ایکسپریس میڈیا گروپ کے زیر اہتمام سیمینار چاہ بہار سے گوادر پورٹ کو معاونت ملے گی چینی سفیر
اسلام آبادمیں سی پیک ٹاوربنے گا، انفراسٹرکچربحالی سے ہی ترقی کی راہیں کھلتی ہیں،وفاقی وزیر منصوبہ بندی
لاہور:
وفاقی وزیرمنصوبہ بندی، ترقی و اصلاحات احسن اقبال نے کہا ہے کہ کسی کو پاک چین اقتصادی راہداری کا منصوبہ سبوتاژ کرنیکی اجازت نہیں دی جائیگی، سی پیک خطے کی معاشی، سماجی اور سیاسی ترقی میں سنگ میل کی حیثیت رکھتاہے اس سے پاکستان میں امن و امان کیساتھ ساتھ معاشی استحکام اور روزگارکے مواقع اور ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی۔
سی پیک پسماندہ علاقوں کو ترقی یافتہ علاقوں سے لنک کرنیکا ذریعہ بھی ہے، اس کے تحت ملک میں 9 صنعتی زونز قائم کیے جارہے ہیں، سڑک کیساتھ ساتھ ریلوے ٹریک کی تعمیر سے بھی بہتری آئے گی، سڑکیں بنانے پر اعتراض کرنیوالوں کو بتانا چاہتے ہیں انفرسٹرکچر کی بحالی سے ہی ترقی کی راہیں کھلتی ہیں، سی پیک سے ہمارے دشمنوں کو بہت تکلیف ہے جنھوں نے صوبوں میں انتشار پھیلانے کی کوشش کی اسے حکومت نے باہمی مشاورت سے ناکام بنادیا،سی پیک کا تعلق میڈیا کی ریٹنگ سے نہیں بلکہ پاکستان کی ترقی کی ریٹنگ سے ہے۔ سی پیک پر سیمینار کا انعقاد ایکسپریس میڈیا گروپ کا احسن اقدام ہے دیگر گروپس بھی اس کی تقلید کریں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور فاسٹ مارکیٹنگ کے زیر اہتمام ''پاک چائنہ اقتصادی راہداری: ترجیحات اور چیلنجز'' کے عنوان سے منعقدہ سیمینار سے خطاب کے دوران احسن اقبال اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ وفاقی وزیر پورٹس اینڈ شپنگ میر حاصل خان بزنجو، تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی وچیئرمین قائمہ کمیٹی برائے صنعت و پیداواراسدعمر، پیپلز پارٹی کی رہنما شیری رحمن، پاکستان میں تعینات چین کے سفیرمسٹر سن وی ڈونگ، اسلام آباد چیمبر آف کامرس کے صدر خالد اقبال ملک، پروفیسرتانگ منگ شنگ (Prof. Tang Ming Shug)، ایکسپریس پبلیکیشنز کے چیف ایگزیکٹو آفیسر اعجاز الحق، فاسٹ گروپ کے ڈائریکٹر نعمان باجوہ سمیت مدیران سردارمہتاب خان، محسن بلال، سردار خان نیازی، ڈاکٹر جبار، وسیم احمد، سفارتکاروں، صنعتکاروں، تاجر برادری کے نمائندوں، بزنس ایڈمنسٹریشن سے متعلقہ پروفیسر حضرات، اساتذہ، طلباء و طالبات اور میڈیا کے نمائندوں کی کثیر تعداد بھی اس موقع پر موجود تھی۔ ایکسپریس کے ایڈیٹر فورم اجمل ستار ملک نے اسٹیج سیکریٹری کے فرائض انجام دیے۔
احسن اقبال نے اپنے خطاب میں کہا سی پیک علاقائی تعاون کا سب سے بڑا منصوبہ ہے جس میں 50 ارب ڈالر کی سر مایہ کا ری ہو گی، اس منصوبے سے پاکستان ایک معاشی اور سیا سی طاقت بن کر ابھر ے گا، کوئی بھی سازش سی پیک کا راستہ نہیں روک سکے گی، چین کے ون بیلٹ ون روڈ ویژن میں متعدد کوریڈور شامل ہیں لیکن چائنہ پاکستان اقتصادی راہداری سب سے نمایاں ہے، سی پیک کوئی 2 یا 3 سال نہیں بلکہ 2014 سے 2030 تک کا منصوبہ ہے جو مختلف مراحل میں مکمل ہوگا، مجھے خوشی ہے کہ ایکسپریس میڈیا گروپ نے سیاسی موضوع سے ہٹ کر سی پیک پر اقتصادی مذاکرہ منعقدکر ایا، ایسے پروگرام ہر صوبے میں ہونے چاہئیں تاکہ لو گوں کو معلوم ہو سکے کہ سی پیک کے تحت انھیں کیا فوائد حاصل ہو رہے ہیں۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ 21 ویں صدی دنیا میں اقتصادی نظریات کے طور پر پہچانی جاتی ہے، ملک میں اگر استحکام نہیں ہو گا تو ترقی ممکن نہیں، اب پاکستان کے ادارے مستحکم ہو رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو تیسری مر تبہ اکنامک ٹیک آف کا موقع مل رہا ہے، جب ہما ری حکومت آئی تو ملک میں توانائی بحران تھا، یو پی ایس کی بیٹری بھی دوبارہ چارج نہیں ہوتی تھی، سی پیک میں توانائی اور انفراسٹرکچر کے منصوبوں پر زیا دہ توجہ دی جا رہی ہے جو ملکی ترقی کا ضامن ہیں، سی پیک میں گوادر کو بنیا دی حیثیت حاصل ہے، وہ گوادر جس کا 70سال سے کوئٹہ سے کسی نے رابطہ قائم نہ کیا، سی پیک کے ذریعے 2 سال میںہم نے سڑکوںکی تعمیر کرکے 2 دن کا فاصلہ 8 گھنٹوںمیں بدل کر رکھ دیا ہے، کچھ لوگ تنقید کر تے ہیں کہ اس حکومت کو صرف سڑکیں بنانا آتی ہیں لیکن اگر سڑک نہ ہوگی تو تعلیم، صحت اور دیگر سہولتیں کیسے میسر ہوںگی۔
احسن اقبال نے کہاکہ سی پیک پاکستان کی اکنامک گروتھ کا ڈرائیور ہے جس کے تحت چاروں صوبوں میں 9 انڈ سٹریل زون قائم کیے جائیں گے، سی پیک نے پاکستان کو جیو اکنامک دائرے میں ڈال دیا ہے، سی پیک کا جہاں ہمیں فائدہ ہے وہاں دشمنوں کو اس کی تکلیف بھی ہے تاہم تمام صوبوں کے وزرائے اعلیٰ نے چائنہ میں سی پیک کی 6 ویں جے سی سی میں شامل ہو کر اپنے متفق ہونیکا پیغام دیا ہے۔ پاکستان میں ہر بزنس مین میں یہ بدگمانیاں پید ا کی جا رہی ہیں کہ چین آئیگا تو آپکا بزنس تباہ ہو جائیگا تاہم چین 50 ارب ڈالر اس لیے پاکستان میں لگا رہا ہے کہ پاکستان کی صنعت اور بزنس مضبوط ہوں، وہ پیسے لگا کر دشمنی کیوں مول لیں گے، اسلام آباد میں سی پیک ٹاور قائم کیا جائیگا جس میں شاپنگ مال، ہوٹل، رہائشی اپارٹمنٹس و دیگر سہولتیں میسر ہوں گی، یہ ٹاور پاک چین دوستی کی علامت ہوگا۔
دوسری جانب چین کے سفیر مسٹر سن وی ڈونگ نے کہا سی پیک پر سمینار کرانے پر ایکسپریس میڈیا گروپ کی اس کا وش کو سراہتا ہوں، پاک چین تعلقات اسٹیٹ ٹوا سٹیٹ تعلقات کا ایک نمونہ ہیں، سی پیک کے تحت چین نے پاکستان کیساتھ طویل المد تی دو ستی کی بنیا د رکھی ہے، چین نے سی پیک کے تحت پاکستان میں انڈسٹریل زون، چشمہ نیوکلیئر پاور پلانٹ اور گوادر پورٹ جیسے بڑے پراجیکٹ شروع کیے ہیں، 2013 میں علاقائی تعاون کا رحجان دیکھتے ہوئے چینی قیادت نے سی پیک کا آغاز کیا، اس کا بنیادی مقصد پاکستان کی ترقی ہے، یہ پاکستان کی معیشت کے فروغ میں اہم کردار اداکر یگا، گزشتہ چند برس میں پاکستان کی معیشت نے واضح ترقی کی ہے، راہداری منصوبہ پاکستان کے تمام سیکٹر کے لوگوں کیلیے فائدہ لا رہا ہے، 20ہزار سے زائد مقامی لوگوں کیلیے نوکریاں پید ا ہوں گی۔ سی پیک کے18منصوبے زیر تکمیل ہیں، رواں سال مڈ ٹرم اور لانگ ٹرم پلان کو بھی حتمی شکل دی جائے گی۔
چینی سفیر نے کہا سی پیک کے منصوبے شیڈول سے آگے جارہے ہیں، ترجیحی بنیادوں پر منصوبہ جات میں کچھ ردوبدل کیا گیاہے، اس میں دیگر منصوبہ جات بھی ایڈجسٹ کیے ہیں، سی پیک منصوبہ ہر ایک کیلیے اوپن ہے، اس سے خطے کے دیگر ممالک بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ انھوں نے واضح کیا ایران کی جانب سے چاہ بہار کے مقام پر بننے والی مجوزہ پورٹ سے گوادر پورٹ کو معاونت ملے گی۔ انھوں نے کہا چین پاکستان کا سچا دوست ہے، دونوں ممالک کے عوام امن پسند ہیں، ہم اپنے بچوں کو بہتر تعلیم فراہم کرتے ہوئے ترقی و امن کیساتھ دنیا میں رہناچاہتے ہیں، سی پیک کیلیے امن و امان کا ماحول بہت ضروری ہے۔
علاوہ ازیں میرحاصل خان بزنجو نے کہا سی پیک ایک نعمت ہے جو پاکستان کے حصے میں آئی ہے، اگر کسی کو اعتراض ہے تو اس پر بات ہوسکتی ہے لیکن اسے متنازع نہیں بنانا چاہیے۔ اگر چاہ بہار پورٹ بنائی جاتی ہے تو اس کا بھی زیادہ تر انحصار گوادر پورٹ پر ہوگا۔
اسد عمر نے کہا ہمارا مشرقی ہمسایہ ایک ہزار سال تک مسلمانوں کی حکومت کا ازالہ کرنے کے چکر میں ہے،مغرب میں افغانستان اورایران ہیں جو بہت سی وجوہات کے باعث مستحکم نہیں ہوپارہے، ایسے میں پاکستان خطے میں تجارت و ترقی کے لحاظ سے تنہائی کا شکار ہے، سی پیک سے ترقی کی راہیں ہموار ہوں گی، بدقسمتی سے خطے میں موجود دشمن سی پیک کو کامیاب نہیں ہونے دینا چاہتے، ہمیں مل کر ان پر نظر رکھنا ہوگی، سی پیک پر شفافیت ابتدائی دوسال میں نہیں تھی، رواں سال کچھ بہتری آئی ہے تاہم بہت کچھ کرنا باقی ہے، اپوزیشن کی ذمہ داری ہے کہ سوال اٹھائے، سی پیک کا سارا دارومدار گوادر پورٹ پر ہے اس لیے گوادرکو بھرپور حصہ دیا جائے، پاکستانی کمپنیوں اورلیبر کو زیادہ سے زیادہ مواقع دیے جائیں۔ پاکستان کی تاجر برادری افغانستان کیساتھ ٹرانزٹ ٹریڈ سے بہت نقصان اٹھا چکی ہے، ایسا نہ ہو سی پیک سے جانیوالا سامان پاکستان کی مارکیٹ میں پھینک دیا جائے اور مقامی تاجر مسائل کا شکار ہوجائیں، یہ بات بھی ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ سی پیک ہر مسئلے کا حل نہیں ہے، ہمیں خود بھی کچھ کرنا ہوگا۔
شیری رحمن نے کہا پاکستان میں ہر سال چار ملین افراد ورک فورس میں داخل ہوتے ہیں، ہر 3 میں سے 2 لوگ 30 سال سے کم عمر ہیں، انھیں روٹی، کپڑا، مکان اور روزگار دینے کی ضرورت ہے، ہم سی پیک کو متنازع نہیں بنانا چاہتے، یہ قومی معاملہ ہے اس پر سب کو متحد ہونا ہوگا، یہ منصوبہ سابق صدر آصف علی زرداری نے شروع کرایا تھا۔
خالد اقبال ملک نے کہاسی پیک سے ملک میں صنعتی دور شروع ہو رہا ہے جبکہ ایشیا اور یورپ کے تقریباً ساٹھ سے زائد ممالک اس کے ذریعے ایک دوسرے کیساتھ لنک ہورہے ہیں۔ صنعتی زونزکے قیام سے روزگار اور ترقی ہوگی اور پاک چین دوستی مزید مستحکم ہوگی، سی پیک کے حقیقی ثمرات عوام اور تاجروں تک پہنچانے کی ضرورت ہے، مقامی صنعت کو متاثر نہیں ہونا چاہیے، اگلے بجٹ میں مقامی صنعت کاروں کیلیے مراعات کا اعلان کیا جائے، بجلی کی پیداوار میں اضافہ اور بجلی سستی کی جائے، سی پیک کے منصوبوں میں مقامی صنعت کاروں، چیمبرآف کامرس کو اعتماد میں لیاجائے۔
ایکسپریس پبلیکیشنز کے چیف ایگزیکٹو آفیسر اعجاز الحق نے کہا سی پیک کے حوالے سے سیمینارسے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ میڈیا گروپ اس اہم ایشو پر متفق ہیں اور اس کی ترقی اور آگاہی کیلیے اپنا فعال کردار ادا کررہے ہیں، اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگوں کو بتایا جائے کہ سی پیک ایک گیم چینجر منصوبہ ہے جس سے ملک میں ترقی کی راہیں ہموار ہوں گی۔
چین سے خصوصی طور پر سیمینار میں شرکت کیلیے آنیوالے پروفیسر تنگ منگ شنگ (Prof. Tang Ming Shug) نے اپنے مدلل خطاب میں کہا چین نے 40 سال میں جو ترقی کی ہے۔ چینی عوام سمجھتے ہیں کہ اس میں پاکستان کی بھی مدد شامل ہے اور اب پاکستان کی ترقی میں اس کی مدد کرنی چاہیے، پاکستان کی مدد چین میں عام جملہ بن چکاہے، چین میں کوئی بھی مسئلہ ہو اس پر چھ ماہ سے زائد عرصہ بحث نہیں ہوتی لیکن پاکستان میں 3 سال گزرنے کے باوجود سی پیک کے بارے میں اچھائی اوربرائی کی بحث جاری ہے، پاکستان کو اب روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرے سے نکل کر آگے کا سوچنا چاہیے، میڈیا سی پیک جیسے اہم منصوبے پر مثبت تنقید کرے اور لوگوں میں آگاہی پیدا کرے۔
فاسٹ گروپ کے ڈائریکٹر نعمان باجوہ نے کہا موٹرویز کی تعمیر سے سفری سہولتوں میں بہتری اور فاصلے کم ہوئے ہیں، سی پیک سے رئیل اسٹیٹ اور اسٹاک مارکیٹ کو معاونت ملے گی، فاسٹ مارکیٹنگ کے تحت گوادر اور پنجاب بھر میں 30 کے قریب منصوبے چلائے جارہے ہیں جبکہ سی پیک کے آنے سے رئیل اسٹیٹ میں قیمتیں خود بخود بڑھ رہی ہیں۔
وفاقی وزیرمنصوبہ بندی، ترقی و اصلاحات احسن اقبال نے کہا ہے کہ کسی کو پاک چین اقتصادی راہداری کا منصوبہ سبوتاژ کرنیکی اجازت نہیں دی جائیگی، سی پیک خطے کی معاشی، سماجی اور سیاسی ترقی میں سنگ میل کی حیثیت رکھتاہے اس سے پاکستان میں امن و امان کیساتھ ساتھ معاشی استحکام اور روزگارکے مواقع اور ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی۔
سی پیک پسماندہ علاقوں کو ترقی یافتہ علاقوں سے لنک کرنیکا ذریعہ بھی ہے، اس کے تحت ملک میں 9 صنعتی زونز قائم کیے جارہے ہیں، سڑک کیساتھ ساتھ ریلوے ٹریک کی تعمیر سے بھی بہتری آئے گی، سڑکیں بنانے پر اعتراض کرنیوالوں کو بتانا چاہتے ہیں انفرسٹرکچر کی بحالی سے ہی ترقی کی راہیں کھلتی ہیں، سی پیک سے ہمارے دشمنوں کو بہت تکلیف ہے جنھوں نے صوبوں میں انتشار پھیلانے کی کوشش کی اسے حکومت نے باہمی مشاورت سے ناکام بنادیا،سی پیک کا تعلق میڈیا کی ریٹنگ سے نہیں بلکہ پاکستان کی ترقی کی ریٹنگ سے ہے۔ سی پیک پر سیمینار کا انعقاد ایکسپریس میڈیا گروپ کا احسن اقدام ہے دیگر گروپس بھی اس کی تقلید کریں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور فاسٹ مارکیٹنگ کے زیر اہتمام ''پاک چائنہ اقتصادی راہداری: ترجیحات اور چیلنجز'' کے عنوان سے منعقدہ سیمینار سے خطاب کے دوران احسن اقبال اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ وفاقی وزیر پورٹس اینڈ شپنگ میر حاصل خان بزنجو، تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی وچیئرمین قائمہ کمیٹی برائے صنعت و پیداواراسدعمر، پیپلز پارٹی کی رہنما شیری رحمن، پاکستان میں تعینات چین کے سفیرمسٹر سن وی ڈونگ، اسلام آباد چیمبر آف کامرس کے صدر خالد اقبال ملک، پروفیسرتانگ منگ شنگ (Prof. Tang Ming Shug)، ایکسپریس پبلیکیشنز کے چیف ایگزیکٹو آفیسر اعجاز الحق، فاسٹ گروپ کے ڈائریکٹر نعمان باجوہ سمیت مدیران سردارمہتاب خان، محسن بلال، سردار خان نیازی، ڈاکٹر جبار، وسیم احمد، سفارتکاروں، صنعتکاروں، تاجر برادری کے نمائندوں، بزنس ایڈمنسٹریشن سے متعلقہ پروفیسر حضرات، اساتذہ، طلباء و طالبات اور میڈیا کے نمائندوں کی کثیر تعداد بھی اس موقع پر موجود تھی۔ ایکسپریس کے ایڈیٹر فورم اجمل ستار ملک نے اسٹیج سیکریٹری کے فرائض انجام دیے۔
احسن اقبال نے اپنے خطاب میں کہا سی پیک علاقائی تعاون کا سب سے بڑا منصوبہ ہے جس میں 50 ارب ڈالر کی سر مایہ کا ری ہو گی، اس منصوبے سے پاکستان ایک معاشی اور سیا سی طاقت بن کر ابھر ے گا، کوئی بھی سازش سی پیک کا راستہ نہیں روک سکے گی، چین کے ون بیلٹ ون روڈ ویژن میں متعدد کوریڈور شامل ہیں لیکن چائنہ پاکستان اقتصادی راہداری سب سے نمایاں ہے، سی پیک کوئی 2 یا 3 سال نہیں بلکہ 2014 سے 2030 تک کا منصوبہ ہے جو مختلف مراحل میں مکمل ہوگا، مجھے خوشی ہے کہ ایکسپریس میڈیا گروپ نے سیاسی موضوع سے ہٹ کر سی پیک پر اقتصادی مذاکرہ منعقدکر ایا، ایسے پروگرام ہر صوبے میں ہونے چاہئیں تاکہ لو گوں کو معلوم ہو سکے کہ سی پیک کے تحت انھیں کیا فوائد حاصل ہو رہے ہیں۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ 21 ویں صدی دنیا میں اقتصادی نظریات کے طور پر پہچانی جاتی ہے، ملک میں اگر استحکام نہیں ہو گا تو ترقی ممکن نہیں، اب پاکستان کے ادارے مستحکم ہو رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو تیسری مر تبہ اکنامک ٹیک آف کا موقع مل رہا ہے، جب ہما ری حکومت آئی تو ملک میں توانائی بحران تھا، یو پی ایس کی بیٹری بھی دوبارہ چارج نہیں ہوتی تھی، سی پیک میں توانائی اور انفراسٹرکچر کے منصوبوں پر زیا دہ توجہ دی جا رہی ہے جو ملکی ترقی کا ضامن ہیں، سی پیک میں گوادر کو بنیا دی حیثیت حاصل ہے، وہ گوادر جس کا 70سال سے کوئٹہ سے کسی نے رابطہ قائم نہ کیا، سی پیک کے ذریعے 2 سال میںہم نے سڑکوںکی تعمیر کرکے 2 دن کا فاصلہ 8 گھنٹوںمیں بدل کر رکھ دیا ہے، کچھ لوگ تنقید کر تے ہیں کہ اس حکومت کو صرف سڑکیں بنانا آتی ہیں لیکن اگر سڑک نہ ہوگی تو تعلیم، صحت اور دیگر سہولتیں کیسے میسر ہوںگی۔
احسن اقبال نے کہاکہ سی پیک پاکستان کی اکنامک گروتھ کا ڈرائیور ہے جس کے تحت چاروں صوبوں میں 9 انڈ سٹریل زون قائم کیے جائیں گے، سی پیک نے پاکستان کو جیو اکنامک دائرے میں ڈال دیا ہے، سی پیک کا جہاں ہمیں فائدہ ہے وہاں دشمنوں کو اس کی تکلیف بھی ہے تاہم تمام صوبوں کے وزرائے اعلیٰ نے چائنہ میں سی پیک کی 6 ویں جے سی سی میں شامل ہو کر اپنے متفق ہونیکا پیغام دیا ہے۔ پاکستان میں ہر بزنس مین میں یہ بدگمانیاں پید ا کی جا رہی ہیں کہ چین آئیگا تو آپکا بزنس تباہ ہو جائیگا تاہم چین 50 ارب ڈالر اس لیے پاکستان میں لگا رہا ہے کہ پاکستان کی صنعت اور بزنس مضبوط ہوں، وہ پیسے لگا کر دشمنی کیوں مول لیں گے، اسلام آباد میں سی پیک ٹاور قائم کیا جائیگا جس میں شاپنگ مال، ہوٹل، رہائشی اپارٹمنٹس و دیگر سہولتیں میسر ہوں گی، یہ ٹاور پاک چین دوستی کی علامت ہوگا۔
دوسری جانب چین کے سفیر مسٹر سن وی ڈونگ نے کہا سی پیک پر سمینار کرانے پر ایکسپریس میڈیا گروپ کی اس کا وش کو سراہتا ہوں، پاک چین تعلقات اسٹیٹ ٹوا سٹیٹ تعلقات کا ایک نمونہ ہیں، سی پیک کے تحت چین نے پاکستان کیساتھ طویل المد تی دو ستی کی بنیا د رکھی ہے، چین نے سی پیک کے تحت پاکستان میں انڈسٹریل زون، چشمہ نیوکلیئر پاور پلانٹ اور گوادر پورٹ جیسے بڑے پراجیکٹ شروع کیے ہیں، 2013 میں علاقائی تعاون کا رحجان دیکھتے ہوئے چینی قیادت نے سی پیک کا آغاز کیا، اس کا بنیادی مقصد پاکستان کی ترقی ہے، یہ پاکستان کی معیشت کے فروغ میں اہم کردار اداکر یگا، گزشتہ چند برس میں پاکستان کی معیشت نے واضح ترقی کی ہے، راہداری منصوبہ پاکستان کے تمام سیکٹر کے لوگوں کیلیے فائدہ لا رہا ہے، 20ہزار سے زائد مقامی لوگوں کیلیے نوکریاں پید ا ہوں گی۔ سی پیک کے18منصوبے زیر تکمیل ہیں، رواں سال مڈ ٹرم اور لانگ ٹرم پلان کو بھی حتمی شکل دی جائے گی۔
چینی سفیر نے کہا سی پیک کے منصوبے شیڈول سے آگے جارہے ہیں، ترجیحی بنیادوں پر منصوبہ جات میں کچھ ردوبدل کیا گیاہے، اس میں دیگر منصوبہ جات بھی ایڈجسٹ کیے ہیں، سی پیک منصوبہ ہر ایک کیلیے اوپن ہے، اس سے خطے کے دیگر ممالک بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ انھوں نے واضح کیا ایران کی جانب سے چاہ بہار کے مقام پر بننے والی مجوزہ پورٹ سے گوادر پورٹ کو معاونت ملے گی۔ انھوں نے کہا چین پاکستان کا سچا دوست ہے، دونوں ممالک کے عوام امن پسند ہیں، ہم اپنے بچوں کو بہتر تعلیم فراہم کرتے ہوئے ترقی و امن کیساتھ دنیا میں رہناچاہتے ہیں، سی پیک کیلیے امن و امان کا ماحول بہت ضروری ہے۔
علاوہ ازیں میرحاصل خان بزنجو نے کہا سی پیک ایک نعمت ہے جو پاکستان کے حصے میں آئی ہے، اگر کسی کو اعتراض ہے تو اس پر بات ہوسکتی ہے لیکن اسے متنازع نہیں بنانا چاہیے۔ اگر چاہ بہار پورٹ بنائی جاتی ہے تو اس کا بھی زیادہ تر انحصار گوادر پورٹ پر ہوگا۔
اسد عمر نے کہا ہمارا مشرقی ہمسایہ ایک ہزار سال تک مسلمانوں کی حکومت کا ازالہ کرنے کے چکر میں ہے،مغرب میں افغانستان اورایران ہیں جو بہت سی وجوہات کے باعث مستحکم نہیں ہوپارہے، ایسے میں پاکستان خطے میں تجارت و ترقی کے لحاظ سے تنہائی کا شکار ہے، سی پیک سے ترقی کی راہیں ہموار ہوں گی، بدقسمتی سے خطے میں موجود دشمن سی پیک کو کامیاب نہیں ہونے دینا چاہتے، ہمیں مل کر ان پر نظر رکھنا ہوگی، سی پیک پر شفافیت ابتدائی دوسال میں نہیں تھی، رواں سال کچھ بہتری آئی ہے تاہم بہت کچھ کرنا باقی ہے، اپوزیشن کی ذمہ داری ہے کہ سوال اٹھائے، سی پیک کا سارا دارومدار گوادر پورٹ پر ہے اس لیے گوادرکو بھرپور حصہ دیا جائے، پاکستانی کمپنیوں اورلیبر کو زیادہ سے زیادہ مواقع دیے جائیں۔ پاکستان کی تاجر برادری افغانستان کیساتھ ٹرانزٹ ٹریڈ سے بہت نقصان اٹھا چکی ہے، ایسا نہ ہو سی پیک سے جانیوالا سامان پاکستان کی مارکیٹ میں پھینک دیا جائے اور مقامی تاجر مسائل کا شکار ہوجائیں، یہ بات بھی ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ سی پیک ہر مسئلے کا حل نہیں ہے، ہمیں خود بھی کچھ کرنا ہوگا۔
شیری رحمن نے کہا پاکستان میں ہر سال چار ملین افراد ورک فورس میں داخل ہوتے ہیں، ہر 3 میں سے 2 لوگ 30 سال سے کم عمر ہیں، انھیں روٹی، کپڑا، مکان اور روزگار دینے کی ضرورت ہے، ہم سی پیک کو متنازع نہیں بنانا چاہتے، یہ قومی معاملہ ہے اس پر سب کو متحد ہونا ہوگا، یہ منصوبہ سابق صدر آصف علی زرداری نے شروع کرایا تھا۔
خالد اقبال ملک نے کہاسی پیک سے ملک میں صنعتی دور شروع ہو رہا ہے جبکہ ایشیا اور یورپ کے تقریباً ساٹھ سے زائد ممالک اس کے ذریعے ایک دوسرے کیساتھ لنک ہورہے ہیں۔ صنعتی زونزکے قیام سے روزگار اور ترقی ہوگی اور پاک چین دوستی مزید مستحکم ہوگی، سی پیک کے حقیقی ثمرات عوام اور تاجروں تک پہنچانے کی ضرورت ہے، مقامی صنعت کو متاثر نہیں ہونا چاہیے، اگلے بجٹ میں مقامی صنعت کاروں کیلیے مراعات کا اعلان کیا جائے، بجلی کی پیداوار میں اضافہ اور بجلی سستی کی جائے، سی پیک کے منصوبوں میں مقامی صنعت کاروں، چیمبرآف کامرس کو اعتماد میں لیاجائے۔
ایکسپریس پبلیکیشنز کے چیف ایگزیکٹو آفیسر اعجاز الحق نے کہا سی پیک کے حوالے سے سیمینارسے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ میڈیا گروپ اس اہم ایشو پر متفق ہیں اور اس کی ترقی اور آگاہی کیلیے اپنا فعال کردار ادا کررہے ہیں، اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگوں کو بتایا جائے کہ سی پیک ایک گیم چینجر منصوبہ ہے جس سے ملک میں ترقی کی راہیں ہموار ہوں گی۔
چین سے خصوصی طور پر سیمینار میں شرکت کیلیے آنیوالے پروفیسر تنگ منگ شنگ (Prof. Tang Ming Shug) نے اپنے مدلل خطاب میں کہا چین نے 40 سال میں جو ترقی کی ہے۔ چینی عوام سمجھتے ہیں کہ اس میں پاکستان کی بھی مدد شامل ہے اور اب پاکستان کی ترقی میں اس کی مدد کرنی چاہیے، پاکستان کی مدد چین میں عام جملہ بن چکاہے، چین میں کوئی بھی مسئلہ ہو اس پر چھ ماہ سے زائد عرصہ بحث نہیں ہوتی لیکن پاکستان میں 3 سال گزرنے کے باوجود سی پیک کے بارے میں اچھائی اوربرائی کی بحث جاری ہے، پاکستان کو اب روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرے سے نکل کر آگے کا سوچنا چاہیے، میڈیا سی پیک جیسے اہم منصوبے پر مثبت تنقید کرے اور لوگوں میں آگاہی پیدا کرے۔
فاسٹ گروپ کے ڈائریکٹر نعمان باجوہ نے کہا موٹرویز کی تعمیر سے سفری سہولتوں میں بہتری اور فاصلے کم ہوئے ہیں، سی پیک سے رئیل اسٹیٹ اور اسٹاک مارکیٹ کو معاونت ملے گی، فاسٹ مارکیٹنگ کے تحت گوادر اور پنجاب بھر میں 30 کے قریب منصوبے چلائے جارہے ہیں جبکہ سی پیک کے آنے سے رئیل اسٹیٹ میں قیمتیں خود بخود بڑھ رہی ہیں۔