آگے کون
خواتین بھی اسٹیج پر آ کر کبھی لباس کی ڈیزائننگ کا اور کبھی حسن کا مقابلہ کرتی ہیں۔
پنجاب میں مختلف بچوں کے درمیان مقابلہ ہوا، چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کا مقابلہ، ان کی خوب صورتی، ذہانت اور صحت کا مقابلہ۔ گجرات کا پانچ سالہ موسیٰ یہ مقابلہ جیت گیا۔ بقر عید کے موقعے پر گائے، بکروں اور دنبوں کے درمیان مقابلہ ہوتا ہے۔ ان کے وزن اور خوبصورتی کا مقابلہ۔ یہ بچے اور جانور بے زبان ہوتے ہیں، انھیں مقابلے کے بارے میں کچھ نہیں معلوم ہوتا۔
انھیں میدان میں اتارنے والے کوئی اور ہوتے ہیں۔ انھیں تیاری کروانے والے اور ان پر انعام جیتنے والے وہ خود نہیں بلکہ کوئی اور ہوتے ہیں۔ وہ بے خبر ہوتے ہیں کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ دنیا مقابلے سے بھری پڑی ہے۔ ہر جگہ اور ہر مقام پر مقابلہ۔ ہر جگہ معصوم بچے اور بے زبان جانور سامنے نہیں ہوتے بلکہ تیاری کرنے والے سامنے آنے والے اور انعام جیتنے والے ایک ہی ہوتے ہیں۔ کبھی کوئی آگے نکل جاتا ہے اور کبھی آگے کوئی اور ہوتا ہے۔
خواتین بھی اسٹیج پر آ کر کبھی لباس کی ڈیزائننگ کا اور کبھی حسن کا مقابلہ کرتی ہیں۔ مرد بھی کئی مقابلوں میں ایک دوسرے کے مقابل ہوتے ہیں۔ کہیں باڈی بلڈنگ کا مقابلہ ہوتا ہے تو کہیں ویٹ لفٹنگ کا۔ کھیل، کاروبار، سیاست، تعلیم، پروفیشن اور میدان جنگ، ہر جگہ ایک جنگ ہے، مقابلوں کی اور موازنوں کی۔ آگے نکل جانے والے کی دنیا قدر کرتی ہے اور پیچھے رہ جانے والوں کو بھول جاتی ہے۔ اسی کا نام دنیا ہے اور اسی کا نام کائنات ہے۔ ہر فرد کی کائنات یہی ہے کہ وہ مقابلہ جیتے، ہر میدان میں ہر وقت کوئی ایک فاتح نہیں ہوتا۔ جیت اور ہار ان مقابلوں کا دستور ہے۔
یوں کبھی کوئی آگے نکل جاتا ہے تو کہیں کوئی اور آگے ہوتا ہے۔ دولت، عزت، شہرت اور اقتدار کے لیے مقابلے سب سے بڑھ کر ہوتے ہیں۔ دولت مختلف ذرایع سے کمائی جاتی ہے۔ کاروبار سے، بینکاری سے، جاب سے، ایجاد سے، کھیل سے، پروفیشن سے، سیاست سے، ہنر سے اور فنکاری سے۔ عزت و شہرت سے بھی دولت کمائی جا سکتی ہے۔ اگر کسی کا نام ہو جائے معیار کا تو وہ اسی نام کے سبب دولت کماتا ہے لیکن ہمیشگی کسی میں نہیں، اس میں اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں۔ بڑی بڑی سلطنت کے شہزادوں کے ہاتھوں میں کشکول دیکھے گئے ہیں۔ بڑے بڑے بادشاہ بھیک کے کٹورے تھامے کبھی زندگی کی تو کبھی امن کی بھیک مانگتے دیکھتے گئے ہیں۔ اکیسویں صدی میں صدام اور قذافی کے خاندانوں کا انجام اب تک کے پورے کالم کا احاطہ کرتا ہے۔
میٹرک میں فرسٹ ڈویژن لینے والے بارہویں میں سیکنڈ اور بمشکل تھرڈ ڈویژن میں گریجویشن کرتے دیکھے گئے ہیں۔ پرائمری سے میٹرک تک آہستہ آہستہ چلنے والے اور مشکل سے پاس ہونے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ بنے ہیں۔ مختلف ایجادات کرنے والے اپنے ابتدائی تعلیمی دور میں کند ذہن اور جانوروں کے مقابلے سے ہوتا ہوا مردوں اور عورتوں کے مختلف مقابلوں سے گزر کر زندگی کے اتار چڑھاؤ بیان کر چکا ہے۔ اب تک ہم یہ طے کر چکے ہیں کہ ہم نہ غرور کریں اور نہ مایوس ہوں گے۔ اگر وقت کے اس لمحے میں کامیابی آپ کا مقدر ہے تو یہ ہمیشہ نہیں رہے گی۔
اگر آپ فی الحال بظاہر ناکامی محسوس کر رہے ہیں تو جدوجہد کیجیے۔ نہ وہ دن رہے ہیں نہ وہ دن رہیں گے۔ چند ماہ بعد موسم بدل جاتا ہے۔ ہر سال کیلنڈر بدل جاتا ہے۔ حکمران تبدیل ہو جاتے ہیں، سپر پاورز دنیا کے سامنے ناک رگڑنے پر مجبور ہوتی ہیں تو آپ کا اور ہمارا کیسا غرور اور کیسی مایوسی؟
فلموں میں بچوں کا کردار ادا کرنے والے اداکاروں کو کبھی دیکھا ہے؟ وہ بڑے ہو کر دلیپ کمار، امیتابھ، محمد علی، وحید مراد، ندیم اور شاہ رخ خان بن کر سامنے کیوں نہیں آتے؟ اگر بچپن میں کارکردگی اتنی شاندار ہوتی ہے کہ اپنی معصوم اداکاری سے بڑے بڑوں کو رلا دیتے ہیں پھر بڑے ہو کر یہ صلاحیت کہاں چلی جاتی ہے؟
ایم کیو ایم کے خلاف 92ء میں آپریشن ہوا۔ ان کے ایک کونسلر اظہر غیور ایڈووکیٹ ہمارے دوست ہیں جو وہ چھپتے پھر رہے تھے۔ ایک موقعے پر اظہر نے مایوسی سے کہا کہ:
آپ شادی شدہ اور بال بچوں والے ہیں اور وکالت میں مصروف ہیں۔ میں در بدر اور مارا مارا پھر رہا ہوں، ایک سال بعد اس دوست کی شادی ہوئی اور 94ء میں وہ ایک بیٹی کے باپ بن گئے۔ کچھ عرصے بعد وہ امریکا چلے گئے۔ وقت کا پہیہ آگے بڑھا اور نئی صدی کا آٹھواں سال شروع ہوا۔
اظہر کی 14 سالہ بیٹی کی منگنی ہوئی یوں وہ سسر بن گئے۔ ہال میں عشائیے کے بعد دوست کو ماضی کی ان کی مایوسی یاد دلائی کہ اس وقت آپ کہہ رہے تھے کہ میں پیچھے رہ گیا ہوں اور سب ساتھی آگے، اب آپ تو سسر بن گئے جب کہ کئی اب تک اس اعزاز سے محروم ہیں۔ کون کس وقت آگے ہوتا ہے اور کون پیچھے؟ یہ کوئی نہیں کہہ سکتا۔ یہ صرف سماجی زندگی میں نہیں ہوتا بلکہ دولت کی دنیا میں بھی اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے اور اقتدار کے ایوانوں میں بھی۔
بھٹو صاحب کے دور میں مختلف قسم کے کارخانوں کو قومی تحویل میں لے لیا گیا۔ ایک خاندان کے آٹھ کارخانے چند گھنٹوں میں اس کے ہاتھ سے نکل گئے، صرف کپڑے کی ایک دکان رہ گئی۔ بھٹو اور شریف خاندانوں کے ہاتھ سے اقتدار چند گھنٹوں میں سرک گیا۔ تخت سے تختے کا نظارہ دونوں خاندانوں نے کیا۔ مقبول ترین حکمران خاندان چند لمحوں حکمران سے قیدی بن گئے۔ مثالیں قومی بھی ہیں اور بین الاقوامی بھی۔ آس پاس کے لوگوں کی بھی ہیں اور برادری کے لوگوں کی بھی۔
پاکستان کی پانچ برادریاں اپنے اندر سماجی خدمات کا اچھا نیٹ ورک رکھتی ہیں، بوہری، آغا خانی، چنیوٹی، دہلی پنجابی سوداگران اور میمن برادری۔ ان کے متوسط طبقے کے لوگ پل کا سا کام کرتے ہیں۔ وہ اپنے خاندان کے امراء سے رقوم، فنڈ اور ڈونیشن لے کر اپنے آس پاس کے غریب لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ ان میں اکثر کو واسطہ پڑتا ہے کہ بیس برس قبل رقوم دینے والا خاندان اب دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ کچھ لوگ جو بیس پچیس برس قبل برادری سے رقوم کے طالب تھے وہ اب دینے والی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ اٹھارہ برس کے وقفے کے بعد راقم کو ان کی برادری کا صدر بنایا گیا۔ جب بطور جنرل سیکریٹری دو عشرے قبل جو مخیر حضرات تھے، دیکھا گیا کہ وہ اب دینے کے قابل نہیں۔ جو غریبوں کے علاقوں میں رہتے تھے وہ اب پوش علاقوں کے رہائشی اور مدد کرنے کے قابل ہو چکے ہیں۔ دھوپ چھاؤں اسی کا نام ہے۔ آگے نکل جانا اور پیچھے رہ جانا اسی کو کہتے ہیں، ہم تلقین شاہ تو نہیں لیکن کالم کے اختتام پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ نہ غرور کریں نہ مایوس ہوں، آج کوئی آگے ہے نہ جانے کل آگے کون ہو؟
انھیں میدان میں اتارنے والے کوئی اور ہوتے ہیں۔ انھیں تیاری کروانے والے اور ان پر انعام جیتنے والے وہ خود نہیں بلکہ کوئی اور ہوتے ہیں۔ وہ بے خبر ہوتے ہیں کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ دنیا مقابلے سے بھری پڑی ہے۔ ہر جگہ اور ہر مقام پر مقابلہ۔ ہر جگہ معصوم بچے اور بے زبان جانور سامنے نہیں ہوتے بلکہ تیاری کرنے والے سامنے آنے والے اور انعام جیتنے والے ایک ہی ہوتے ہیں۔ کبھی کوئی آگے نکل جاتا ہے اور کبھی آگے کوئی اور ہوتا ہے۔
خواتین بھی اسٹیج پر آ کر کبھی لباس کی ڈیزائننگ کا اور کبھی حسن کا مقابلہ کرتی ہیں۔ مرد بھی کئی مقابلوں میں ایک دوسرے کے مقابل ہوتے ہیں۔ کہیں باڈی بلڈنگ کا مقابلہ ہوتا ہے تو کہیں ویٹ لفٹنگ کا۔ کھیل، کاروبار، سیاست، تعلیم، پروفیشن اور میدان جنگ، ہر جگہ ایک جنگ ہے، مقابلوں کی اور موازنوں کی۔ آگے نکل جانے والے کی دنیا قدر کرتی ہے اور پیچھے رہ جانے والوں کو بھول جاتی ہے۔ اسی کا نام دنیا ہے اور اسی کا نام کائنات ہے۔ ہر فرد کی کائنات یہی ہے کہ وہ مقابلہ جیتے، ہر میدان میں ہر وقت کوئی ایک فاتح نہیں ہوتا۔ جیت اور ہار ان مقابلوں کا دستور ہے۔
یوں کبھی کوئی آگے نکل جاتا ہے تو کہیں کوئی اور آگے ہوتا ہے۔ دولت، عزت، شہرت اور اقتدار کے لیے مقابلے سب سے بڑھ کر ہوتے ہیں۔ دولت مختلف ذرایع سے کمائی جاتی ہے۔ کاروبار سے، بینکاری سے، جاب سے، ایجاد سے، کھیل سے، پروفیشن سے، سیاست سے، ہنر سے اور فنکاری سے۔ عزت و شہرت سے بھی دولت کمائی جا سکتی ہے۔ اگر کسی کا نام ہو جائے معیار کا تو وہ اسی نام کے سبب دولت کماتا ہے لیکن ہمیشگی کسی میں نہیں، اس میں اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں۔ بڑی بڑی سلطنت کے شہزادوں کے ہاتھوں میں کشکول دیکھے گئے ہیں۔ بڑے بڑے بادشاہ بھیک کے کٹورے تھامے کبھی زندگی کی تو کبھی امن کی بھیک مانگتے دیکھتے گئے ہیں۔ اکیسویں صدی میں صدام اور قذافی کے خاندانوں کا انجام اب تک کے پورے کالم کا احاطہ کرتا ہے۔
میٹرک میں فرسٹ ڈویژن لینے والے بارہویں میں سیکنڈ اور بمشکل تھرڈ ڈویژن میں گریجویشن کرتے دیکھے گئے ہیں۔ پرائمری سے میٹرک تک آہستہ آہستہ چلنے والے اور مشکل سے پاس ہونے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ بنے ہیں۔ مختلف ایجادات کرنے والے اپنے ابتدائی تعلیمی دور میں کند ذہن اور جانوروں کے مقابلے سے ہوتا ہوا مردوں اور عورتوں کے مختلف مقابلوں سے گزر کر زندگی کے اتار چڑھاؤ بیان کر چکا ہے۔ اب تک ہم یہ طے کر چکے ہیں کہ ہم نہ غرور کریں اور نہ مایوس ہوں گے۔ اگر وقت کے اس لمحے میں کامیابی آپ کا مقدر ہے تو یہ ہمیشہ نہیں رہے گی۔
اگر آپ فی الحال بظاہر ناکامی محسوس کر رہے ہیں تو جدوجہد کیجیے۔ نہ وہ دن رہے ہیں نہ وہ دن رہیں گے۔ چند ماہ بعد موسم بدل جاتا ہے۔ ہر سال کیلنڈر بدل جاتا ہے۔ حکمران تبدیل ہو جاتے ہیں، سپر پاورز دنیا کے سامنے ناک رگڑنے پر مجبور ہوتی ہیں تو آپ کا اور ہمارا کیسا غرور اور کیسی مایوسی؟
فلموں میں بچوں کا کردار ادا کرنے والے اداکاروں کو کبھی دیکھا ہے؟ وہ بڑے ہو کر دلیپ کمار، امیتابھ، محمد علی، وحید مراد، ندیم اور شاہ رخ خان بن کر سامنے کیوں نہیں آتے؟ اگر بچپن میں کارکردگی اتنی شاندار ہوتی ہے کہ اپنی معصوم اداکاری سے بڑے بڑوں کو رلا دیتے ہیں پھر بڑے ہو کر یہ صلاحیت کہاں چلی جاتی ہے؟
ایم کیو ایم کے خلاف 92ء میں آپریشن ہوا۔ ان کے ایک کونسلر اظہر غیور ایڈووکیٹ ہمارے دوست ہیں جو وہ چھپتے پھر رہے تھے۔ ایک موقعے پر اظہر نے مایوسی سے کہا کہ:
آپ شادی شدہ اور بال بچوں والے ہیں اور وکالت میں مصروف ہیں۔ میں در بدر اور مارا مارا پھر رہا ہوں، ایک سال بعد اس دوست کی شادی ہوئی اور 94ء میں وہ ایک بیٹی کے باپ بن گئے۔ کچھ عرصے بعد وہ امریکا چلے گئے۔ وقت کا پہیہ آگے بڑھا اور نئی صدی کا آٹھواں سال شروع ہوا۔
اظہر کی 14 سالہ بیٹی کی منگنی ہوئی یوں وہ سسر بن گئے۔ ہال میں عشائیے کے بعد دوست کو ماضی کی ان کی مایوسی یاد دلائی کہ اس وقت آپ کہہ رہے تھے کہ میں پیچھے رہ گیا ہوں اور سب ساتھی آگے، اب آپ تو سسر بن گئے جب کہ کئی اب تک اس اعزاز سے محروم ہیں۔ کون کس وقت آگے ہوتا ہے اور کون پیچھے؟ یہ کوئی نہیں کہہ سکتا۔ یہ صرف سماجی زندگی میں نہیں ہوتا بلکہ دولت کی دنیا میں بھی اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے اور اقتدار کے ایوانوں میں بھی۔
بھٹو صاحب کے دور میں مختلف قسم کے کارخانوں کو قومی تحویل میں لے لیا گیا۔ ایک خاندان کے آٹھ کارخانے چند گھنٹوں میں اس کے ہاتھ سے نکل گئے، صرف کپڑے کی ایک دکان رہ گئی۔ بھٹو اور شریف خاندانوں کے ہاتھ سے اقتدار چند گھنٹوں میں سرک گیا۔ تخت سے تختے کا نظارہ دونوں خاندانوں نے کیا۔ مقبول ترین حکمران خاندان چند لمحوں حکمران سے قیدی بن گئے۔ مثالیں قومی بھی ہیں اور بین الاقوامی بھی۔ آس پاس کے لوگوں کی بھی ہیں اور برادری کے لوگوں کی بھی۔
پاکستان کی پانچ برادریاں اپنے اندر سماجی خدمات کا اچھا نیٹ ورک رکھتی ہیں، بوہری، آغا خانی، چنیوٹی، دہلی پنجابی سوداگران اور میمن برادری۔ ان کے متوسط طبقے کے لوگ پل کا سا کام کرتے ہیں۔ وہ اپنے خاندان کے امراء سے رقوم، فنڈ اور ڈونیشن لے کر اپنے آس پاس کے غریب لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ ان میں اکثر کو واسطہ پڑتا ہے کہ بیس برس قبل رقوم دینے والا خاندان اب دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ کچھ لوگ جو بیس پچیس برس قبل برادری سے رقوم کے طالب تھے وہ اب دینے والی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ اٹھارہ برس کے وقفے کے بعد راقم کو ان کی برادری کا صدر بنایا گیا۔ جب بطور جنرل سیکریٹری دو عشرے قبل جو مخیر حضرات تھے، دیکھا گیا کہ وہ اب دینے کے قابل نہیں۔ جو غریبوں کے علاقوں میں رہتے تھے وہ اب پوش علاقوں کے رہائشی اور مدد کرنے کے قابل ہو چکے ہیں۔ دھوپ چھاؤں اسی کا نام ہے۔ آگے نکل جانا اور پیچھے رہ جانا اسی کو کہتے ہیں، ہم تلقین شاہ تو نہیں لیکن کالم کے اختتام پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ نہ غرور کریں نہ مایوس ہوں، آج کوئی آگے ہے نہ جانے کل آگے کون ہو؟