لوٹ کے بدھو

ذاتی کردارکو چھوڑ کر پیسہ تو پاکستان کے عوام کا ہی ہے



پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنما اور سابق وفاقی وزیراطلاعات قمرالزماں کائرہ نے کہا کہ دیکھنا ہوگا کہ یہاں رینجرزکوکتنے اختیارات دیے جاتے ہیں اورکیا رینجرز پنجاب میں کراچی جیسا آپریشن کرسکے گی۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پیپلزپارٹی افواج پاکستان کے ساتھ ہے۔انھوں نے کہا کہ بے گناہ معصوم لوگوں کا خون بہنے کے بعد رینجرزکی تعیناتی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں جن پر بہت سی بحث کی جاسکتی ہے اور نہ صرف بحث بلکہ عمل کے ذریعے اس کو روکا جاسکتا ہے۔ مسلم ٹاؤن لاہور کے واقعے کے بعد کیا سیاسی جماعتوں خصوصاً حزب اختلاف کا یہ فرض نہیں تھا کہ وہ انصاف کی لائن میں کھڑے ہوتے اور اس وقت تک آرام سے نہ بیٹھتے جب تک اس کا فیصلہ نہ ہوجاتا۔ مقدمہ چلتا سزا ہوتی مگر ایسا کیوں نہیں ہوا۔ یہ ایک کھلا سوال ہے پاکستان کے عوام کے لیے سیاستدانوں کے حوالے یہ سوال کیا تو اس کا حشر نشرکردیں گے۔پاکستان پیپلز پارٹی نے سابق وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا کی اہلیہ اور سابق اسپیکر قومی اسمبلی فہمیدہ مرزا اور ان کے بیٹے حسنین مرزا کو پارٹی سے بلیک لسٹ کردیا۔ ایک نجی ٹی وی کی خبر کے مطابق ان لوگوں کو پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی پر بلیک لسٹ کردیا گیا ہے اور ان دونوں سے استعفے طلب کرلیے گئے ہیں۔

ایک تو خبر دینے والے کو مراتب سیاسی وانتظامی کا خیال رکھنا چاہیے سابق ہونے کے باوجود اسپیکر قومی اسمبلی سندھ کے وزیر داخلہ سے بلند ہیں لہٰذا پہلے ان کے مرتبے اور پھر رشتے کو لکھنا چاہیے تھا جب کہ وزیر داخلہ بھی سابق ہیں اور صوبائی ہیں۔ اب کائرہ صاحب کو اس پر بھی تبصرہ کرنا چاہیے کہ کس کو پاکستان پیپلز پارٹی سے بلیک لسٹ کردیا جائے کہ پارٹی بے نظیر بھٹو اور ذوالفقارعلی بھٹو کی پارٹی ایک بار پھر بن جائے۔ مشکل سوال ہے جواب آنا اور بھی دشوار۔

وزیر ریلوے سعد رفیق نے کہا ہے کہ عمران خان کے سیاست میں آنے سے بدتمیزی اور بہتان تراشی کا طوفان آگیا ہے عمران خان نے الزام کا محور نواز شریف کو رکھا جب کہ نواز شریف نے کبھی قومی وقار اور سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا، عمران خان نے گالی گلوچ متعارف کروایا۔ (بعض مسلم لیگی رہنما بھی اس قسم کے خیالات کا اظہارکرتے رہتے ہیں)۔ عمران خان نے اپنے ایک ٹوئیٹ میں کہا ہے کہ کرپشن کے خاتمے اور ملک کے لیے آخری بال تک لڑا ہوں، اب دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ کامیابی عطا فرمائے۔ رد الفساد کا اعلان وزیر اعظم کو خود کرنا چاہیے تھا مگر وہ بیرون ملک تھے۔

سب سے پہلے تو ہمارے وزیر ریلوے دیکھنے میں ہی وزیر ریلوے لگتے ہیں۔ یہ پہلے وزیر ہیں جو اپنے شعبے سے مشابہت رکھتے ہیں ان کے بعد وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات کا نمبر آتا ہے اس ضمن میں تو پوچھنا یہ ہے سعد رفیق سے کہ عمران خان کے سیاست میں آنے سے پہلے کون کون سے سیاستدان ایک دوسرے کے ہاتھ چومتے اور پیشانیوں کو بوسہ دیا کرتے تھے۔ یہ کام مذہبی سیاسی رہنماؤں کو سوٹ کرتا ہے مگر وہ بھی نہیں کرتے، سیاسی معانقہ اور پیشانی کا بوسہ ان سے اچھا کوئی نہیں دے سکتا۔بعض خاتون رہنما تو اپنی صوابدید پر ہر صحافی کو 14 سال جیل میں ڈلوانے کا اعلان کرچکی ہیں اور پھر معذرت کا روایتی ڈراما جس میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے نمبر سب سے زیادہ ہیں۔ بعض لیڈر معذرت بھی ایسے کرتے ہیں جیسے مقتول کی جانب سے قاتل سے معذرت کر رہے ہوں کہ میری وجہ سے آپ کا وار اوچھا پڑا۔تو صاحب ریکارڈ درست رکھا کریں۔

سپریم کورٹ پر حملہ امریکی سفارت خانے کے ملازمین یا را کے ایجنٹوں نے نہیں کیا تھا۔ وہ سب آپ کے سیاسی بھائی بند تھے۔ تو اس کے بعد آپ کی شکایت جوکہ درست بھی نہیں ہے قابل توجہ نہیں ہے۔ عمران اگر چورکو چور نہ کہے تو کیا کہے۔اب حکومت مخالف رہنما بھی قوم سے خطاب تک کا جعلی نشریاتی ڈراما رچا چکے ہیں تردید کی ضرورت نہیں ہے سب نے دیکھا ہوا ہے۔ ان کی پاکستان کا وزیراعظم بننے کی خواہش سب جانتے ہیں پارٹی میں بھی اور باہر بھی۔ کینسر اسپتال بھی اگر اس کا نام پاکستان کینسر اسپتال ہوتا تو کتنا اچھا ہوتا سوچیے گا۔

ذاتی کردارکو چھوڑ کر پیسہ تو پاکستان کے عوام کا ہی ہے اور آپ نے بھی وہی کیا جو ملک کی سیاسی جماعتیں کرتی ہیں کہ اپنے لیڈروں کے نام عوامی تعمیرات کرتی ہیں اور ایک پیسہ اپنے پاس سے نہیں لگاتیں۔ ایک اسپتال والدہ کے نام پر ٹھیک تھا۔ دوسری بات کراچی میں سالوں آپریشن چلا مگر آپ نے اس کی حمایت کی اور کراچی کے رہنے والوں کو ہی برا بھلا کہا، دہشت گرد، بھتہ خور (ہوسکتا ہے ٹھیک کہا ہو) مگر اب ردالفساد کے آغاز سے ہی آپ پختونوں کی حمایت میں اتر آئے جب کہ دہشت گردی کی نرسریاں سارے ملک میں ہیں۔ افغانستان سے براستہ پشاور طورخم کیا کچھ نہیں ہوتا رہا آپ خاموش رہے۔ بلوچستان میں تو قدم رکھنا آپ کے لیے لوہے کے چنے ہیں۔فنڈزکی عدم دستیابی، نیشنل پریس ٹرسٹ، نیشنل سینٹر بند کرنے کا فیصلہ۔ اس خبر میں کوئی نئی بات یوں نہیں ہے کہ وزارت اطلاعات روزانہ سپریم کورٹ میں رہتی تھی تو کام کیا ہو اور پھر اس کا بجٹ بھی پتا نہیں چلتا کہاں آتا ہے،کہاں جاتا ہے؟

وزیر ریلوے نے کہا تھا کہ وزیر اعظم نے کبھی قومی مفاد پر سمجھوتہ نہیں کیا تو یہ کیا ہے۔ ریڈیو بھی ایک ایسا ادارہ ہے کہ جو نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کرتا ہے ۔ اس کے ساتھ یہ ناروا سلوک کیوں کیا جا رہا ہے۔ ہر دور میں آپ کے ریڈیو مشکل میں رہا دوسرے اداروں کی طرح کیا یہ بھی کسی کو نوازنے یا خوش کرنے کو ہے۔ایک معروف شاعرہ بھارت سے ناروا سلوک پر واپس تشریف لے آئیں پاکستان۔ انھیں کشیدہ حالات کے تحت کلام پڑھنے کی اجازت نہیں ملی اور ''امن کی امید'' کے راستے یعنی واہگہ سے واپس لاہور آنا پڑا۔ بھارت میں ایک داڑھی رکھنے والے پولیس مین کو کام سے روک دیا گیا ہے، بھارت کی عدالت نے اس کی حفاظت کے لیے اس کو گجرات ہائی کورٹ منتقل کردیا ہے۔ آٹھ سال سے داڑھی رکھی ہوئی تھی کوئی اعتراض نہیں تھا۔ سلیکشن کے وقت بھی داڑھی تھی۔ تفصیل کو چھوڑئیے ہم پاکستان کی اس نامور شاعرہ سے پوچھتے ہیں کہ کیا آپ کو وہاں جاتے وقت کشمیریوں کی آنکھوں میں پیلٹ گن کے چھرے، نابینا کشمیری نظر نہیں آئے، کلبھوشن یادیو نظر نہیں آیا، بھارت کی جیلوں سے واپس آنے والے حواس سے بے گانے پاکستانی نظر نہیں آئے،ملک میں دہشت گردی کے پس پشت بھارت کے خون آلود ہاتھ نظر نہیں آئے۔آپ کو زبردستی واپس کیا گیا ۔ آپ وہاں جانے سے انکارکرکے زیادہ عزت حاصل کرتیں۔ کاش!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں