مادری زبان اتنی اہم کیوں ہے
مادری زبانوں پر کام کرنے، اُن کو اپنانے اور اُن زبانوں میں لکھنے پڑھنے کی ضرورت ہے، تب ہی مادری زبانیں پنپ سکتی ہیں۔
مادری زبانوں کے لئے سجایا گیا دو روزہ ادبی میلہ اپنے اختتام کو پہنچا۔ ادبی میلے نے جہاں یادیں سمیٹیں اور قاری کو لکھاری سے ملنے کا موقع فراہم کیا وہیں اِس دو روزہ ادبی میلے نے ایک بار پھر ہر ذی شعور انسان کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ مادری زبانیں توجہ کی طلب گار ہیں۔ مادری زبانوں پر کام کرنے، مادری زبانوں کو اپنانے، انہی زبانوں میں لکھنے اور پڑھنے کی ضرورت ہے، تب ہی مادری زبانیں پنپ سکتی ہیں۔
مادری زبانوں سے محبت کا تقاضا ہی یہ ہے کہ اِن زبانوں میں گفتگو کرنے، لکھنے اور مطالعہ کرنے کو اپنایا جائے۔ لوک ورثہ اسلام آباد میں منعقدہ مادری زبانوں کے اس ادبی میلے میں دو روز کے دوران 24 نشتسیں منعقد کی گئیں۔ مختلف موضوعات پر ملک بھر کی 15 زبانوں کے 160 سے زائد ادیب، شاعر، محقق شریک ہوئے۔ اُنہیں اپنی مادری زبان سے متعلق اظہارِ خیال کا موقع ملا۔ اِس دو روزہ ادبی میلے میں بیک وقت تین پروگرام ہو رہے تھے۔ شرکاء نے تند و تیز سوالات کئے۔ کتابوں کے اسٹال سجے، سینکڑوں میل دور مختلف علاقوں سے اسلام آباد آئے ہوئے ناشر اور اکیڈمیوں کی کتابیں اِس دو روزہ ادبی میلے کا حصہ بنیں۔
کتابیں فروخت ہوئیں یا نہیں، یہ الگ موضوع ہے، البتہ مادری زبان سے اُلفت رکھنے والوں نے اِس موضوع کو صرف زبان و بیان کی حد تک محدود نہیں رکھا بلکہ اپنی نمائندگی اور کتابوں کی موجودگی کو نمایاں کیا۔ چاروں صوبوں کے علاوہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سے مادری زبانوں کے نمائندہ افراد مختلف سیشنز کا حصہ بنے۔ بلوچستان سے شریک ادیب و محققین کی تعداد 20 کے قریب رہی۔
2 روزہ ادبی میلے کی افتتاحی تقریب لوک ورثہ میوزیم حال میں منعقد کی گئی۔ افتتاحی تقریب سے اظہار خیال کرتے ہوئے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر لوک ورثہ ڈاکٹر فوزیہ سعید کا کہنا تھا کہ،
صوبائی وزیرِ ثقافت سندھ سید سردار علی شاہ نہ صرف افتتاحی تقریب کا حصہ بنے بلکہ وہ میلے کے دیگر سیشنز میں بھی شامل رہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات جنہیں اِس دو روزہ میلے کی افتتاحی تقریب کے لئے بطور مہمانِ خاص مدعو کیا گیا تھا، نہیں آسکیں، اِس لئے مہمان خصوصی کا اعزاز سید سردار علی شاہ کے حصے میں آیا۔
میلے کے پہلے دن دس سیشنز منعقد ہوئے۔ یہ تمام سیشن زبان و ادب، شاعری، افسانہ نگاری، مادری زبانوں میں شائع شدہ ناولوں کے اجراء پر مشتمل تھے۔ پہلے دن جو انتہائی اہم سیشن رہا، وہ تھا مزاحمتی ادب کا موضوع۔ اِس سیشن کی نظامت کے فرائض مجاہد بریلوی نے انجام دیئے۔ جبکہ دیگر مقررین میں حارث خلیق، عابد میر، مظہر لغاری، مظہر نواز، کامران اچکزئی، مشتاق مغول شامل تھے۔ مادری زبانوں میں لکھے جانے والے مزاحمتی ادب اور اُس کی پیش رفت پر کھل کر بحث کی گئی۔ مقررین نے کہا کہ حالات و واقعات کا ادب پر اثر اور اُس ادب کا مزاحمت میں بدل جانا ایک لازمی امر ہے۔
ایک اور سیشن کا موضوع زبانوں کی مارکیٹ اور پولیٹیکل اکانومی تھا جو کہ دلچسپی کا باعث بنا۔ مادری زبانوں میں لکھے گئے ناولوں میں اسحاق انصاری کا سندھی میں لکھا گیا ''پیار دریا''، نظیر بھٹی کی ہندکو میں لکھی گئی ''پھل کیکراں دے''، زاہد حسن کا پنجابی زبان میں لکھا گیا ناول ''تسی دھرتی''، ظفراللہ پرواز کا کھوار میں ''انگرستانو''، مادری زبانوں میں لکھے گئے ناولوں کی تقریب رونمائی پروگرام کا حصہ بنے۔
میلے کا دوسرا دن 12 سے زائد سیشنز پر مشتمل تھا۔ پہلا سیشن مادری زبانوں میں لکھی گئی نئی کتابوں کے اجراء سے متعلق تھا۔ اِس پروگرام کے لئے ان کتابوں کے مصنفین کو اظہار خیال کے لئے مدعو کیا گیا۔ پناہ بلوچ کی نئی کتاب ''لاہوت لامکان'' جسے لوک ورثہ نے شائع کیا تھا، اِس تقریب کا حصہ رہی۔ یہ کتاب سیہون لال شہباز قلندر سے درگاہ شاہ نورانی تک کے سفر پر محیط ہے۔ اِس کتاب میں لاہوتیوں کا سفر، مذہبی مقامات اور اُن کے بارے میں معلومات کا مفصل ذکر ہے۔ سیشن میں دیگر زبانوں میں شائع ہونے والی کتابوں میں ''کھوار متالان گرزین''، ''دافامینی او بنکلا پہ لور''، ''چلڈرنز لٹریچر''، ''دھارے''، ''سندھی بارانڑیں ادب جی تاریخ'' اور ''بیجنگ کان بنکاک جی بازارن تاین'' کی بھی تقریب رونمائی ہوئی۔
انور پیرازادو پر لکھی گئی کتاب پر ادیب احمد سلیم نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ کتاب تین حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے حصے میں مضامین، دوسرے میں خراج عقیدت اور تیسرا باب آراء پر مشتمل ہے۔ اِس کتاب میں پیرزادو کی جدوجہد سے متعلق سوبھوگیان چندانی، بے نظیر بھٹو، رسول بخش پلیجو، محمد حنیف، بے نظیر بھٹو، جام ساقی کے تاثرات بھی درج ہیں۔ یہ کتاب پیرازادو کی زندگی جدوجہد پر عبارت ہے۔ 1971ء کی جنگ میں انہیں سچ بولنے کی پاداش میں نہ صرف ملازمت سے برخاست ہونا پڑا بلکہ انہیں اذیت ناک کا نشانہ بنایا گیا۔
دیگر اہم سیشن میں ''مادری زبانوں پر میڈیا کے اثرات'' پر اظہارِ خیال کے لئے ھیبتان عمر، عطا راجرڑ، حسین نقی، خورشید ملک اور اسرار ایوب کو دعوت دی گئی تھی۔ مقررین نے اِس بات پر زور دیا کہ قومی میڈیا میں مادری زبانوں میں پروگرام رکھے جائیں۔ مادری زبانوں کے حوالے سے تربیتی پروگرام رکھے جائیں اور مادری زبانوں کو نصاب کا حصہ بنایا جائے۔
اِس کے علاوہ زبان و ٹیکنالوجی، انڈس ویلی، زبانوں اور تہذیبوں کا ارتقاء، مادری زبانوں کا سینما، لینگویج پالیسی اور پلاننگ، صنم ماروی کے بارے میں ویڈیو ڈاکومینٹری جس میں صنم ماروی خود بھی موجود تھیں، کے عنوان سے سیشن رکھے گئے۔
مادری زبانوں میں خواتین کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اِس دو روزہ میلے میں خواتین کی کثیر تعداد شریک تھی۔ اہمیت کا اندازہ اِس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ایک سیشن مشاعرہ کے لئے رکھا گیا، جس میں نمائندگی صرف خواتین کی تھی۔ خواتین شعراء نے اپنی شاعری کے جادو جگائے۔ زاہدہ رئیس راجی کی شاعری نے محفل لوٹ لی اور حاضرین سے خوب داد وصول کی۔ خواتین کی شمولیت اور مادری زبانوں کے حوالے سے فیصلہ سازی میں خواتین کیا کردار ادا کرسکتی ہیںَ؟ یہی سوال پروگرام منتظم نصرت زہرا کے سامنے رکھا گیا تو انہوں نے کہا،
انڈس کلچرل فورم، لوک ورثہ اور ایس پی او کے اشتراک سے گزشتہ دو سال سے مادری زبانوں کے ادبی میلے کا انعقاد عمل میں لایا جا رہا ہے۔ اِس میلے کی وجہ سے مادری زبانوں سے متعلق اسلام آباد کے ایوانوں میں بھی بازگشت سنائی دی۔ مادری زبانوں سے متعلق دو آئینی بل بھی زیر بحث آئے ہیں۔ مادری زبانوں سے متعلق شنوائی بھی ہوچکی ہے۔ مادری زبانوں سے متعلق ادبی میلے کا خیال کیسے آیا؟ یہ سوال میں نے انڈس کلچرل فورم کے چیرمین نیاز ندیم کے سامنے رکھا، جواب میں ان کا کہنا تھا کہ،
دو روزہ میلے میں کتب ناشران اور علاقائی اکیڈمیوں نے براہوی، بلوچی، ہندکو، ہزارگی اور دیگر زبانوں کی کتابیں اسٹالوں پر سجا رکھی تھیں۔ براہوی اکیڈمی کے جنرل سیکرٹری زاہد براہوی سیکڑوں میل کی مسافت طے کرکے اسلام آباد میں جاری اِس دو روزہ میلے میں شریک ہوئے۔ اُن کے اسٹال پر براہوی زبان کے ساتھ ساتھ بلوچی کتابیں بھی موجود تھیں۔ کتابوں کے اسٹال لگانے سے انہیں کتنا منافع ملے گا؟ یہ سوال زاہد براہوی سے پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ،
مادری زبانوں سے محبت کا تقاضا ہی یہ ہے کہ اِن زبانوں میں گفتگو کرنے، لکھنے اور مطالعہ کرنے کو اپنایا جائے۔ لوک ورثہ اسلام آباد میں منعقدہ مادری زبانوں کے اس ادبی میلے میں دو روز کے دوران 24 نشتسیں منعقد کی گئیں۔ مختلف موضوعات پر ملک بھر کی 15 زبانوں کے 160 سے زائد ادیب، شاعر، محقق شریک ہوئے۔ اُنہیں اپنی مادری زبان سے متعلق اظہارِ خیال کا موقع ملا۔ اِس دو روزہ ادبی میلے میں بیک وقت تین پروگرام ہو رہے تھے۔ شرکاء نے تند و تیز سوالات کئے۔ کتابوں کے اسٹال سجے، سینکڑوں میل دور مختلف علاقوں سے اسلام آباد آئے ہوئے ناشر اور اکیڈمیوں کی کتابیں اِس دو روزہ ادبی میلے کا حصہ بنیں۔
کتابیں فروخت ہوئیں یا نہیں، یہ الگ موضوع ہے، البتہ مادری زبان سے اُلفت رکھنے والوں نے اِس موضوع کو صرف زبان و بیان کی حد تک محدود نہیں رکھا بلکہ اپنی نمائندگی اور کتابوں کی موجودگی کو نمایاں کیا۔ چاروں صوبوں کے علاوہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سے مادری زبانوں کے نمائندہ افراد مختلف سیشنز کا حصہ بنے۔ بلوچستان سے شریک ادیب و محققین کی تعداد 20 کے قریب رہی۔
2 روزہ ادبی میلے کی افتتاحی تقریب لوک ورثہ میوزیم حال میں منعقد کی گئی۔ افتتاحی تقریب سے اظہار خیال کرتے ہوئے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر لوک ورثہ ڈاکٹر فوزیہ سعید کا کہنا تھا کہ،
''مادری زبانوں کی ترویج کے لئے ماں کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ انہیں وہ زبان سکھائیں جس زبان میں ایک ماں بولنا پسند کرتی ہے''
صوبائی وزیرِ ثقافت سندھ سید سردار علی شاہ نہ صرف افتتاحی تقریب کا حصہ بنے بلکہ وہ میلے کے دیگر سیشنز میں بھی شامل رہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات جنہیں اِس دو روزہ میلے کی افتتاحی تقریب کے لئے بطور مہمانِ خاص مدعو کیا گیا تھا، نہیں آسکیں، اِس لئے مہمان خصوصی کا اعزاز سید سردار علی شاہ کے حصے میں آیا۔
میلے کے پہلے دن دس سیشنز منعقد ہوئے۔ یہ تمام سیشن زبان و ادب، شاعری، افسانہ نگاری، مادری زبانوں میں شائع شدہ ناولوں کے اجراء پر مشتمل تھے۔ پہلے دن جو انتہائی اہم سیشن رہا، وہ تھا مزاحمتی ادب کا موضوع۔ اِس سیشن کی نظامت کے فرائض مجاہد بریلوی نے انجام دیئے۔ جبکہ دیگر مقررین میں حارث خلیق، عابد میر، مظہر لغاری، مظہر نواز، کامران اچکزئی، مشتاق مغول شامل تھے۔ مادری زبانوں میں لکھے جانے والے مزاحمتی ادب اور اُس کی پیش رفت پر کھل کر بحث کی گئی۔ مقررین نے کہا کہ حالات و واقعات کا ادب پر اثر اور اُس ادب کا مزاحمت میں بدل جانا ایک لازمی امر ہے۔
ایک اور سیشن کا موضوع زبانوں کی مارکیٹ اور پولیٹیکل اکانومی تھا جو کہ دلچسپی کا باعث بنا۔ مادری زبانوں میں لکھے گئے ناولوں میں اسحاق انصاری کا سندھی میں لکھا گیا ''پیار دریا''، نظیر بھٹی کی ہندکو میں لکھی گئی ''پھل کیکراں دے''، زاہد حسن کا پنجابی زبان میں لکھا گیا ناول ''تسی دھرتی''، ظفراللہ پرواز کا کھوار میں ''انگرستانو''، مادری زبانوں میں لکھے گئے ناولوں کی تقریب رونمائی پروگرام کا حصہ بنے۔
میلے کا دوسرا دن 12 سے زائد سیشنز پر مشتمل تھا۔ پہلا سیشن مادری زبانوں میں لکھی گئی نئی کتابوں کے اجراء سے متعلق تھا۔ اِس پروگرام کے لئے ان کتابوں کے مصنفین کو اظہار خیال کے لئے مدعو کیا گیا۔ پناہ بلوچ کی نئی کتاب ''لاہوت لامکان'' جسے لوک ورثہ نے شائع کیا تھا، اِس تقریب کا حصہ رہی۔ یہ کتاب سیہون لال شہباز قلندر سے درگاہ شاہ نورانی تک کے سفر پر محیط ہے۔ اِس کتاب میں لاہوتیوں کا سفر، مذہبی مقامات اور اُن کے بارے میں معلومات کا مفصل ذکر ہے۔ سیشن میں دیگر زبانوں میں شائع ہونے والی کتابوں میں ''کھوار متالان گرزین''، ''دافامینی او بنکلا پہ لور''، ''چلڈرنز لٹریچر''، ''دھارے''، ''سندھی بارانڑیں ادب جی تاریخ'' اور ''بیجنگ کان بنکاک جی بازارن تاین'' کی بھی تقریب رونمائی ہوئی۔
انور پیرازادو پر لکھی گئی کتاب پر ادیب احمد سلیم نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ کتاب تین حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے حصے میں مضامین، دوسرے میں خراج عقیدت اور تیسرا باب آراء پر مشتمل ہے۔ اِس کتاب میں پیرزادو کی جدوجہد سے متعلق سوبھوگیان چندانی، بے نظیر بھٹو، رسول بخش پلیجو، محمد حنیف، بے نظیر بھٹو، جام ساقی کے تاثرات بھی درج ہیں۔ یہ کتاب پیرازادو کی زندگی جدوجہد پر عبارت ہے۔ 1971ء کی جنگ میں انہیں سچ بولنے کی پاداش میں نہ صرف ملازمت سے برخاست ہونا پڑا بلکہ انہیں اذیت ناک کا نشانہ بنایا گیا۔
دیگر اہم سیشن میں ''مادری زبانوں پر میڈیا کے اثرات'' پر اظہارِ خیال کے لئے ھیبتان عمر، عطا راجرڑ، حسین نقی، خورشید ملک اور اسرار ایوب کو دعوت دی گئی تھی۔ مقررین نے اِس بات پر زور دیا کہ قومی میڈیا میں مادری زبانوں میں پروگرام رکھے جائیں۔ مادری زبانوں کے حوالے سے تربیتی پروگرام رکھے جائیں اور مادری زبانوں کو نصاب کا حصہ بنایا جائے۔
اِس کے علاوہ زبان و ٹیکنالوجی، انڈس ویلی، زبانوں اور تہذیبوں کا ارتقاء، مادری زبانوں کا سینما، لینگویج پالیسی اور پلاننگ، صنم ماروی کے بارے میں ویڈیو ڈاکومینٹری جس میں صنم ماروی خود بھی موجود تھیں، کے عنوان سے سیشن رکھے گئے۔
مادری زبانوں میں خواتین کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اِس دو روزہ میلے میں خواتین کی کثیر تعداد شریک تھی۔ اہمیت کا اندازہ اِس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ایک سیشن مشاعرہ کے لئے رکھا گیا، جس میں نمائندگی صرف خواتین کی تھی۔ خواتین شعراء نے اپنی شاعری کے جادو جگائے۔ زاہدہ رئیس راجی کی شاعری نے محفل لوٹ لی اور حاضرین سے خوب داد وصول کی۔ خواتین کی شمولیت اور مادری زبانوں کے حوالے سے فیصلہ سازی میں خواتین کیا کردار ادا کرسکتی ہیںَ؟ یہی سوال پروگرام منتظم نصرت زہرا کے سامنے رکھا گیا تو انہوں نے کہا،
''مادری زبانوں کے حوالے سے فیصلہ سازی میں خواتین کی شمولیت از حد ضروری ہے۔ ایک ماں ہی وہ کردار ہے جو بچے کو اپنی زبان میں بول چال سکھاتی ہے۔ میلے کی ایڈوائزری کمیٹی، سیشن اور ایجنڈے کے ساتھ ساتھ انتظامی معاملات میں خواتین شامل رہیں۔ مادری زبانوں کے اِس میلے کو کامیاب بنانے میں خواتین کا اہم کردار رہا۔''
انڈس کلچرل فورم، لوک ورثہ اور ایس پی او کے اشتراک سے گزشتہ دو سال سے مادری زبانوں کے ادبی میلے کا انعقاد عمل میں لایا جا رہا ہے۔ اِس میلے کی وجہ سے مادری زبانوں سے متعلق اسلام آباد کے ایوانوں میں بھی بازگشت سنائی دی۔ مادری زبانوں سے متعلق دو آئینی بل بھی زیر بحث آئے ہیں۔ مادری زبانوں سے متعلق شنوائی بھی ہوچکی ہے۔ مادری زبانوں سے متعلق ادبی میلے کا خیال کیسے آیا؟ یہ سوال میں نے انڈس کلچرل فورم کے چیرمین نیاز ندیم کے سامنے رکھا، جواب میں ان کا کہنا تھا کہ،
''پاکستان میں سالانہ مختلف موضوعات پر میلے منعقد کئے جاتے ہیں۔ اِن میلوں میں مرکزی بیانیہ انگریزی یا اردو زبان میں ہوتا چلا آرہا ہے۔ مادری زبانیں یکسر مسترد کی جاتی رہی ہیں۔ تو ہمیں خیال آیا کیوں نہ مادری زبانوں کے لئے میلے کا انعقاد کیا جائے۔ جس کا آغاز ہم نے پچھلے سال کیا تھا جو کامیاب رہا اور سراہا گیا۔ ہم امید رکھتے ہیں کہ آنے والے وقتوں میں اِن میلوں کے مادری زبان پر اچھے اثرات مرتب ہوں گے''
دو روزہ میلے میں کتب ناشران اور علاقائی اکیڈمیوں نے براہوی، بلوچی، ہندکو، ہزارگی اور دیگر زبانوں کی کتابیں اسٹالوں پر سجا رکھی تھیں۔ براہوی اکیڈمی کے جنرل سیکرٹری زاہد براہوی سیکڑوں میل کی مسافت طے کرکے اسلام آباد میں جاری اِس دو روزہ میلے میں شریک ہوئے۔ اُن کے اسٹال پر براہوی زبان کے ساتھ ساتھ بلوچی کتابیں بھی موجود تھیں۔ کتابوں کے اسٹال لگانے سے انہیں کتنا منافع ملے گا؟ یہ سوال زاہد براہوی سے پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ،
''ہم یہاں کتابیں بیچنے کی غرض سے نہیں بلکہ اپنی مادری زبانوں کو وفاقی سطح پر متعارف کرانے آئے ہیں. یہاں کے مقتدر حلقے یا یہاں کا آدمی ہماری زبانوں کے بارے میں آگاہی نہیں رکھتا۔ ایک اپنی زبان کو متعارف کرانا اور اپنی زبان کی نمائندگی انہی دو مقاصد کے تحت ہم یہاں تشریف لائے ہیں۔''
معروف ادیب احمد سلیم کا کہنا تھا کہ،
''زبانوں کے حوالے سے 50 سال قبل جو رویہ رکھا جاتا تھا اب وہ صورت حال تبدیل ہوگئی ہے۔ پہلے کے مقابلے میں مادری زبانوں کے حوالے سے لوگ متحرک ہیں، میلے لگ رہے ہیں، اب وقت آگیا ہے کہ مادری زبانوں کو تسلیم کیا جائے اور زبانوں کو اُن کا جائز مقام دیا جائے۔''
مادری زبانوں کا ادبی میلہ شامِ موسیقی کے ساتھ ہی اختتام پذیر ہوا۔
میلے کے اختتام پر متفقہ طور پر ایک اعلامیہ جاری کیا گیا، جس میں تمام مادری زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دینے، پرائمری سطح پر مادری زبانوں میں تعلیم کو لازمی اور سرکاری سطح پر اُن کی ترویج کے لئے اقدامات اٹھانے پر زور دیا گیا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔