محب وطن قبائلیوں کوخوش آمدید

بالآخر سات دہائیوں کے بعد قبائلی پاکستانی بن گئے

بالآخر سات دہائیوں کے بعد قبائلی پاکستانی بن گئے اور اگلے پانچ برسوں میں وہ محب وطن قبائلیوں کی بجائے محب وطن پاکستانی قرار پائیں گے۔موٹر ویز ، میٹرو بس ،اورینج ٹرین اور لاتعداد ترقیاتی منصوبے بنا کر ملک و قوم کو ترقی و خوش حالی کا ہم سفر بنانے والے وزیر اعظم نواز شریف ایک اور اعزاز کے مالک بن گئے جو کسی بھی طور ان سے چھینا نہیں جا سکے گا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کو خراج تحسین نہ پیش کیا جائے یہ ممکن نہیں ،پیپلز پارٹی کی اصلاحاتی کمیٹی نے فاٹا اصلاحات پر کام کیا تھا وہ بلاشبہ لائق ستائش ہے جس کے لیے اس وقت کے صدر آصف زرداری کو بھی کریڈٹ دینا چاہیے۔نواز شریف حکومت نے قبائلیوں کی خواہش کا احترام کیا اور ایک اعلیٰ سطح کی کمیٹی بنا کر اصلاحات کے ایجنڈے کو مزید آگے بڑھایا۔ایک موقع ایسا بھی آیا کہ نواز شریف حکومت پرکابینہ اجلاس میں فاٹا اصلاحات کے ایجنڈا پوائنٹ کو اگلے اجلاس تک مؤخر کرنے پر نہ صرف قبائلیوں بلکہ سیاسی جماعتوں نے شدید تنقید کے نشتر برسائے تاہم اب فاٹا اصلاحات کی منظوری دے دی گئی ہے، جومخالفت کر رہے ہیں ان کے خیال میں ممکن ہے چند وجوہات ایسی ہوں جس کے باعث وہ قبائلیوں کے لیے کچھ زیادہ مانگنا چاہتے ہوں اگرچہ قبائلی ان اصلاحات کی مخالفت کرنے والوں سے بخوبی آگاہ بھی ہیں اور ان کا مؤقف ہے کہ ایسا کرنے والے اپنی شناخت کھو دینے کا غم رکھتے ہیں۔

مولانا فضل الرحمان نے فاٹا کو خیبر پختون خوا کا حصہ بنانے کی مخالفت کی لیکن ان کی مخالفت کے باوجود وفاقی کابینہ نے فیصلہ کیا اور یقینی طور پر اب قومی اسمبلی میں یہ بل پیش کیا جائے گا جس پر مولانا فضل الرحمان گفت گو فرمائیں گے۔جس دن فاٹا کو خیبر پختون خوا میں ضم کرنے کی منظوری دی گئی اس اجلاس میں وزیر اعظم نے مخالفت کرنے والوں کو بھی آڑے ہاتھوں لیا۔ان کا کہنا تھا کہ صوبوں کی طرح گلگت و بلتستان ، آزاد کشمیر اور قبائلی علاقوں میں بسنے والوں کا بھی قومی وسائل پر برابر کا حق ہے ۔قبائلیوں نے پاکستان کے لیے ناقابل فراموش قربانیاں دی ہیں اسی لیے انھیں بھی اب قومی دھارے میں شامل کیا جائے گا جو اس اقدام کی مخالفت کر رہے ہیں وہ درحقیقت صوبائیت کو فروغ دے رہے ہیں اور نہیں چاہتے کہ قبائلیوں کو بھی ان کا حق دیا جائے۔


بہرطور وزیراعظم نواز شریف نے قبائلیوں کے دل جیت لیے ہیں اب پانچ برسوں میں قبائلی علاقے بتدریج خیبر پختون خوا کا حصہ بن جائیں گے اور آیندہ الیکشن میں خوب میدان سجے گا کیونکہ قبائلی اب صوبائی اسمبلی کا حصہ بھی بنیں گے اور پھر ان علاقوں میں ترقی کا ایک نیا دور شروع ہو گا۔ کسی نے یہ بھی خوب کہا کہ خیبر پختون خوا والے اپنے صوبے اور پچیس اضلاع میں کچھ نہیں کر سکے وہ قبائلی علاقوں میں کیا کریں گے۔ سوال ویسے ہے بڑا دل چسپ لیکن یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ دنیا امید پر قائم ہے اسی لیے یہ امید بھی رکھنی چاہیے کہ قبائلی علاقے ظلم و بربریت سے چھٹکارا پائیں گے، ایف سی آر جیسے کالے قانون سے جان چھڑائیں گے اور انصاف کے لیے عدالتوں کا رخ کر سکیں گے، بے بلا شبہ جرگوں کا نظام ختم نہیں ہو گا اور وہ اسے مزید مؤثر بنا کر منصفانہ فیصلے بھی جاری رکھیں گے۔

اگر ، مگر اور سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے پاکستانی کبھی بھی کسی بھی فیصلے پر خوش نہیں ہوتے اور جب فیصلہ ان پر تھوپ دیا جائے تو اسے قبول کرنے میں بھی کسی سے پیچھے نہیں رہتے یہ بہت جلد بھول جاتے ہیں کہ آرمی خود نہیں آتی کسی کے بلانے پر آتی ہے اور کسی ڈکٹیٹر کی ایک دہائی سے زیادہ عرصے پر مشتمل حکومت ختم ہوتی ہے تو مٹھائیاں بانٹتے پھرتے ہیں۔ مسلم لیگ کی حکومت آتی ہے تو بھنگڑے ڈالتے ہیں، حکمران کو جلا وطن کیا جاتا ہے تو خوشیاں مناتے ہیں اور پیپلز پارٹی کی حکومت آتی ہے تو جئے بھٹو کے نعرے لگاتے ہیں جب روٹی کپڑا اور مکان نہیں ملتا تو وہ کرتے کہ اللہ کی پناہ!کتاب پر ووٹ مانگے جاتے ہیں تو اسے اللہ کی کتاب سمجھ کر اپنے نمایندے منتخب کرتے ہیں جب بور ہو جاتے ہیں تو قوم پرستوں کو حکومت کی باگ ڈور عطا کر دیتے ہیں پھر ان پر کرپشن کے الزامات لگاتے ہیں، جلد ہی بلے کو مسیحا جانتے اور پھر دھرنوں میں مصروف ہو جاتے ہیں، اب قبائلیوں کو صوبے میں ضم کرنے کے فیصلے پر بھی سوال و جواب کر رہے ہیں۔نجانے مستقبل میں کیا ہو گا لیکن ایک بات ہمیشہ یاد رکھنے کی ہے کہ دہشت گردی کی عفریت سے بڑی حد تک جان چھڑانے کے لیے یہ فیصلہ خاصا اہم ثابت ہو گا۔

اب جب کہ پاکستان آرمی ساتوں قبائلی ایجنسیوں میں موجود ہے ۔باجوڑ، مہمند، خیبر، اورکزئی، کرم، شمالی اور جنوبی وزیرستان ایجنسیوں میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشنز شد ومد سے جاری ہیں جس کے بعد وہ دن دور نہیں جب مکمل طور پر یہاں امن قائم ہو جائے گا اور پاکستان بھر سے سیاح ان خوبصورت اور حسین ترین علاقوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے آئیں گے۔یہ قبائلی علاقے قدرتی حسن اور وسائل سے مالا مال ہیں، شدید گرمی کے دنوں میں کئی علاقوں میں موسم سرد ہوتا ہے اور جس طرح خیبر پختون خوا میں سیاحت کو فروغ دیا جا رہا ہے اسی طرح ان قبائلی علاقوں پر بھی توجہ دی جائے گی اور یہ علاقے معاشی و اقتصادی طور پر ترقی کے ہمسفر ہوں گے۔خیبر پختون خوا میں ضم ہونے کے بعد اب افغانستان کے ساتھ کئی ہزار کلومیٹر طویل سرحد کو بھی محفوظ بنانے کی ضرورت ہو گی تاکہ ایک انٹرنیشنل بارڈر کی موجودگی میں ایک دوسرے ملک کے لوگ قانونی دستاویزات کے ہمراہ سفر کے پابند ہوں۔

یہ حکومتی اقدام سیاست دانوں کے لیے بھی کسی چیلنج سے کم نہیں ، بیس سے زیادہ اراکین صوبائی اسمبلی کا حصہ بنیں گے، یوں قبائلی اراکین اسمبلی صوبے میں حکومت بنانے میں اپنا اہم کردار ادا کرینگے۔ 2018ء کے انتخابات کے لیے رواں سال تیاریوں کا آغاز ہو گا ۔اکثر سیاسی جماعتوں نے تو اس حوالے سے کام شروع بھی کر رکھا ہے لیکن قبائلی علاقوں میں سیاسی سرگرمیاں بھی جلد شروع ہو جائیں گی۔ بہت غم قبائلیوں نے سہے ہیں اب ان کے غموں کا مداوا کرنے کا وقت ہے ۔اللہ کرے کہ یہ فیصلہ ان کے حق میں بہتر ثابت ہو ،چنانچہ اہل خیبر پختون خوا کی جانب سے بھی ان محب وطن قبائلیوں کو دل کی گہرائیوں کے ساتھ خوش آمدید کہنا ان کا حق بنتا ہے۔
Load Next Story