ایکو کانفرنس کا کامیاب انعقاد

پاکستانی عوام کی ایک بڑی تعداد لاعلمی میں ان کی اصل حقیقت سے بے خبر ان ملک دشمن گروہوں کا نظریاتی چارہ بن چکی تھی

www.facebook.com/shah Naqvi

لاہور:
چند دن پیشتر پاکستان میں ایکو کانفرنس کا 13واں اجلاس منعقد ہوا۔ اس اجلاس سے قبل یہ خدشات قوی تھے کہ شاید یہ کانفرنس منعقد نہ ہو سکے کیونکہ اس کانفرنس کے انعقاد سے قبل کے چند ہفتوں میں دہشتگردی کے پے در پے بڑے سانحات ہوئے جس کی گونج پوری دنیا میں سنی گئی۔ دنیا ایک گلوبل ولیج کب کی بن چکی۔ اس گاؤں میں ایک پتا بھی ٹوٹتا ہے تو پوری دنیا کے باسی اس سے فوراً آگاہ ہو جاتے ہیں' سٹیلائٹ نشریات اس کا اچھا یا برا تاثر پوری دنیا میں پھیلا دیتی ہیں۔

تیز رفتار رابطوں نے دنیا کے ممالک کے درمیان فاصلے مٹا دیے ہیں۔ اب وہ ایک دوسرے سے گھنٹوں کی دوری پر ہیں۔ چنانچہ جب ان دہشتناک دھماکوں کی خبر عالمی میڈیا کا حصہ بنی تو لگا کہ شاید یہ کانفرنس نہ ہو پائے کیونکہ اس سے پہلے سارک کانفرنس بھی منعقد نہ ہو سکی تھی۔ چنانچہ اس ماحول میں ایکو کانفرنس کا منعقد نہ ہونا پاکستان کے لیے ایک بڑے نقصان کا باعث بنتا لیکن اس کانفرنس کا کامیاب انعقاد پاکستان دشمن قوتوں کے لیے شکست فاش ثابت ہوا جنہوں نے اس کانفرنس کو سبوتاژ کرنے کے لیے ان دہشتگرد گروہوں کی خدمات حاصل کیں جن کا تعلق پاکستان سے ہی تھا۔

پاکستانی عوام کی ایک بڑی تعداد لاعلمی میں ان کی اصل حقیقت سے بے خبر ان ملک دشمن گروہوں کا نظریاتی چارہ بن چکی تھی۔ شکر ہے کہ اب وہ ان دہشتگرد گروہوں کا حقیقی چہرہ پہچان گئے ہیں کہ ان کا ایک ہی مقصد ہے کہ پاکستان کو ہر صورت نقصان اور بدنام کیا جائے۔ چاہے یہ ایکو کانفرنس ہو یا پاکستان سپر لیگ کا فائنل۔

ماضی میں ایک تنظیم آر سی ڈی بھی رہی ہے۔ جس کے رکن پاکستان ایران اور ترکی تھے۔ اس کے ذریعے ان تینوں ملکوں میں کچھ کام بھی ہوا لیکن جب سرد جنگ گرم جنگ میں بدلی تو اس کا ہونا نہ ہونا ایک برابر ہو گیا۔ ایرانی شہنشاہیت کے خاتمے کے بعد پاکستان ایران تعلقات دوریوں بدگمانیوں میں بدلنے لگے کیونکہ یہی سامراج کا مطمع نظر تھا۔ دو برادر اسلامی ملکوں کی قربت خطے میں سامراجی مفادات کے لیے نقصان دہ تھی۔ آگ و خون کا جو کھیل اس خطے میں تیس سال سے زائد عرصہ کھیلا گیا اس میں پاکستان پر شدید دباؤ رہا کہ وہ کھل کر ایران کے خلاف سامراجی جنگ کا حصہ بنے لیکن پاکستان نے اس سے ہر ممکن گریز کیا بلکہ درپردہ اس کی مشکل وقتوں میں مدد کی۔

اس موقع پر اقتصادی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ایران کے صدر حسن روحانی نے کہا کہ ہم ایکو ممالک کو ہائی ویز کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ منسلک کر دیں گے۔ کیونکہ رابطوں کو فروغ دینے سے ہی ایشیا میں ترقی اور خوشحالی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔21 ویں صدی ایشیا کی ابھرتی ہوئی معیشت کا دور ہے۔ اقتصادی سرگرمیاں مغرب سے مشرق کی طرف منتقل ہو رہی ہیں۔

آذربائیجان کے صدر الہام علی یوف۔ تاجکستان کے صدر امام علی رحمانوف اور ترکمانستان کے صدر قربان گل بردی محمدوف کا کہنا تھا کہ تجارت سرمایہ کاری اور توانائی کے وسائل کا موثر استعمال علاقائی تعاون کے اہم عناصر ہیں۔ جب کہ ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے کہا کہ مذہبی انتہا پسندی اور دہشتگردی خطے کی ترقی میں سب سے بڑی روکاوٹ ہیں۔ اس سربراہ اجلاس میں پانچ ممالک کے صدور' تین وزرائے اعظم اور ایک نائب وزیراعظم نے شرکت کی جب کہ چین اور اقوام متحدہ کے نمایندگان نے بطور مبصر شرکت کی۔ بہرحال افغانستان کے صدر کے بجائے ان کے پاکستان میں مقیم سفیر نے ان کی نمایندگی کی۔


وزیراعظم پاکستان کو اس 13 ویں اجلاس میں اقتصادی تعاون تنظیم کا چیئرمین منتخب کیا گیا۔ افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ علاقائی خوشحالی کا وقت آ گیا ہے۔ پاکستان کا محل وقوع بہترین ہے۔ علاقائی خوشحالی کے خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے اس سے زیادہ مناسب وقت پہلے کبھی نہیں آیا۔ اقتصادی تعاون کا خطہ ایک وسیع علاقہ ہے جو دنیا کی آبادی کا چھٹا حصہ ہے جب کہ دنیا کی تجارت میں اس کا حصہ صرف 2 فیصد ہے۔

پاکستان اپنے محل وقوع کی وجہ سے جنوبی ایشیا وسطی ایشیا کی اقتصادی صلاحیت کے لیے بنیادی اہمیت کا حامل رہا ہے''۔ اب تک تو اس محل وقوع نے پاکستان کو پچھلے ستر سالوں میں مشکلات کے سوا کچھ نہیں دیا۔ اس محل وقوع کا سارا کا سارا فائدہ صرف اور صرف سامراجی قوتوں نے حاصل کیا۔ سوویت یونین کا خاتمہ اس کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔

حالیہ ایکو اجلاس کے موقعہ پر اچھی بات یہ ہوئی کہ ایران اور ترکی کے صدور کی آپس میں ملاقات ہوئی جس کے نتیجے میں اس تناؤ کا خاتمہ ہو گیا جو دونوں ملکوں کے درمیان حال ہی میں پیدا ہوئی تھی۔ اس ملاقات میں دونوں نے آپس کے تعلقات کی بہتری اور دہشتگردی کے خلاف جنگ میں تعاون پر اتفاق کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایران ترکی اپنے سیاسی اختلافات ختم کر کے علاقائی استحکام کی راہ ہموار کر سکتے ہیں۔ پاکستان' ترکی اور ایران قدیم دوست ہیں۔ ان کا اتحاد معاشی خوشحالی کا باعث بن سکتا ہے۔

اب پاکستان سپر لیگ کے حوالے سے خاص بات۔ پچھلے سال کے آخر کی بات ہے کہ گروپ ایڈیٹر ایاز خان صاحب سے بات کرتے ہوئے میں نے انھیں آگاہ کیا کہ پاکستانی کرکٹ مارچ 017 2سے نیگٹیو فیز سے باہر نکلنا شروع ہو جائے گی جس کا آغاز 2009 سے ہوا۔ انھوں نے میری اس بات سے اتفاق نہیں کیا۔ پی ایس ایل فائنل کے لاہور میں انعقاد سے امکان ہے کہ پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کا دوبارہ آغاز اس سال کی آخری اور اگلے سال کی پہلی سہ ماہی سے ہو جائے گا۔

یہ سال دنیا اور پاکستان کے لیے احتیاط طلب وقت ہے۔ زلزلے قدرتی آفات اور حادثات کا کافی سے زیادہ امکان ہے۔ کوئی بھی سفر چاہے وہ زمینی ہو یا ہوائی بہت احتیاط سے کرنا چاہیے۔ پچھلے سال میں نے پیش گوئی کی تھی کہ دسمبر میں کوئی ناگہانی حادثہ ہو سکتا ہے۔ 7 دسمبر کو چترال میں مسافر طیارہ کریش کر گیا جس میں بہت سی قیمتی جانیں ضایع ہو گئیں۔ نئے سال میں اب تک دنیا کے کئی ملکوں میں زلزلے آ چکے ہیں۔

نوٹ:۔ نوروز کا بھی ایکو کانفرنس میں ذکر آیا وہ اس طرح کہ تنظیم کے سربراہی اجلاس کے مشترکہ اعلامیہ میں نوروز کے عالمی دن کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا گیا کہ اقتصادی تعاون تنظیم کے تمام ملکوں کا نوروز کا عالمی دن منانے سے ان کے درمیان دوستی میں اضافہ ہو گا۔ نوروز اہل فارس کا ایک موسمی تہوار ہے جو 21 مارچ کو منایا جاتا ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ سردی برف باری ختم ہو گئی۔ اب بہار کے دن آ گئے۔ یہ تہوار سینٹرل ایشیا' افغانستان' ایران' ترکی اور پاکستان کے چند شمالی علاقوں میں منایا جاتا ہے۔ اس دن رات اور دن ایک خاص لمحہ پر ''برابر'' ہو جاتے ہیں۔ مغل دور میں اس تہوار کی بڑی اہمیت تھی اور درباری اشرافیہ اسے مناتی بھی تھی لیکن انگریزوں کے آنے کے بعد یہ تہوار فارسی زبان کی طرح بتدریج ختم ہو گیا۔

سیل فون:۔ 0346-4527997
Load Next Story