یہ کیسی جمہوریت ہے
اسٹاک مارکیٹ 46 فیصد اضافہ ہوا ہے اور جی ڈی پی 4 سے 5 کی جانب بڑھ رہا ہے
آج کل ہرطرف حکومت کی کارکردگی سے متعلق کیے جانے والے Surveys کے چرچے ہیں جن پر ہمارے وزیرخزانہ پھولے نہیں سما رہے۔ مثال کے طور پر بلو برگ نے یہ خوش خبری سنائی ہے کہ وطن عزیز میں غربت کے خاتمے کے لیے کی جانے والی حکومتی کوششوں کے نتیجے میں غربت اب صرف آدھی رہ گئی ہے۔
اسٹاک مارکیٹ 46 فیصد اضافہ ہوا ہے اور جی ڈی پی 4 سے 5 کی جانب بڑھ رہا ہے۔ اسی طرح زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ عالمی ریٹنگ ایجنسی میچ کے حوالے سے یہ نوید سنائی گئی ہے کہ پاکستان کی ریٹنگ B ہوگئی ہے۔ اسی ایجنسی کے حوالے سے یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ حکومت غیر ضروری قرضوں، اخراجات اور مالیاتی خسارے میں کمی لانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ یہ سروے حکومتی کارکردگی کے حق میں کسی بھی طرح قصیدوں سے کم نہیں ہیں۔ خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ ان ایجنسیوں نے یہ سروے کس طرح کی معلومات کی بنیاد پرکیے ہیں اور انھوں نے کن کن شہروں اور دیہات میں جاکر یہ کوائف اکٹھے کیے ہیں۔ مرزا غالب یاد آرہے ہیں جنھوں نے فرمایا تھا:
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق
آدمی کوئی ہمارا دمِ تحریر بھی تھا
سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت کے حمایتی پریس کے ذریعے یہ سروے بڑی بڑی شہ سرخیوں کے ساتھ دھڑلے سے شایع کیے جاتے ہیں اور وزرائے کرام اپنی پریس کانفرنسوں میں حکومت کی کارکردگی کو اجاگر کرنے کے لیے ان کے حوالے دیتے ہیں۔
کہا جا رہا ہے کہ 2025 تک شرح ترقی بڑھتے بڑھتے 8 فیصد ہوجائے گی اور پاکستان کا شمار دنیا کی بیس بڑی معیشتوں میں ہوجائے گا۔ ہمارے وزیرخزانہ اس قسم کے اعدادوشمار کا سب سے زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں اور عوام کو یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کی پالیسیاں ثمرآورہورہی ہیں اور ان کی کوششیں رنگ لارہی ہیں۔ جوں جوں آیندہ عام انتخابات کا وقت قریب آرہا ہے توں توں اس طرح کی تشہیر میں اضافہ ہورہا ہے۔ دریں اثنا عوام پر پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں ہر 15 روز بعد اضافے پر اضافہ کرکے جلتی پر تیل چھڑکنے کا کھیل کھیلا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں کمر توڑ مہنگائی میں غضبناک حد تک اضافہ ہورہا ہے اور ان کی رہی سہی قوت خرید بھی دم توڑتی ہوئی نظر آرہی ہے۔
کہنے کی ضرورت نہیں کہ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کا فوری اور براہ راست اثر اشیائے ضرورت پر پڑتا ہے جس سے سب سے زیادہ عام آدمی ہی متاثر ہوتا ہے۔ سچی اور کھری بات یہ ہے کہ مصنوعی حربوں سے حقائق کی پردہ پوشی کا عمل Back Fire کرتا ہے کیونکہ اس سے رہا سہا اعتبار بھی ختم ہوجاتا ہے۔ اسی لیے تو کہا گیا ہے کہ ''آپ کچھ لوگوں کو کچھ عرصے تک بے وقوف بناسکتے ہیں، بہت سے لوگوں کو بہت وقت تک بے وقوف بناسکتے ہیں لیکن تمام لوگوں کو ہمیشہ کے لیے بے وقوف نہیں بناسکتے۔''
زمینی حقائق یہ ہیں کہ وطن عزیز کے 20 کروڑ عوام میں سے تقریباً 7 کروڑ 70 لاکھ افراد وہ ہیں جنھیں دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں ہے اور ان کی حالت یہ ہے کہ بقول شاعر:
بھوکے کو چاند میں نظر آتی ہیں روٹیاں
ان بے چاروں کو معلوم ہی نہیں کہ جی ڈی پی کس چڑیا کا نام ہے اورگروتھ ریٹ کسے کہتے ہیں۔ ان کی زندگی محض روٹیوں کے گرد گھومتی ہے جس کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ سی پیک کیا بلا ہے اور ای سی او کا مطلب کیا ہے ان کا اس سے کوئی تعلق اور واسطہ نہیں ہے۔ بڑھتی ہوئی بے روزگاری غریب اور متوسط طبقے کو دیمک کی طرح دن رات بری طرح چاٹ چاٹ کر اندر سے بری طرح کھوکھلا کر رہی ہے جس سے طرح طرح کے نفسیاتی امراض اور معاشی ومعاشرتی مسائل جنم لے رہے ہیں اور مختلف قسم کے جرائم اور خودکشی کے واقعات میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ بے روزگاری کے بعد دوسرا سب سے بڑا مسئلہ ناکافی آمدنی کا ہے جسے انگریزی میں Under Employment کہا جاتا ہے۔
مصیبت یہ ہے کہ ضرورت سے کم آمدنی حاصل کرنے والا سربراہ خاندان بری طرح پریشان ہے کہ گزر اوقات کس طرح سے کرے۔ایسے لوگ جن کی یومیہ آمدنی 200 روپے سے بھی کم ہے ان کی تعداد 12 کروڑ 70 لاکھ سے بھی زیادہ ہے۔ ان کے مشکل یہ ہے کہ چادر بہت چھوٹی ہے۔ سر ڈھکتے ہیں تو پیر کھل جاتے ہیں اور پیر ڈھانپتے ہیں تو سر کھل جاتا ہے۔ ان کی تمام تر توانائیاں اس کوشش کی نذر ہو رہی ہیں کہ کسی طرح گھر کا چولہا ٹھنڈا نہ ہو۔ خدانخواستہ اگر ان میں سے کسی شخص کا گھر بیماری نے دیکھ لیا تو پھر تباہی و بربادی اس کا مقدر بن جائے گی کیونکہ اس کے بیشتر وسائل علاج معالجے کی بھینٹ چڑھ جائیں گے۔ ہمارے ملک میں سرکاری اسپتالوں کی جو حالت ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے اور پرائیویٹ علاج کے اخراجات اٹھانا عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔ یہ شوق تو صرف مال دار ہی پورا کرسکتے ہیں۔
حکومت کے خوش کن دعوؤں کے برعکس حقیقی صورتحال یہ ہے کہ سال دوراں کے اختتام تک ہمارے بے روزگار عوام کی تعداد 6.9 تک پہنچ جانے کا اندیشہ ہے۔ ان میں غالب اکثریت ان بے چاروں کی ہے جن کے ناتواں کندھوں پر دس دس افراد پر مشتمل خاندانوں کی کفالت کا بوجھ لدا ہوا ہے۔ چائلڈ لیبر کا سنگین مسئلہ بھی اسی گمبھیر صورتحال کا نتیجہ ہے جس کی وجہ سے ہمارے لگ بھگ تین کروڑ نونہال غربت کے ہاتھوں قلم وکتاب سے اپنا رشتہ توڑ بیٹھے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر بچے 50 سے 60 روپے یومیہ کی مزدوری یا دیہاڑی لگانے پر مجبور ہیں حالانکہ ان میں بہت سے ایسے بھی ہوں گے جو گدڑی میں لعل کہلانے کے مستحق ہوں گے۔
ہمارے 20 کروڑ عوام میں سے بمشکل ایک کروڑ دس لاکھ لوگ ہی ایسے نکلیں گے جو زندگی کو انجوائے کر رہے ہیں جب کہ بہت بڑی تعداد ہمارے عوام کی ایسی ہے جن کے لیے زندگی ایک سزا یا جیتے جی جہنم سے کم نہیں۔ ان بدنصیبوں کی حالت ایسی ہے کہ:
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
ہماری اپر اور لوئر مڈل کلاس تقریباً 4 کروڑ80 لاکھ افراد پر مشتمل ہے جب کہ اپر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے افراد روز بہ روز ٹوٹ ٹوٹ کر لوئر مڈل کلاس میں گر کر شامل ہو رہے ہیں۔ گیس اور بجلی کے بلبلا دینے والے بلوں نے انھیں بلبلا دیا ہے اور مکان کے کرایوں اور بچوں کے تعلیمی اخراجات نے ان کی درگت بنا دی ہے۔ سب سے زیادہ برا حال محدود آمدنی والے تنخواہ دار طبقے کا ہے جس کے لیے سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنا دشوار سے دشوار تر ہو رہا ہے۔ ضروریات زندگی کی بے لگام چڑھتی ہوئی قیمتوں نے اسے حواس باختہ کر ڈالا ہے اور جمہوریت کے کھلاڑیوں کے ہاتھوں میں یہ بے بس اور لاچار طبقہ پنگ پانگ کا کھیل بنا ہوا ہے۔
لوئر مڈل کلاس اور غریب طبقے کی تعداد میں سب سے تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔گوشت انھیں خواب میں بھی میسر نہیں ہے جب کہ آٹے دال کے بھاؤ بھی بے حساب بڑھتے جا رہے ہیں۔ دوسری جانب امیر لوگ امیر تر ہوتے جا رہے ہیں اور ملکی دولت چند ہاتھوں میں سمٹتی جا رہی ہے۔ غریب عوام کی حالت زار سے عملاً قطعی بے نیاز حکمران ''بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست'' کے مصداق خوب گل چھرے اڑا رہے ہیں اور اقتدار کے زیادہ سے زیادہ مزے لوٹنے میں مست ہیں۔
ابھی پچھلے ہی دنوں دارالخلافہ اسلام آباد کے ایک پنج ستارہ ہوٹل میں ایک ورکشاپ کا انعقاد ہوا جس میں ملکی نمایندوں کے علاوہ غیر ملکی مندوبین نے بھی شرکت کی۔ اس سہ روزہ ورک شاپ میں جمہوریت کے ثمرات پر سیر حاصل گفتگو ہوئی اور زمین وآسمان کے قلابے ملائے گئے۔ اس کے بعد اس ورک شاپ کی کارروائی کی بڑے پیمانے پر تشہیر بھی کی گئی۔ اس کھیل تماشے پر کروڑوں روپے خرچ ہوئے جس کا مقصد محض جھوٹے پروپیگنڈے کے علاوہ اور کچھ نہ تھا۔ کاش یہ خطیر رقم کسی تعمیری کام پر خرچ کردی جاتی جس سے عوام کا کچھ بھلا ہوجاتا۔ حکمراں مالا مال، عوام خستہ حال۔ کیا جمہوریت اسی کا نام ہے؟ یہ کیسی جمہوریت ہے؟