لوٹ کے کرکٹ گھر کوآئی
کھیل انسان کو جیت کے ساتھ ساتھ ہارنا سکھاتے ہیں۔
ہمارے یہاں مختلف کھیلوں اور فلموں سے لوگوں کی وابستگی، والہانہ وارفتگی کو پہنچی ہوئی رہی۔ ایک زمانہ تھا کہ لوگ ہاکی اور کرکٹ کے دیوانے تھے۔ وہ ٹرانزسٹر کا زمانہ تھا، پان کی دکانوں اور چائے خانوں پر ٹرانزسٹر زور شور سے ہاکی یا کرکٹ کی کمنٹری نشر کرتا جو انگریزی میں ہوتی اور گدھا گاڑی والا اپنی نشست سے کود کر نہایت لجاجت سے ارد گرد جمع 'انگریزی دانوں' سے پوچھتا کہ بھائی کون کھیل رہا ہے، کون آؤٹ ہوگیا ہے اور وہ 'انگریزی داں' جو 'ہاؤٹ' کا لفظ سمجھتے تھے، نہایت باوقار انداز میں گدھے گاڑی والے کو کمنٹری کے رموز و نکات سمجھاتے اور پاؤ بھر کلف اپنی گردن میں لگاتے۔ پھر زمانہ بدلا، زمانے کے انداز بدلے گئے۔ ٹیلی وژن نے ریڈیو کو بہت پیچھے دھکیل دیا۔ چھپر ہوٹل تماش بینوں سے بھرے رہنے لگے اور لوگ اپنے چہیتے کھلاڑیوں کو جاگتی آنکھوں سے دیکھنے اور ان کی ایک ایک ادا پر نثار ہونے لگے۔
دیہاتی ہو یا شہری وہ اپنی تمام حسرتوں کی تسکین کرکٹ اور ہاکی میں جیت کی جولانی سے کرتا۔ ہندوستان ہارتا تو ہر شخص اس اکڑ تکڑ سے چلتا جیسے اس نے تمام ہندوستانی وزیروں کو خاک چٹوادی ہے۔ ہمارے کھلاڑی انگلستان سے جیت کر آتے تو وہ راتوں رات دیوتا بن جاتے۔ میں نے گھروں میں یہ منظر دیکھا ہے کہ جاوید میاں داد اور عمران خان کی جیت کے لیے کیا لڑکیاں اور کیا بوڑھیاں سب ہی ٹیلی وژن کے سامنے مصلے بچھائے بیٹھی ہیں۔ آنکھوں سے آنسو جاری ہیں، لبوں پر دعائیں ہیں اور انگلیاں تسبیح کے دانوں سے الجھ رہی ہیں۔
ایسے میں چند مشہور و معروف کھلاڑیوں کی بد اطواریوں نے لوگوں کا دل دکھانا شروع کیا، اس پر سے قیامت یہ ہوئی کہ ڈاکٹر اسرار کی نگاہوں میں کرکٹ کی گیند اور کھلاڑیوں کا اس کو اپنی پتلون کی کریز پر چمکانا، خلاف اسلام اور مخرب اخلاق محسوس ہونے لگا۔ سرکار والابتار اور سالار اعظم کا دورِ حکمرانی تھا، کرکٹ کی گیند کی ہر ممکن رسوائی ہوئی، اسی کے ساتھ دہشت گردوں نے کھیلوں کو اپنی زد پر لے لیا۔ ایک واقعہ اولمپک کھیلوں کے درمیان جرمن شہر میونخ میں ہوا تھا۔ مغربی جرمنی کے شہر میونخ میں 1972ء کے سمر اولمپکس کے موقعے پر اسرائیل کی گیارہ ٹیموں کو یرغمال بنایا گیا جس میں 6 اسرائیلی کھلاڑی اور 5 کوچ دہشت گردی کا شکار ہوگئے تھے۔
یہ دور دراز کی بات تھی، پھر ہمارے یہاں دہشت گردوں کا پرچم سربلند ہوا، ہر بات خلافِ شرع ٹھہری اور عوام کے دل بہلاوے کی ہر سرگرمی شیطان کی سازش۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ اب سے 8 برس پہلے ہمارے لاہور میں کرکٹ کھیلنے کے لیے آنے والی سری لنکا کی ٹیم پر دن دہاڑے حملہ ہوا۔ 6 پاکستانی پولیس اہلکار اور دو شہری جان سے گئے۔ سری لنکا کی ٹیم کے 6 کھلاڑی، عملے کے دو افراد اور ایک ریزرو امپائر زخمی ہوا۔ ایک تنظیم نے بہ صد فخر اعلان کیا کہ ان نہتوں پر حملہ ان کے 14 سے 15 افراد نے کیا تھا۔ سری لنکا کے بین الاقوامی شہرت یافتہ کھلاڑی جے وردھنے کا کہنا تھا کہ ہماری زندگیاں اس بس ڈرائیور کی بہادری اور ذہانت سے بچیں جس پر دہشت گرد براہ راست حملہ کررہے تھے اور وہ گولیوں کی بوچھاڑ میں ہمیں تیز رفتاری سے نکال لے گیا۔ یہ پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کے خاتمے کا آغاز تھا۔
اس سے پہلے مئی 2002ء میں نیوزی لینڈ کی ٹیم کراچی کے ہوٹل شیرٹن میں ٹھہری ہوئی تھی، اس پر حملہ ہوا۔کھلاڑی بچ گئے لیکن 11 فرانسیسی انجینئر ہلاک ہوئے۔9/11 میں آسٹریلوی ٹیم نے حفاظتی معاملات کی وجہ سے پاکستان کا دورہ منسوخ کیا۔ ستمبر 2003ء میں کراچی میں ہونے والے بم دھماکے نے جنوبی افریقا کی ٹیم کا دورہ ایک ہفتے کے لیے ملتوی کرادیا۔ مارچ 2009ئکی دہشت گردی کا ذکر میں اوپر کرچکی ہوں۔ 30 مئی 2015ء کو لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں زمبابوے کی ٹیم 2009 کے بعد پہلی مرتبہ ایک روزہ انٹرنیشنل میچ کھیلنے اتری تھی کہ اسٹیڈیم کے باہر بم دھماکا ہوا اور پاکستان میں ایک بار پھر انٹرنیشنل کرکٹ کا خاتمہ بالخیر ہوا۔ ایک ایسی صورت حال میں بین الاقوامی کرکٹ کو پاکستان واپس لانا جوئے شیر سے کم نہ تھا۔
کھیل انسان کو جیت کے ساتھ ساتھ ہارنا سکھاتے ہیں، یہ سکھاتے ہیں کہ ہارنے سے کوئی بے غیرت نہیں ہوتا اور یہ کہ جو ہارنا نہیں سیکھتا اس میں جیت کی اہلیت بھی پیدا نہیں ہوتی۔ کھیل کے اصولوں پر عمل کرنے سے برداشت، رواداری اور کشادہ دلی پیدا ہوتی ہے۔ کھیل سے سیکھے جانے والے سبق کا اطلاق زندگی کے تمام شعبوں بالخصوص سیاست میں بڑی کامیابی سے کیا جاسکتا ہے۔ ہمارے ملک کی سیاست اور سیاستدان میں ہار کو تسلیم نہ کرنے اور اپنے مخالف کو ہر قیمت پر نیچا دکھانے کی روش بہت عام ہے۔ اس کی ایک بڑی واضح مثال پی ایس ایل فائنل کے موقعے پر ہمیں دیکھنے کو ملی۔ پی ایس ایل کا فائنل یوں تو کھیل کا ایک عام سا مقابلہ تھا لیکن پاکستان کے لیے اس کی اہمیت انتہائی غیر معمولی تھی۔
پاکستان میں گزشتہ 9 برسوں سے انٹرنیشنل کرکٹ نہیں ہوئی تھی۔ کوئی ملک یا اس کا کھلاڑی پاکستان میں آکر کھیلنے پر آمادہ نہیں تھا۔ موجودہ حکومت کو یہ اعزاز جاتا ہے کہ اس نے کرکٹ کو پاکستان واپس لانے کے لیے اپنی بہترین کوششیں جار ی رکھیں اور پھر یہ مرحلہ بھی آیا کہ دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے بعد کیا پاکستان میں پی ایس ایل فائنل کرانے کا خطرہ مول لیا جاسکتا ہے؟ سیاسی جماعتوں کے لیے یہ ایک امتحان تھا۔ حکومت یہ کام کرنے کے لیے تیار تھی لیکن اس کے مخالفین نے اسے اپنی سیاسی انا کا معاملہ بنا لیا۔ ان کے خیال میں کھیلوں کے کامیاب انعقاد کا سیاسی فائدہ نواز شریف کو ہو سکتا تھا لہٰذا انہو ں نے اس معاملے پر قومی موقف اختیار کرنے کے بجائے سیاسی تنگ نظری سے کام لیا اور لاہور میں فائنل کے انعقاد کو پاگل پن سے تعبیر کیا اور اس میں شرکت بھی نہیں کی۔ اس صورتحال کی روشنی میں کم از کم پاکستان کی حد تک یہ مفروضہ تو غلط ثابت ہوگیا ہے کہ کھیل سیاستدانوں میں بھی خیر سگالی اور برداشت کے جذبات اجاگر کرسکتے ہیں۔
کھیلوں کا قصہ بہت قدیم ہے، اتنا قدیم کہ اس کی کہانی قبل مسیح سے شروع ہوتی ہے اور اگر ہم تلاش کریں تو ہمیں اس کا ذکر عہد نامہ قدیم میں بھی ملتا ہے۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ یونانی جو مشرک اور کافر تھے، بت پرست تھے، ان کے یہاں کھیل کا تقدس اپنی ایک شان رکھتا تھا۔ اولمپک کے کھیل اب سے لگ بھگ 3 ہزار برس پہلے شروع ہوئے۔ ابتدا میں یہ مقابلے ایک دن میں تمام ہوتے تھے اور پھر وہ دو دن پر پھیل گئے۔ ان کھیلوں کی شان و شکوہ کی جھلک دیکھنی ہوتو ہالی ووڈ کی بعض فلموں میں دیکھیے۔ ان کے صفِ اول کے کھلاڑی جیت کر کوئی ورلڈ کپ نہیں لاتے تھے اور اس پر اینڈتے اتراتے بھی نہیں پھرتے تھے، نہ اس جیت سے زرو جواہر کی بارش ان کا مقدر بنتی اور نہ ارب پتی کاروباریوں کی بیٹیاں ان پر عاشق ہوتیں، شادی کرتیں اور جب کئی برس بعد اندازہ ہوتا کہ کھلاڑی تو واقعی 'کھلاڑی' ہے تب اپنے بچوں کا ہاتھ تھامتیں اور اپنے دیس کو سدھارتیں۔
قبل مسیح اولمپک میں جیتنے والوں کے سر پر زیتون کی سرسبز شاخ کا تاج سجتا اور جیتنے والا دو گھوڑوں کے رتھ پر سوار، اپنے شہر کے صدر دروازے پر پہنچتا، استقبال کو آنے والے بزرگوں اور معززین کے حضور سر تکریم سے جھکاتا، حسیناؤں کی طرف دزدیدہ نگاہوں سے دیکھتا اور اپنے گھر کا رخ کرتا۔ سر پر سجا ہوا زیتون کی شاخ کا ہرا بھرا تاج، کھلاڑی اور اس کے شہر کے لیے سب سے بڑا اعزاز تھا۔
ہمارے یہاں دہشت گردوں نے کھیلوں کے ساتھ جو کیا سو کیا، ہمارے بعض کھلاڑیوں نے اس کا وقار خاک میں ملادیا۔ انھوں نے اپنے چاہنے والوں کو بتایا کہ کھیل جو ہمیں جیتنے کے ساتھ ہی عزت و احترام کے ساتھ ہارنے کا ہنر بھی سکھاتے ہیں، وہ انھیں آج تک نہیں آیا۔
لاہور کے پی ایس ایل فائنل کو کرانے والے، اس میں کھیلنے والے، جان ہتھیلی پر رکھ کر ہزاروں کی تعداد میں آنے والے سب ہی 'پاگل' تھے۔ انھوں نے ثابت کردیا کہ دہشت گردی کو بہادری اور بے خوفی سے ہی شکست دی جاسکتی ہے۔ کرکٹ لوٹ کر گھر آگئی۔ لاہور میں وہ لوگ ہار گئے جو اپنی ایک بہت پرانی جیت کا پشتارہ سر پر اٹھائے پھرتے ہیں لیکن جنہوں نے اپنی جیت سے کچھ نہیں سیکھا۔ کھیل تو ہارنے اور جیتنے کا نام ہے۔