یوم خواتین اور ہمارا معاشرہ
ہم یورپی اورترقی یافتہ ممالک سے بہت پیچھے ہیں مگرجہالت اور انسانی حقوق کی پامالی میں جدید ممالک سے کئی سو برس آگے ہیں
ہر سال خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے، یہ دن عام طور پر رسمی اور روایتی انداز میں معاشرے میں خواتین کے مقام، حیثیت اور مسائل کے بارے میں گفتگوکا موقع فراہم کرتا ہے۔ سمندرکی گہرائیوں سے لے کر آسمان کی بلندیوں کو تسخیرکرتی یہ نازک سی ہستی زندگی کے ہر میدان میں اپنی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ رہی ہے، تاہم مشرق یا مغرب کی دنیا میں عورت آج بھی کئی لحاظ سے مجبور ہے، وہ اکیسویں صدی میں بھی اپنی بقاء اورشناخت کے لیے سرگرداں ہے، مشرق میں تو آج بھی معاشرتی رسوم و رواج کی بیڑیوں میں جکڑی عورت پر جو ظلم وستم ڈھائے جاتے ہیں وہ شرفِ انسانی کی تضحیک کے سوا کچھ نہیں۔
ایک طرف تو عورت کو دنیا کے خوبصورت ترین خطابات اور القابات سے نوازا جاتا ہے، تو دوسری طرف وہ بیشتر معاشروں میں محض مردوں کے ہاتھوں پسنے والی ایک مظلوم ہستی کی صورت نظر آتی ہے، ویسے تو دنیا بھر میں ہی خواتین کا استحصال ہوتا ہے مگر ہم جیسے تیسرے درجے کے ممالک میں تو اس استحصال کی شرح کچھ اور بھی بلند ہے،اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہماری عورت اپنے اصل حقوق سے ناآشنا ہے، زندگی بھر فرائض تو نبھاتی چلی جاتی ہے مگر اسے حق مانگنا آتا ہے نہ ہی چھین لینا، کتنی خواتین کو پتا ہے کہ عالمی یوم خواتین کا مقصد کیا ہے؟ شاید دو فیصد کو بھی نہیں۔
ہم سوائے سیمینارز، ریلیاں، ٹیبلوز، مارننگ شو اور تقاریرکرکے یا اخبارات میں عورتوں کے حقوق کے حوالے سے پیغامات شایع کراکے سمجھتے ہیں کہ اب عورتوں کے حقوق کوئی سلب نہیں کرسکتا لیکن ایسا نہیں ہے۔ پاکستان میں خواتین کے حقوق اوران کی حیثیت کی صورتحال بہت زیادہ بہتر نہیں ہوسکی ہے، امتیازی قوانین آج بھی موجود ہیں، بدترین رسمیں آج بھی رائج ہیں، غیر قانونی پنچایتوں میں اسمبلی کے اراکین اور وزراء تک شریک ہوتے ہیں۔
ہم یورپی اورترقی یافتہ ممالک سے بہت پیچھے ہیں مگر جہالت اور انسانی حقوق کی پامالی میں جدید ممالک سے کئی سو برس آگے ہیں۔ اشرافیہ سے لے کر عام آدمی تک، سب کا رہن سہن ایسا کہ دیکھنے والے دنگ رہ جائیں، انھیں دنیا جہان کی نعمتیں اپنے قدموں میں چاہیے، ہر ٹیکنالوجی سے یہ استفادہ کرنے کے خواہشمند لیکن عورت کے ساتھ سلوک کی باری آئے تو سب کا رنگ زرد پڑ جاتا ہے یہ صرف غریب یا ان پڑھ طبقے کی بات نہیں، اچھے بھلے خوشحال اور تعلیم یافتہ لوگ بھی عورت کا استحصال کرنے سے باز نہیں آتے۔
بیٹیوں کی پیدائش پر ناک بھوں چڑھاتے ہیں،انھیں تعلیم، صحت وروزگار کے معاملے میں پیچھے رکھتے ہیں، بیٹوں کو اعلیٰ نجی معیاری اسکول میں داخل کراتے اور بیٹی کو فیس افورڈ نہ کرنے کا بہانہ بناکر سرکاری اسکول میں پھینک دیتے ہیں،کیا کسی نے کبھی سوچا کہ اگر اسے اچھی تعلیم نہیں ملے گی تو وہ بڑے ہوکر نئی نسل کی اچھی تعلیم و تربیت کیسے کرے گی؟ بیٹی کی پیدائش پر غم وغصہ تو اپنی جگہ مگر بیوی کوگھر لایا ہی غلام سمجھ کر جاتا ہے،گھرکی چوکیداری سے لے کر صفائی وستھرائی تک ہر ذمے داری اسی پر ڈال دی جاتی ہے، بات بات پر یوں رعب ڈالا جاتا ہے جیسے بیوی نہ ہو قربانی کا کوئی جانور ہو، غیرت کو ہتھیار بناکر ایسے ایسے ظلم ڈھائے جاتے ہیں کہ دور جاہلیت بھی اس کے سامنے شرما جائے۔
اصل میں ہمارے معاشرے میں درمیان کا راستہ کم ہی دکھائی دیتا ہے، ہم انتہاؤں کے شکار لوگ ہیں، عام طور پر کسی بھی معاملے میں ہمارا موقف انتہائی سخت اور بے لچک ہوتا ہے، ہمارے رویوں کی اس سختی اور تندہی کا مظاہرہ زندگی کے کم وبیش تمام شعبوں میں سامنے آتا رہتا ہے، عورت کے حقوق کے حوالے سے بھی ہم اسی روش میں مبتلا ہیں، ایک طرف لبرل طبقہ تو دوسری جانب مذہبی طبقہ ہے، اول الذکرطبقہ عورت کو مادر پدرآزادی دیکر شمع محفل بنانے پر مصر ہے تو دوسرا عورت کو گھر کی چار دیواری میں قیدی بناکر رکھنے پر بضد ہے، ان دونوں طبقوں کے زبردست ٹکراؤ کا خمیازہ بے چاری عورت کو بھگتنا پڑرہا ہے۔
کوئی شک نہیں کہ اسلام دین فطرت اورانسانیت کا ترجمان ہے جو ہمارے لیے ابدی دستور کی حیثیت رکھتا ہے، اسلام اور نبی آخر الزماں ﷺ نے خواتین کے حقوق اور ان سے حسن سلوک کی جو تعلیمات انسانیت کو دی ہیں، دنیا کا کوئی مذہب، کوئی معاشرہ اورکوئی قانون اس کی برابری نہیں کرسکتا۔اسلام میں خواتین کو جو حقوق دیے گئے ہیں وہ دنیا کی جدید جمہوری ریاستوں میں بھی شاید خواتین کو حاصل نہیں، حضرت خدیجہؓ، حضرت فاطمۃ الزہرہؓ، حضرت عائشہ صدیقہؓ، حضرت زینب بنت علیؓ کا کردار ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔
اسلام میں ہی حضرت رابعہ بصریؒ تصوف کی اعلیٰ ترین منزل تک پہنچیں۔ ہمارا دین عورتوں کو نہ صرف تحفظ دیتا ہے بلکہ ان کی عزت و تکریم کا سبق بھی دیتا ہے، دنیا کا اور کونسا مذہب ایسا ہے جو کہتا ہو کہ ماں کے قدموں تلے جنت ہے، اسلام نے عورت کو وراثت کا حق دیا ہے، اس کے باوجودکسی مسلم معاشرے میں خواتین کے حقوق کی نفی، ونی، کاروکاری، غیرت کے نام پر قتل، پنچایتوں میں عورت کے ساتھ ہونے والی وحشت و بربریت کے واقعات کو افسوسناک ہی کہا جاسکتا ہے، اس ضمن میں مذہبی طبقے کی خاموشی بھی کسی لمحہ فکریہ سے کم نہیں۔
لیکن کیا مغرب اور ترقی یافتہ ممالک میں عورت کے حقوق پوری طرح محفوظ ہیں؟ کیا وہاں خواتین پر ظلم وستم نہیں ہوتا؟ کیا وہاں جسمانی تشدد کی مثالیں نہیں ملتیں؟ ایسا ہرگز نہیں، عورت وہاں بھی مظلوم ہے اور بعض پہلوؤں سے تو ہمارے ہاں کی خواتین سے بھی کہیں زیادہ مظلوم۔ وہاں خواتین پر جنسی تشدد، آبروریزی جیسے واقعات ہمارے ہاں کی نسبت کہیں زیادہ ہیں، طلاق کی شرح اتنی زیادہ ہے کہ معاشرہ بکھرتا جارہا ہے، اخلاقیات کے بندھن کمزور ہونے کی وجہ سے نوجوان لڑکیوں میں بڑھتی ہوئی بے اعتدالی بے شمار مسائل پیدا کررہی ہے۔ خاندانی نظام بری طرح ٹوٹ پھوٹ کر رہ گیا ہے، عورت نام نہاد آزادی کے زعم میں صبح شام کرنے والی مشین بن کر رہ گئی ہے۔
سو جو این جی اوز یا نام نہاد لبرل طبقہ یہاں مغرب کی نقالی میں قانون سازی کی حمایت کرتا اور خواتین کے تحفظ کا نعرہ لگاتا ہے، ضروری نہیں کہ وہ واقعی خواتین کے حقوق کی ضمانت فراہم کررہا ہو، اگر ہم اپنی خواتین کو مغربی تہذیب کی جانب دھکیل رہے ہیں تو دراصل ان کے حقوق کی نفی کررہے ہیں، یہ اعتدال کا راستہ نہیں بلکہ کہا جاسکتا ہے کہ احساس کمتری کا نتیجہ ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اعتدال کا راستہ اختیار کیا جائے، لبرل ازم کے شوق میں تمام پہلوؤں پر غورکیے بغیر کچے پکے قوانین بنانے کی ضرورت نہیں، اس سے کہیں بہتر ہے کہ خواتین کی بہبود، تعلیم، ترقی اور معاشی مضبوطی کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں، اسی طرح اسلام کی نام لیوا جماعتوں کو بھی سوچنا چاہیے کہ ہمارے دین کی حقیقی اسپرٹ کا تقاضا کیا ہے اور یہ کہ اب عورت کو زنجیریں ڈال کر رکھنے کا دورگزرگیا ہے۔
ہمیں یہ بات سمجھ میں آجانی چاہیے کہ ہماری خواتین اور ہماری بچیاں پاکستان کا روشن مستقبل ہیں، وہ محفوظ پاکستان کی ضمانت ہیں، کوئی بھی قوم اور کوئی بھی ملک نصف سے زیادہ آبادی کو ترقی کی دوڑ میں شامل نہ کرکے یا گھر بٹھاکر ترقی نہیں کرسکتے، ایسا کوئی بھی معاشرہ، کوئی تہذیب، کوئی جمہوریت، کوئی معیشت اورانسانی زندگی بہتری کی جانب نہیں بڑھ سکتی جہاں عورت کو شرف انسانیت سے محروم رکھا جائے اوراگر عورت ہی شرف انسانیت سے محروم کردی جائے تو مرد بھی شرف انسانیت سے بہرہ ور نہیں ہوسکتا۔
دنیا میں ان قوموں نے ترقی کی ہے جہاں خواتین و مردوں کو یکساں مواقعے میسرکیے گئے ہیں اور جہاں صنفی امتیاز ختم کیا گیا ہے، پاکستانی سماج میں خواتین بے پناہ مسائل کا شکار ہیں، اس کے باوجود خواتین نے ہر شعبے میں اپنی صلاحیت کی بنیاد پر اپنے آپ کو منوایا ہے، روشن پہلو یہ ہے کہ پاکستانی معاشرے میں غیر شعوری طور پر خواتین کے مثبت کردار کو تسلیم کرلیا گیا ہے اورغیر محسوس طریقے سے خواتین کی جدوجہد کامیابی سے ہمکنارہورہی ہے۔
پاکستان کی خواتین نہ صرف ہر شعبے میں اپنی صلاحیت کی بنیاد پر آگے بڑھ رہی ہیں بلکہ نئے پاکستانی سماج کی تشکیل بھی کررہی ہے، آج کی عورت نے اپنے آنچل کو ترقی کا پرچم بنالیا ہے۔ ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ کوئی بھی عورت خود کو تب ہی منواسکتی ہے، جب اسے اعتماد بخشا جائے، اس کی ہمت وحوصلہ افزائی ہو، اس عمل کا آغاز گھر سے ہی ہونا چاہیے، ایک پیارے گھر سے، آپ کے، ہمارے، ہم سب کے پیارے گھر سے ہونا چاہیے۔
ایک طرف تو عورت کو دنیا کے خوبصورت ترین خطابات اور القابات سے نوازا جاتا ہے، تو دوسری طرف وہ بیشتر معاشروں میں محض مردوں کے ہاتھوں پسنے والی ایک مظلوم ہستی کی صورت نظر آتی ہے، ویسے تو دنیا بھر میں ہی خواتین کا استحصال ہوتا ہے مگر ہم جیسے تیسرے درجے کے ممالک میں تو اس استحصال کی شرح کچھ اور بھی بلند ہے،اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہماری عورت اپنے اصل حقوق سے ناآشنا ہے، زندگی بھر فرائض تو نبھاتی چلی جاتی ہے مگر اسے حق مانگنا آتا ہے نہ ہی چھین لینا، کتنی خواتین کو پتا ہے کہ عالمی یوم خواتین کا مقصد کیا ہے؟ شاید دو فیصد کو بھی نہیں۔
ہم سوائے سیمینارز، ریلیاں، ٹیبلوز، مارننگ شو اور تقاریرکرکے یا اخبارات میں عورتوں کے حقوق کے حوالے سے پیغامات شایع کراکے سمجھتے ہیں کہ اب عورتوں کے حقوق کوئی سلب نہیں کرسکتا لیکن ایسا نہیں ہے۔ پاکستان میں خواتین کے حقوق اوران کی حیثیت کی صورتحال بہت زیادہ بہتر نہیں ہوسکی ہے، امتیازی قوانین آج بھی موجود ہیں، بدترین رسمیں آج بھی رائج ہیں، غیر قانونی پنچایتوں میں اسمبلی کے اراکین اور وزراء تک شریک ہوتے ہیں۔
ہم یورپی اورترقی یافتہ ممالک سے بہت پیچھے ہیں مگر جہالت اور انسانی حقوق کی پامالی میں جدید ممالک سے کئی سو برس آگے ہیں۔ اشرافیہ سے لے کر عام آدمی تک، سب کا رہن سہن ایسا کہ دیکھنے والے دنگ رہ جائیں، انھیں دنیا جہان کی نعمتیں اپنے قدموں میں چاہیے، ہر ٹیکنالوجی سے یہ استفادہ کرنے کے خواہشمند لیکن عورت کے ساتھ سلوک کی باری آئے تو سب کا رنگ زرد پڑ جاتا ہے یہ صرف غریب یا ان پڑھ طبقے کی بات نہیں، اچھے بھلے خوشحال اور تعلیم یافتہ لوگ بھی عورت کا استحصال کرنے سے باز نہیں آتے۔
بیٹیوں کی پیدائش پر ناک بھوں چڑھاتے ہیں،انھیں تعلیم، صحت وروزگار کے معاملے میں پیچھے رکھتے ہیں، بیٹوں کو اعلیٰ نجی معیاری اسکول میں داخل کراتے اور بیٹی کو فیس افورڈ نہ کرنے کا بہانہ بناکر سرکاری اسکول میں پھینک دیتے ہیں،کیا کسی نے کبھی سوچا کہ اگر اسے اچھی تعلیم نہیں ملے گی تو وہ بڑے ہوکر نئی نسل کی اچھی تعلیم و تربیت کیسے کرے گی؟ بیٹی کی پیدائش پر غم وغصہ تو اپنی جگہ مگر بیوی کوگھر لایا ہی غلام سمجھ کر جاتا ہے،گھرکی چوکیداری سے لے کر صفائی وستھرائی تک ہر ذمے داری اسی پر ڈال دی جاتی ہے، بات بات پر یوں رعب ڈالا جاتا ہے جیسے بیوی نہ ہو قربانی کا کوئی جانور ہو، غیرت کو ہتھیار بناکر ایسے ایسے ظلم ڈھائے جاتے ہیں کہ دور جاہلیت بھی اس کے سامنے شرما جائے۔
اصل میں ہمارے معاشرے میں درمیان کا راستہ کم ہی دکھائی دیتا ہے، ہم انتہاؤں کے شکار لوگ ہیں، عام طور پر کسی بھی معاملے میں ہمارا موقف انتہائی سخت اور بے لچک ہوتا ہے، ہمارے رویوں کی اس سختی اور تندہی کا مظاہرہ زندگی کے کم وبیش تمام شعبوں میں سامنے آتا رہتا ہے، عورت کے حقوق کے حوالے سے بھی ہم اسی روش میں مبتلا ہیں، ایک طرف لبرل طبقہ تو دوسری جانب مذہبی طبقہ ہے، اول الذکرطبقہ عورت کو مادر پدرآزادی دیکر شمع محفل بنانے پر مصر ہے تو دوسرا عورت کو گھر کی چار دیواری میں قیدی بناکر رکھنے پر بضد ہے، ان دونوں طبقوں کے زبردست ٹکراؤ کا خمیازہ بے چاری عورت کو بھگتنا پڑرہا ہے۔
کوئی شک نہیں کہ اسلام دین فطرت اورانسانیت کا ترجمان ہے جو ہمارے لیے ابدی دستور کی حیثیت رکھتا ہے، اسلام اور نبی آخر الزماں ﷺ نے خواتین کے حقوق اور ان سے حسن سلوک کی جو تعلیمات انسانیت کو دی ہیں، دنیا کا کوئی مذہب، کوئی معاشرہ اورکوئی قانون اس کی برابری نہیں کرسکتا۔اسلام میں خواتین کو جو حقوق دیے گئے ہیں وہ دنیا کی جدید جمہوری ریاستوں میں بھی شاید خواتین کو حاصل نہیں، حضرت خدیجہؓ، حضرت فاطمۃ الزہرہؓ، حضرت عائشہ صدیقہؓ، حضرت زینب بنت علیؓ کا کردار ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔
اسلام میں ہی حضرت رابعہ بصریؒ تصوف کی اعلیٰ ترین منزل تک پہنچیں۔ ہمارا دین عورتوں کو نہ صرف تحفظ دیتا ہے بلکہ ان کی عزت و تکریم کا سبق بھی دیتا ہے، دنیا کا اور کونسا مذہب ایسا ہے جو کہتا ہو کہ ماں کے قدموں تلے جنت ہے، اسلام نے عورت کو وراثت کا حق دیا ہے، اس کے باوجودکسی مسلم معاشرے میں خواتین کے حقوق کی نفی، ونی، کاروکاری، غیرت کے نام پر قتل، پنچایتوں میں عورت کے ساتھ ہونے والی وحشت و بربریت کے واقعات کو افسوسناک ہی کہا جاسکتا ہے، اس ضمن میں مذہبی طبقے کی خاموشی بھی کسی لمحہ فکریہ سے کم نہیں۔
لیکن کیا مغرب اور ترقی یافتہ ممالک میں عورت کے حقوق پوری طرح محفوظ ہیں؟ کیا وہاں خواتین پر ظلم وستم نہیں ہوتا؟ کیا وہاں جسمانی تشدد کی مثالیں نہیں ملتیں؟ ایسا ہرگز نہیں، عورت وہاں بھی مظلوم ہے اور بعض پہلوؤں سے تو ہمارے ہاں کی خواتین سے بھی کہیں زیادہ مظلوم۔ وہاں خواتین پر جنسی تشدد، آبروریزی جیسے واقعات ہمارے ہاں کی نسبت کہیں زیادہ ہیں، طلاق کی شرح اتنی زیادہ ہے کہ معاشرہ بکھرتا جارہا ہے، اخلاقیات کے بندھن کمزور ہونے کی وجہ سے نوجوان لڑکیوں میں بڑھتی ہوئی بے اعتدالی بے شمار مسائل پیدا کررہی ہے۔ خاندانی نظام بری طرح ٹوٹ پھوٹ کر رہ گیا ہے، عورت نام نہاد آزادی کے زعم میں صبح شام کرنے والی مشین بن کر رہ گئی ہے۔
سو جو این جی اوز یا نام نہاد لبرل طبقہ یہاں مغرب کی نقالی میں قانون سازی کی حمایت کرتا اور خواتین کے تحفظ کا نعرہ لگاتا ہے، ضروری نہیں کہ وہ واقعی خواتین کے حقوق کی ضمانت فراہم کررہا ہو، اگر ہم اپنی خواتین کو مغربی تہذیب کی جانب دھکیل رہے ہیں تو دراصل ان کے حقوق کی نفی کررہے ہیں، یہ اعتدال کا راستہ نہیں بلکہ کہا جاسکتا ہے کہ احساس کمتری کا نتیجہ ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اعتدال کا راستہ اختیار کیا جائے، لبرل ازم کے شوق میں تمام پہلوؤں پر غورکیے بغیر کچے پکے قوانین بنانے کی ضرورت نہیں، اس سے کہیں بہتر ہے کہ خواتین کی بہبود، تعلیم، ترقی اور معاشی مضبوطی کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں، اسی طرح اسلام کی نام لیوا جماعتوں کو بھی سوچنا چاہیے کہ ہمارے دین کی حقیقی اسپرٹ کا تقاضا کیا ہے اور یہ کہ اب عورت کو زنجیریں ڈال کر رکھنے کا دورگزرگیا ہے۔
ہمیں یہ بات سمجھ میں آجانی چاہیے کہ ہماری خواتین اور ہماری بچیاں پاکستان کا روشن مستقبل ہیں، وہ محفوظ پاکستان کی ضمانت ہیں، کوئی بھی قوم اور کوئی بھی ملک نصف سے زیادہ آبادی کو ترقی کی دوڑ میں شامل نہ کرکے یا گھر بٹھاکر ترقی نہیں کرسکتے، ایسا کوئی بھی معاشرہ، کوئی تہذیب، کوئی جمہوریت، کوئی معیشت اورانسانی زندگی بہتری کی جانب نہیں بڑھ سکتی جہاں عورت کو شرف انسانیت سے محروم رکھا جائے اوراگر عورت ہی شرف انسانیت سے محروم کردی جائے تو مرد بھی شرف انسانیت سے بہرہ ور نہیں ہوسکتا۔
دنیا میں ان قوموں نے ترقی کی ہے جہاں خواتین و مردوں کو یکساں مواقعے میسرکیے گئے ہیں اور جہاں صنفی امتیاز ختم کیا گیا ہے، پاکستانی سماج میں خواتین بے پناہ مسائل کا شکار ہیں، اس کے باوجود خواتین نے ہر شعبے میں اپنی صلاحیت کی بنیاد پر اپنے آپ کو منوایا ہے، روشن پہلو یہ ہے کہ پاکستانی معاشرے میں غیر شعوری طور پر خواتین کے مثبت کردار کو تسلیم کرلیا گیا ہے اورغیر محسوس طریقے سے خواتین کی جدوجہد کامیابی سے ہمکنارہورہی ہے۔
پاکستان کی خواتین نہ صرف ہر شعبے میں اپنی صلاحیت کی بنیاد پر آگے بڑھ رہی ہیں بلکہ نئے پاکستانی سماج کی تشکیل بھی کررہی ہے، آج کی عورت نے اپنے آنچل کو ترقی کا پرچم بنالیا ہے۔ ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ کوئی بھی عورت خود کو تب ہی منواسکتی ہے، جب اسے اعتماد بخشا جائے، اس کی ہمت وحوصلہ افزائی ہو، اس عمل کا آغاز گھر سے ہی ہونا چاہیے، ایک پیارے گھر سے، آپ کے، ہمارے، ہم سب کے پیارے گھر سے ہونا چاہیے۔