ڈونلڈ ٹرمپ نے 6 اسلامی ممالک سے متعلق نیا ایگزیکٹو آرڈر جاری کردیا

نئے حکم نامے کے تحت 6 مسلمان ممالک کے باشندوں پر 90 روز کیلیے امریکا آنے پر پابندی ہوگی جن میں عراق شامل نہیں


ویب ڈیسک March 06, 2017
نئے حکم نامے کے تحت 6 مسلمان ممالک کے باشندوں پر 90 روز کیلیے امریکا آنے پر پابندی ہوگی جن میں عراق شامل نہیں، فوٹو:بشکریہ وائٹ ہاؤس ٹویٹر ہینڈل

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسلامی ممالک کے پناہ گزینوں اور تارکینِ وطن کے امریکا میں داخلے پر 90 روزہ پابندی کے نئے حکم نامے پر دستخط کردیئے تاہم اس بار ان 6 ممالک میں عراق کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔

امریکی صدر نے اپنے نئے احکامات کے تحت ایران، لیبیا، شام، صومالیہ، سوڈان اور یمن کے تارکینِ کے امریکا میں 90 روز کے لیے داخلے پر پابندی عائد کردی ہے لیکن نئے آرڈر کے تحت اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ سے منظوری حاصل کرنے والے پناہ گزین امریکا آسکتے ہیں لیکن ان کی تعداد سالانہ 50 ہزار تک محدود کردی گئی ہے۔

اس خبر کو بھی پڑھیں: امریکی عدالت میں صدارتی حکم نامے پر ٹرمپ انتظامیہ کو سخت سوالات کا سامنا

نئے حکم نامے کے تحت بعض شامی پناہ گزینوں کو امریکا آنے کی اجازت ہوگی جب کہ پابندی کی زد میں آنے والے ان 6 ممالک کے گرین کارڈ رکھنے والے افراد پر نیا آرڈر لاگو نہیں ہوگا۔ نئے قانون کے تحت مذہبی اقلیتوں کو کوئی خاص رعایت اور ترجیح حاصل نہیں ہوگی جسے پہلے حکم نامے میں شامل کیا گیا تھا۔ پہلے حکم نامے میں پابندی زدہ ممالک کے عیسائی پناہ گزینوں کو ترجیح دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔

اس خبر کو بھی پڑھیں: مسلم ممالک پر سفری پابندیاں؛ ٹرمپ کو ایک اور عدالتی جنگ میں شکست

اس سے قبل امریکی مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب میں امریکی اٹارنی جنرل جان کیلی نے ایف بی آئی کے حوالے سے بتایا کہ اس وقت امریکا میں داخل ہونے والے 300 پناہ گزینوں سے دہشت گردی کے ممکنہ تعلق پر تفتیش کی جارہی ہے۔ جان کیلی نے وضاحت کی کہ بغیر چھان بین کے لوگوں کو امریکا آنے کا عمل قومی سلامتی کو داؤ پر لگانے کے مترادف ہے اور ہمارے دشمن ہمارے کھلے دل اور آزادی کا غلط استعمال کرسکتے ہیں۔

واضح رہے کہ اس سے قبل صدر ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر پر پورے امریکا میں شدید عوامی احتجاج کیا گیا تھا اور وفاقی عدالت نے صدارتی حکم نامہ معطل کردیا تھا جس پر ٹرمپ کی جانب سے عدالت کے فیصلے کو نہ صرف تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا بلکہ انہوں نے عدالت کے جج کو بھی برا بھلا کہا تھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں