تربیت یا تشدد

عام طور پر گھروں میں ایسا ہوتا ہے کہ بچوں پر سختی کی جاتی ہے کہ وہ اپنے کام پر توجہ دیں


Shehla Aijaz March 07, 2017
[email protected]

KARACHI: خبر بہت چھوٹی سی تھی اندرونی صفحات پر تھی لیکن توجہ طلب تھی ایک ڈاکٹر صاحبہ کی بیگم نے ایک تیرہ سال کی گھریلو ملازمہ پر تشدد کیا۔ کچھ مہینے پہلے جج کی اہلیہ نے چھوٹی بچی ملازمہ پر تشدد اور پھر ایک طویل قصے کہانی کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا کہ بھائی! لیلیٰ عورت تھی یا مرد۔ بہرحال ایک قصہ تمام ہوچکا ہے۔ اس کی کہانیاں عام ہوچکی ہیں لیکن کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو بتایا جاتا ہے وہ غلط ہوتا ہے، جو دکھائی دیتا ہے وہ کچھ اور ہوتا ہے، گواہیاں، شہادتیں سب الٹ پھیر ہوجاتا ہے لیکن سچ پھر بھی اپنی جگہ قائم رہتا ہے۔ بات ہو رہی ہے یہاں حیدرآباد کے اس نئے کیس کی جہاں ڈاکٹر کی بیگم نے اپنی ملازمہ کو سونے کی ایک انگوٹھی رکھنے کو دی اور پھر اس بچی نے وہ انگوٹھی کہیں رکھی یا خود رکھ لی خدا جانے۔

عام طور پر گھروں میں ایسا ہوتا ہے کہ بچوں پر سختی کی جاتی ہے کہ وہ اپنے کام پر توجہ دیں، ذمے داری سے کام کریں، احتیاط کریں، تمیز سے بات کریں، سستی نہ کریں، پھوہڑ پن کا مظاہرہ نہ کریں وغیرہ وغیرہ۔ بچپن سے ہم نے اپنے گھر میں اورخاندان میں یہی دیکھا اور اب بھی ایسا ہی ہورہا ہے توجہ دی جاتی ہے کہ خاص کر چھوٹے بچے، چوری، جھوٹ اورکاہلی میں نہ پڑیں یہ کوئی بری بات بھی نہیں ہے بلکہ اس دور میں بچوں کی پٹائی پرکم زور دیا جارہا ہے اور ڈانٹ ڈپٹ اور آنکھیں دکھانے سے کام چلایا جاتا ہے لیکن جب بات حد سے نکل جاتی ہے تو مار ہی کام آتی ہے۔

جس میں تشدد کا نہیں بلکہ اپنے بچوں کی تربیت کا خیال رہتا ہے کہ کہیں یہ آگے چل کر اپنے بچوں کی تربیت میں بھی تساہل نہ برتیں۔آج کل جس بے راہ روی اور غفلت کا رجحان بڑوں سے لے کر بچوں میں نظر آرہا ہے اس سے ماحول میں عدم تحفظ کا احساس پھیلتا جا رہا ہے خواہشات کا گھیرا اور نامرادی کا زہر انسانوں میں پیوست ہوتا جارہا ہے جس پرکسی قسم کی شرمندگی اور خوف خدا کا ذرا بھی خیال نہیں بلکہ وطیرہ یہ کہ اگر یوں نہ کریں تو پھر کیا کریں۔ بہرحال عمر کوٹ کی رہائشی اس بچی نے ڈاکٹر کی بیگم کی انگوٹھی چرائی تھی یا نہیں لیکن بچی کو وہ انگوٹھی اس کی مالکن نے رکھنے کو دی تھی اگر رکھ کر بھول جانا یا اسی طرح کی کوئی غفلت خود ان کی بیٹی کرتی تو یقینا وہ محترمہ اپنی بیٹے کو بھی لعن طعن کرتیں اور بقول کسی کے کُٹ بھی لگاتیں اس بات کو اپنے پیارے بابا جی اشفاق احمد کے اس واقعے کے ساتھ کوڈ کرتے ہیں کہ بابا جی پردیس میں غالباً برطانیہ کسی بڑے غالباً لارڈ کے گھر دعوت میں گئے۔

جہاں میزبان صاحب کے چھوٹے بچے نے جو یقینا انگریزی لاڈ پیار سے بگڑا ہوا تھا وہی حرکتیں مہمان صاحب کے ساتھ بھی شروع کردیں۔ ہمارے معزز پاکستانی ایشیائی بابا جی اس فرنگی ننھے شیطان کی حرکتیں اخلاقاً برداشت کرتے رہے لیکن بچہ اس اخلاق کے گھیرے کو چھونے لگا جہاں بابا جی کا اخلاق احتجاج کرنے لگا تھا۔ خدا کا کرنا یہ ہوا کہ میزبان ذرا ادھر ادھر ہوئے تو بابا جی نے اپنے ایشیائی انداز میں بچے کو ذرا ڈرایا آنکھیں دکھائیں بس جی وہ ننھا شیطان ایسا زناٹے میں آیا کہ دبک کر بیٹھ گیا اور پھر انھیں تنگ نہ کیا بلکہ ساری تقریب میں اچھا بچہ بنا رہا۔

اب آتے ہیں حیدرآباد کے اس واقعے کی طرف جہاں ابتدائی گھریلو تفتیش میں عمر کوٹ کی رہائشی وہ بچی نہ اگلی تو ڈاکٹر صاحب کا بھائی اسے لے کر پولیس اسٹیشن چلا گیا جہاں اس روتی بچی کو دیکھ کر ایک خداترس نیک سوشل ورکر نے پوچھا اور اس بچی نے ساری روداد سنائی اور جناب! خبر لگ گئی اخبار میں۔ ڈاکٹر کے بھائی کا کہنا تھا کہ وہ بچی کو ڈرانے کے لیے تھانے لے کر آئے تھے تاکہ وہ سچ اگلے۔

بات اتنی سی عرض ہے کہ نہ ہماری اس بچی سے عداوت ہے اور نہ ہی ڈاکٹر سے رشتے داری لیکن اکثر ایسا بھی ہوتا ہے نمبر بڑھانے کے چکر میں ہم کئی چیزوں کو نظرانداز کردیتے ہیں اور دراصل وہی چیزیں نہایت اہم ہوتی ہیں، مثلاً کہ واقعی بچی نے انگوٹھی مالکن سے لی ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ کچھ بچے انتہائی ڈھیٹ ہوتے ہیں جو بعد میں غیر ذمے دار افراد کی فہرست میں شامل ہوکر آپ کے، ہمارے اور خود اپنے گھر والوں کے لیے مسائل پیدا کرتے ہیں، اگر پہلی بار ہی بچے کو سختی سے سرزنش کی جائے تو وہ مستقبل میں ایسی غلطی دوبارہ نہیں کرتا لیکن کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ خاندان کے بڑے مثلاً دادا دادی، نانا نانی یا کوئی اور بچوں کی غلطیوں پر اپنے لاڈ پیار میں ان کی بے جا طرف داری کرکے انھیں مستقبل کا چور، اچکا اور لفنگا بنادیتے ہیں، ایسی ہی ایک مثال ہم عملی طور پر دیکھ چکے ہیں جب ایک انتہائی اچھے حسب نسب خاندان کا سب سے بڑا بچہ چھوٹی موٹی چوری کرتے کرتے اپنی دادی اور پھوپھی کی طرف داری سے ماں باپ کی مار اور سختی سے بچتے بچتے اس خاندان کے لیے ناسور بن گیا۔

یہاں تک کے بڑے ہوکر سگے بہن بھائی کترانے لگے رشتے دار منہ چھپانے لگے اور اس کی جوان طبع موت پر شکر ادا کیا گیا۔ بات محض اگر ایک چھوٹی سی معصوم بچی کی تربیت تک محدود رہتی تو کتنا ہی اچھا رہتا لیکن یہاں ہمارے ملک کی انگوٹھی نہیں بلکہ امن کہیں کھو رہا ہے، ہمیں اس کی تلاش ہے، اگر اسی سلسلے میں کسی سہولت کار کے ذریعے سرے ملنے لگتے ہیں تو یہاں نمبر بڑھانے کے لیے اصل حقائق سے منہ پھیر لیا جاتا ہے، بات قومیت کی ہونے لگتی ہے، یہاں تک کہ کھانوں کی چیکنگ تک کی بات کی جا رہی ہے، لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ خون ہم سب کا سرخ ہے اور جب یہ زمین پر بہتا ہے تو دل لرز اٹھتا ہے، آہیں سسکیاں شکوہ بن جاتے ہیں۔

ہمارے ملک میں بسنے والے پٹھان بھائی بھی اپنے پاکستان سے اتنا ہی پیار کرتے ہیں جتنا پنجابی، بلوچی، سندھی اور اردو بولنے والے بھائی کرتے ہیں لیکن ذرا سوچیے دوسرے ملکوں کے باسی پاکستان سے محبت کیوں کریں گے؟ سعودی پولیس نے اپنے قوانین کی خلاف ورزی کرنے کے جرم میں خیبرپختونخوا کے دو خواجہ سراؤں کو اس بے دردی سے مارا کہ وہ اپنی جان سے چلے گئے صرف اس لیے کہ وہاں کھلے عام مردوں کا خواتین کے کپڑے پہننا جرم ہے۔ خدارا بڑا چور یا دہشت گرد نہ بننے دیں۔ اور تربیت کرنے والے بھی سعودی پولیس کی طرح وحشیانہ عمل نہ کریں کہ خدا کی عدالت میں ہم سب جواب دہ ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں