فلم سنسر بورڈ سندھ کے نئے ممبران کا اعلان نہیں ہوسکا
فلمیںوفاقی بورڈ سنسرکررہا ہے،سندھ کو ریونیو کی مد میں نقصان ہورہا ہے
پاکستان فلم سنسر بورڈ(سندھ ) کے نئے ممبران کا اعلان ابھی تک نہیں کیا گیا۔
سنسر بورڈ سندھ کے ذرائع کے مطابق18ویں ترمیم کے بعدبیشتر اداروں کے اختیارات صوبائی حکومت کو منتقل کردیے گئے تھے جس کے بعد وزارت ثقافت سندھ نے صوبائی اسمبلی میں سندھ موشن پکچرز ایکٹ کی منظوری کے لیے بل پیش کیا جسے اراکین اسمبلی نے بھاری اکثریت سے منطور کیا،گذشتہ سال جنوری میں اسمبلی کے اجلاس میں سندھ موشن پکچر ایکٹ کی منظوری دی گئی تھی، جس پرگورنرسندھ نے بھی دستخط کردیے تھے۔
بل منظوری کے بعد محکمہ ثقافت نے سمری وزیر اعلیٰ سندھ کوبھیج دی تھی جس کے تحت فلم سنسر بورڈ وفاق کے بجائے وزارت ثقافت سندھ کے تحت کام کرے گا، فلم تقسیم کاروں کو فلمیں سنسر کرانے کے لیے اسلام آباد نہیں جانا پڑے گا بلکہ ان کی فلمیںکراچی میں ہی سنسر کی جائیں گی اور ان کی نمائش کا اجازت نامہ جاری کیا جائے گا ، جس کے بعد صوبائی وزیر ثقافت سسی پلیچو نے اتفاق رائے سے نئے ممبران سینسر بورڈ کے لیے سے جو نام منتخب کیے تھے۔
حال ہی میں ایک اجلاس میں ان ناموں میں ردوبدل کیا گیا ہے جس کے بعد ان ناموں کو منظوری کیلیے وزیر اعلیٰ سندھ کے پاس بجھوادیا گیا لیکن اب تک وزیراعلیٰ ہائوس سے اس سلسلے میںپیش رفت نہ ہوسکی جس کی وجہ سے فلم سنسر بورڈ کے نئے ممبران کے ناموں کی منظوری نہیں دی جاسکی،صوبائی حکومت وزارت ثقافت نے18ویں آئینی ترمیم کی خلاف ورزی پر وفاق سے احتجاج کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ صوبوں کو اختیارات کی منتقلی کے باوجوداب تک فلمیں وفاقی فلم سنسر بورڈ ہی سنسر کررہا ہے، فلم بنانے اور تقسیم کاروںکوفلمیں سینسر کرانے کے لیے اسلام آباد جانا پڑ رہا ہے، جس سے ان کے اخراجات میں بھی اضافہ ہوا ہے اس غیر آئینی اقدام سے وفاقی سینسر بورڈ فلموں کو سنسر کرانے کی مد میں جو فیس وصول کررہا ہے وہ صوبہ سندھ کا حق ہے جو نہیں مل رہا جس کی وجہ سے حکومت سندھ کو ریونیو کی مد میں نقصان اٹھانا پڑرہا ہے۔
سنسر بورڈ سندھ کے ذرائع کے مطابق18ویں ترمیم کے بعدبیشتر اداروں کے اختیارات صوبائی حکومت کو منتقل کردیے گئے تھے جس کے بعد وزارت ثقافت سندھ نے صوبائی اسمبلی میں سندھ موشن پکچرز ایکٹ کی منظوری کے لیے بل پیش کیا جسے اراکین اسمبلی نے بھاری اکثریت سے منطور کیا،گذشتہ سال جنوری میں اسمبلی کے اجلاس میں سندھ موشن پکچر ایکٹ کی منظوری دی گئی تھی، جس پرگورنرسندھ نے بھی دستخط کردیے تھے۔
بل منظوری کے بعد محکمہ ثقافت نے سمری وزیر اعلیٰ سندھ کوبھیج دی تھی جس کے تحت فلم سنسر بورڈ وفاق کے بجائے وزارت ثقافت سندھ کے تحت کام کرے گا، فلم تقسیم کاروں کو فلمیں سنسر کرانے کے لیے اسلام آباد نہیں جانا پڑے گا بلکہ ان کی فلمیںکراچی میں ہی سنسر کی جائیں گی اور ان کی نمائش کا اجازت نامہ جاری کیا جائے گا ، جس کے بعد صوبائی وزیر ثقافت سسی پلیچو نے اتفاق رائے سے نئے ممبران سینسر بورڈ کے لیے سے جو نام منتخب کیے تھے۔
حال ہی میں ایک اجلاس میں ان ناموں میں ردوبدل کیا گیا ہے جس کے بعد ان ناموں کو منظوری کیلیے وزیر اعلیٰ سندھ کے پاس بجھوادیا گیا لیکن اب تک وزیراعلیٰ ہائوس سے اس سلسلے میںپیش رفت نہ ہوسکی جس کی وجہ سے فلم سنسر بورڈ کے نئے ممبران کے ناموں کی منظوری نہیں دی جاسکی،صوبائی حکومت وزارت ثقافت نے18ویں آئینی ترمیم کی خلاف ورزی پر وفاق سے احتجاج کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ صوبوں کو اختیارات کی منتقلی کے باوجوداب تک فلمیں وفاقی فلم سنسر بورڈ ہی سنسر کررہا ہے، فلم بنانے اور تقسیم کاروںکوفلمیں سینسر کرانے کے لیے اسلام آباد جانا پڑ رہا ہے، جس سے ان کے اخراجات میں بھی اضافہ ہوا ہے اس غیر آئینی اقدام سے وفاقی سینسر بورڈ فلموں کو سنسر کرانے کی مد میں جو فیس وصول کررہا ہے وہ صوبہ سندھ کا حق ہے جو نہیں مل رہا جس کی وجہ سے حکومت سندھ کو ریونیو کی مد میں نقصان اٹھانا پڑرہا ہے۔