آپریشن ردالفساد وقت کی اہم ضرورت ہے
آپریشن رد الفساد کے حوالے سے مختلف شخصیات کی ایکسپریس فورم میں گفتگو
FAISALABAD:
گزشتہ کئی برسوں سے پاکستان دہشت گردوں، ملک دشمنوں اور انتہا پسندوں کی ظالمانہ اور تخریبی کارروائیوں کا مرکز بنا ہوا ہے، آئے دن دھماکے، فائرنگ اور دہشت گردی کی دوسری کارروائیوں میں ہزاروں افراد جن میں سیکیورٹی افسران و اہلکار،ا ساتذہ ، وکلا، طلبہ و طالبات اور عام شہری شامل ہیں لقمہ اجل بنے۔
رواں سال لاہور چیئرنگ کراس اور سیہون میں لعل شہباز قلندرؒ کے مزار پر خودکش دھماکوں نے ملک بھر کو ہلاکر رکھ دیا، اس کے علاوہ بھی مختلف شہروں میں دہشت گردی جاری ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ حکومتیں اور سیکیورٹی فورسز ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں اور کوئی اقدامات نہیں کیے جارہے، کارروائیاں بھی ہورہی ہیں، سیکیورٹی اہلکار عوام کے شانہ بشانہ اپنی جانوں کے نذرانے دے کر ملک کو دہشت گردوں کے عفریت سے پاک کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن یہ کام اتنا آسان نہیں ہے کیونکہ دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کو عام شہریوں کے درمیان رہنے والے ہمدردو اور سہولت کاروں سے ہر طرح کی مدد اور حمایت حاصل ہے۔
ان سہولت کاروں اور ہمدردوں کو ختم کیے بغیر دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ممکن نہیں۔ سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے دور میں دہشت گردوں کی سرکوبی کے لیے آپریشن ضرب غضب شروع کیاگیا تھا جس نے کسی حد تک دہشت گردوں پر قابو پانے میں مدد دی، وزیرستان سے دہشت گردوں کا صفایا کیا گیا، اُن کے ٹھکانوں اور پناہ گاہوں کو ختم کیا گیا جس سے حالات میں کچھ بہتری آئی۔
اب موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باوجوہ کے حال ہی میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ردالفساد شروع کیا ہے۔ اس آپریشن کا بنیادی مقصد ملک بھر میں فساد پھیلانے والوں کا خاتمہ ہے۔ یہ آپریشن اپنی بھرپور رفتار کے ساتھ جاری ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن جس رفتار سے شروع کیا جائے وہی رفتار مقاصد کے حصول تک جاری رہے۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کوئی بھی کارروائی اسی وقت کامیاب ہوسکتی ہے جب مصلحتوں کا شکار ہوئے بغیر آگے بڑھا جائے۔ آپریشن ''ردالفساد''کس حد تک کامیاب ہوگا؟
ملک بھر سے دہشت گردوں، انتہا پسندوں اور تخریب کاروں اور ان کے سہولت کاروں کے خاتمے کے لیے کیا مزید اقدامات ممکن ہیں؟ آپریشن ردالفساد اور اس سے جڑے سوالات کے جواب کے لیے کراچی میں ایکسپریس فورم کا انعقاد کیاگیا جس میں مختلف شخصیات نے اپنے تاثرات بیان کیے، ایکسپریس فورم کی روداد نذر قارئین ہے۔
خواجہ اظہارالحسن (سندھ میں قائدحزب اختلاف، مرکزی رہنما ایم کیوایم پاکستان)
متحدہ قومی موومنٹ پاکستان ''آپریشن ردالفساد''کی حمایت کرتی ہے اورہم امیدکرتے ہیں کہ یہ ''آپریشن ردالفساد'' پہلے کیے گئے ''آپریشن ضرب عضب'' کی طرح کامیاب ہوگا۔ اگر ماضی میںدہشت گردی کے خاتمے کیلیے واضح پالیسیاں بن جاتیں اور ان پر عمل درآمد کیا جاتا تو آج ملک کوبڑے چیلنجزکاسامنانہیںکرناپڑتااورامن و امان کی صورت حال بہترہوتی۔
موجودہ آپریشن وقت کی اہم ضرورت ہے کیونکہ ملک میں جب تک دہشت گرد اور انتہا پسند گروپوں کا خاتمہ نہیں ہوگا ہم ترقی نہیں کرسکتے۔ دہشت گرد تنظیموں اورگروپوں کے خاتمے کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ ان عناصر کابھی قلع قمع کیاجائے جوفسادبرپاکرنے کی سوچ اوردہشت گرد پیدا کررہے ہیں۔دہشت گردی کے خاتمے کیلیے ضروری ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پراس کی اصل روح کے مطابق عملدرآمدکیاجائے اوراس پلان پرعمل کرناوفاق اورصوبائی حکومتوں کی بڑی ذمے داری ہے ۔
2سال پہلے نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا تھالیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس پر مکمل عملددرآمدنہیں ہوسکاجس کی بڑی وجہ وفاق اورصوبوں کے درمیان رابطوں کا فقدان ہے۔ نیشنل ایکشن پلان پرعملدرآمد،عدالتی نظام میں اصلاحات اورقومی سلامتی کے معاملات کیلیے پارلیمانی کمیٹی فوری طورپربننی چاہیے۔ ایم کیوایم پاکستان کی شروع سے یہ ہی پالیسی رہی ہے کہ ہم دہشت گردی کے خلاف ہیں اورہم نے نیشنل ایکشن پلان بنانے کاسب سے پہلے مطالبہ کیا تھا۔ دہشت گردی کے خاتمے کیلیے بنائی جانے والی پالیسیوں پرسیاست نہیں ہونی چاہیے۔
فوجی عدالتوں کی مدت میںتوسیع کے معاملے پراہم پارلیمانی جماعتیں متفق ہیں، اب حکومت کو چاہیے کہ موجودہ عدالتی نظام میں بھی فوری اصلاحات لائے ۔ ملک میں مستقل قیام امن کیلیے ضروری ہے کہ عوام کے بنیادی مسائل مقامی حکومتوں کی سطح پرحل ہوں، اس مقصد کے حصول کیلیے بہت ضروری ہے کہ بلدیاتی نظام کوبااختیاربنایا جائے۔ہم سمجھتے ہیں کہ دہشت گردی اورانتہاپسندی کے خاتمے کیلیے آپریشنز کے ساتھ عوامی سطح پردہشت گردی کی سوچ کوختم کرنے کیلیے ایک مربوط حکمت عملی بنانی ہوگی۔ دہشت گردوں کے خلاف بلاامتیازکاروائی ہونی چاہیے۔ دہشت گردوں کاکوئی فرقہ،مسلک،قوم یامذہب نہیں ہوتا بس دہشت گرددہشت گرد ہوتا ہے جس کا خاتمہ ہونا چاہیے۔
کراچی میں جرائم پیشہ عناصر کے خلاف آپریشن سے امن وامان کی صورت حال بہترہوئی ہے، کراچی آپریشن کادائرہ کارپورے صوبے تک وسیع کیاجائے اورسندھ بھرمیں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کیلیے رینجرز کو خصوصی اختیارات دیے جائیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ کراچی طرزکاآپریشن سندھ بھرمیں ہونا چاہیے۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ دہشت گردوں کاایجنڈا ملک میں عدم استحکام پیدا کرنا ہے، دہشت گردی کے خاتمے کیلیے فوج، سیکیورٹی اداروں اورعوام نے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ دہشت گردی کے خاتمے کیلیے وقتی نہیں بلکہ طویل المدت پالیسی کاتعین ہوناچاہیے۔
حکومت پولیس کوغیرسیاسی بنائے اوراس کیلیے فوری اقدامات کیے جائیں۔ دہشت گردی کے خاتمے کیلیے جوجماعتیں آواز بلند کرتی ہیںاوردہشت گردوں کے خلاف عملی طورپرپالیسیوںکی حمایت کرتی ہیں، اُن جماعتوں کے مسائل اورمطالبات کوسننا اوران کاحل تلاش کرنابھی حکومت وقت کی ذمے داری ہے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے ساتھ ساتھ کرپشن کاخاتمہ بھی ضروری ہے اوراس کیلیے سخت پالیسی اورکریک ڈاؤن کی ضرورت ہے۔
آپریشن ''ردالفساد''کے دوران اس بات کاخیال رکھاجائے کہ کسی بے گناہ کوگرفتانہ کیاجائے اورماورائے عدالت قتل کی شکایات نہیں ہونی چاہئیں۔ پولیس میں تفتیش کے نظام کوبھی تبدیل کرناہوگا اور پولیس کوتفتیش کیلیے جدید تربیت دینی ہوگی۔ ایم کیوایم پاکستان دہشت گردی کے خاتمے کیلیے اپنابھرپورکرداراداکرتی رہے گی۔ہمارے بھی کچھ مسائل اور تحفظات ہیں ان کابھی ازالہ ہونا چاہیے۔
نثار کھوڑو (صدر پیپلز پارٹی سندھ ، سینئر صوبائی اور پارلیمانی لیڈر)
آپریشن ردالفساد اس لحاظ سے ضروری ہے کہ پاکستان کافی عرصے سے دہشت گردی کا شکار ہے جس میں ہزاروں کی تعداد میں عام لوگ شہید ہوئے، ہمارے فوجی جوانوں نے شہادتیں پائیں، ہماری پولیس اور رینجرز نے قربانیاں دیں، لوگوں کو مسجدوں میں شہید کیا گیا، تعلیمی اداروں میں ہمارے نوجوان نسل کو ختم کرنے کی کوششیں کی گئیں، ہماری خواتین کو قتل کیا گیا، ہمارے معصوم بچوں کو شہید کیا گیا، کہنے کا مطلب ہے کہ ہم سب دہشت گردی کا شکار رہے، خاص طور پر پاکستان پیپلز پارٹی دہشت گردوں کا نشانہ بنی رہی، دہشت گردوں نے ہماری قیادت کو شہید کردیا۔
پیپلز پارٹی نے نہ صرف عوام کے درد کو محسوس کیا ہے بلکہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اقدامات بھی کیے ہیں۔ آرمی پبلک اسکول پشاور کے سانحے کے بعد سیاسی اور عسکری قیادت نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے نیشنل ایکشن پلان بنایا، ملک میں 2 سال کے لیے فوجی عدالتوں کے لیے قانون سازی کی گئی۔ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کو فوجی عدالتوں پر تحفظات تھے لیکن ملک کے وسیع تر مفاد میں ہم نے فوجی عدالتوں کے قیام کی حمایت کی تھی۔اب بھی ہم یہ ہی چاہتے ہیں کہ اس معاملے پر اتفاق رائے سے فیصلہ کیا جائے۔
میں سمجھتا ہوں کہ نیشنل ایکشن پلان پر جتنا عملدرآمد صوبہ سندھ میں ہوا اتنا کسی صوبے میں نہیں ہوسکا، اس کی وجوہ پر بھی بات ہونی چاہیے۔خود وفاقی حکومت نے نیشنل ایکشن پلان عملدرآمد نہیں کیا جبکہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کرنے کی سب سے زیادہ ذمے داری وفاقی حکومت پر بنتی ہے۔یہ ریکارڈ کی بات ہے جس کا آپ سب کو بخوبی علم ہے کہ سندھ حکومت نے نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے لیے وفاقی حکومت کو خط لکھے۔
وزیر اعلیٰ سندھ نے کئی بار عوامی فورمز پر ان مسائل کا ذکر کیا لیکن وفاق کی طرف سے کسی قسم کی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔میں پھر کہتا ہوں کہ ہم دہشت گردی کے بدترین متاثر ہیں اسی لیے ہمیں سب سے زیادہ احساس ہے، ہم ہی اس سلسلے میں سب سے زیادہ فکرمند ہیں۔ ہم دہشت گردی کے خاتمے میں سنجیدہ ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ اس ملک کو دہشت گردی سے چھٹکارہ دلایا جائے اور اس سلسلے میں سنجیدہ اقدامات کیے جائیں، اس کے لیے قومی اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹرعارف علوی (صوبائی صدر،رکن قومی اسمبلی پاکستان تحریک انصاف)
تحریک انصاف ''آپریشن ردالفساد''کی بھرپور حامی ہے، توقع ہے کہ اس آپریشن کے نتیجے میںملک سے دہشت گردی اورانتہاپسندی کاخاتمہ ہوگا۔ دہشت گردی کے خاتمے کیلیے تمام سیاسی جماعتوں کو اس آپریشن کی حمایت کرنی ہوگی تاہم اس آپریشن کے حوالے سے اگرکسی جماعت کو تحفظات ہیں تو اُن کو دور کرنا ریاست کی ذمے داری ہے۔
موجودہ آپریشن ''ردالفساد''کے حوالے سے پارلیمنٹ کوبھی آگاہ کرنا بھی حکومت وقت کا کام ہے ۔پارلیمنٹ ملک کاسب سے بڑافورم ہے جہاں تمام اہم جماعتوںکی نمائندگی ہے تاہم حکمراں مسلم لیگ (ن)پارلیمنٹ کواہمیت نہیں دیتی۔ جب کوئی مسئلہ اُن کے گلے میں ہڈی بن کراٹک جاتاہے تووفاقی حکومت کو پارلمینٹ یادآجاتی ہے، اس رویے پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
آپ کو یاد ہوگا کہ 2سال قبل دہشت گردی کے خاتمے کیلیے حکومت اورتمام پارلیمانی جماعتوں نے متفقہ طورپر21ویں آئینی ترمیم منظورکی اورفوجی عدالتیں قائم کی گئیں ۔ دہشت گردی کے خاتمے کیلیے قومی ایکشن پلان بنایا گیا جو 20 نکات پرمبنی ہے اس پرعملدرآمدکرناوفاقی اورصوبائی حکومتوںکی ذمے داری ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ وفاقی حکومت نے اپنی ذمے داری احسن طریقے سے نہیں نبھائی اورقومی ایکشن پلان پر اُس کی اصل روح کے مطابق عملدرآمد نہیں ہوسکا۔
21ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے وقت وفاقی حکومت نے وعدہ کیاتھاکہ فوجی عدالتیں2سال کیلیے قائم کی گئی ہیں اور اس 2سال کی مدت میں عدالتی نظام میں اصلاحات کی جائیں گی لیکن حکومت نے اپناوعدہ پورا نہیں کیا اور اس قانون سازی کیلیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے۔
دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے بعدایک مرتبہ پھرفوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کیلیے قانون سازی کے معاملے پرحکومت کودوبارہ پارلیمانی جماعتوں کی یاد آگئی اوروفاقی حکومت نے ایک نئی آئینی ترمیم کیلیے پارلیمانی جماعتوں سے رابطے کیے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے علاوہ تمام جماعتوں نے فوجی عدالتوں کے قیام کی مدت میں توسیع کی حمایت کی ہے تاہم یہ عدالتیں دہشت گردی جیسے مسئلے کا مستقل حل نہیں ہیں۔
حکومت نے پارلیمانی جماعتوں کو یقین دہانی کروائی ہے کہ قومی سلامتی کے معاملے پرپارلیمانی کمیٹی قائم کی جائے گی اورعدالتی نظام میں اصلاحات کیلیے جلدپارلیمنٹ سے قانون سازی کی جائے گی ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جب تک عدالتی نظام میں اصلاحات نہیں ہوں گی، دہشت گردی کے خاتمے کیلیے کیے جانے والے اقدامات کے مکمل نتائج حاصل نہیں ہوں گے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک بھر میں دہشت گردی اورانتہاپسندی کے خاتمے کیلیے قلیل، درمیانی اورطویل المدت پالیسیاں بنانی ہوںگی اوراس کیلیے حکومت کوتمام پارلیمانی جماعتوںسے مشاورت کرنی چاہیے۔ حکومت کواپنی خارجہ پالیسی کادوبارہ جائزہ لیناچاہییے اورپارلیمنٹ کو اعتماد میں لے کرخارجہ پالیسی میں ضروری تبدیلیاں کی جائیں۔ آپریشن ردالفسادکے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ حکومت سویلین سیکیورٹی اداروںکومضبوط کرے خاص طور پر پولیس کوغیرسیاسی کیاجائے اورپولیس کوٹریننگ اوراسلحہ فراہم کیاجائے۔
تحریک انصاف سمجھتی ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے ساتھ ساتھ کرپشن کے خاتمے کیلیے بھی آپریشن ہوناچاہیے، جب ملک کے حکمراں ہی کرپشن میںملوث ہوںگے توملک کیسے ترقی کرے گا۔ ملک میںدہشت گردی اور انتہاپسندی بہت بڑے چیلنجز ہیں۔ ہمیں اندرونی دشمنوں کے خاتمے کے ساتھ ساتھ بیرونی دشمنوں پربھی کڑی نظررکھنی ہوگی اوربیرونی دشمنوں کی سازشوں کو روکنے کیلیے مربوط حکمت عملی کاتعین کرناہوگا۔
ملک میں اس ہی وقت اصل جمہوریت آسکتی ہے جب آئندہ انتخابات شفاف ہوں۔ شفاف الیکشن کیلیے ضروری ہے کہ فوری انتخابی اصلاحات کی جائیں۔ دہشت گردوں کے حوالے سے کوئی تفریق نہیں ہونی چاہیے۔ دہشت گرد گروپوں اور تنظیموں کے ساتھ ساتھ عسکری ونگزکا بھی خاتمہ کیاجائے ۔امیدہے کہ آپریشن ''ردالفساد''کے بہترنتائج سامنے آئیں گے۔ تمام سیاسی جماعتوں کوچاہیے کہ وہ سیاسی اختلافات کوبالائے طاق رکھتے ہوئے ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کیلیے ایک پلیٹ فارم پرجمع ہوجائیں۔
سینیٹر نہال ہاشمی (پاکستان مسلم لیگ( ن )سندھ کے سیکریٹری جنرل)
ملک میں دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خاتمے کیلیے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے عسکری قیادت کی مشاورت سے آپریشن ردالفساد شروع کرنے کی منظوری دی ہے ۔پاک فوج اور سیکیورٹی اداروں کے اس آپریشن سے ملک بھر میں دہشت گردی کرنے والی تنظیموں ،گروہوں ،عسکری ونگز اور ان کے سہولت کاروں ،مالی معاونین ،مدد گاروں اور سرپرستوں کا قلع قمع کیا جائے گا۔اس آپریشن سے ملک کا مستقبل محفوظ ہوگا۔
مسلم لیگ (ن) نے جب 2013میں حکومت سنبھالی تھی، اس وقت ملک میں امن و امان کی صورت حال خراب تھی ۔کراچی میں بھی لوگوں کی جان و مال محفوظ نہیں تھی ۔ملک بھر میں دہشت گردی کے واقعات ہونا روز کا معمول بن گیا تھا تاہم وزیراعظم نواز شریف نے عسکری قیادت اور صوبائی حکومتوں کی مشاورت سے دہشت گردی کے خاتمے کیلیے قلیل، درمیانی اور طویل المدتی پالیسیاں تشکیل دیں اور ان پالیسیوں کے باعث ملک میں آج امن و امان کی صورت حال بہت بہتر ہوگئی ہے۔
پاک فوج کی جانب سے شمالی وزیرستان میں کیے جانے والے آپریشن'' ضرب عضب ''کے باعث وہاں دہشت گردی کے نیٹ ورک کا خاتمہ کیا گیا اور اب ملک بھر میں فساد برپا کرنے والوں کے خلاف آپریشن ''ردالفساد شروع'' کیا گیا ہے ۔یہ آپریشن طویل المدت پالیسی کا حصہ ہے ۔اس آپریشن کے ذریعے ملک میں فساد برپا کرنے والوں کا خاتمہ کیا جائے گا۔آپریشن ردالفساد کامیابی کے ساتھ جاری ہے اور اس کی کامیابی کیلیے پوری قوم پاک فوج کے ساتھ ہے۔
حکومت نے ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کیلیے پارلیمانی جماعتوں کی مشاورت سے قومی ایکشن پلان ترتیب دیا ہے اور اس ایکشن پلان پر وفاقی حکومت عمل کررہی ہے جبکہ صوبائی حکومتوں کو بھی اس پلان پر اپنے حصے کے تمام نکات پرمکمل عمل کرنا ہوگا تاکہ قومی ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عمل کیا جاسکے اور اس کے اہداف حاصل کیے جاسکیں۔
فوجی عدالتوں کی مدت میں اضافہ وقت کی ضرورت ہے اور ان ہی عدالتوں کے باعث دہشت گردی میں کمی آئی ہے ۔اب حکومت کی آئندہ کی پالیسی انسداد دہشت گردی کے قوانین کے ساتھ ساتھ فوجداری اور دیوانی قوانین میں بھی تبدیلی کرنا ہے ۔ان قوانین میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ عدالتی نظام میں اصلاحات کیلیے بھی پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات پر قانونی مسودے کو حتمی شکل دی جائے گی اور اس کو پارلیمنٹ سے منظور کرایا جائے گا۔
موجودہ حکومت کا سب سے بڑا کارنامہ کراچی میں امن و امان کا قیام ہے۔کراچی آپریشن تیزی سے اپنے نتائج کی طرف بڑھ رہا ہے ۔اس آپریشن کے باعث کراچی کے شہری محفوظ ہوئے ہیں اور یہاںسرمایہ کاری میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ اس وقت بنیادی ضرورت یہ ہے کہ ملک کی تمام سیاسی قیادت دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ایک نکاتی ایجنڈے پر عمل پیرا ہوجائیں اور وزیراعظم نواز شریف کا وژن ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کیلیے جو بھی پالیسی بنے وہ قومی اتفاق رائے سے بننی چاہیے۔اس وژن پر وفاقی حکومت عمل پیرا ہے ۔سیاسی وعسکری قیادت مشترکہ طور پر ملک میں مکمل بحالی امن کیلیے باہمی مشاورت سے اقدامات کررہی ہے۔
ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کیلیے ضروری ہے کہ تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں آپریشن'' رد الفساد'' کی حمایت کریں ۔عالمی برادری پاکستان کی جانب سے دہشت گردی کے خاتمے کیلیے کیے جانے والے آپریشنز واقدامات اور قربانیوں کو تسلیم کرتی ہے ۔
گزشتہ کئی برسوں سے پاکستان دہشت گردوں، ملک دشمنوں اور انتہا پسندوں کی ظالمانہ اور تخریبی کارروائیوں کا مرکز بنا ہوا ہے، آئے دن دھماکے، فائرنگ اور دہشت گردی کی دوسری کارروائیوں میں ہزاروں افراد جن میں سیکیورٹی افسران و اہلکار،ا ساتذہ ، وکلا، طلبہ و طالبات اور عام شہری شامل ہیں لقمہ اجل بنے۔
رواں سال لاہور چیئرنگ کراس اور سیہون میں لعل شہباز قلندرؒ کے مزار پر خودکش دھماکوں نے ملک بھر کو ہلاکر رکھ دیا، اس کے علاوہ بھی مختلف شہروں میں دہشت گردی جاری ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ حکومتیں اور سیکیورٹی فورسز ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں اور کوئی اقدامات نہیں کیے جارہے، کارروائیاں بھی ہورہی ہیں، سیکیورٹی اہلکار عوام کے شانہ بشانہ اپنی جانوں کے نذرانے دے کر ملک کو دہشت گردوں کے عفریت سے پاک کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن یہ کام اتنا آسان نہیں ہے کیونکہ دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کو عام شہریوں کے درمیان رہنے والے ہمدردو اور سہولت کاروں سے ہر طرح کی مدد اور حمایت حاصل ہے۔
ان سہولت کاروں اور ہمدردوں کو ختم کیے بغیر دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ممکن نہیں۔ سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے دور میں دہشت گردوں کی سرکوبی کے لیے آپریشن ضرب غضب شروع کیاگیا تھا جس نے کسی حد تک دہشت گردوں پر قابو پانے میں مدد دی، وزیرستان سے دہشت گردوں کا صفایا کیا گیا، اُن کے ٹھکانوں اور پناہ گاہوں کو ختم کیا گیا جس سے حالات میں کچھ بہتری آئی۔
اب موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باوجوہ کے حال ہی میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ردالفساد شروع کیا ہے۔ اس آپریشن کا بنیادی مقصد ملک بھر میں فساد پھیلانے والوں کا خاتمہ ہے۔ یہ آپریشن اپنی بھرپور رفتار کے ساتھ جاری ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن جس رفتار سے شروع کیا جائے وہی رفتار مقاصد کے حصول تک جاری رہے۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کوئی بھی کارروائی اسی وقت کامیاب ہوسکتی ہے جب مصلحتوں کا شکار ہوئے بغیر آگے بڑھا جائے۔ آپریشن ''ردالفساد''کس حد تک کامیاب ہوگا؟
ملک بھر سے دہشت گردوں، انتہا پسندوں اور تخریب کاروں اور ان کے سہولت کاروں کے خاتمے کے لیے کیا مزید اقدامات ممکن ہیں؟ آپریشن ردالفساد اور اس سے جڑے سوالات کے جواب کے لیے کراچی میں ایکسپریس فورم کا انعقاد کیاگیا جس میں مختلف شخصیات نے اپنے تاثرات بیان کیے، ایکسپریس فورم کی روداد نذر قارئین ہے۔
خواجہ اظہارالحسن (سندھ میں قائدحزب اختلاف، مرکزی رہنما ایم کیوایم پاکستان)
متحدہ قومی موومنٹ پاکستان ''آپریشن ردالفساد''کی حمایت کرتی ہے اورہم امیدکرتے ہیں کہ یہ ''آپریشن ردالفساد'' پہلے کیے گئے ''آپریشن ضرب عضب'' کی طرح کامیاب ہوگا۔ اگر ماضی میںدہشت گردی کے خاتمے کیلیے واضح پالیسیاں بن جاتیں اور ان پر عمل درآمد کیا جاتا تو آج ملک کوبڑے چیلنجزکاسامنانہیںکرناپڑتااورامن و امان کی صورت حال بہترہوتی۔
موجودہ آپریشن وقت کی اہم ضرورت ہے کیونکہ ملک میں جب تک دہشت گرد اور انتہا پسند گروپوں کا خاتمہ نہیں ہوگا ہم ترقی نہیں کرسکتے۔ دہشت گرد تنظیموں اورگروپوں کے خاتمے کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ ان عناصر کابھی قلع قمع کیاجائے جوفسادبرپاکرنے کی سوچ اوردہشت گرد پیدا کررہے ہیں۔دہشت گردی کے خاتمے کیلیے ضروری ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پراس کی اصل روح کے مطابق عملدرآمدکیاجائے اوراس پلان پرعمل کرناوفاق اورصوبائی حکومتوں کی بڑی ذمے داری ہے ۔
2سال پہلے نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا تھالیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس پر مکمل عملددرآمدنہیں ہوسکاجس کی بڑی وجہ وفاق اورصوبوں کے درمیان رابطوں کا فقدان ہے۔ نیشنل ایکشن پلان پرعملدرآمد،عدالتی نظام میں اصلاحات اورقومی سلامتی کے معاملات کیلیے پارلیمانی کمیٹی فوری طورپربننی چاہیے۔ ایم کیوایم پاکستان کی شروع سے یہ ہی پالیسی رہی ہے کہ ہم دہشت گردی کے خلاف ہیں اورہم نے نیشنل ایکشن پلان بنانے کاسب سے پہلے مطالبہ کیا تھا۔ دہشت گردی کے خاتمے کیلیے بنائی جانے والی پالیسیوں پرسیاست نہیں ہونی چاہیے۔
فوجی عدالتوں کی مدت میںتوسیع کے معاملے پراہم پارلیمانی جماعتیں متفق ہیں، اب حکومت کو چاہیے کہ موجودہ عدالتی نظام میں بھی فوری اصلاحات لائے ۔ ملک میں مستقل قیام امن کیلیے ضروری ہے کہ عوام کے بنیادی مسائل مقامی حکومتوں کی سطح پرحل ہوں، اس مقصد کے حصول کیلیے بہت ضروری ہے کہ بلدیاتی نظام کوبااختیاربنایا جائے۔ہم سمجھتے ہیں کہ دہشت گردی اورانتہاپسندی کے خاتمے کیلیے آپریشنز کے ساتھ عوامی سطح پردہشت گردی کی سوچ کوختم کرنے کیلیے ایک مربوط حکمت عملی بنانی ہوگی۔ دہشت گردوں کے خلاف بلاامتیازکاروائی ہونی چاہیے۔ دہشت گردوں کاکوئی فرقہ،مسلک،قوم یامذہب نہیں ہوتا بس دہشت گرددہشت گرد ہوتا ہے جس کا خاتمہ ہونا چاہیے۔
کراچی میں جرائم پیشہ عناصر کے خلاف آپریشن سے امن وامان کی صورت حال بہترہوئی ہے، کراچی آپریشن کادائرہ کارپورے صوبے تک وسیع کیاجائے اورسندھ بھرمیں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کیلیے رینجرز کو خصوصی اختیارات دیے جائیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ کراچی طرزکاآپریشن سندھ بھرمیں ہونا چاہیے۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ دہشت گردوں کاایجنڈا ملک میں عدم استحکام پیدا کرنا ہے، دہشت گردی کے خاتمے کیلیے فوج، سیکیورٹی اداروں اورعوام نے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ دہشت گردی کے خاتمے کیلیے وقتی نہیں بلکہ طویل المدت پالیسی کاتعین ہوناچاہیے۔
حکومت پولیس کوغیرسیاسی بنائے اوراس کیلیے فوری اقدامات کیے جائیں۔ دہشت گردی کے خاتمے کیلیے جوجماعتیں آواز بلند کرتی ہیںاوردہشت گردوں کے خلاف عملی طورپرپالیسیوںکی حمایت کرتی ہیں، اُن جماعتوں کے مسائل اورمطالبات کوسننا اوران کاحل تلاش کرنابھی حکومت وقت کی ذمے داری ہے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے ساتھ ساتھ کرپشن کاخاتمہ بھی ضروری ہے اوراس کیلیے سخت پالیسی اورکریک ڈاؤن کی ضرورت ہے۔
آپریشن ''ردالفساد''کے دوران اس بات کاخیال رکھاجائے کہ کسی بے گناہ کوگرفتانہ کیاجائے اورماورائے عدالت قتل کی شکایات نہیں ہونی چاہئیں۔ پولیس میں تفتیش کے نظام کوبھی تبدیل کرناہوگا اور پولیس کوتفتیش کیلیے جدید تربیت دینی ہوگی۔ ایم کیوایم پاکستان دہشت گردی کے خاتمے کیلیے اپنابھرپورکرداراداکرتی رہے گی۔ہمارے بھی کچھ مسائل اور تحفظات ہیں ان کابھی ازالہ ہونا چاہیے۔
نثار کھوڑو (صدر پیپلز پارٹی سندھ ، سینئر صوبائی اور پارلیمانی لیڈر)
آپریشن ردالفساد اس لحاظ سے ضروری ہے کہ پاکستان کافی عرصے سے دہشت گردی کا شکار ہے جس میں ہزاروں کی تعداد میں عام لوگ شہید ہوئے، ہمارے فوجی جوانوں نے شہادتیں پائیں، ہماری پولیس اور رینجرز نے قربانیاں دیں، لوگوں کو مسجدوں میں شہید کیا گیا، تعلیمی اداروں میں ہمارے نوجوان نسل کو ختم کرنے کی کوششیں کی گئیں، ہماری خواتین کو قتل کیا گیا، ہمارے معصوم بچوں کو شہید کیا گیا، کہنے کا مطلب ہے کہ ہم سب دہشت گردی کا شکار رہے، خاص طور پر پاکستان پیپلز پارٹی دہشت گردوں کا نشانہ بنی رہی، دہشت گردوں نے ہماری قیادت کو شہید کردیا۔
پیپلز پارٹی نے نہ صرف عوام کے درد کو محسوس کیا ہے بلکہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اقدامات بھی کیے ہیں۔ آرمی پبلک اسکول پشاور کے سانحے کے بعد سیاسی اور عسکری قیادت نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے نیشنل ایکشن پلان بنایا، ملک میں 2 سال کے لیے فوجی عدالتوں کے لیے قانون سازی کی گئی۔ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کو فوجی عدالتوں پر تحفظات تھے لیکن ملک کے وسیع تر مفاد میں ہم نے فوجی عدالتوں کے قیام کی حمایت کی تھی۔اب بھی ہم یہ ہی چاہتے ہیں کہ اس معاملے پر اتفاق رائے سے فیصلہ کیا جائے۔
میں سمجھتا ہوں کہ نیشنل ایکشن پلان پر جتنا عملدرآمد صوبہ سندھ میں ہوا اتنا کسی صوبے میں نہیں ہوسکا، اس کی وجوہ پر بھی بات ہونی چاہیے۔خود وفاقی حکومت نے نیشنل ایکشن پلان عملدرآمد نہیں کیا جبکہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کرنے کی سب سے زیادہ ذمے داری وفاقی حکومت پر بنتی ہے۔یہ ریکارڈ کی بات ہے جس کا آپ سب کو بخوبی علم ہے کہ سندھ حکومت نے نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے لیے وفاقی حکومت کو خط لکھے۔
وزیر اعلیٰ سندھ نے کئی بار عوامی فورمز پر ان مسائل کا ذکر کیا لیکن وفاق کی طرف سے کسی قسم کی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔میں پھر کہتا ہوں کہ ہم دہشت گردی کے بدترین متاثر ہیں اسی لیے ہمیں سب سے زیادہ احساس ہے، ہم ہی اس سلسلے میں سب سے زیادہ فکرمند ہیں۔ ہم دہشت گردی کے خاتمے میں سنجیدہ ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ اس ملک کو دہشت گردی سے چھٹکارہ دلایا جائے اور اس سلسلے میں سنجیدہ اقدامات کیے جائیں، اس کے لیے قومی اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹرعارف علوی (صوبائی صدر،رکن قومی اسمبلی پاکستان تحریک انصاف)
تحریک انصاف ''آپریشن ردالفساد''کی بھرپور حامی ہے، توقع ہے کہ اس آپریشن کے نتیجے میںملک سے دہشت گردی اورانتہاپسندی کاخاتمہ ہوگا۔ دہشت گردی کے خاتمے کیلیے تمام سیاسی جماعتوں کو اس آپریشن کی حمایت کرنی ہوگی تاہم اس آپریشن کے حوالے سے اگرکسی جماعت کو تحفظات ہیں تو اُن کو دور کرنا ریاست کی ذمے داری ہے۔
موجودہ آپریشن ''ردالفساد''کے حوالے سے پارلیمنٹ کوبھی آگاہ کرنا بھی حکومت وقت کا کام ہے ۔پارلیمنٹ ملک کاسب سے بڑافورم ہے جہاں تمام اہم جماعتوںکی نمائندگی ہے تاہم حکمراں مسلم لیگ (ن)پارلیمنٹ کواہمیت نہیں دیتی۔ جب کوئی مسئلہ اُن کے گلے میں ہڈی بن کراٹک جاتاہے تووفاقی حکومت کو پارلمینٹ یادآجاتی ہے، اس رویے پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
آپ کو یاد ہوگا کہ 2سال قبل دہشت گردی کے خاتمے کیلیے حکومت اورتمام پارلیمانی جماعتوں نے متفقہ طورپر21ویں آئینی ترمیم منظورکی اورفوجی عدالتیں قائم کی گئیں ۔ دہشت گردی کے خاتمے کیلیے قومی ایکشن پلان بنایا گیا جو 20 نکات پرمبنی ہے اس پرعملدرآمدکرناوفاقی اورصوبائی حکومتوںکی ذمے داری ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ وفاقی حکومت نے اپنی ذمے داری احسن طریقے سے نہیں نبھائی اورقومی ایکشن پلان پر اُس کی اصل روح کے مطابق عملدرآمد نہیں ہوسکا۔
21ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے وقت وفاقی حکومت نے وعدہ کیاتھاکہ فوجی عدالتیں2سال کیلیے قائم کی گئی ہیں اور اس 2سال کی مدت میں عدالتی نظام میں اصلاحات کی جائیں گی لیکن حکومت نے اپناوعدہ پورا نہیں کیا اور اس قانون سازی کیلیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے۔
دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے بعدایک مرتبہ پھرفوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کیلیے قانون سازی کے معاملے پرحکومت کودوبارہ پارلیمانی جماعتوں کی یاد آگئی اوروفاقی حکومت نے ایک نئی آئینی ترمیم کیلیے پارلیمانی جماعتوں سے رابطے کیے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے علاوہ تمام جماعتوں نے فوجی عدالتوں کے قیام کی مدت میں توسیع کی حمایت کی ہے تاہم یہ عدالتیں دہشت گردی جیسے مسئلے کا مستقل حل نہیں ہیں۔
حکومت نے پارلیمانی جماعتوں کو یقین دہانی کروائی ہے کہ قومی سلامتی کے معاملے پرپارلیمانی کمیٹی قائم کی جائے گی اورعدالتی نظام میں اصلاحات کیلیے جلدپارلیمنٹ سے قانون سازی کی جائے گی ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جب تک عدالتی نظام میں اصلاحات نہیں ہوں گی، دہشت گردی کے خاتمے کیلیے کیے جانے والے اقدامات کے مکمل نتائج حاصل نہیں ہوں گے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک بھر میں دہشت گردی اورانتہاپسندی کے خاتمے کیلیے قلیل، درمیانی اورطویل المدت پالیسیاں بنانی ہوںگی اوراس کیلیے حکومت کوتمام پارلیمانی جماعتوںسے مشاورت کرنی چاہیے۔ حکومت کواپنی خارجہ پالیسی کادوبارہ جائزہ لیناچاہییے اورپارلیمنٹ کو اعتماد میں لے کرخارجہ پالیسی میں ضروری تبدیلیاں کی جائیں۔ آپریشن ردالفسادکے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ حکومت سویلین سیکیورٹی اداروںکومضبوط کرے خاص طور پر پولیس کوغیرسیاسی کیاجائے اورپولیس کوٹریننگ اوراسلحہ فراہم کیاجائے۔
تحریک انصاف سمجھتی ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے ساتھ ساتھ کرپشن کے خاتمے کیلیے بھی آپریشن ہوناچاہیے، جب ملک کے حکمراں ہی کرپشن میںملوث ہوںگے توملک کیسے ترقی کرے گا۔ ملک میںدہشت گردی اور انتہاپسندی بہت بڑے چیلنجز ہیں۔ ہمیں اندرونی دشمنوں کے خاتمے کے ساتھ ساتھ بیرونی دشمنوں پربھی کڑی نظررکھنی ہوگی اوربیرونی دشمنوں کی سازشوں کو روکنے کیلیے مربوط حکمت عملی کاتعین کرناہوگا۔
ملک میں اس ہی وقت اصل جمہوریت آسکتی ہے جب آئندہ انتخابات شفاف ہوں۔ شفاف الیکشن کیلیے ضروری ہے کہ فوری انتخابی اصلاحات کی جائیں۔ دہشت گردوں کے حوالے سے کوئی تفریق نہیں ہونی چاہیے۔ دہشت گرد گروپوں اور تنظیموں کے ساتھ ساتھ عسکری ونگزکا بھی خاتمہ کیاجائے ۔امیدہے کہ آپریشن ''ردالفساد''کے بہترنتائج سامنے آئیں گے۔ تمام سیاسی جماعتوں کوچاہیے کہ وہ سیاسی اختلافات کوبالائے طاق رکھتے ہوئے ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کیلیے ایک پلیٹ فارم پرجمع ہوجائیں۔
سینیٹر نہال ہاشمی (پاکستان مسلم لیگ( ن )سندھ کے سیکریٹری جنرل)
ملک میں دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خاتمے کیلیے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے عسکری قیادت کی مشاورت سے آپریشن ردالفساد شروع کرنے کی منظوری دی ہے ۔پاک فوج اور سیکیورٹی اداروں کے اس آپریشن سے ملک بھر میں دہشت گردی کرنے والی تنظیموں ،گروہوں ،عسکری ونگز اور ان کے سہولت کاروں ،مالی معاونین ،مدد گاروں اور سرپرستوں کا قلع قمع کیا جائے گا۔اس آپریشن سے ملک کا مستقبل محفوظ ہوگا۔
مسلم لیگ (ن) نے جب 2013میں حکومت سنبھالی تھی، اس وقت ملک میں امن و امان کی صورت حال خراب تھی ۔کراچی میں بھی لوگوں کی جان و مال محفوظ نہیں تھی ۔ملک بھر میں دہشت گردی کے واقعات ہونا روز کا معمول بن گیا تھا تاہم وزیراعظم نواز شریف نے عسکری قیادت اور صوبائی حکومتوں کی مشاورت سے دہشت گردی کے خاتمے کیلیے قلیل، درمیانی اور طویل المدتی پالیسیاں تشکیل دیں اور ان پالیسیوں کے باعث ملک میں آج امن و امان کی صورت حال بہت بہتر ہوگئی ہے۔
پاک فوج کی جانب سے شمالی وزیرستان میں کیے جانے والے آپریشن'' ضرب عضب ''کے باعث وہاں دہشت گردی کے نیٹ ورک کا خاتمہ کیا گیا اور اب ملک بھر میں فساد برپا کرنے والوں کے خلاف آپریشن ''ردالفساد شروع'' کیا گیا ہے ۔یہ آپریشن طویل المدت پالیسی کا حصہ ہے ۔اس آپریشن کے ذریعے ملک میں فساد برپا کرنے والوں کا خاتمہ کیا جائے گا۔آپریشن ردالفساد کامیابی کے ساتھ جاری ہے اور اس کی کامیابی کیلیے پوری قوم پاک فوج کے ساتھ ہے۔
حکومت نے ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کیلیے پارلیمانی جماعتوں کی مشاورت سے قومی ایکشن پلان ترتیب دیا ہے اور اس ایکشن پلان پر وفاقی حکومت عمل کررہی ہے جبکہ صوبائی حکومتوں کو بھی اس پلان پر اپنے حصے کے تمام نکات پرمکمل عمل کرنا ہوگا تاکہ قومی ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عمل کیا جاسکے اور اس کے اہداف حاصل کیے جاسکیں۔
فوجی عدالتوں کی مدت میں اضافہ وقت کی ضرورت ہے اور ان ہی عدالتوں کے باعث دہشت گردی میں کمی آئی ہے ۔اب حکومت کی آئندہ کی پالیسی انسداد دہشت گردی کے قوانین کے ساتھ ساتھ فوجداری اور دیوانی قوانین میں بھی تبدیلی کرنا ہے ۔ان قوانین میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ عدالتی نظام میں اصلاحات کیلیے بھی پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات پر قانونی مسودے کو حتمی شکل دی جائے گی اور اس کو پارلیمنٹ سے منظور کرایا جائے گا۔
موجودہ حکومت کا سب سے بڑا کارنامہ کراچی میں امن و امان کا قیام ہے۔کراچی آپریشن تیزی سے اپنے نتائج کی طرف بڑھ رہا ہے ۔اس آپریشن کے باعث کراچی کے شہری محفوظ ہوئے ہیں اور یہاںسرمایہ کاری میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ اس وقت بنیادی ضرورت یہ ہے کہ ملک کی تمام سیاسی قیادت دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ایک نکاتی ایجنڈے پر عمل پیرا ہوجائیں اور وزیراعظم نواز شریف کا وژن ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کیلیے جو بھی پالیسی بنے وہ قومی اتفاق رائے سے بننی چاہیے۔اس وژن پر وفاقی حکومت عمل پیرا ہے ۔سیاسی وعسکری قیادت مشترکہ طور پر ملک میں مکمل بحالی امن کیلیے باہمی مشاورت سے اقدامات کررہی ہے۔
ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کیلیے ضروری ہے کہ تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں آپریشن'' رد الفساد'' کی حمایت کریں ۔عالمی برادری پاکستان کی جانب سے دہشت گردی کے خاتمے کیلیے کیے جانے والے آپریشنز واقدامات اور قربانیوں کو تسلیم کرتی ہے ۔