کرکٹ ٹیم کا کپتان فوجی عدالت میں برطانوی فوج کے ایک بھگوڑے سپاہی کا دلچسپ ویادگار واقعہ
ٹام کو اسٹیڈیم سے سیدھا اس فوجی عدالت میں لے جایا گیا جو اس کا کیس سننے کے لیے خصوصی طورپر لگائی گئی تھی۔
RAWALPINDI:
کہا جاتا ہے کہ کرکٹ اب روپے پیسے کے گرد گھومتا ہے۔اس باعث کھیل سے جو جوش وجذبہ،جیت کی لگن اور سپورٹسمین شپ وابستہ تھی، وہ اب کافور ہو رہی ہے۔تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ کرکٹ اور مادی مفاد کا ساتھ روز اول سے چلا آ رہا ہے۔مثال کے طور پر انیسویں صدی میں جب کرکٹ مختلف ممالک میں مقبول ہونے لگا، تو سرمایہ کاروں کواحساس ہوا کہ اس کھیل کی ٹیم بنا اورغیرملکی دورے کر کے خاصی رقم کمائی جا سکتی ہے۔ اس ضمن میں برطانیہ ان کا مرکز نگاہ بنا کیونکہ شائقین کرکٹ کی زیادہ تعداد وہیں بستی تھی۔ وہ کثیر تعداد میں ٹکٹ لے کرمیچ دیکھنے آتے ہیں۔
یہ1880ء کی بات ہے، درج بالا فائدہ مدنظر رکھ کر کینیڈا کے نامور سرمایہ داروں نے فیصلہ کیا کہ ایک کرکٹ ٹیم بنا کر برطانیہ بھجوائی جائے۔تب کرکٹ برطانیہ کے علاوہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں خاصا مقبول ہو چکا تھا۔ اب کینیڈا میں بھی اس کا چرچا ہونے لگا جہاں برطانیہ سے آئے انگریزوں کی خاصی تعداد بستی تھی۔اس ٹیم میں کینیڈا ہی نہیں امریکا سے بھی کھلاڑی بھرتی کیے گئے۔ٖکھلاڑیوں کی نگاہ میں غیر ملکی دوروں کا فائدہ یہ تھا کہ تجربے کار برطانوی کھلاڑیوں کے ساتھ کھیل کرانھیں یہ سنہرا موقع ملتا تھا کہ اپنا کھیل مزید بہتر بنا سکیں۔
جب کوئی کرکٹ ٹیم دوسرے ملک کا دورہ کرے، توکھلاڑیوں کو اجنبی ماحول سے ہم آہنگ ہونے میں عموماً مشکل پیش آتی ہے۔بعض اوقات کسی کھلاڑی کے ساتھ میدان کے باہر یا اندر ناخوشگوار واقعہ بھی پیش آجاتا ہے۔لیکن یہ شاذ ہی ہوا ہے کہ میچ میں شاندار کارکردگی دکھانے کے بعد کسی کھلاڑی کومیدان سے سیدھا جیل پہنچا دیا جائے۔ ایسا ہی عجیب ماجرا برطانیہ کا دورہ کرنے والی پہلی کینیڈین ٹیم کے کپتان کے ساتھ پیش آیا۔
کینیڈین سرمایہ کاروں نے جو ٹیم تشکیل دی، اس میں تین امریکی کرکٹ کھلاڑی بھی شامل تھے۔ انہی میں سے ایک تھامس جارڈن کوکپتان بنایا گیا۔ یہ لمبا تڑنگا بالر اچھی بالنگ کراتا اور امریکی کرکٹ حلقوں میں خاصا مقبول تھا۔ مگر کسی کو علم نہ تھا کہ اس کا اصل نام ٹام ڈیل ہے۔
ٹام ڈیل برطانوی صوبے، یارک شائر کا باسی تھا۔ لڑکپن میں کرکٹ کھیلتا رہا۔ جب جوان ہوا، تو برطانوی فوج میں بھرتی ہوگیا۔ 1873ء میں برطانوی فوج کا جو دستہ امریکا گیا، ٹام اس میں شامل تھا۔ لیکن امریکا پہنچ کر جلد وہ فوج سے فرار ہوا اوریوں بھگوڑا بن بیٹھا۔ ٹام نے پھر تھامس جارڈن کا نام اختیار کیا، ایک امریکی کمپنی میں ملازمت کی اورشادی بھی کرلی۔
مئی 1880ء میں کینیڈین کرکٹ ٹیم اپنے پہلے دورے میں برطانیہ پہنچ گئی۔یہ ایک تاریخ ساز دورہ تھا مگر کینیڈین ٹیم کی بدقسمتی کہ اسی زمانے میں آسٹریلوی ٹیم بھی آئی ہوئی تھی۔ چونکہ اس میں نامور کھلاڑی شامل تھے، لہٰذا برطانوی کرکٹ بورڈ سے لے کر عوام تک،سبھی اسی کی طرف متوجہ رہے۔ نتیجہ یہ کہ کینیڈین ٹیم کو اضلاع اور تحصیلوں کی کمزور کرکٹ ٹیموں سے مقابلے کرنے پڑے۔
پہلے دوتین میچوں میں توکینیڈا کا نام سن کرشائقین کرکٹ مقابلہ دیکھنے آئے۔ لیکن جب مہمانوں نے متاثر کن کھیل نہ دکھایا، تو اگلے میچوں میں ان کی تعداد گھٹ گئی۔ یہ دیکھ کر کینیڈین ٹیم پر پیسا لگانے والے سرمایہ کاروں کوبہت صدمہ پہنچا اور انھیں اپنی رقم ڈوبتی محسوس ہوئی۔ مگراصل جھٹکا انھیں ٹام المعروف تھامسن جارڈن کے اسکینڈل سے لگا۔
دورے کے دسویں روز خدا خدا کرکے کینیڈین ٹیم کا مقابلہ لیکاسٹرشائر کی کرکٹ ٹیم سے ہوا۔ یہ برطانوی کاؤنٹیوں کی ایک مقبول ٹیم تھی۔ اس میچ میں ٹام ڈیل نے 49رن دے کر چارکھلاڑی آؤٹ کیے۔ گومیچ برابر رہا مگرشائقین نے اس میں کافی دلچسپی لی۔لیکن اصل ڈراما تومیچ کے بعد ظہور پذیر ہوا۔ کینیڈین مہانوں کویہ سن کرتعجب ہوا کہ تھامسن جارڈن کی گرفتاری کے لیے پولیس پہنچی ہوئی ہے۔تب ان پریہ راز کھلا کہ موصوف توبرطانوی فوج سے بھاگے ہوئے بھگوڑے ہیں۔
ٹام کو اسٹیڈیم سے سیدھا اس فوجی عدالت میں لے جایا گیا جو اس کا کیس سننے کے لیے خصوصی طورپر لگائی گئی تھی۔عدالت نے اسے 35دن قید کی سزا سنائی۔ٹام کی کم بختی آئی تھی کہ وہ پھر اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار بیٹھا۔ جب دو سپاہی ٹام کو لیے جیل جارہے تھے وہ انھیں چکمہ دے کرفرار ہوگیا۔ سپاہی اس سے بھی زیادہ تیز نکلے۔ انھوں نے ٹام کوجاپکڑا۔ اب دوبارہ اسے فوجی عدالت پہنچایا گیا۔ اس بار غصّہ میں آئے کرنل نے اسے پورے ایک سال قید کی سزا سنا دی۔ یوں کینیڈین ٹیم سے ٹام کا نام گول کرنا پڑا ۔بعدازآں افشا ہوا کہ ٹام بیوی سے وفادار نہ تھا۔ بیگم اس کی آوارہ مزاجی سے تنگ آچکی تھی۔ لہٰذا اس نے برطانوی پولیس پر ''تھامسن جارڈن'' کی اصلیت عیاں کر دی۔ یوں ٹام کو برحق سزا ملی کہ اس نے وطن کے دفاع میں دلچسپی نہیں لی اور نہ بیوی کے حقوق کا پاس کیا۔
ٹام کی جگہ ایک عمر رسیدہ مگرتجربے کار کرکٹر تھامسن فلپس کینیڈین ٹیم کا کپتان بنادیا گیا۔ اس'' 47سالہ ''کھلاڑی کو خاص طورپر کینیڈا سے بلایا گیا تاکہ وہ ٹیم کودوبارہ اپنے پیروں پہ کھڑا کرسکے۔ فلپس سابق کپتان کے بالکل الٹ تھا... وہ ایک پادری، استاد اوراچھا منتظم تھا۔جب 1859ء میں برطانوی کرکٹ ٹیم نے کینیڈا کا پہلا دورہ کیا تھا توفلپس تب بھی کینیڈین سائڈ میں شامل تھا۔ تاہم اب وہ پہلے کے مانند چست و چالاک اورسرگرم نہیں رہا تھا۔ فلپس نے برطانیہ پہنچ کر 13میچ کھیلے۔مگر وہ صرف 191رن بنا پایا۔ یوں اوسط فی میچ محض 9.55رن رہی۔
ٹام کی رخصتی سے بہرحال کینیڈین ٹیم مزید مسائل کا شکار ہوگئی۔ اسی لیے اگلے دومیچ ملتوی کر دیے گئے تاکہ ٹیم ازسر نو منظم ہوسکے۔ کینیڈین ٹیم لیکاسٹر شائر سے لندن پہنچی جہاں لارڈز میں اس کا ایم سی سی ٹیم کے ساتھ میچ تھا۔ یہ برطانیہ میں ان کا سب سے اہم اوربڑا مقابلہ تھا۔میچ دو دن جاری رہنا تھا، لیکن وہ پہلے ہی روز سہ پہرکو ختم ہوگیا۔ کینیڈین ٹیم کے لیے وہ دن بڑا منحوس تھا۔ پوری ٹیم پہلی اننگ میں صرف 33رن اور پھر دوسری اننگ میں 36رن بنا کر آؤٹ ہوگئی... حالانکہ میزبانوں نے فیاضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کینیڈین ٹیم کو ''پندرہ کھلاڑی'' ٹیم میں شامل کرنے کی اجازت دے دی تھی۔
یوںکینیڈین ٹیم ایک اننگ اور 23رن سے میچ ہار گئی۔ برطانوی ٹیم کے مرکزی بالر الفریڈشا (1907ء-1842ء) نے 23رن دے کر 15وکٹیں لیں اورعام و خاص سے داد پائی۔یاد رہے مہمان ٹیم کے پرخچے اڑا دینے والے الفریڈشا ہی کو ٹیسٹ کرکٹ میں پہلی گیند کرانے کا اعزاز حاصل ہے۔نیز ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں الفریڈ ہی پہلا بالر ہے جس نے ایک میچ میں 5وکٹیں حاصل کیں۔
ایم سی سی سے میچ کے ذریعے ثابت ہوگیا کہ کینیڈین ٹیم میں ٹام ڈیل ترپ کے پتے کی حیثیت رکھتا تھا۔ اس کی عدم موجودگی میں ٹیم مسائل کا نشانہ بن گئی۔ لارڈز میں ذلت آمیز شکست کے بعد کینیڈین ٹیم کی انتظامیہ نے مزید بھرتیاں کیں، لیکن نئے کھلاڑی بھی ڈوبتے جہاز کو نہ بچا سکے۔چونکہ سرمایہ کار کثیرتعداد میں پونڈ خرچ کر رہے تھے، دوسری طرف آمدن نہ ہونے کے برابر تھی، لہٰذا مذید نقصان سے بچنے کی خاطر وسط جولائی میں دورہ قبل از وقت ختم کردیا گیا۔
یوں سنسنی خیز واقعات سے بھرپور دورہ اختتام کوپہنچا۔ کینیڈین ٹیم نے پھرسات سال بعد 1887ء میں ارض برطانیہ پہ دوبارہ قدم دھرے۔ اس بار دورہ مالی لحاظ سے سود مند رہا اور کثیرتعداد میں تماشائی میچ دیکھنے آئے۔اْدھر ایک سال بعد ٹام ڈیل کورہائی ملی، تو واپس امریکا پہنچ گیا۔ جاتے ہی بیوی کو طلاق دے ڈالی۔ وہ پھر کلب کرکٹ کھیلتا رہا۔ 1893ء میںکہیں جا کراس نے اپنی زندگی کا اکلوتا فرسٹ کلاس کرکٹ میچ کھیلا۔تھامس فلپس صحیح معنوں میں کرکٹ کا عاشق ثابت ہوا۔ وہ بڑھاپے میں بھی اپنا پسندیدہ کھیل کھیلتا رہا۔ 63سال کا تھا کہ جب کلب کرکٹ کھیلتے ہوئے اس نے سنچری بنا ڈالی۔
کہا جاتا ہے کہ کرکٹ اب روپے پیسے کے گرد گھومتا ہے۔اس باعث کھیل سے جو جوش وجذبہ،جیت کی لگن اور سپورٹسمین شپ وابستہ تھی، وہ اب کافور ہو رہی ہے۔تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ کرکٹ اور مادی مفاد کا ساتھ روز اول سے چلا آ رہا ہے۔مثال کے طور پر انیسویں صدی میں جب کرکٹ مختلف ممالک میں مقبول ہونے لگا، تو سرمایہ کاروں کواحساس ہوا کہ اس کھیل کی ٹیم بنا اورغیرملکی دورے کر کے خاصی رقم کمائی جا سکتی ہے۔ اس ضمن میں برطانیہ ان کا مرکز نگاہ بنا کیونکہ شائقین کرکٹ کی زیادہ تعداد وہیں بستی تھی۔ وہ کثیر تعداد میں ٹکٹ لے کرمیچ دیکھنے آتے ہیں۔
یہ1880ء کی بات ہے، درج بالا فائدہ مدنظر رکھ کر کینیڈا کے نامور سرمایہ داروں نے فیصلہ کیا کہ ایک کرکٹ ٹیم بنا کر برطانیہ بھجوائی جائے۔تب کرکٹ برطانیہ کے علاوہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں خاصا مقبول ہو چکا تھا۔ اب کینیڈا میں بھی اس کا چرچا ہونے لگا جہاں برطانیہ سے آئے انگریزوں کی خاصی تعداد بستی تھی۔اس ٹیم میں کینیڈا ہی نہیں امریکا سے بھی کھلاڑی بھرتی کیے گئے۔ٖکھلاڑیوں کی نگاہ میں غیر ملکی دوروں کا فائدہ یہ تھا کہ تجربے کار برطانوی کھلاڑیوں کے ساتھ کھیل کرانھیں یہ سنہرا موقع ملتا تھا کہ اپنا کھیل مزید بہتر بنا سکیں۔
جب کوئی کرکٹ ٹیم دوسرے ملک کا دورہ کرے، توکھلاڑیوں کو اجنبی ماحول سے ہم آہنگ ہونے میں عموماً مشکل پیش آتی ہے۔بعض اوقات کسی کھلاڑی کے ساتھ میدان کے باہر یا اندر ناخوشگوار واقعہ بھی پیش آجاتا ہے۔لیکن یہ شاذ ہی ہوا ہے کہ میچ میں شاندار کارکردگی دکھانے کے بعد کسی کھلاڑی کومیدان سے سیدھا جیل پہنچا دیا جائے۔ ایسا ہی عجیب ماجرا برطانیہ کا دورہ کرنے والی پہلی کینیڈین ٹیم کے کپتان کے ساتھ پیش آیا۔
کینیڈین سرمایہ کاروں نے جو ٹیم تشکیل دی، اس میں تین امریکی کرکٹ کھلاڑی بھی شامل تھے۔ انہی میں سے ایک تھامس جارڈن کوکپتان بنایا گیا۔ یہ لمبا تڑنگا بالر اچھی بالنگ کراتا اور امریکی کرکٹ حلقوں میں خاصا مقبول تھا۔ مگر کسی کو علم نہ تھا کہ اس کا اصل نام ٹام ڈیل ہے۔
ٹام ڈیل برطانوی صوبے، یارک شائر کا باسی تھا۔ لڑکپن میں کرکٹ کھیلتا رہا۔ جب جوان ہوا، تو برطانوی فوج میں بھرتی ہوگیا۔ 1873ء میں برطانوی فوج کا جو دستہ امریکا گیا، ٹام اس میں شامل تھا۔ لیکن امریکا پہنچ کر جلد وہ فوج سے فرار ہوا اوریوں بھگوڑا بن بیٹھا۔ ٹام نے پھر تھامس جارڈن کا نام اختیار کیا، ایک امریکی کمپنی میں ملازمت کی اورشادی بھی کرلی۔
مئی 1880ء میں کینیڈین کرکٹ ٹیم اپنے پہلے دورے میں برطانیہ پہنچ گئی۔یہ ایک تاریخ ساز دورہ تھا مگر کینیڈین ٹیم کی بدقسمتی کہ اسی زمانے میں آسٹریلوی ٹیم بھی آئی ہوئی تھی۔ چونکہ اس میں نامور کھلاڑی شامل تھے، لہٰذا برطانوی کرکٹ بورڈ سے لے کر عوام تک،سبھی اسی کی طرف متوجہ رہے۔ نتیجہ یہ کہ کینیڈین ٹیم کو اضلاع اور تحصیلوں کی کمزور کرکٹ ٹیموں سے مقابلے کرنے پڑے۔
پہلے دوتین میچوں میں توکینیڈا کا نام سن کرشائقین کرکٹ مقابلہ دیکھنے آئے۔ لیکن جب مہمانوں نے متاثر کن کھیل نہ دکھایا، تو اگلے میچوں میں ان کی تعداد گھٹ گئی۔ یہ دیکھ کر کینیڈین ٹیم پر پیسا لگانے والے سرمایہ کاروں کوبہت صدمہ پہنچا اور انھیں اپنی رقم ڈوبتی محسوس ہوئی۔ مگراصل جھٹکا انھیں ٹام المعروف تھامسن جارڈن کے اسکینڈل سے لگا۔
دورے کے دسویں روز خدا خدا کرکے کینیڈین ٹیم کا مقابلہ لیکاسٹرشائر کی کرکٹ ٹیم سے ہوا۔ یہ برطانوی کاؤنٹیوں کی ایک مقبول ٹیم تھی۔ اس میچ میں ٹام ڈیل نے 49رن دے کر چارکھلاڑی آؤٹ کیے۔ گومیچ برابر رہا مگرشائقین نے اس میں کافی دلچسپی لی۔لیکن اصل ڈراما تومیچ کے بعد ظہور پذیر ہوا۔ کینیڈین مہانوں کویہ سن کرتعجب ہوا کہ تھامسن جارڈن کی گرفتاری کے لیے پولیس پہنچی ہوئی ہے۔تب ان پریہ راز کھلا کہ موصوف توبرطانوی فوج سے بھاگے ہوئے بھگوڑے ہیں۔
ٹام کو اسٹیڈیم سے سیدھا اس فوجی عدالت میں لے جایا گیا جو اس کا کیس سننے کے لیے خصوصی طورپر لگائی گئی تھی۔عدالت نے اسے 35دن قید کی سزا سنائی۔ٹام کی کم بختی آئی تھی کہ وہ پھر اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار بیٹھا۔ جب دو سپاہی ٹام کو لیے جیل جارہے تھے وہ انھیں چکمہ دے کرفرار ہوگیا۔ سپاہی اس سے بھی زیادہ تیز نکلے۔ انھوں نے ٹام کوجاپکڑا۔ اب دوبارہ اسے فوجی عدالت پہنچایا گیا۔ اس بار غصّہ میں آئے کرنل نے اسے پورے ایک سال قید کی سزا سنا دی۔ یوں کینیڈین ٹیم سے ٹام کا نام گول کرنا پڑا ۔بعدازآں افشا ہوا کہ ٹام بیوی سے وفادار نہ تھا۔ بیگم اس کی آوارہ مزاجی سے تنگ آچکی تھی۔ لہٰذا اس نے برطانوی پولیس پر ''تھامسن جارڈن'' کی اصلیت عیاں کر دی۔ یوں ٹام کو برحق سزا ملی کہ اس نے وطن کے دفاع میں دلچسپی نہیں لی اور نہ بیوی کے حقوق کا پاس کیا۔
ٹام کی جگہ ایک عمر رسیدہ مگرتجربے کار کرکٹر تھامسن فلپس کینیڈین ٹیم کا کپتان بنادیا گیا۔ اس'' 47سالہ ''کھلاڑی کو خاص طورپر کینیڈا سے بلایا گیا تاکہ وہ ٹیم کودوبارہ اپنے پیروں پہ کھڑا کرسکے۔ فلپس سابق کپتان کے بالکل الٹ تھا... وہ ایک پادری، استاد اوراچھا منتظم تھا۔جب 1859ء میں برطانوی کرکٹ ٹیم نے کینیڈا کا پہلا دورہ کیا تھا توفلپس تب بھی کینیڈین سائڈ میں شامل تھا۔ تاہم اب وہ پہلے کے مانند چست و چالاک اورسرگرم نہیں رہا تھا۔ فلپس نے برطانیہ پہنچ کر 13میچ کھیلے۔مگر وہ صرف 191رن بنا پایا۔ یوں اوسط فی میچ محض 9.55رن رہی۔
ٹام کی رخصتی سے بہرحال کینیڈین ٹیم مزید مسائل کا شکار ہوگئی۔ اسی لیے اگلے دومیچ ملتوی کر دیے گئے تاکہ ٹیم ازسر نو منظم ہوسکے۔ کینیڈین ٹیم لیکاسٹر شائر سے لندن پہنچی جہاں لارڈز میں اس کا ایم سی سی ٹیم کے ساتھ میچ تھا۔ یہ برطانیہ میں ان کا سب سے اہم اوربڑا مقابلہ تھا۔میچ دو دن جاری رہنا تھا، لیکن وہ پہلے ہی روز سہ پہرکو ختم ہوگیا۔ کینیڈین ٹیم کے لیے وہ دن بڑا منحوس تھا۔ پوری ٹیم پہلی اننگ میں صرف 33رن اور پھر دوسری اننگ میں 36رن بنا کر آؤٹ ہوگئی... حالانکہ میزبانوں نے فیاضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کینیڈین ٹیم کو ''پندرہ کھلاڑی'' ٹیم میں شامل کرنے کی اجازت دے دی تھی۔
یوںکینیڈین ٹیم ایک اننگ اور 23رن سے میچ ہار گئی۔ برطانوی ٹیم کے مرکزی بالر الفریڈشا (1907ء-1842ء) نے 23رن دے کر 15وکٹیں لیں اورعام و خاص سے داد پائی۔یاد رہے مہمان ٹیم کے پرخچے اڑا دینے والے الفریڈشا ہی کو ٹیسٹ کرکٹ میں پہلی گیند کرانے کا اعزاز حاصل ہے۔نیز ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں الفریڈ ہی پہلا بالر ہے جس نے ایک میچ میں 5وکٹیں حاصل کیں۔
ایم سی سی سے میچ کے ذریعے ثابت ہوگیا کہ کینیڈین ٹیم میں ٹام ڈیل ترپ کے پتے کی حیثیت رکھتا تھا۔ اس کی عدم موجودگی میں ٹیم مسائل کا نشانہ بن گئی۔ لارڈز میں ذلت آمیز شکست کے بعد کینیڈین ٹیم کی انتظامیہ نے مزید بھرتیاں کیں، لیکن نئے کھلاڑی بھی ڈوبتے جہاز کو نہ بچا سکے۔چونکہ سرمایہ کار کثیرتعداد میں پونڈ خرچ کر رہے تھے، دوسری طرف آمدن نہ ہونے کے برابر تھی، لہٰذا مذید نقصان سے بچنے کی خاطر وسط جولائی میں دورہ قبل از وقت ختم کردیا گیا۔
یوں سنسنی خیز واقعات سے بھرپور دورہ اختتام کوپہنچا۔ کینیڈین ٹیم نے پھرسات سال بعد 1887ء میں ارض برطانیہ پہ دوبارہ قدم دھرے۔ اس بار دورہ مالی لحاظ سے سود مند رہا اور کثیرتعداد میں تماشائی میچ دیکھنے آئے۔اْدھر ایک سال بعد ٹام ڈیل کورہائی ملی، تو واپس امریکا پہنچ گیا۔ جاتے ہی بیوی کو طلاق دے ڈالی۔ وہ پھر کلب کرکٹ کھیلتا رہا۔ 1893ء میںکہیں جا کراس نے اپنی زندگی کا اکلوتا فرسٹ کلاس کرکٹ میچ کھیلا۔تھامس فلپس صحیح معنوں میں کرکٹ کا عاشق ثابت ہوا۔ وہ بڑھاپے میں بھی اپنا پسندیدہ کھیل کھیلتا رہا۔ 63سال کا تھا کہ جب کلب کرکٹ کھیلتے ہوئے اس نے سنچری بنا ڈالی۔