ویل ڈن سسٹرز
بختاور اور آصفہ نے ٹوئیٹر پر کہاکہ عرفان مروت جیسے لوگوں کو پیپلزپارٹی میں نہیں بلکہ جیل میں ہونا چاہیے
دو لڑکیوں نے کمال کردیا۔ ان سے اس بہادری کی امید نہ تھی۔ بچیوں کی والدہ انتقال کرچکی ہیں۔ اگر حقیقت سمجھی جائے تو والد اور بھائی ہی ان کے سرپرست کہلائیں۔ شادی شدہ خواتین اپنے والدین اور بھائیوں سے اختلاف مول لے سکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بختاور اور آصفہ کے عرفان اﷲ مروت والے بیان نے خوشگوار حیرت پیدا کردی ہے۔ یہ دونوں بہنوں کا پہلا نہیں بلکہ دوسرا کمال ہے۔ اس سے پہلے بھی وہ ایک مرتبہ ایسی ہی سمجھ داری کا ثبوت دے چکی ہیں۔
سابق صوبائی وزیر نے آصف زرداری سے ملاقات کے بعد پیپلزپارٹی میں شمولیت کا اعلان کیا جس پر بے نظیر کی دونوں بیٹیوں نے اختلاف کا اظہار کیا۔ وہ ہلچل مچی کہ مسلم لیگ سے پی پی میں شمولیت اختیار کرنے والے نے خود ہی تردید کر دی۔
دونوں بہنوں نے کیوں غلام اسحاق خان کے داماد کی پیپلزپارٹی میں شمولیت کو ناپسند کیا؟ 1991 میں بعض حوالے سے ناخوشگوار واقعات پیش آئے۔ اس وقت تو بختاور اور آصفہ پیدا بھی نہیں ہوئی تھیں۔ انھوں نے تاریخ کا مطالعہ کیا ہوگا اور جانا ہوگا کہ تقریباً پچیس سال پہلے جب پی پی پی غلام اسحاق خان اور جام صادق کے زیر عتاب تھی، تب کونسا ناخوشگوار واقعہ رونما ہوا تھا۔
آصف زرداری نے عرفان ﷲ کو خوش آمدید کہا جب کہ بلاول بھٹو خاموش رہے۔ اگر کہیں سے آواز آئی تو دو بہنوں کی جانب سے آواز آئی۔ پیپلزپارٹی کے اندھیروں میں روشنی کی کرنیں بکھیرنے والی بختاور اور آصفہ ثابت ہوئیں۔ انھوں نے بیان دیا کہ خواتین کا احترام کرنے والے ہی بااعتبار ٹھہریںگے۔
بختاور اور آصفہ نے ٹوئیٹر پر کہاکہ عرفان مروت جیسے لوگوں کو پیپلزپارٹی میں نہیں بلکہ جیل میں ہونا چاہیے۔ ایسے لوگوں کو پی پی کے قریب بھی نہیں آنا چاہیے۔ بی بی کی بیٹیاں اپنے پاپا کے سامنے کھل کر آگئیں، اس جرأت پر مساوات مرد و زن کے نعرے لگانے والیوں اور ثناخوان تقدیس مشرق نے یکساں طور پر پسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔
غلام اسحاق خان کون تھے؟ نواز شریف کی وزارت عظمیٰ کے پہلے دور میں کیا واقعہ پیش آیا تھا؟ عرفان اﷲ مروت پر کیا الزام لگا؟ بے نظیر بھٹو نے مروت کے خلاف کیا مہم چلائی؟ اس ٹوئیٹر سے قبل بختاور اور آصفہ پہلا کمال کیا دکھا چکی ہیں؟ یہ وہ سوالات ہیں جن سے نئی نسل شاید واقف نہ ہوں۔
غلام اسحاق خان کی پہلی دھماکا خیز تصویر اس وقت سامنے آئی جب یحییٰ خان سقوط ڈھاکا کے بعد بھٹو کو اقتدار منتقل کررہے تھے۔ آنے والے اور جانے والے کے ساتھ تیسری تصویر ایک سینئر بیوروکریٹ کی تھی۔ بھٹو اور ضیا کے ادوار میں تیزی سے ترقی کرنے والے غلام اسحاق خان سینیٹ کے چیئرمین بن گئے۔ ضیا کے بہاولپور حادثے میں جاں بحق ہونے کے بعد قائم مقام صدر بنے۔
بے نظیر اور نواز شریف کے مشترکہ امیدوار کے طور پر صدر منتخب ہوکر غلام اسحاق خان نے غلام محمد، اسکندر مرزا اور چوہدری محمد علی کی تاریخ دہرا دی۔ سن نوے میں بے نظیر کو برطرف کرکے صدر اسحاق مزید طاقتور ہوگئے۔ سندھ میں جام صادق علی کی حکومت تھی اور عرفان اﷲ مروت ان کے وزیر تھے۔ یہ وہ دور تھا جب بطور اپوزیشن لیڈر بے نظیر بھٹو صدر اور وزیراعظم پر تنقید کرتی تھیں۔ وینا حیات پیپلزپارٹی کی رکن اور بے نظیر بھٹو کی ساتھی تھیں۔ یہیں سے الزام عرفان اﷲ مروت پر لگا۔ اب ہم جاننے کی کوشش کریںگے کہ الزام عائد کرنے والی خاتون کون تھیں؟
وینا حیات کا تعلق پنجاب کے ایک بڑے سیاسی گھرانے سے تھا۔ ان کے والد سردار شوکت حیات ستر میں قومی اسمبلی کا انتخاب تلوار کے نشان پر جیتے تھے۔ انھیں قائداعظم کا ساتھی ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔ وینا کے دادا سرسکندر حیات انگریزوں کے دور میں پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے۔ اس قسم کا سیاسی ماضی رکھنے والی خاتون کے لیے آسان نہ تھا کہ وہ الزام لگا سکیں۔ اس الزام نے سیاست میں ہلچل مچا دی۔ بے نظیر بھٹو نے اس پر سخت احتجاج کیا۔ یہ تھا وہ سیاسی پس منظر جس کو یاد رکھتے ہوئے بختاور اور آصفہ نے عرفان اﷲ مروت کی پیپلزپارٹی میں شمولیت پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔
دو بچیوں کے ٹوئیٹر نے عرفان اﷲ مروت کا سیاسی کیریئر تقریباً ختم کردیا ہے۔ اب وہ پی پی میں عدم شمولیت اور بختاور و آصفہ کو گمراہ کرنے کا الزام لگا رہے ہیں۔ بات کچھ بھی ہو، سیاست دانوں اور مشہور اداکاروں و فنکاروں سے ان کی شہرت مزید احتیاط کا تقاضا کرتی ہے۔ عام آدمی کے لیے الزام کی سچائی عدالت کی کسوٹی پر پرکھی جاسکتی ہے۔ لیکن عوامی نمایندوں پر الزام ہی انھیں ادھ موا کردیتا ہے۔
مشہور لوگوں کی زندگی عوام کے سامنے اور کیمروں کی زد میں ہوتی ہے۔ ان پر الزام لگانا ویسے ہی مشکل ہوتا ہے، مالی بدعنوانی اور خواتین سے بے حرمتی کرنے والوں کو نشان عبرت بنانے سے ہی معاشرہ جگمگا سکتا ہے۔ کرپشن اور نااہلی کے الزامات کے اندھیروں میں ڈوبی پیپلزپارٹی کو بے نظیر بھٹو کی بیٹیوں نے روشنی کی کرن عطا کی ہے۔ اس سے قبل بھی بختاور اور آصفہ ایک کمال دکھاچکی ہیں۔ یقین کریں کہ راقم کو دونوں بہنوں کا پہلا کمال زیادہ متاثر کررہا ہے۔
نورجہاں، رضیہ سلطانہ، اندرا گاندھی اور بے نظیر بھٹو سمیت برصغیر میں درجن بھر خواتین ہوںگی جنھوں نے اقتدار کی غلام گردشوں کے قریب رہتے ہوئے سمجھداری کا ثبوت دیا ہوگا۔ موجودہ دور میں فاطمہ بھٹو اور پریانکا گاندھی کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بختاور اور آصفہ کا پہلا کمال کون سا تھا؟
وہ دور جب آصف زرداری اور بلاول بھٹو کے اختلافات سامنے آرہے تھے، وہ مقام جب فریال تالپور بھی بھائی اور بھتیجے میں اختلاف کی خلیج نہ پاٹ سکیں۔ اس نازک دور میں بختاور و آصفہ باپ اور بھائی کو ایک صفحے پر لے آئیں۔ یہ سبق ہے تمام بہنوں و بیٹیوں کے لیے کہ جب خاندان میں کوئی دراڑ نظر آئے تو وہ سمجھ داری اور غیر جانب داری سے گھرانے کو شیر و شکر کردیں۔ دودھ اور چینی کو اس طرح ملادیں کہ ہر طرف سے یکجائی دکھائی دے۔ جب پورے خاندان کی خوشیاں اور غم ایک ہوجاتے ہیں تو محبت کے زمزمے بہتے ہیں۔
آصفہ اور بختاور نے تیری خوشی تیرا غم، میری خوشی میرا غم کو مٹاکر پہلا کمال کم عمری میں کر دکھایا تھا۔ ممکن ہے مورخ اسے اہمیت نہ دے اور اس کی تمام تر توجہ اسی ٹوئیٹر پر ہو جس نے خاتون کا احترام نہ کرنے کے ملزم کو اپنی پارٹی سے دور کردیا۔ تاریخ دان کا کل تو کل آئے گا، آج کے بزرگوں کو کہنا چاہیے کہ بہت خوب بیٹیو! اور جوانوں کو لکھنا چاہیے کہ ''ویل ڈن سسٹرز''۔
سابق صوبائی وزیر نے آصف زرداری سے ملاقات کے بعد پیپلزپارٹی میں شمولیت کا اعلان کیا جس پر بے نظیر کی دونوں بیٹیوں نے اختلاف کا اظہار کیا۔ وہ ہلچل مچی کہ مسلم لیگ سے پی پی میں شمولیت اختیار کرنے والے نے خود ہی تردید کر دی۔
دونوں بہنوں نے کیوں غلام اسحاق خان کے داماد کی پیپلزپارٹی میں شمولیت کو ناپسند کیا؟ 1991 میں بعض حوالے سے ناخوشگوار واقعات پیش آئے۔ اس وقت تو بختاور اور آصفہ پیدا بھی نہیں ہوئی تھیں۔ انھوں نے تاریخ کا مطالعہ کیا ہوگا اور جانا ہوگا کہ تقریباً پچیس سال پہلے جب پی پی پی غلام اسحاق خان اور جام صادق کے زیر عتاب تھی، تب کونسا ناخوشگوار واقعہ رونما ہوا تھا۔
آصف زرداری نے عرفان ﷲ کو خوش آمدید کہا جب کہ بلاول بھٹو خاموش رہے۔ اگر کہیں سے آواز آئی تو دو بہنوں کی جانب سے آواز آئی۔ پیپلزپارٹی کے اندھیروں میں روشنی کی کرنیں بکھیرنے والی بختاور اور آصفہ ثابت ہوئیں۔ انھوں نے بیان دیا کہ خواتین کا احترام کرنے والے ہی بااعتبار ٹھہریںگے۔
بختاور اور آصفہ نے ٹوئیٹر پر کہاکہ عرفان مروت جیسے لوگوں کو پیپلزپارٹی میں نہیں بلکہ جیل میں ہونا چاہیے۔ ایسے لوگوں کو پی پی کے قریب بھی نہیں آنا چاہیے۔ بی بی کی بیٹیاں اپنے پاپا کے سامنے کھل کر آگئیں، اس جرأت پر مساوات مرد و زن کے نعرے لگانے والیوں اور ثناخوان تقدیس مشرق نے یکساں طور پر پسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔
غلام اسحاق خان کون تھے؟ نواز شریف کی وزارت عظمیٰ کے پہلے دور میں کیا واقعہ پیش آیا تھا؟ عرفان اﷲ مروت پر کیا الزام لگا؟ بے نظیر بھٹو نے مروت کے خلاف کیا مہم چلائی؟ اس ٹوئیٹر سے قبل بختاور اور آصفہ پہلا کمال کیا دکھا چکی ہیں؟ یہ وہ سوالات ہیں جن سے نئی نسل شاید واقف نہ ہوں۔
غلام اسحاق خان کی پہلی دھماکا خیز تصویر اس وقت سامنے آئی جب یحییٰ خان سقوط ڈھاکا کے بعد بھٹو کو اقتدار منتقل کررہے تھے۔ آنے والے اور جانے والے کے ساتھ تیسری تصویر ایک سینئر بیوروکریٹ کی تھی۔ بھٹو اور ضیا کے ادوار میں تیزی سے ترقی کرنے والے غلام اسحاق خان سینیٹ کے چیئرمین بن گئے۔ ضیا کے بہاولپور حادثے میں جاں بحق ہونے کے بعد قائم مقام صدر بنے۔
بے نظیر اور نواز شریف کے مشترکہ امیدوار کے طور پر صدر منتخب ہوکر غلام اسحاق خان نے غلام محمد، اسکندر مرزا اور چوہدری محمد علی کی تاریخ دہرا دی۔ سن نوے میں بے نظیر کو برطرف کرکے صدر اسحاق مزید طاقتور ہوگئے۔ سندھ میں جام صادق علی کی حکومت تھی اور عرفان اﷲ مروت ان کے وزیر تھے۔ یہ وہ دور تھا جب بطور اپوزیشن لیڈر بے نظیر بھٹو صدر اور وزیراعظم پر تنقید کرتی تھیں۔ وینا حیات پیپلزپارٹی کی رکن اور بے نظیر بھٹو کی ساتھی تھیں۔ یہیں سے الزام عرفان اﷲ مروت پر لگا۔ اب ہم جاننے کی کوشش کریںگے کہ الزام عائد کرنے والی خاتون کون تھیں؟
وینا حیات کا تعلق پنجاب کے ایک بڑے سیاسی گھرانے سے تھا۔ ان کے والد سردار شوکت حیات ستر میں قومی اسمبلی کا انتخاب تلوار کے نشان پر جیتے تھے۔ انھیں قائداعظم کا ساتھی ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔ وینا کے دادا سرسکندر حیات انگریزوں کے دور میں پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے۔ اس قسم کا سیاسی ماضی رکھنے والی خاتون کے لیے آسان نہ تھا کہ وہ الزام لگا سکیں۔ اس الزام نے سیاست میں ہلچل مچا دی۔ بے نظیر بھٹو نے اس پر سخت احتجاج کیا۔ یہ تھا وہ سیاسی پس منظر جس کو یاد رکھتے ہوئے بختاور اور آصفہ نے عرفان اﷲ مروت کی پیپلزپارٹی میں شمولیت پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔
دو بچیوں کے ٹوئیٹر نے عرفان اﷲ مروت کا سیاسی کیریئر تقریباً ختم کردیا ہے۔ اب وہ پی پی میں عدم شمولیت اور بختاور و آصفہ کو گمراہ کرنے کا الزام لگا رہے ہیں۔ بات کچھ بھی ہو، سیاست دانوں اور مشہور اداکاروں و فنکاروں سے ان کی شہرت مزید احتیاط کا تقاضا کرتی ہے۔ عام آدمی کے لیے الزام کی سچائی عدالت کی کسوٹی پر پرکھی جاسکتی ہے۔ لیکن عوامی نمایندوں پر الزام ہی انھیں ادھ موا کردیتا ہے۔
مشہور لوگوں کی زندگی عوام کے سامنے اور کیمروں کی زد میں ہوتی ہے۔ ان پر الزام لگانا ویسے ہی مشکل ہوتا ہے، مالی بدعنوانی اور خواتین سے بے حرمتی کرنے والوں کو نشان عبرت بنانے سے ہی معاشرہ جگمگا سکتا ہے۔ کرپشن اور نااہلی کے الزامات کے اندھیروں میں ڈوبی پیپلزپارٹی کو بے نظیر بھٹو کی بیٹیوں نے روشنی کی کرن عطا کی ہے۔ اس سے قبل بھی بختاور اور آصفہ ایک کمال دکھاچکی ہیں۔ یقین کریں کہ راقم کو دونوں بہنوں کا پہلا کمال زیادہ متاثر کررہا ہے۔
نورجہاں، رضیہ سلطانہ، اندرا گاندھی اور بے نظیر بھٹو سمیت برصغیر میں درجن بھر خواتین ہوںگی جنھوں نے اقتدار کی غلام گردشوں کے قریب رہتے ہوئے سمجھداری کا ثبوت دیا ہوگا۔ موجودہ دور میں فاطمہ بھٹو اور پریانکا گاندھی کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بختاور اور آصفہ کا پہلا کمال کون سا تھا؟
وہ دور جب آصف زرداری اور بلاول بھٹو کے اختلافات سامنے آرہے تھے، وہ مقام جب فریال تالپور بھی بھائی اور بھتیجے میں اختلاف کی خلیج نہ پاٹ سکیں۔ اس نازک دور میں بختاور و آصفہ باپ اور بھائی کو ایک صفحے پر لے آئیں۔ یہ سبق ہے تمام بہنوں و بیٹیوں کے لیے کہ جب خاندان میں کوئی دراڑ نظر آئے تو وہ سمجھ داری اور غیر جانب داری سے گھرانے کو شیر و شکر کردیں۔ دودھ اور چینی کو اس طرح ملادیں کہ ہر طرف سے یکجائی دکھائی دے۔ جب پورے خاندان کی خوشیاں اور غم ایک ہوجاتے ہیں تو محبت کے زمزمے بہتے ہیں۔
آصفہ اور بختاور نے تیری خوشی تیرا غم، میری خوشی میرا غم کو مٹاکر پہلا کمال کم عمری میں کر دکھایا تھا۔ ممکن ہے مورخ اسے اہمیت نہ دے اور اس کی تمام تر توجہ اسی ٹوئیٹر پر ہو جس نے خاتون کا احترام نہ کرنے کے ملزم کو اپنی پارٹی سے دور کردیا۔ تاریخ دان کا کل تو کل آئے گا، آج کے بزرگوں کو کہنا چاہیے کہ بہت خوب بیٹیو! اور جوانوں کو لکھنا چاہیے کہ ''ویل ڈن سسٹرز''۔