اور پرندوں نے معذرت قبول کر لی سابق اولمپئین اصلاح الدین صدیقی کی کتاب زندگی کا ایک ورق
اپنے تیرہ سالہ کیرئیر کے دوران انہوں نے پاکستان ہاکی کو حاصل ہونے والی کئی شاندار فتوحات میں اہم کردار ادا کیا۔
ISLAMABAD:
سابق اولمپئین، اصلاح الدین صدیقی کا شمار پاکستان ہاکی کے کامیاب ترین کپتانوں میں ہوتا ہے۔ 1978ء میں ان کی کپتانی میں پاکستان نے ایشین گیمز، ورلڈکپ اور چیمپنئز ٹرافی جیسے تین بڑے عالمی مقابلوں میں کامیابی حاصل کی۔ 1967ء سے 1979ء کے دوران اپنے تیرہ سالہ کیرئیر کے دوران انہوں نے پاکستان ہاکی کو حاصل ہونے والی کئی شاندار فتوحات میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کی آپ بیتی "Dash Through My Life" 2009ء میں شائع ہوئی۔ اس خودنوشت میں سے ایک دلچسپ واقعہ قارئین کی نذر ہے۔
ہماری خانگی زندگی کی ابتدا میں ہی میری بیوی، مہناز ہمارے خاندان میں رچ بس گئی۔ بعد ازاں اس نے ہمارے بچوں کی شاندار طریقے سے تقریباً اکیلے ہی پرورش کی، کیونکہ میں ریٹائرمنٹ کے بعد بھی کھیل سے متعلق اپنی مختلف پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی وجہ سے بچوں کو باقاعدہ وقت نہیں دے سکتا تھا۔ اس نے ہمارے خاندان کی سب روایات کو خوش اسلوبی سے نبھایا۔ حتی کہ ہماری اس خاندانی روایت کو بھی پوری ذمہ داری سے ادا کیا کہ ہم پرندوں کے لیے خوراک پانی وغیرہ کا انتظام کیا کرتے تھے۔
دلچسپ بات ہے کہ ہماری اس خاندانی روایت میں معمولی سا تعطل بھی آیا، اگرچہ یہ تعطل مکمل طور پر غیرارادی تھا اور یہ میرے لیے کچھ پریشانی کا سبب بھی بنا۔ میرے والد کی عادت تھی کہ وہ گھر کے ایک کونے میں پرندوں کے لیے دانہ پانی رکھا کرتے تھے۔ پرندے اکثر ہمارے گھر میں گھونسلے بھی بنا لیا کرتے تھے، جن کا بہت زیادہ خیال رکھا جاتا۔ شاید یہ تقسیم ہند کے وقت اپنے گھر بار چھوڑنے کا دردناک تجربہ تھا، جس نے میرے والد کو بے گھروں کو ٹھکانا فراہم کرنے سے متعلق حساس بنا دیا تھا، چاہے وہ پرندے ہی کیوں نہ ہوں۔
ہم نے کئی گھر تبدیل کیے، لیکن ان کی اس روایت میں کوئی فرق نہ آیا۔ ان کی وفات کے بعد اس روایت کو برقرار رکھنے کی ذمہ داری میں نے اپنے کاندھوں پر اٹھا لی۔ ایک دن میرا کزن فرید ہماری طرف آیا ہوا تھا، اس نے گھرکی ڈیوڑھی میں بنے ہوئے چند گھونسلوں کی طرف میری توجہ دلائی۔ دراصل ہم وہاں کبھی کبھار کرکٹ کھیل لیا کرتے تھے، جب ظہیر عباس، جاوید میانداد اور دوسرے دوست میرے گھر آتے۔ خیر میرے کزن نے پوچھا کہ کیا وہ ان پرانے گھونسلوں کو وہاں سے ہٹا سکتا ہے؟
میں نے اسے اس شرط پر اجازت دی کہ پہلے اسے اچھی طرح دیکھ لینا چاہیے کہ اب وہاں پرندے نہیں رہتے۔ اسے ان گھونسلوں میں کچھ نہ ملا، لیکن جب اس نے ان میں سے ایک گھونسلے کو اتارا تو پرندوں کی ایک جوڑی اس میں سے نکل کر اڑ گئی۔ یہ تقریباً آدھی رات کا وقت تھا، اور مجھے بہت دکھ ہوا کہ ہم نے رات کے اس پہر ان کو بے آرام کیا۔
اگلی صبح ہمارے گھر کے پچھلے صحن میں عجیب سی خاموشی تھی، حالانکہ روزانہ اس وقت گھر کے اس حصے سے پرندوں کی چہچاہٹ سنائی دیتی، جہاں ان کے لیے خوراک اور پانی کا ذخیرہ کیا گیا تھا۔ پورا دن یہ صورتحال رہی جو کہ بالکل خلاف معمول بات تھی۔ تاہم میں نے سوچا کہ شاید میں گزشتہ رات کے واقعے کے بارے میں غیرضروری طور پر وہمی ہو رہا ہوں۔
دوسرے دن بھی جب اس صورتحال میں کوئی تبدیلی نہ آئی،تو میں بے چین ہونے لگا۔ اگلی صبح میں پرندوں کی چہچاہٹ سن کر جاگا، لیکن یہ دیکھ کر مجھے مایوسی ہوئی کہ وہ ہمارے گھر کے بجائے ہمسائے کے گھر لگے ہوئے درختوں پر چہچہا رہے تھے۔ میں اپنے کمرے سے باہر نکل آیا اور ان پرندوں سے باقاعدہ طور پر مخاطب ہوکر معافی مانگی کہ بے دھیانی میں ان کا گھونسلا اتارا گیا، اور ان سے درخواست کی کہ وہ واپس آ جائیں۔ دوسری طرف کچھ دیر کے لیے خاموشی ہوئی، لیکن پھر کچھ نہ ہوا۔
چوتھی صبح میں نے ہمسائے کے درختوں پر چہچانے والی چڑیوں سے دوبارہ معافی مانگی۔ اس دفعہ وہاں سے ایک چڑیا اڑ کر اس درخت پر آ بیٹھی، جس کے نزدیک میں کھڑا تھا۔ اس کو دیکھتے ہوئے میں نے پھر معذرت کی اور بتایا کہ یہ سب غیرارادی طور پر ہوا۔ چڑیا نے میری آنکھوں میں جھانکا، اور اس کی چہچہاہٹ سے مجھے لگا کہ جیسے اس نے اپنے غصے کا اظہار کیا ہو۔ یہ ''گفتگو'' کچھ دیر جاری رہی، جس کے بعد چڑیا ہمسائے کے گھر موجود پرندوں کے جھنڈ میں واپس چلی گئی، جو اس دوران خاموش بیٹھے رہے تھے۔
چڑیا ایک دو دفعہ وہاں جا کر واپس آتی رہی، جس کے روبرو میں نے آخری بار اپنی صفائی پیش کی، اور کہنے لگا کہ بس بہت ہو چکا، اب میں مزید کچھ نہیں کر سکتا۔ میں نے اپنی طرف سے معاملے کی وضاحت کر کے ان سے غیر مشروط معافی مانگ لی تھی۔ اب اگر وہ واپس آنا چاہتے تھے،تو آ جاتے، یہ گھر ان کا اپنا تھا۔ لیکن اس کا فیصلہ انہیں خود کرنا تھا۔ میں اپنے کمرے میں واپس آ گیا، تاہم کھڑکی سے باہر کی صورتحال کا جائزہ لیتا رہا۔ انہوں نے کوئی فوری ردعمل نہ دیا، لیکن کچھ دیر بعد پرندوں کا یہ جھنڈ واپس آ گیا اور ہمارے عقبی صحن میں پرندوں کی چہچہاہٹ دوبارہ سنائی دینے لگی، جہاں وہ معمول کے مطابق اپنی خوراک سے لطف اندوز ہوتے ہوئے چہچہا رہے تھے۔ انہوں نے بالآخر مجھے معاف کر دیا تھا۔
ہو سکتا ہے یہ سب آپ کو افسانہ لگے، لیکن یقین کیجیے، یہ بالکل سچ ہے۔ حتی کہ آج بھی، میں اور مہناز اس وقت تک ناشتا نہیں کرتے، جب تک پرندوں کی خوراک کا بندوبست نہ کر دیں۔ میرے والدین کی شروع کی ہوئی یہ خاندانی روایت آج بھی اسی طرح زندہ ہے، اور مجھے خوشی ہے کہ ہم سب اس کا حصہ ہیں۔
سابق اولمپئین، اصلاح الدین صدیقی کا شمار پاکستان ہاکی کے کامیاب ترین کپتانوں میں ہوتا ہے۔ 1978ء میں ان کی کپتانی میں پاکستان نے ایشین گیمز، ورلڈکپ اور چیمپنئز ٹرافی جیسے تین بڑے عالمی مقابلوں میں کامیابی حاصل کی۔ 1967ء سے 1979ء کے دوران اپنے تیرہ سالہ کیرئیر کے دوران انہوں نے پاکستان ہاکی کو حاصل ہونے والی کئی شاندار فتوحات میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کی آپ بیتی "Dash Through My Life" 2009ء میں شائع ہوئی۔ اس خودنوشت میں سے ایک دلچسپ واقعہ قارئین کی نذر ہے۔
ہماری خانگی زندگی کی ابتدا میں ہی میری بیوی، مہناز ہمارے خاندان میں رچ بس گئی۔ بعد ازاں اس نے ہمارے بچوں کی شاندار طریقے سے تقریباً اکیلے ہی پرورش کی، کیونکہ میں ریٹائرمنٹ کے بعد بھی کھیل سے متعلق اپنی مختلف پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی وجہ سے بچوں کو باقاعدہ وقت نہیں دے سکتا تھا۔ اس نے ہمارے خاندان کی سب روایات کو خوش اسلوبی سے نبھایا۔ حتی کہ ہماری اس خاندانی روایت کو بھی پوری ذمہ داری سے ادا کیا کہ ہم پرندوں کے لیے خوراک پانی وغیرہ کا انتظام کیا کرتے تھے۔
دلچسپ بات ہے کہ ہماری اس خاندانی روایت میں معمولی سا تعطل بھی آیا، اگرچہ یہ تعطل مکمل طور پر غیرارادی تھا اور یہ میرے لیے کچھ پریشانی کا سبب بھی بنا۔ میرے والد کی عادت تھی کہ وہ گھر کے ایک کونے میں پرندوں کے لیے دانہ پانی رکھا کرتے تھے۔ پرندے اکثر ہمارے گھر میں گھونسلے بھی بنا لیا کرتے تھے، جن کا بہت زیادہ خیال رکھا جاتا۔ شاید یہ تقسیم ہند کے وقت اپنے گھر بار چھوڑنے کا دردناک تجربہ تھا، جس نے میرے والد کو بے گھروں کو ٹھکانا فراہم کرنے سے متعلق حساس بنا دیا تھا، چاہے وہ پرندے ہی کیوں نہ ہوں۔
ہم نے کئی گھر تبدیل کیے، لیکن ان کی اس روایت میں کوئی فرق نہ آیا۔ ان کی وفات کے بعد اس روایت کو برقرار رکھنے کی ذمہ داری میں نے اپنے کاندھوں پر اٹھا لی۔ ایک دن میرا کزن فرید ہماری طرف آیا ہوا تھا، اس نے گھرکی ڈیوڑھی میں بنے ہوئے چند گھونسلوں کی طرف میری توجہ دلائی۔ دراصل ہم وہاں کبھی کبھار کرکٹ کھیل لیا کرتے تھے، جب ظہیر عباس، جاوید میانداد اور دوسرے دوست میرے گھر آتے۔ خیر میرے کزن نے پوچھا کہ کیا وہ ان پرانے گھونسلوں کو وہاں سے ہٹا سکتا ہے؟
میں نے اسے اس شرط پر اجازت دی کہ پہلے اسے اچھی طرح دیکھ لینا چاہیے کہ اب وہاں پرندے نہیں رہتے۔ اسے ان گھونسلوں میں کچھ نہ ملا، لیکن جب اس نے ان میں سے ایک گھونسلے کو اتارا تو پرندوں کی ایک جوڑی اس میں سے نکل کر اڑ گئی۔ یہ تقریباً آدھی رات کا وقت تھا، اور مجھے بہت دکھ ہوا کہ ہم نے رات کے اس پہر ان کو بے آرام کیا۔
اگلی صبح ہمارے گھر کے پچھلے صحن میں عجیب سی خاموشی تھی، حالانکہ روزانہ اس وقت گھر کے اس حصے سے پرندوں کی چہچاہٹ سنائی دیتی، جہاں ان کے لیے خوراک اور پانی کا ذخیرہ کیا گیا تھا۔ پورا دن یہ صورتحال رہی جو کہ بالکل خلاف معمول بات تھی۔ تاہم میں نے سوچا کہ شاید میں گزشتہ رات کے واقعے کے بارے میں غیرضروری طور پر وہمی ہو رہا ہوں۔
دوسرے دن بھی جب اس صورتحال میں کوئی تبدیلی نہ آئی،تو میں بے چین ہونے لگا۔ اگلی صبح میں پرندوں کی چہچاہٹ سن کر جاگا، لیکن یہ دیکھ کر مجھے مایوسی ہوئی کہ وہ ہمارے گھر کے بجائے ہمسائے کے گھر لگے ہوئے درختوں پر چہچہا رہے تھے۔ میں اپنے کمرے سے باہر نکل آیا اور ان پرندوں سے باقاعدہ طور پر مخاطب ہوکر معافی مانگی کہ بے دھیانی میں ان کا گھونسلا اتارا گیا، اور ان سے درخواست کی کہ وہ واپس آ جائیں۔ دوسری طرف کچھ دیر کے لیے خاموشی ہوئی، لیکن پھر کچھ نہ ہوا۔
چوتھی صبح میں نے ہمسائے کے درختوں پر چہچانے والی چڑیوں سے دوبارہ معافی مانگی۔ اس دفعہ وہاں سے ایک چڑیا اڑ کر اس درخت پر آ بیٹھی، جس کے نزدیک میں کھڑا تھا۔ اس کو دیکھتے ہوئے میں نے پھر معذرت کی اور بتایا کہ یہ سب غیرارادی طور پر ہوا۔ چڑیا نے میری آنکھوں میں جھانکا، اور اس کی چہچہاہٹ سے مجھے لگا کہ جیسے اس نے اپنے غصے کا اظہار کیا ہو۔ یہ ''گفتگو'' کچھ دیر جاری رہی، جس کے بعد چڑیا ہمسائے کے گھر موجود پرندوں کے جھنڈ میں واپس چلی گئی، جو اس دوران خاموش بیٹھے رہے تھے۔
چڑیا ایک دو دفعہ وہاں جا کر واپس آتی رہی، جس کے روبرو میں نے آخری بار اپنی صفائی پیش کی، اور کہنے لگا کہ بس بہت ہو چکا، اب میں مزید کچھ نہیں کر سکتا۔ میں نے اپنی طرف سے معاملے کی وضاحت کر کے ان سے غیر مشروط معافی مانگ لی تھی۔ اب اگر وہ واپس آنا چاہتے تھے،تو آ جاتے، یہ گھر ان کا اپنا تھا۔ لیکن اس کا فیصلہ انہیں خود کرنا تھا۔ میں اپنے کمرے میں واپس آ گیا، تاہم کھڑکی سے باہر کی صورتحال کا جائزہ لیتا رہا۔ انہوں نے کوئی فوری ردعمل نہ دیا، لیکن کچھ دیر بعد پرندوں کا یہ جھنڈ واپس آ گیا اور ہمارے عقبی صحن میں پرندوں کی چہچہاہٹ دوبارہ سنائی دینے لگی، جہاں وہ معمول کے مطابق اپنی خوراک سے لطف اندوز ہوتے ہوئے چہچہا رہے تھے۔ انہوں نے بالآخر مجھے معاف کر دیا تھا۔
ہو سکتا ہے یہ سب آپ کو افسانہ لگے، لیکن یقین کیجیے، یہ بالکل سچ ہے۔ حتی کہ آج بھی، میں اور مہناز اس وقت تک ناشتا نہیں کرتے، جب تک پرندوں کی خوراک کا بندوبست نہ کر دیں۔ میرے والدین کی شروع کی ہوئی یہ خاندانی روایت آج بھی اسی طرح زندہ ہے، اور مجھے خوشی ہے کہ ہم سب اس کا حصہ ہیں۔