جناب شیخ کا فلسفہ
یہی وجہ ہے کہ آج کا پاکستان مسائل و مشکلات اور پریشانیوں کے گرداب میں گھرا نظر آتا ہے
اس امر میں کوئی کلام نہیں کہ وطن عزیز کی حیات اجتماعی کے کم و بیش تمام ہی قابل ذکر شعبے طویل عرصے سے جمود، انحطاط، بدنظمی، بدعنوانی اور بدحالی کا شکار چلے آ رہے ہیں، آپ قومی زندگی کے جس ادارے پر نظر ڈالیں وہاں غلطیوں، کوتاہیوں، خامیوں اور کمزوریوں کا ایک لامتناہی سلسلہ نظر آئے گا۔ اصلاح احوال کی سنجیدہ کوششوں اور عملی اقدامات کی بجائے ہر غلطی کے بعد ایک اور غلطی ہمارے اجتماعی زوال کا سبب بنتی رہی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آج کا پاکستان مسائل و مشکلات اور پریشانیوں کے گرداب میں گھرا نظر آتا ہے جس سے نکلنے کی کوئی سبیل ڈھونڈنا مشکل ہوتا جا رہا ہے، گزشتہ چھ عشروں میں برسر اقتدار آنے والے سول و فوجی حکمرانوں کی کارکردگی پر ہمیشہ تنقید کی گئی اور سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں لیکن کسی جانب سے کوئی تسلی بخش جواب نہیں مل سکا کہ جس سے عوام کو اپنی بد نصیبیوں پر صبر آ جاتا۔ ایک معروف اقتصادی ماہر لارڈ کینز نے کہا تھا کہ دنیا پر نظریات (Ideas) حکومت کرتے ہیں۔
یعنی انسانی معاملات میں سب سے زیادہ طاقتور ہتھیار اور قوت ''آئیڈیا'' ہوتا ہے۔ پہلے ایک آئیڈیا جنم لیتا ہے، پھر اس کے مضمرات اور تقاضے برگ و بار لاتے ہیں جس نظریے میں جتنی قوت، توانائی اور تازگی ہوتی ہے اور جس قدر وہ عوام کی نفسیات اور مسائل کو اپیل کرتا ہے اس قدر یہ پائیدار، مربوط اور موثر ہوتا ہے۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح بھی ایک ایسے رہنما تھے جو اپنے واضح نظریات کے ساتھ میدان سیاست میں داخل ہوئے۔ ان کا فلسفہ سیاست بھرپور، توانا اور مربوط ہی نہ تھا بلکہ برصغیر کے کروڑوں عوام کی نفسیات اور مسائل کو براہ راست اپیل کرتا تھا۔
مسلمانوں کو قائد کے نظریے کی صداقت پر بھرپور اعتماد اور یقین تھا اسی لیے لوگوں کے جم غفیر نے ان کی آواز پر لبیک کہا اور ان کے پیچھے چل پڑے اور طویل مخلصانہ سیاسی جدوجہد کے بعد ایک آزاد مسلم ریاست پاکستان وجود میں آ گئی۔
قائد اعظم کے بعد ذوالفقار علی بھٹو ملک کے وہ واحد سیاستدان تھے جنہوں نے عوام کی نفسیات کو سمجھا اور ان کے بنیادی مسائل کے کرب اور دکھ تکلیف کو محسوس کیا۔ بھٹو اپنے سیاسی نظریے کی توانائی، صداقت، قوت اور تازگی کے باعث کروڑوں غریب، مفلوک الحال، پسماندہ طبقے اور مزدوروں، کسانوں و ہاریوں کی آواز بن کر ابھرے اور قومی سیاست کا ایسا لازوال کردار بن گئے کہ چار دہائیاں گزرنے کے بعد بھی ان کا سیاسی فلسفہ اور نظریہ عوام کو اپیل کرتا ہے۔
ان کی تخلیق کردہ سیاسی پارٹی پی پی پی آج بھی ملک کے چاروں صوبوں میں اپنا ووٹ بینک رکھتی ہے قومی سیاست واضح طور پر بھٹو حامی اور بھٹو مخالف فیکٹر میں تقسیم ہے۔ قائد اعظم اور بھٹو کے بعد ملک کے کسی بھی سیاسی و مذہبی رہنما کو ان جیسی عوامی پذیرائی، حمایت اور مقبولیت نہیں ملی اور نہ ہی برسر اقتدار آنے والے کسی فوجی حکمران و جنرل کو عوام نے وہ عزت، مرتبہ اور مقام عطا کیا جو قائد اعظم اور قائد عوام کو نصیب ہوا۔ آپ جنرل ایوب خان سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک اور میاں نواز شریف سے لے کر مولانا طاہر القادری تک سب کے سیاسی فلسفے و نظریے کی طاقت اور ان کی عوام میں مقبولیت کا اندازہ ان کے سابقہ ریکارڈ سے لگا سکتے ہیں۔
میاں نواز شریف کو تو دو مرتبہ اقتدار میں آنے کا موقع مل بھی گیا لیکن حضرت مولانا طاہر القادری صاحب کی سیاسی جماعت پاکستان عوامی تحریک کو 1990ء اور 2002ء کے انتخابی معرکے میں عوام نے یکسر مسترد کر دیا تھا۔ 1990ء کے انتخابات میں تو مولانا ایک سیٹ بھی نہ جیت سکے البتہ 2002ء کے انتخابات میں انھوں نے تین حلقوں گوجر خان، جھنگ اور لاہور سے انتخابات میں حصہ لیا انھیں در پردہ جنرل مشرف کی حمایت بھی حاصل تھی اس کے باوجود صرف لاہور سے کامیابی ان کا مقدر بنی۔ باقی دو حلقوں میں بری طرح شکست کھا گئے۔ مولانا طاہر القادری دو سال تک قومی اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے تمام مراعات و سہولیات حاصل کرتے رہے اور اسی نظام کا حصہ بنے رہے۔
انھوں نے فوجی آمر کی سرپرستی میں چلنے والے استحصالی نظام کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے کے لیے نہ تو کبھی مینار پاکستان پر جلسہ کیا اور نہ کبھی لانگ مارچ کے ذریعے جمہوری نظام کو تلپٹ کرنے کی دھمکیاں دیں۔ البتہ یہ ضرور کیا کہ اسمبلی سے مستعفی ہو کر کینیڈا تشریف لے گئے وہاں کی شہریت حاصل کر لی اور تصنیف و تالیف میں مشغول ہو گئے۔ دنیا بھر میں تحریک منہاج القرآن کے پلیٹ فارم سے اپنی دینی و مذہبی سرگرمیوں کو جاری رکھا۔ ان کی انتھک محنت کی بدولت تحریک منہاج القرآن کے کارواں میں لاکھوں لوگ شریک ہو چکے ہیں۔
مولانا طاہر القادری بلاشبہ بلا کے مقرر اور خطیب ہیں۔ معروف اور سکہ بند مذہبی اسکالر ہیں ایک مخصوص مکتب فکر کے امام ہیں اور ان کے معتقدین کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے۔ دنیا کے طول و عرض میں آج مولانا کو جو بھی مقام و مرتبہ حاصل ہے وہ محض ان کی دینی خدمات کے طفیل ہے نہ کہ بطور سیاستدان۔
جہاں تک مولانا کی سیاسی خدمات، فلسفے اور نظریے کا تعلق ہے تو اس میدان میں ان کا ماضی اس بات کا گواہ ہے کہ ان کی آواز لوگوں کو اپیل نہیں کرتی بطور سیاستدان لوگ ان پر اعتماد نہیں کرتے، اسی لیے ان کی سیاسی جماعت ناکام و نامراد رہی۔ اب نہ جانے کب مولانا طاہر القادری کو یہ الہام ہوا کہ عین اس موقعے پر جب پاکستان میں پہلی مرتبہ ایک عبوری حکومت اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کرنے جا رہی ہے اور آئین کے مطابق نگراں حکومت کی تشکیل کی جانی ہے جو مقررہ مدت میں ملک میں عام انتخابات کرانے کی پابند ہو گی، ان کا آبائی وطن خطرے میں ہے، ملک کے 18 کروڑ عوام مولانا طاہر القادری کو اپنا نجات دہندہ سمجھنے لگے ہیں اور ان کی بے چینی سے راہ تک رہے ہیں کہ وہ ہر صورت عام انتخابات سے قبل پاکستان تشریف لائیں اور انھیں استحصالی نظام سے نجات دلانے اور انتخابی اصلاحات کیے جانے تک انتخابات ملتوی کرانے کے لیے اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کریں اور پھر مولانا طاہر القادری لوگوں کے خواب کی تعبیر بنے۔
ہوا کے گھوڑے پر سوار آناً فاناً سیاست نہیں ریاست بچاؤ کا غیر جمہوری نعرہ لگاتے 23 دسمبر کو مینار پاکستان پہنچ گئے اور14 مارچ کو اسلام آباد کی طرف مارچ اور مطالبات کی منظوری تک دھرنے کا اعلان کر دیا۔ مولانا ذرا تاریخ پر نظر ڈالیں تو انھیں معلوم ہو گا کہ قائد اعظم کا نظریہ اور فلسفہ لوگوں کو اپیل کرتا تھا، انھوں نے لانگ مارچ سے نہیں بلکہ سیاسی جدوجہد سے ریاست بنائی اسی طرح بھٹو کا سیاسی نظریہ بھی لوگوں کو اپنی جانب راغب کرتا ہے انھوں نے بھی سیاست کے ذریعے ہی باقی ماندہ پاکستان کو با وقار بنایا، لیکن شیخ الاسلام کا سیاست نہیں ریاست بچاؤ کا فلسفہ بھی عجیب ہے جو کسی کو اپیل نہیں کرتا۔ بقول شاعر:
ہے جناب شیخ کا فلسفہ بھی عجیب سارے جہان میں