کے لیے ہوتا ہے کسی مہم جوئی کا نہیں۔

جبار جعفر

سوال یہ ہے کہ اگر ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام کی 98 فیصد اکثریت غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھتی ہے تو پھر ان کی نمایندگی کرنے والے دو فیصد جاگیرداروں کی اکثریت اسمبلیوں میں کیسے پہنچ رہی ہے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا یہ بلٹ کے زور پر منتخب ہو رہے ہیں یا بیلٹ کے ذریعے؟ اگر یہ ووٹ لے کر منتخب ہو رہے ہیں، بار بار منتخب ہو رہے ہیں، 65 سال سے منتخب ہو رہے ہیں، نسل در نسل منتخب ہو رہے ہیں تو قصوروار کون ہے؟ منتخب ہونے والے یا انتخابی نظام؟

تیسرا سوال یہ ہے کہ اگر جاری انتخابی نظام کے تحت وہی چند حکمران خاندان عوام کے سروں پر مسلط رہنے ہیں، 65 سال پہلے کے دادا سے لے کر آج کے پوتے تک، تو الیکشن کمیشن اور انتخابات کے انعقاد پر اربوں روپے خرچ کرنے کے بجائے کیوں نہ انتخابات بذریعہ قرعہ اندازی کروائے جائیں؟ چوتھا سوال یہ ہے کہ ایسے بوگس انتخابی نظام میں بنیادی تبدیلی اور آئین کے آرٹیکل 62، 63 کے مطابق عبوری حکومت کی تشکیل (جس میں عدلیہ اور فوج کی بھی مشاورت شامل ہو) کا مطالبہ کرنے والا فرد سازشی یا غیر ملکی ایجنٹ کیسے ہوا؟
شیخ الاسلام مولانا طاہر القادری کی اچانک پاکستان آمد، اس کے بعد ان کے بیانات، تقاریر سننے کے بعد ان کے عزائم کا جو نقشہ ذہن میں ابھرتا ہے وہ درج ذیل ہے۔

(1)۔ جاری حکومت کے پانچ سالہ دور اقتدار کے کامیاب اختتام پر (جس میں ڈھائی مہینے باقی ہیں) نئے انتخابات کے لیے جو عبوری حکومت تشکیل دی جائے وہ آئین کے آرٹیکل 62، 63 کی روح کے مطابق ہو۔ جس میں دیگر اسٹیک ہولڈر عدلیہ اور فوج کی بھی مشاورت شامل ہو۔

(2)۔ شفاف انتخابات کے لیے صرف غیر متنازعہ چیف الیکشن کمشنر ہی کافی نہیں ہے بلکہ اس کے پاس اصلاحات، ترمیم اور سزا دینے کے اختیارات بھی ہوں۔

مطلوبہ عبوری حکومت کی تشکیل کے لیے 10 جنوری تک وقت دیا گیا ہے جس کے بعد اگر مطالبہ پورا نہ ہوا تو 14 جنوری کو اسلام آباد تک لانگ مارچ کی دھمکی دی گئی ہے، اس گارنٹی کے ساتھ کہ احتجاج کے دوران اسلام آباد کی ایک کھڑکی کا شیشہ تک نہیں ٹوٹے گا اور نہ درخت کا ایک پتہ۔


طاہر القادری اپنے عزائم کے بارے میں مزید فرماتے ہیں (1)۔ ان کو سیاست سے دلچسپی نہیں وہ صرف ریاست بچانا چاہتے ہیں۔ (2)۔ انھیں عبوری وزیر اعظم بننے کی ضرورت ہے نہ خواہش۔ (3)۔ وہ غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے عوامی نمایندوں کو اسمبلیوں میں دیکھنا چاہتے ہیں تا کہ عوام دوست قانون سازی ہو۔(4)۔ وہ صرف عوامی فلاح و بہبود کی بات کرتے ہیں ذاتی مفاد کی نہیں۔ وہ ملک سے استحصالی نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہتے ہیں تا کہ ملک سے انارکی اور کرپشن کا خاتمہ ہو اور آئین کی بالا دستی اور قانون کی حکمرانی قائم ہو، وغیرہ وغیرہ۔

میدان سیاست میں نو واردوں کے مینار پاکستان پر تابڑ توڑ جلسوں میں عوام کی ریکارڈ توڑ حاضری سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ عوام تبدیلی کے لیے پاگل ہو رہے ہیں۔ ایسے میں پرانے راگ الاپنے اور پھٹے ہوئے ڈھول پیٹنے کا فائدہ؟ پاکستان کا ہر سیاستدان جب برسراقتدار ہو تو محب وطن اور محروم اقتدار ہو تو غدار وطن رہ چکا ہے۔ کیا اب بھی بیرونی ایجنٹ ہونے کے الزامات، غداری کے سرٹیفکیٹ اور سازشوں کے طعنوں سے کام چلایا جائے گا؟جب کہ آج فوج بھی اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ ملک دشمن باہر نہیں ملک کے اندر ہیں ۔ پاکستان کے حالات بد سے بدتر تو ہو چکے، مزید ''بدتری'' کی گنجائش ہی کہاں ہے، جو مولانا قادری بگاڑ لیں گے؟ اب اگر کچھ ہوا تو وہ بہتر ہی ہو سکتا ہے۔ ویسے پاکستان میں کون سی دودھ شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں؟ عرصہ ہوا راوی چین ہی چین لکھتا تھا اب تو کچھ بھی نہیں لکھتا۔ اللہ نہ کرے کہیں فاقوں سے۔۔۔۔۔!

اب رہا مولانا طاہر القادری کی پاکستان آمد کی ٹائمنگ کا سوال تو میری نظر آج سے بہتر وقت ایک مہینہ پہلے تھا نہ ایک مہینہ بعد ہوتا، کیسے؟

(1)۔ حکومت کی معیاد ختم ہونے میں تقریباً ڈھائی مہینے رہ گئے ہیں، یہ ٹائم پاس کرنے کے لیے ہوتا ہے کسی مہم جوئی کا نہیں۔ ساری توجہ آنے والے انتخابات کی تیاری پر ہوتی ہے۔(2)۔ حکومت کو اس وقت حلیفوں کے جانے کا خوف ہوتا ہے نہ حزب اختلاف کے شور غوغے کا۔ (3)۔ حکومت کو طاہر القادری سے بھی کوئی خطرہ نہیں ہے کیونکہ ان کا مسئلہ ''پوتر عبوری حکومت'' ہے نہ کہ جاری حکومت۔ (4)۔ طاہر القادری کو بھی اس وقت جاگیردار اشرافیہ سے خطرہ نہیں ہے کیونکہ جاگیرداروں کی پہلی ترجیح آنے والے الیکشن کی تیاری، جوڑ توڑ، سیٹ ایڈجسٹمنٹ، برادران سے مک مکا ہے۔ نہ کہ طاہر القادری۔ (5)۔ البتہ ساری سیاسی پارٹیوں کا ایک ہی مشترکہ دغدغہ ہو گا کہ اگر خدانخواستہ لانگ مارچ کے نتیجے میں الیکشن ملتوی ہو گئے تو لاکھوں نہیں کروڑوں کا نقصان اٹھانا پڑے گا، اس لیے ہر پارٹی الیکشن کے انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے آخری وقت تک شور شرابے، دھونس دھمکی سے کام لیتی رہے گی۔

اس وقت طاہر القادری کے مطالبے سے نمٹنے کی ساری ذمے داری پیپلز پارٹی پر عائد ہوتی ہے۔ طاہر القادری اٹھارہ کروڑ عوام کی فلاح و بہبود کی بات کرتے ہیں، پیپلز پارٹی بھی عوامی جماعت ہونے کی دعویدار ہے۔ پی پی پی کے سامنے دو آپشن ہیں۔ اول مطالبات کو سنجیدہ لے اور مذاکرات کے ذریعے اس کا کوئی قابل قبول حل نکالے۔ مطالبے میں صرف ایک ہی اہم رکاوٹ ہے یعنی نئی عبوری حکومت کی تشکیل میں عدلیہ اور فوج کی مشاورت بھی شامل کرنا۔ جب کہ حکومت قانوناً اس کی پابند نہیں ہے۔ لیکن قانوناً منع بھی نہیں ہے۔ حکومت کی صوابدید پر منحصر ہے کہ اگر وہ چاہے تو ملک اور عوام کے مفاد میں وسیع مشاورت کی خاطر عدلیہ اور فوج کو بھی شامل کرے۔ عوامی ریلیف کے تعلق سے پی پی پی اپنی پچھلی کوتاہیوں کے باوجود دوبارہ اپنے ووٹروں کے آگے سرخرو ہو جائے گی۔

دوسرا آپشن یہ ہے کہ پی پی پی ڈٹ جائے۔ اور روایتی ہتھکنڈے استعمال کر کے مثلاً طاہر القادری کو نظربند کر کے، دوسرے صوبوں کے قافلوں کو پنجاب کی سرحد پر، پنجاب کے قافلوں کو اسلام آباد کے باہر روک کر، اہم راستوں پر رکاوٹیں کھڑی کر کے بڑی کامیابی کے ساتھ اس سرد ترین موسم میں لانگ مارچ کو ناکام بنا دیتی ہے۔ ساتھ ساتھ عدلیہ اور فوج کو چھوڑ کر تمام سیاسی پارٹیوں کی مشاورت سے عبوری حکومت بنا کر جتنا جلد ممکن ہو انتخابات کرا دیتی ہے۔ یہ اقدام زیادہ رسکی ہو گا۔ کیونکہ انتخابات کے نتائج آتے ہی تمام الیکشن میں ہار جانے والی سیاسی پارٹیاں اور شخصیات دھاندلی کا شور مچاتی ہوئی طاہر القادری کی چھتری تلے جمع ہو جائیں گی، کیونکہ:

پاکستان میں ایک سیٹ پر آٹھ امیدوار انتخاب لڑتے ہیں ایک کامیاب ہوتا ہے (جیساکہ ساری دنیا میں ہوتا ہے) اور سات امیدواروں کے خلاف دھاندلی ہوتی ہے (جیساکہ دنیا میں نہیں ہوتا) مجال ہے جو ایک بھی امیدوار اپنی ہار تسلیم کر لے، (جیسا کہ پاکستان کی روایت ہے
Load Next Story