پانچ مارچ پاکستان کی جیت کا دن

سیاست اوراختلاف اپنی جگہ مگر ایک بات سے انکار ممکن نہیں کہ یہ دن پاکستانیوں کےجذبے، جوش، دلیری اور زندہ دلی کے نام رہا


ایک دن کے لئے ہی سہی، مگر سب مہنگائی کا رونا، لوڈشیڈنگ کا عذاب، دہشت گردوں کا خوف، اپنے نجی غم اور روز مرہ کی کئی تکلیفیں بھول گئے۔ فوٹو: سوشل میڈیا

تاریخ بے شک حادثات سے جنم لیتی ہے، مگر کچھ حادثے اتنے بڑے ہوتے ہیں کہ وہ قوموں کی زندگی میں Make یا Break کا کردار ادا کرتے ہیں۔ ایسا ہی ایک حادثہ 2009ء میں ہوا اور پاکستان عالمی کرکٹ سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن ہمارے میدان ایسے ویران ہوئے کہ انہیں آباد کرنے کی ہر کوشش تقریباً رائیگاں ہی گئی۔ 2009ء میں قذافی اسٹیڈیم میں سری لنکن دوستوں کے ہمراہ پاکستان اور سری لنکا کا آخری ایک روزہ میچ دیکھتے ہوئے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اب ایسا ایک اور دن دیکھنے کے لئے ہمیں برسوں انتظار کرنا پڑے گا۔

اگرچہ 2009ء کے بعد متعدد مرتبہ قذافی اسٹیڈیم میچ دیکھنے گئے، مگر یا تو وہاں ڈومیسٹک کرکٹ کھیلی جارہی تھی یا پھر قومی ٹیم کا اہم میچ اسکرین پر دکھایا جارہا تھا۔ لاہوریوں میں کرکٹ کا اتنا جذبہ ہے کہ پچھلے سال ایشیاء کپ میں پاک بھارت ٹاکرے کے لئے جب قذافی میں اسکرین لگائی گئی تو اُس موقع پر دو اینکلوژر لوگوں سے بھرے ہوئے تھے۔

پاکستان سُپر لیگ سیزن ٹو کا آغاز ہوا تو اِس بات کا اعلان کیا گیا کہ ایونٹ کے سارے میچ متحدہ عرب امارات جبکہ فائنل لاہور میں کھیلا جائے گا۔ یہ اعلان پاکستانیوں خصوصاً لاہوریوں کے لئے اتنا ہی خوشگوار تھا، جتنا جولائی کی گرمی میں آسمان پر بارش کے آثار دیکھ کر محسوس ہوتا ہے۔ دہشتگردی اور انتہا پسندی کی لہر میں گِھرے اہل وطن کے لئے بھی یہ یقیناً بارش کا وہ پہلا قطرہ تھا جسے چھونے کی ہر کسی کو خواہش تھی۔

اِس سے پہلے کہ حالات جیسے تھے ویسے ہی رہتے ملک میں پے در پے دہشت گردی کے واقعات نے ایسا ماحول بنا دیا کہ ایک دفعہ پھر یہ بحث شروع ہوگئی کہ فائنل میچ لاہور میں ہوگا یا نہیں۔ اگر یہ میچ لاہور میں منعقد ہوگا تو بھلا کیسے؟ اور اگر نہیں ہوا تو کیا اِسے دہشتگردی کے خلاف شکست نہیں سمجھا جائے گا؟ اگر یہ میچ منعقد ہوا تو کیا اِس سے پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ واپس آئے گی یا نہیں؟ اگر پھر کوئی دہشتگردی ہوگئی تو پاکستان کو کس قدر نقصان ہوسکتا ہے؟ یہ وہ سارے سوالات تھے جو پچھلے دو ہفتوں سے میڈیا اور خصوصاً حکومتی ایوانوں میں گردش کرتے رہے، لیکن پھر ایک جُراتمندانہ فیصلے کا اعلان ہوا کہ حالات جیسے بھی ہوں، غیر ملکی کھلاڑی پاکستان آئیں یا نہیں، پی ایس ایل سیزن 2 کا فائنل لاہور میں ہی ہوگا۔

بس پھر کیا تھا، پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے فائنل کی ٹکٹس کی فروخت کا ابھی اعلان ہوا ہی تھا کہ لاہوری سب کام چھوڑ کر گھروں سے نکل کر بینکوں اور اسٹیڈیم کے باہر خیمہ زن ہوگئے اور پوری دنیا نے وہ مناظر دیکھے کہ کس طرح لوگ ٹکٹوں کے لئے دیوانہ وار ایک دوسرے سے جھگڑ رہے تھے اور ہر کسی کی خواہش تھی کہ وہ یہ تاریخی لمحات اسٹیڈیم میں گزارے۔ ممکن ہے کہ اگلی بات کچھ زیادہ ہی جذباتی محسوس ہو لیکن پھر بھی کہنا چاہوں گا کہ ہر طرح کے مشکل حالات کے باوجود بھی پاکستان میں فائنل کے انعقاد پر ہمارے دشمن نے یقیناً دانتوں میں انگلی دبا کر اپنی شکست کا ماتم کیا ہوگا۔

اِس خاص دن کی اہمیت کو مدِنظر رکھتے ہوئے صوبائی حکومت اور سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کی جانب سے شہر کی خاص تزئین و آرائش کا بندوبست کیا گیا، کیونکہ میچ دیکھنے کے لئے صرف لاہور سے ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان اور پوری دنیا سے شائقین کرکٹ آرہے تھے۔ اِس لئے لاہور کے تمام تاریخی مقامات پر روشینوں کے ساتھ ساتھ سخت سیکیورٹی کا بھی انتظام کیا گیا تھا۔

پانچ مارچ کا سورج طلوع ہوا تو یہ دن ہر پاکستانی کے لئے کسی عید سے کم نہ تھا کیونکہ یہ ملکی کرکٹ کی تاریخ کا انتہائی اہم دن ثابت ہونے جا رہا تھا۔ ملکی گراؤنڈ میں غیر ملکی کھلاڑی جلوہ گر ہونے جا رہے تھے اور دنیا کی نظریں پاکستان پر جمی ہوئیں تھیں۔ ٹکٹیں نہ ملنے کا افسوس اپنی جگہ مگر پھر بھی حالات سے باخبر رہنے کے لئے میڈیا کی چسکے دار خبروں پر اکتفا کرنے کے بجائے ہم خود باہر گئے اور قدافی اسٹیڈیم کے اطراف موجود بچے، بوڑھے اور فیملیز سبھی کا جوش اور اُن کے چہروں پر چھائی مسکراہٹ دیکھ کر دل خوشی سے مسرور ہوگیا۔ ایک دن کے لئے ہی سہی، مگر سب مہنگائی کا رونا، لوڈشیڈنگ کا عذاب، دہشت گردوں کا خوف، اپنے نجی غم اور روز مرہ کی کئی تکلیفیں بھول گئے۔

سیاست اور اختلاف اپنی جگہ مگر ایک بات سے انکار ممکن نہیں کہ یہ دن بے شک پاکستانیوں خصوصاً لاہوریوں کے جذبے، جوش، دلیری اور زندہ دلی کے نام رہا جنہوں نے دہشت گردی کے ساتھ ساتھ خوف کو بھی شکست دی۔ حکومت کو اِس تاریخی ایونٹ کو عالمی سطح پر کیش کروانا چاہیئے اور پاکستان میں عالمی کرکٹ کی بحالی کے لئے خصوصی اور ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھانے چاہئیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں