حقائق میں بدلتے خدشات
دنیا عالمی درجہ حرارت کو 2 ڈگری تک محدود کرنے پر اتفاق کرچکی ہے
دنیا کی حکومتوں نے دسمبر 2015 میں فرانس کے شہر پیرس میں ہونے والی عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں اس بات پر اتفاق کیا کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کی شرح پہلے سے لگائے گئے اندازوں سے کہیں زیادہ ہوچکی ہے۔ لہٰذا اس عالمی کانفرنس میں متفقہ طور پر ماحولیاتی تحفظ کا عالمی معاہدہ، جسے پیرس کلائمیٹ ڈیل کہا جاتا ہے، منظور کیا گیا، جو اب نافذالعمل ہوچکا ہے۔
معاہدہ کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ 2050 تک عالمی درجہ حرارت کو 2 ڈگری سینٹی گریڈ سے آگے نہیں بڑھنے دیا جائے گا۔ یہ حقیقت ہے کہ دنیا کی حکومتوں کا متفقہ طور پر منظور کردہ ماحولیاتی تحفظ کا یہ معاہدہ کرۂ ارض کو موسمیاتی تبدیلی کے سنگین اثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے، جس پر عمل درآمد کرنا اب دنیا کے ہر ملک کی قانونی ذمے داری ہے۔
اس امر کے باوجود کہ دنیا عالمی درجہ حرارت کو 2 ڈگری تک محدود کرنے پر اتفاق کرچکی ہے، تاہم عالمی سائنسدانوں اور ماحولیاتی ماہرین کا اب بھی تقریباً اتفاق رائے ہے کہ گرین ہاؤس گیسوں کے بے پناہ اخراج کے باعث اب یہ ممکن نہیں ہوگا کہ عالمی درجہ حرارت کو 2050 تک 2 ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود رکھا جاسکے گا۔ اس تلخ حقیقت کی تصدیق متعدد بین الاقوامی تحقیقی رپورٹوں میں کی جاچکی ہے۔ 2014 سے ہر سال درجہ حرارت میں اضافے کا عالمی ریکارڈ ٹوٹ رہا ہے اور 2015 کے بعد 2016 کو بھی تاریخ کا مسلسل تیسرا گرم ترین سال قرار دیا جاچکا ہے۔
ماہرین عالمی درجہ حرارت میں مسلسل ہونے والے اضافے کو طویل المدتی رجحان قرار دے رہے ہیں، جس کے تباہ کن اثرات دنیا کے تمام خطوں میں واضح طور پر نظر آرہے ہیں۔ اس امر کی بھی تصدیق کی جاچکی ہے کہ عالمی درجہ حرارت میں ہونے والے اضافے سے ایشیائی ممالک بدترین طور پر متاثر ہورہے ہیں، جس کے واضح مظاہر ہم دیکھ بھی رہے ہیں اور خود پاکستان اس کے متاثرین میں شامل بھی ہے۔
موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث سائیکلون، سمندری سیلاب، سمندر کی سطح میں اضافہ، بارشوں کے پیٹرن میں تبدیلیاں، خشک سالی، پانی کی کمیابی سمیت تیزی سے بڑھتا ہوا درجہ حرارت پورے ملک اور 1050 کلومیٹر پر پھیلی ہوئی ساحلی پٹی کو شدید متاثر کررہا ہے۔ سائنسدان پیش گوئی کر رہے ہیں کہ 2060 تک ملک کے درجہ حرارت میں 1.4 سے 3.7 ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوجائے گا۔ 2014 میں پاکستان دنیا کے ان 5 ملکوں میں شامل تھا جو موسمیاتی تبدیلی سے شدید متاثر ہوئے تھے۔
برطانیہ کے معروف ادارے ''ویرسک میپل کرافٹ'' کے مطابق پاکستان کے 3 شہروں لاہور ، فیصل آباد اور کراچی موسمیاتی تبدیلی کے شدید خطرات کی زد میں ہیں۔ انسٹیٹیوٹ آف اوشیانوگرافی کے مطابق پاکستان کا سب سے بڑا اور ساحلی شہر کراچی آنے والے 35 سے 45 برسوں میں سطح سمندر میں ہونے والے اضافے کے باعث ڈوب سکتا ہے۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی پانی کی قلت ہماری توجہ آنے والی تباہیوں کی جانب مبذول کروا رہی ہے۔
کیا یہ سب خدشات مفروضوں پر مبنی ہیں یا اب یہ حقیقت میں تبدیل ہوتے جارہے ہیں؟ یہ سنگین اشاریے ملک کے کتنے فیصد لوگوں کے لیے پریشانی کا سبب ہیں؟ شاید بہت کم کے لیے، کیونکہ پالیسی سازوں سے لے کر سیاسی جماعتوں، صنعت کاروں، سول سوسائٹی، ماحولیات پر کام کرنے والے اداروں اور تنظیموں کی غالب اکثریت کی کارکردگی اس ضمن میں نہ ہونے کے برابر نظر آتی ہے۔ لیکن اس بات میں بھی کوئی شبہ نہیں ہے کہ لاکھوں روپے خرچ کرکے پنج ستارہ ہوٹلوں میں آگہی سیمینار ضرور منعقد ہورہے ہیں۔ ان سیمیناروں میں شرکت کرنے والے شرکا مخصوص ہوچکے ہیں جو آپ کو ہر سیمینار میں نظر آئیں گے۔
کیا موسمیاتی تبدیلیوں کا تعلق ملک کے چند سو لوگوں سے ہے؟ سرکاری ادارے، نجی ادارے ہوں یا ماحولیات پر کام کرنے والے گزشتہ 10 برسوں کا ریکارڈ دیکھ لیں منظرنامہ واضح ہوجائے گا۔ پاکستان شاید دنیا کا وہ واحد ملک ہوگا جہاں آپ کو ڈھونڈ نے سے بھی ماحولیاتی کارکن نہیں ملے گا جب کہ دنیا بھر میں ماحولیاتی کا رکنوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ مختلف ملکوں میں ماحولیاتی مسائل کو اجاگر کرنے والی سول سوسائٹی جس میں ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے شامل ہوتے ہیں وجود میں آچکی ہیں جو حکومتوں پر دباؤ بنانے کے ساتھ عوامی شعور بھی بیدار کررہی ہیں لیکن اس حوالے سے ہماری کارکردگی بھی صفر ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کو دہشت گردی سے بڑا خطرہ قرار دیا جارہا ہے۔ کیا ہم نے کبھی اس جانب دیکھنے کی کوشش کی ہے کہ موسمیاتی و ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں ملک کے کتنے افراد متاثر و جاں بحق ہوئے۔ برسوں سے خشک سالی ، سیلاب، زراعت کا نقصان، پانی کی تیزی سے بڑھتی ہوئی قلت، فضائی آلودگی کا جن، آلودہ پانی، شدید گرمی کی لہر، تیزی سے پھیلتی ہوئی جان لیوا بیماریاں اور لینڈ سلائیڈنگ سے جنم لینے والے المیوں میں کتنے جاں بحق اور کتنے متاثرین ہیں۔ ہم ان کے لیے فکر مند نہیں ہیں کیونکہ یہ خون خاک نشیناں ہے۔
2 کروڑ کی آبادی رکھنے والے میگا سٹی کراچی کی مثال کو ہی لے لیں۔ 2015 میں آنے والی گرمی کی شدید لہر کے نتیجے میں چند بڑے اسپتالوں سے حاصل کیے گئے اعدادو شمار کی بنیاد پر جاں بحق ہونے والوں کی تعداد کا تعین کرلیا گیا۔ ان اعدادو شمار کا موازنہ کبھی ایدھی کے رضاکاروں سے مل کر بھی کیا جانا چاہیے جو شہر کے باسیوں کو اجتماعی قبروں میں سپرد خاک کررہے تھے۔ یہ شہر اب ایک ہیٹ آئی لینڈ میں تبدیل ہوچکا ہے جس میں دوسرے عوامل کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ مسلسل اور بغیر کسی منصوبہ بندی کے جائز اور ناجائز بلڈنگوں اور پلازوں کی تعمیر ہے۔
ملک کے بڑے بڑے شہروں میں قائم بلڈنگ کنٹرول کے اداروں یا اتھارٹیز کی کارکردگی ملاحظہ کرلیں صورتحال واضح ہوجائے گی۔ آپ کو جتنی اونچی بلڈنگ بنانی ہے اس کی اجازت مل جائے گی۔ مختلف شہروں کے انڈسٹریل ایریاز میں قائم محکمہ ماحولیات کا دفتر غیر قانونی صنعتی تعمیرات پر خاموش رہتا ہے۔ خبریں ضرور شایع ہورہی ہیں کہ فلاں فیکٹری ماحولیاتی قوانین کی خلاف ورزی پر سیل کردی گئی اور پھر حیرت انگیز طور پر وہی اچانک تمام قوانین پر عمل کرنے لگتی ہے اور کھل جاتی ہے۔
پورے ملک میں کسی منصوبے کے ماحولیاتی تجزیے کی عوامی شنوائی میں مخصوص لوگ جاتے ہیں، کبھی کبھار منصوبے کی رپورٹ مسترد بھی ہوجاتی ہے لیکن پھر سب کچھ کلیئر ہوجاتا ہے۔ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے جنم لینے والے المیوں کا شکار غریب اور امیر سب بنیں گے۔ لہٰذا یاد رکھنا چاہیے کہ موسمیاتی تبدیلی کی کوئی سرحد نہیں ہوتی اور اس کے تباہ کن اثرات سے کوئی طبقہ محفوظ بھی نہیں رہ سکتا۔ پورے معاشرے کو بلاتفریق اپنا کردار ادا کرنا ہوگا ورنہ اور تباہی کا سامنا ہوگا جو بڑی تیزی سے ہماری جانب بڑھ رہی ہے۔
معاہدہ کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ 2050 تک عالمی درجہ حرارت کو 2 ڈگری سینٹی گریڈ سے آگے نہیں بڑھنے دیا جائے گا۔ یہ حقیقت ہے کہ دنیا کی حکومتوں کا متفقہ طور پر منظور کردہ ماحولیاتی تحفظ کا یہ معاہدہ کرۂ ارض کو موسمیاتی تبدیلی کے سنگین اثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے، جس پر عمل درآمد کرنا اب دنیا کے ہر ملک کی قانونی ذمے داری ہے۔
اس امر کے باوجود کہ دنیا عالمی درجہ حرارت کو 2 ڈگری تک محدود کرنے پر اتفاق کرچکی ہے، تاہم عالمی سائنسدانوں اور ماحولیاتی ماہرین کا اب بھی تقریباً اتفاق رائے ہے کہ گرین ہاؤس گیسوں کے بے پناہ اخراج کے باعث اب یہ ممکن نہیں ہوگا کہ عالمی درجہ حرارت کو 2050 تک 2 ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود رکھا جاسکے گا۔ اس تلخ حقیقت کی تصدیق متعدد بین الاقوامی تحقیقی رپورٹوں میں کی جاچکی ہے۔ 2014 سے ہر سال درجہ حرارت میں اضافے کا عالمی ریکارڈ ٹوٹ رہا ہے اور 2015 کے بعد 2016 کو بھی تاریخ کا مسلسل تیسرا گرم ترین سال قرار دیا جاچکا ہے۔
ماہرین عالمی درجہ حرارت میں مسلسل ہونے والے اضافے کو طویل المدتی رجحان قرار دے رہے ہیں، جس کے تباہ کن اثرات دنیا کے تمام خطوں میں واضح طور پر نظر آرہے ہیں۔ اس امر کی بھی تصدیق کی جاچکی ہے کہ عالمی درجہ حرارت میں ہونے والے اضافے سے ایشیائی ممالک بدترین طور پر متاثر ہورہے ہیں، جس کے واضح مظاہر ہم دیکھ بھی رہے ہیں اور خود پاکستان اس کے متاثرین میں شامل بھی ہے۔
موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث سائیکلون، سمندری سیلاب، سمندر کی سطح میں اضافہ، بارشوں کے پیٹرن میں تبدیلیاں، خشک سالی، پانی کی کمیابی سمیت تیزی سے بڑھتا ہوا درجہ حرارت پورے ملک اور 1050 کلومیٹر پر پھیلی ہوئی ساحلی پٹی کو شدید متاثر کررہا ہے۔ سائنسدان پیش گوئی کر رہے ہیں کہ 2060 تک ملک کے درجہ حرارت میں 1.4 سے 3.7 ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوجائے گا۔ 2014 میں پاکستان دنیا کے ان 5 ملکوں میں شامل تھا جو موسمیاتی تبدیلی سے شدید متاثر ہوئے تھے۔
برطانیہ کے معروف ادارے ''ویرسک میپل کرافٹ'' کے مطابق پاکستان کے 3 شہروں لاہور ، فیصل آباد اور کراچی موسمیاتی تبدیلی کے شدید خطرات کی زد میں ہیں۔ انسٹیٹیوٹ آف اوشیانوگرافی کے مطابق پاکستان کا سب سے بڑا اور ساحلی شہر کراچی آنے والے 35 سے 45 برسوں میں سطح سمندر میں ہونے والے اضافے کے باعث ڈوب سکتا ہے۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی پانی کی قلت ہماری توجہ آنے والی تباہیوں کی جانب مبذول کروا رہی ہے۔
کیا یہ سب خدشات مفروضوں پر مبنی ہیں یا اب یہ حقیقت میں تبدیل ہوتے جارہے ہیں؟ یہ سنگین اشاریے ملک کے کتنے فیصد لوگوں کے لیے پریشانی کا سبب ہیں؟ شاید بہت کم کے لیے، کیونکہ پالیسی سازوں سے لے کر سیاسی جماعتوں، صنعت کاروں، سول سوسائٹی، ماحولیات پر کام کرنے والے اداروں اور تنظیموں کی غالب اکثریت کی کارکردگی اس ضمن میں نہ ہونے کے برابر نظر آتی ہے۔ لیکن اس بات میں بھی کوئی شبہ نہیں ہے کہ لاکھوں روپے خرچ کرکے پنج ستارہ ہوٹلوں میں آگہی سیمینار ضرور منعقد ہورہے ہیں۔ ان سیمیناروں میں شرکت کرنے والے شرکا مخصوص ہوچکے ہیں جو آپ کو ہر سیمینار میں نظر آئیں گے۔
کیا موسمیاتی تبدیلیوں کا تعلق ملک کے چند سو لوگوں سے ہے؟ سرکاری ادارے، نجی ادارے ہوں یا ماحولیات پر کام کرنے والے گزشتہ 10 برسوں کا ریکارڈ دیکھ لیں منظرنامہ واضح ہوجائے گا۔ پاکستان شاید دنیا کا وہ واحد ملک ہوگا جہاں آپ کو ڈھونڈ نے سے بھی ماحولیاتی کارکن نہیں ملے گا جب کہ دنیا بھر میں ماحولیاتی کا رکنوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ مختلف ملکوں میں ماحولیاتی مسائل کو اجاگر کرنے والی سول سوسائٹی جس میں ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے شامل ہوتے ہیں وجود میں آچکی ہیں جو حکومتوں پر دباؤ بنانے کے ساتھ عوامی شعور بھی بیدار کررہی ہیں لیکن اس حوالے سے ہماری کارکردگی بھی صفر ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کو دہشت گردی سے بڑا خطرہ قرار دیا جارہا ہے۔ کیا ہم نے کبھی اس جانب دیکھنے کی کوشش کی ہے کہ موسمیاتی و ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں ملک کے کتنے افراد متاثر و جاں بحق ہوئے۔ برسوں سے خشک سالی ، سیلاب، زراعت کا نقصان، پانی کی تیزی سے بڑھتی ہوئی قلت، فضائی آلودگی کا جن، آلودہ پانی، شدید گرمی کی لہر، تیزی سے پھیلتی ہوئی جان لیوا بیماریاں اور لینڈ سلائیڈنگ سے جنم لینے والے المیوں میں کتنے جاں بحق اور کتنے متاثرین ہیں۔ ہم ان کے لیے فکر مند نہیں ہیں کیونکہ یہ خون خاک نشیناں ہے۔
2 کروڑ کی آبادی رکھنے والے میگا سٹی کراچی کی مثال کو ہی لے لیں۔ 2015 میں آنے والی گرمی کی شدید لہر کے نتیجے میں چند بڑے اسپتالوں سے حاصل کیے گئے اعدادو شمار کی بنیاد پر جاں بحق ہونے والوں کی تعداد کا تعین کرلیا گیا۔ ان اعدادو شمار کا موازنہ کبھی ایدھی کے رضاکاروں سے مل کر بھی کیا جانا چاہیے جو شہر کے باسیوں کو اجتماعی قبروں میں سپرد خاک کررہے تھے۔ یہ شہر اب ایک ہیٹ آئی لینڈ میں تبدیل ہوچکا ہے جس میں دوسرے عوامل کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ مسلسل اور بغیر کسی منصوبہ بندی کے جائز اور ناجائز بلڈنگوں اور پلازوں کی تعمیر ہے۔
ملک کے بڑے بڑے شہروں میں قائم بلڈنگ کنٹرول کے اداروں یا اتھارٹیز کی کارکردگی ملاحظہ کرلیں صورتحال واضح ہوجائے گی۔ آپ کو جتنی اونچی بلڈنگ بنانی ہے اس کی اجازت مل جائے گی۔ مختلف شہروں کے انڈسٹریل ایریاز میں قائم محکمہ ماحولیات کا دفتر غیر قانونی صنعتی تعمیرات پر خاموش رہتا ہے۔ خبریں ضرور شایع ہورہی ہیں کہ فلاں فیکٹری ماحولیاتی قوانین کی خلاف ورزی پر سیل کردی گئی اور پھر حیرت انگیز طور پر وہی اچانک تمام قوانین پر عمل کرنے لگتی ہے اور کھل جاتی ہے۔
پورے ملک میں کسی منصوبے کے ماحولیاتی تجزیے کی عوامی شنوائی میں مخصوص لوگ جاتے ہیں، کبھی کبھار منصوبے کی رپورٹ مسترد بھی ہوجاتی ہے لیکن پھر سب کچھ کلیئر ہوجاتا ہے۔ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے جنم لینے والے المیوں کا شکار غریب اور امیر سب بنیں گے۔ لہٰذا یاد رکھنا چاہیے کہ موسمیاتی تبدیلی کی کوئی سرحد نہیں ہوتی اور اس کے تباہ کن اثرات سے کوئی طبقہ محفوظ بھی نہیں رہ سکتا۔ پورے معاشرے کو بلاتفریق اپنا کردار ادا کرنا ہوگا ورنہ اور تباہی کا سامنا ہوگا جو بڑی تیزی سے ہماری جانب بڑھ رہی ہے۔