واٹر کمیشن رپورٹ پر عدالتی کارروائی

حیدرآباد میں85 فیصد پانی میں مضرصحت جراثیم کی تصدیق ہوئی ہے۔

حیدرآباد میں85 فیصد پانی میں مضرصحت جراثیم کی تصدیق ہوئی ہے ۔ فوٹو؛ فائل

سپریم کورٹ نے سندھ میں آلودہ پانی کی فراہمی پرسختی سے نوٹس لیا ہے ، عدالت عظمیٰ نے نکاسیٔ آب ، سالڈ ویسٹ معاہدوں کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے سیکریٹری قانون ، سیکریٹری آب پاشی اور ایم ڈی کراچی واٹر بورڈ کو عہدے سے ہٹانے کا حکم دیا ہے جب کہ سیکریٹری قانون اورسیکریٹری اری گیشن کے عہدے پر کیڈر افسر تعینات کرنے کی ہدایت جاری کی ہے، عدالت نے کراچی میں قائم تینوں سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹس اور فلٹر پلانٹ کی فعالیت سے متعلق رپورٹ طلب کرلی۔ یہ شہر قائد میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور دیگر بلدیاتی سہولتوں کے حوالے سے چشم کشا اقدام ہے۔


واضح رہے واٹر کمیشن کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ سیوریج ٹریٹمنٹ کا کوئی نظام نہیں، کراچی میں84 مقامات سے پانی کے نمونے حاصل کیے گئے،80 فیصدپانی پینے کے قابل نہیں، کراچی میں پپری، منگھوپیراورسی او ڈی کے مقام پر نصب آر او پلانٹ ناکارہ ہیں۔ رپورٹ میں بتایاگیا کہ لاڑکانہ کی 70 لاکھ آبادی ہے، رائس کینال میں18مقامات پر گندا پانی ڈالا جاتا ہے گندا پانی لاڑکانہ سے جوہی تک استعمال ہوتا ہے۔ لاڑکانہ کا88 فیصد زیر زمین پانی پینے کے قابل نہیں، شکارپورکا79 فیصد پانی پینے کے قابل نہیں رہا، جیکب آباد کی ایک لاکھ آبادی کے لیے کوئی فلٹر پلانٹ فعال نہیں، شہریوںکوجان بوجھ کرگنداپانی فراہم کیا جارہاہے سکھرکی10 لاکھ آبادی کا انڈسٹریل، میونسپل اوراسپتالوںکا فضلہ رائس اورانڈس کینال میں چھوڑا جاتا ہے سکھر میں پانی کے 82 نمونے حاصل کیے گئے، ایک بھی پینے کے قابل نہیں تھا۔

حیدرآباد میں85 فیصد پانی میں مضرصحت جراثیم کی تصدیق ہوئی ہے۔ ٹھٹھہ میںسیوریج نظام اور ٹریٹمنٹ پلانٹ ہی موجودنہیں، پانی میں موجود بیکٹریا اور ڈی ایس کی وجہ سے پیٹ کے امراض پھیل رہے ہیں۔ کیا حکام کو ان حقائق کا کوئی علم نہیں تھا ایسا تو ممکن ہی نہیں، کراچی ملک کا سب سے اہم ترین معاشی حب اور دنیا کے معروف شہروں میں شمار ہوتا ہے۔ اسے حاصل شہری اور بلدیاتی سہولتوں کو تو مثالی ہونا چاہیے۔ امید کی جانی چاہیے کہ عدالتی فیصلہ کے بعد فراہمی و نکاسی آب کی بہتری کی کوششیں تیز کی جائیں گی ،اور شہریوں کو بلا تاخیر مناسب سہولتیں مہیا کی جائیں گی۔
Load Next Story