مہمند ایجنسی پاکستانی چیک پوسٹوں پر دہشتگردوں کا حملہ
افغان حکومت کو دہشت گردوں کی سرحد پار آمدورفت روکنے کے لیے نگرانی کا نظام سخت کرنا ہو گا
ISLAMABAD:
افغانستان سے پاکستانی علاقوں پر دہشت گردوں کے حملے جاری ہیں اور پاکستان کے مسلسل احتجاج کے باوجود افغان حکومت ان دہشت گردوں کے سرحد پار حملوں کو روکنے میں قطعی ناکام ہو گئی ہے۔ پیر کی رات مہمند ایجنسی میں دہشت گردوں نے سرحد پار کر کے تین پاکستانی چیک پوسٹوں پر حملے کیے جنھیں پاک فوج کے جوانوں نے موثر کارروائی کرکے ناکام بنا دیا تاہم اس مقابلے میں پاک فوج کے 5جوان شہید اور افغانستان سے حملہ آور 10دہشت گرد ہلاک ہو گئے۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے دہشت گردوں کے حملے میں قیمتی جانوں کے ضیاع پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردوں کی خام خیالی ہے کہ وہ پاکستانی قوم کے حوصلے متزلزل کر سکتے ہیں' ملک کے دفاع کے لیے بہادر جوانوں کی قربانیاں قوم کی بقا کی ضامن ہیں' چوکس جوانوں کی وجہ سے پاکستان مضبوط تر ہوا ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ نے دہشت گردوں کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملاتے ہوئے شہادت پانے والے جوانوں کو زبردست خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے بہادر فوجی جوانوں نے وطن کے دفاع کے لیے جان قربان کی' شہداء کی قربانیوں کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی دہشت گردوں کے خلاف پاک فوج کی موثر جوابی کارروائی کو سراہا اور وطن کی خاطر جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے جوانوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا دہشت گرد پاکستان اور افغانستان دونوں ممالک کے مشترکہ دشمن ہیں اور سرحد پر افغانستان کی جانب سے موثر سیکیورٹی کی ضرورت ہے تاکہ دہشت گردوں کی آزادانہ آمدورفت کو روکا جا سکے۔ پاکستان نے اس حملے کے بعد افغان نائب سفیر عبدالناصر کو دفتر خارجہ طلب کرتے ہوئے شدید احتجاج کیا اور احتجاجی مراسلے میں کہا کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان میں دہشت گردوں کے حملے کے لیے استعمال ہو رہی ہے' افغانستان اس افسوسناک واقعے کی تحقیقات کر کے پاکستان کو آگاہ کرے ۔
افغانستان کی جانب سے دہشت گردوں کی آزادانہ آمدورفت اور پاکستانی چیک پوسٹوں پر حملوں کا سلسلہ اکثر و بیشتر جاری رہتا ہے' پاکستان نے متعدد بار افغان حکومت سے ان دہشت گردوں کی آمدورفت روکنے اور سرحدی نظام موثر بنانے کی ضرورت پر زور دیا مگر افغان حکومت اس مسئلے پر توجہ دینے کے بجائے پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی پر اتر آتی ہے۔ افغان حکومت کو اس امر کا ادراک ہونا چاہیے کہ دہشت گردی سے پاکستان اور افغانستان دونوں ممالک ہی متاثر ہو رہے ہیں جب تک ان کے محفوظ ٹھکانے موجود ہیں تب تک خطے میں امن قائم نہیں ہو سکتا لہٰذا پاکستان کے خلاف محاذ آرائی گرم کرنے کے بجائے افغان حکومت کو اس مسئلے پر مذاکرات کرنے چاہئیں تاکہ دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے مشترکہ لائحہ عمل تشکیل دیا جائے۔ اطلاعات کے مطابق پاکستانی چیک پوسٹوں پر حالیہ ہونے والے حملے میں 250سے 300 کے لگ بھگ دہشت گرد شریک تھے' آخر اتنی بڑی تعداد میں دہشت گرد کیسے سرحد پار آئے اور اطمینان سے واپس چلے گئے جب کہ سرحد کے قریب افغان فورسز بھی موجود ہیں۔
تجزیہ نگار اس حوالے سے شک کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اتنی بڑی تعداد میں دہشت گردوں کے بلارکاوٹ حملے میں افغان فورسز کی آشیرباد کو رد نہیں کیا جا سکتا' ممکن ہے گزشتہ دنوں افغانستان کے اندر پاکستانی فورسز کے حملوں کے جواب میں ایسا کیا گیا ہو۔ بہرحال معاملہ جو کچھ بھی ہو افغان حکومت کو دہشت گردوں کی سرحد پار آمدورفت روکنے کے لیے نگرانی کا نظام سخت کرنا ہو گا، دوسری جانب پاکستان کی طرف سے سرحد پر بھرپور نگرانی کے باوجود دہشت گردوں کے حملے رکنے میں نہیں آ رہے' اس تناظر میں ناگزیر ہو گیا ہے کہ سرحدوںکی نگرانی کے لیے جدید ترین آلات اور جاسوسی کا نظام قائم کیا جائے' اگر سیٹلائٹ کے ذریعے سرحدوں کی نگرانی کی جائے تو اس سے دہشت گردوں کی آمدورفت کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ دہشت گردوں کی آمدورفت روکنے میں نیٹو اور امریکی فوج کے کردار کی عدم موجودگی بھی بہت سے شکوک و شبہات کو جنم دیتی ہے۔