سونے چاندی اورتانبے کے ذخائرکہاں گئے

ریکوڈک ہمارے صوبہ بلوچستان میں چاغی کے مقام پر وہ بنجر علاقہ ہے جہاں سارا سال دھول اُڑتی رہتی ہے۔


Dr Mansoor Norani March 08, 2017
[email protected]

دو سال قبل ہمارے وزیرِاعظم نے ہمیں یہ خوشخبری سنائی تھی کہ پنجاب کے ضلع چینوٹ کے قریب لوہے، تانبے اورسونے کے وسیع ذخائردریافت ہوئے ہیں جن سے قوم کی قسمت بدلی جاسکتی ہے۔ اِس سے قبل ہمیں سینڈک اور ریکوڈیک کے خزانوں کے بارے میں بھی اِسی قسم کی نوید سنائی گئی تھی۔ تقریباً دودہائیوں سے زائدکا عرصہ بیت چکا ہے اور ہم نے ابھی تک بلوچستان کے اِن خزانوں سے ایک کوڑی کا بھی استفادہ نہیں کیا۔ سول اورفوجی حکومتوں کے ادوار میں کوئی بھی حکمران ایسا نہیں آیا جس نے اِس جانب کوئی سنجیدہ پیشرفت کی ہو۔

بلوچستان میں ریکوڈک کے خزانوں کو نکالنے کے لیے کینیڈا اور چلی کی کمپنی'' ٹیتھیاں کاپر'' سے 1993ء میں جن شرائط پرسودا کیا گیا اُس کے تحت وہ کمپنی وہاں کے 75فیصد خزانوں کی مالک ہوگی اور صرف 25 فیصد حصہ بلوچستان کے حکومت کو ملے گا۔ایسا ناانصافی پر مبنی یہ معاہدہ بیرونِ ملک سے درآمدکیے جانے والے عارضی سیٹ اپ کے حکمراں معین قریشی نے کیا تھا۔جنھیں ہماری مقتدر قوتوں نے باہم رضامندی سے صرف تین ماہ کے لیے اِس ملک وقوم کی قسمت کامالک بنادیا تھااوراُس تین ماہ میں اُنہوں نے پاکستانی قوم کو اتنا بڑا ناقابلِ تلافی نقصان پہنچادیا۔ معین قریشی کی پاکستان سے وابستگی اورمحبت کا یہ عالم ہے کہ اُنہیں پاکستانی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ بھی دورانِ پروازاُسی وقت دیا گیا جب وہ وزیرِاعظم کا منصب سنبھالنے کے لیے پاکستان تشریف لارہے تھے۔ اس سے قبل نہ اُنہیںکبھی اِس کی ضرورت تھی اور نہ خواہش۔ وہ ساری عمرکسی اور ملک کی نمک حلالی کرتے رہے۔

1993ء سے لے کر 2008ء تک برسراقتدار رہنے والی تمام حکومتوں نے اپنی غفلت، لاپرواہی عدم دلچسپی کے باعث اِس معاہدے کو جوں کا توں رہنے دیا اور اِس پرکوئی سوال نہیں اُٹھایا۔ نو سال تک پرویز مشرف اکیلے خود مختار حکمراں بنے رہے لیکن اُنہوں نے بھی اِس پرکوئی توجہ نہیں دی۔''سب سے پہلے پاکستان'' کانعرہ لگانے والے ہمارے اِس کمانڈو حکمران نے سیاسی میدان میں تو جرأت وبہادری کے بڑے جوہر دکھائے لیکن وطن ِ عزیزکی ترقی وخوشحالی کے لیے کوئی بھی موثرقدم نہیں اُٹھایا۔ پیپلز پارٹی کی زرداری حکومت نے 2008ء میں اقتدار میں آکر سب سے پہلے یہ سودا منسوخ کر دیا جس پر ٹیتھیاں کمپنی اپنا کیس لے کرلندن اور پیرس کی عدالتوں میں جاپہنچی جس کاابھی تک کوئی فیصلہ نہیں ہوپایا ہے اور یہ معاملہ یونہی معلق ہے۔ پاکستانی قوم اپنے غیرجمہوری حکمرانوں کے ایسے کئی فیصلوں کی سزا نجانے کب تک بھگتی رہے گی۔خدا خدا کرکے اب ہماری بلوچستان کی جمہوری حکومت نے اِس معاملے کو عدالت سے باہر سلجھانے کو ارادہ ظاہر کیا ہے لیکن کسی کو معلوم نہیں کہ یہ معاملہ کس طرح پاکستانی عوام کے مفاد میں حل کیا جاسکتا ہے۔

ریکوڈک ہمارے صوبہ بلوچستان میں چاغی کے مقام پر وہ بنجر علاقہ ہے جہاں سارا سال دھول اُڑتی رہتی ہے۔چاغی کا یہ علاقہ ہمیں نیوکلیئر اسٹیٹ کا درجہ دلانے میں بھی بڑی اہمیت اور شہرت کا حامل رہا ہے۔ریکوڈک کے خزانوں کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہاں اربوں روپوں کے اعلیٰ قسم کے سونے اورتانبے کے اتنے بڑے ذخائر موجود ہیںجو دنیا کے شاید ہی کسی اور ملک میں موجود ہوں۔ایک محتاط تخمینے کے مطابق یہ ذخائر 270 ارب ڈالرز پر مبنی ہیں۔یہاں 18ملین ٹن تانبے کے ذخائر ہیں اور32ملین اونس سونے کے ذخائر ہیں، جب کہ ابھی تک تو اِن ذخائر کی وسعت کا صحیح معنوں میںاندازہ ہی نہیں لگایا ہے۔

اِسی طرح ریکوڈک سے پہلے سینڈک کے ذخائر کا بھی بڑا چرچہ رہا ہے اور وہاں بھی سونے،چاندی،لوہے اورتانبے کے بڑے بڑے خزانوں کی خبریں آتی رہی ہیں۔مگر قوم کی نسلیں گزرتی جارہی ہیں اورکوئی خوش نصیبی اُن کے دروازے پر دستک نہیں دے رہی۔ نجانے ہم کب اِس قابل ہوں گے کہ اپنے معدنی ذخائر سے خود استفادہ کرپائیں۔ورلڈ بینک اورآئی ایم ایف سے قرضے لینے میں تو ہم بہت مستعد اورچاق وچوبند دکھائی دیتے ہیںلیکن اتنے اہم معاملے میں ہماری عقل اورذہانت پتہ نہیں کہاں چلی جاتی ہے۔دوسال پہلے پنجاب میں چینوٹ کے مقام پر جن خزانوں کی نوید سنائی گئی تھی اب تک اُس منصوبے پر کتنا کام ہوا ہے یا کتنی پیشرفت ہوئی ہے کسی کو کوئی خبر نہیں۔ کوئی حکومتی اہلکار یاوزیر قوم کو یہ بتانے کو روادار ہی نہیں کہ ہم کب تک اِس منصوبے کے ثمرات سے فائدہ اُٹھا پائیں گے۔ سڑکیں، شاہراہیں اور موٹرویز تو بنائے جارہے ہیں۔

سی پیک پر بھی کام ہورہا ہے لیکن اگر ساتھ ساتھ اِن معدنی ذخائر کو نکالنے کے منصوبوں کا بھی اعلان ہوجاتا تو قوم یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوتی کہ واقعی اُس کے دن اب پھرنے والے ہیں۔ ہم نے اپنے کئی منصوبے چائنا کی کمپنیوں کے حوالے کردیے ہیں۔ کراچی میں کے الیکٹرک اورسرکل ریلوے کی تعمیر نو سے لے کر کچرا اُٹھانے تک سبھی کچھ چائنا کے سپر د کردیا گیاہے اگر اِن معدنی ذخائرکی مائننگ بھی کسی چائنیزکمپنی کودیتے تو شاید ہمیں اتنا انتظار نہیں کرنا پڑتا۔ہم آج اپنے توانائی کے بحران کو حل کرنے کے لیے جب تھرکے صحراؤں کا کوئلہ نکال سکتے ہیںتوسونے، چاندی، لوہے اور تانبے کے یہ ذخائرکیوں نہیں نکال سکتے ہیں۔ بات صرف خلوصِ نیت اور مصمم ارادے کی ہے۔

موجودہ جمہوری حکومت کا دعویٰ تو یہی ہے کہ اُس نے اپنے ساڑھے تین سالہ دورِ اقتدار میں پاکستان میں ترقی وخوشحالی کا باب کھول دیا ہے۔ نئے نئے منصوبے تیار کیے جارہے ہیں۔ لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہونے جارہا ہے، لیکن جب ہم دوسری جانب دیکھتے ہیں تو قدرت کی طرف سے عطا کیے گئے اِن بیش بہا معدنی خزانوں کو باہر نکال کر اُس سے استعفادہ کرنے پر کسی کی توجہ نہیں ہے۔یہ ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے۔نجانے ہماری ایسی کونسی مجبوریاں ہیں جن کی وجہ سے اِس سمت میں کوئی موثر منصوبہ بندی نہیں کی جارہی۔سنیڈک اور ریکوڈک کے خزانوں کو دریافت ہوئے تقریباً پچیس سے تیس سال کا عرصہ بیت چکا ہے۔

اِس عرصے میں ہماری بجائے کوئی اگر دوسری قوم ہوتی تو اب تک تو وہ اِن خزانوں سے مستفید ہوکر ایک امیر اور خوشحال قوم بن چکی ہوتی۔ لیکن ہم ابھی تک غربت اور مفسلی کے اندھیروں میں ہی بھٹک رہے ہیں۔سونے، چاندی اور تانبے کے اِن خزانوں پر بیٹھ کر بھی ہم ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف سے قرضوں کے حصول کی ترکیبیں سوچتے رہتے ہیں۔ایک گناہگار اور ناشکری قوم ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی نعمتوں اور فیاضیوں سے بے حد نوازا ہے۔سرزمینِ پاکستان کے اِس چھوٹے سے رقبے پر نجانے کتنے خزانے چھپے ہوئے ہیں جو خود بخود باہر نکل کر ظاہر ہوتے جارہے ہیں۔ تیل،گیس اور کوئلے سمیت سبھی کچھ تو اُس ربِ جلیل نے ہمیں دیا ہوا ہے۔مگر ہم اب بھی اُن سے فیضیاب ہونے تو تیار نہیں۔ یہ اِس قوم کی بدقسمتی نہیں تو اورکیا ہے کہ قدرت تو اُنہیں ایک خوشحال قوم کے طور پر سر اُٹھاکے جینے کا سامان اور موقعہ فراہم کررہی ہے لیکن وہ اُس سے صرف نظرکرتے ہوئے مسلسل تغافل برت رہی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں