ہیں کواکب کچھ نظرآتے ہیں کچھ
ایران اور ترکی نے البتہ بحران کے خاتمے میں مدد دینے اورمثبت کردار ادا کرنے کی یقین دہانی کرائی۔
امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے حال ہی میں اپنی کچھ دستاویزات'' ڈی کلاسیفائی'' کی ہیں جن میں پاکستان کے حوالے سے بعض دلچسپ اورحیران کن انکشافات کیے گئے ہیں۔ مثلاً 1973ء کی عرب اسرائیل جنگ بندکرانے میں ذوالفقارعلی بھٹو نے خفیہ طور پر ثالث کا کردار ادا کیا تھا۔ 1954ء میں افغانستان، پاکستان میں ضم ہونا چاہتا تھا، ایک مرحلے پر امریکا کوخدشہ تھا کہ پاکستان چین کواس کے ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی تک رسائی دے سکتا ہے۔
سی آئی اے نے ضیاء الحق کے دورمیں بحالی جمہوریت کے 6 ماہ بعد ہی جونیجو حکومت کے خاتمے اور 1999ء میں جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا کی پیشگوئی بہت پہلے جنرل ضیاالحق کے دور ہی میں کردی تھی۔ عوام کے لیے کھولی گئی ان خفیہ دستاویزات کے مطابق سابق وزیراعظم بھٹو نے امریکی وزیرخارجہ ہنری کسنجرکی درخواست پر 1973ء کی عرب اسرائیل جنگ بند کرانے کے لیے خفیہ طور پرثالث کا کردارادا کیا تھا ان کا عرب ممالک کا دورہ اسی سلسلے کی کڑی تھا۔
دستاویزات میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بھٹو نے نہ صرف شام کے صدرحافظ الاسد سے ملاقات کرنے سے انکارکردیا بلکہ اسرائیل کے خلاف ان کی فوجی امداد کی درخواست بھی مستردکردی۔ یہ جنگ امریکا کے لیے بے حد اہمیت کی حامل تھی کیونکہ سوویت یونین نے، جو مصر اور شام کو اسلحہ فراہم کررہا تھا امریکی صدرنکسن کو دھمکی دی تھی کہ اگر اس نے اسرائیل کی فوجی امداد جاری رکھی تو خود وہ جنگ میں کود پڑے گا۔ دوسری طرف کسنجر دوہراکھیل کھیل رہے تھے۔
انھوں نے ایک طرف تل ابیب جاکر اسرائیل کو یقین دہانی کرائی کہ امریکا کو اس کی فوجوں کی پیش قدمی پرکوئی اعتراض نہیں، دوسری جانب بھٹو کو ساتھ ملا کر یہ ذمے داری سونپی کہ وہ عرب رہنماؤں کو جنگ بندی کے لیے قائل کریں۔ بھٹو نے عرب ملکوں کے دورے سے واپسی پر کسنجر کو خط لکھ کر مفصل رپورٹ دی۔ ان کا یہ خط پاکستان میں امریکی سفارتخانے کے ذریعے بھجوایا گیا تھا۔ بھٹو نے عرب ملکوں کے ساتھ ایران اورترکی کا بھی دورہ کیا تھا، ان کی تمام ترکوششوں کے باجود عرب رہنماؤں نے کوئی مثبت جواب نہیں دیا۔ سعودی عرب کے فرمانروا شاہ فیصل نے تو صاف کہہ دیا کہ عرب اس وقت تک کوئی پیشکش قبول نہیں کریں گے جب تک اسرائیل تمام مقبوضہ علاقے خالی نہیں کردیتا۔
ایران اور ترکی نے البتہ بحران کے خاتمے میں مدد دینے اورمثبت کردار ادا کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ اسرائیل نے مذکورہ علاقوں پر 1967ء کی جنگ میں قبضہ کیا تھا،اس کے مسلسل انکار پر مصر اور شام نے 6 اکتوبر 1973ء کو بیک وقت سینائی اورجولان کی چوٹیوں سے اسرائیلی فوج پر حملہ کردیا جس سے اسرائیل کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا، تاہم امریکا کو ڈر تھا کہ کہیں سوویت یونین جنگ میں مداخلت نہ کر بیٹھے اس لیے اس نے تجویز دی کہ امریکا اور سوویت یونین مشترکہ طور پر جنگ بندی اور متحارب فوجوں کی 1967ء کی پوزیشن پر واپسی کا مطالبہ کریں، لیکن سوویت یونین نے مصر اور شام جب کہ امریکا نے اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی شروع کردی۔ یہی وہ موقعہ تھا جب امریکا کی طرف سے اسرائیل کی فوجی امدادکے جواب میں تیل پیدا کرنے والے عرب ممالک نے امریکا اور دیگر مغربی ملکوں کے لیے تیل کی شپمنٹ پر پابندی عائدکردی جس کے نتیجے میں سنگین اقتصادی بحران نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
ایسی ہی ایک دوسری ڈی کلاسیفائیڈ دستاویز میں یہ دلچسپ اور حیران کن انکشاف کیا گیا ہے کہ افغانستان نے بڑھتے ہوئے سوویت اقتصادی غلبے سے بچنے کے لیے 1954ء میں پاکستان میں ضم ہونے کی خواہش ظاہرکی تھی لیکن وزیراعظم محمدعلی کی حکومت نے اس کا مثبت جواب نہیں دیا۔ آخری کوشش کے طور پر اس وقت کے افغان وزیر خارجہ نے 14 اکتوبرکو باقاعدہ خط لکھ کر امریکا سے اس سلسلے میں مدد چاہی تھی۔ دستاویزکی رو سے پاکستان اورافغانستان کے سرکاری حلقوں میں ابتدائی طورپردونوں ملکوں پر مشتمل کنفیڈریشن بنانے کے حوالے سے بات چیت بھی ہوئی تھی لیکن بعض عالمی پیچیدگیوں نیز سوویت یونین اوربھارت کی مخالفت کی وجہ سے بات آگے نہ بڑھ سکی۔
ایک اوردستاویز میں بتایا گیا ہے کہ ضیا آمریت کے دور میں بحالی جمہوریت کے 6 ماہ بعد ہی سی آئی اے نے جونیجو حکومت کے برطرف کیے جانے کی پیشگوئی کردی تھی جو 29 مئی 1988ء کو آئین کے آرٹیکل -2b 58 کے نفاذ کی صورت میں درست ثابت ہوئی۔ رپورٹ کے مطابق ضیاء اور جونیجو دونوں ہی اختیارات میں اپنی بالادستی چاہتے تھے، ضیاء کو جونیجوکی یہ جرات رندانہ پسند نہ آئی اور اس وقت ان کے صبرکا پیمانہ لبریزہوگیا جب ان کی مرضی اور پسند کے برعکس جونیجو نے اپنی پسند سے بحریہ کا سربراہ مقررکیا۔ یہی نہیں وہ جنرل ضیا کوآرمی چیف کے عہدے سے بھی ہٹانا چاہتے تھے۔
کتنی عجیب بات ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا دور ہی میں پرویزمشرف کے مارشل لا کی پیش گوئی کردی گئی تھی۔ عام کی جانے والی سی آئی اے کی ایک دوسری دستاویز میں اکتوبر 1987ء کی ایک رپورٹ کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے رویوں اوران کے رہنماؤں کے کردارکے پیش نظر مستقبل میں ایک اور مارشل لا کا نفاذ ناگزیر تھا۔
امریکیوں کا یہ اندازہ 1999ء میں جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا کی صورت میں بالکل صحیح ثابت ہوا۔ اسی رپورٹ میں بینظیر بھٹوکے حوالے سے کہا گیا تھا کہ وہ پاکستان کے لیے امریکی فوجی واقتصادی امداد جاری رہنے کے تو حق میں تھیں مگر ان کا رجحان بائیں بازوکی سیاسی قوتوں کی طرف تھا جو سوویت یونین کی ہمنوا تھیں۔ رپورٹ کے مطابق امریکا مسلم لیگ کو موقع پرستوں کی جماعت سمجھتا تھا اور پیپلز پارٹی کو ناپسند کرنے کے باوجود اس کا خیال تھا کہ اس کی مخالف دوسری جماعتیں بینظیر بھٹوکی مقبولیت کا مقابلہ نہیں کرسکتیں۔ اس میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ پاکستان کی امریکا مخالف سیاسی جماعتوں کو سوویت یونین اورافغانستان سے سیاسی اور مالی امداد ملتی تھی۔
ڈی کلاسیفائی کی جانے والی ایک اور رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکا نے پاکستان پرکبھی بھروسہ اوراعتماد نہیں کیا، بلکہ ہمیشہ پاکستان پر شک کیا۔ ایک طویل عرصے تک اسے یہ خدشہ لاحق رہا کہ پاکستان اس کو دھوکا دے کر چین کو امریکی دفاعی ہتھیاروں اورٹیکنالوجی تک رسائی دے سکتا ہے۔ 1983ء کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 80ء کی دہائی میں بھی یہی صورتحال تھی حالانکہ اس زمانے میں امریکا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات عروج پر تھے۔ امریکا کو خدشہ تھا کہ پاکستان اس کے اعتماد کوٹھیس پہنچا کر چین کو اس کی دفاعی ٹیکنالوجی تک غیرقانونی رسائی دے سکتا ہے۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ 1973ء کی عرب اسرائیل جنگ بند کرانے کے لیے جب امریکا کی درخواست پر بھٹو عرب رہنماؤں کو منانے کے مشن پر تھے، ہم یہاں بغلیں بجا رہے تھے کہ تیل کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کا آئیڈیا بھٹوکا تھا جسے بروئے کار لاکر عربوں نے امریکا سمیت اسرائیل نواز تمام مغربی ملکوں کے چھکے چھڑا دیے تھے۔ کیا پتہ کسنجر نے آگے چل کر بھٹو کا پتہ صاف کرنے کا جواز پیدا کرنے کے لیے ہی انھیں ثالث کا کردار ادا کرنے کے لیے آمادہ کیا ہو اور تیل کے بطور ہتھیار استعمال کا کریڈٹ انھیں دلانے میں بھی امریکا کا ہاتھ رہا ہو کہ اسے جواز بنانا مقصود تھا،کیونکہ یہی کسنجر تھے جنہوں نے بھٹوکو پاکستان کا ایٹمی پروگرام رول بیک نہ کرنے کی صورت میں نشان عبرت بنانے کی دھمکی دی تھی۔ اصل میں ان دستاویزات کے ذریعے امریکا نے ہمیں اپنا اصل چہرہ دکھایا ہے، مگرہم ہیں کہ دیکھنا ہی نہیں چاہتے۔
سی آئی اے نے ضیاء الحق کے دورمیں بحالی جمہوریت کے 6 ماہ بعد ہی جونیجو حکومت کے خاتمے اور 1999ء میں جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا کی پیشگوئی بہت پہلے جنرل ضیاالحق کے دور ہی میں کردی تھی۔ عوام کے لیے کھولی گئی ان خفیہ دستاویزات کے مطابق سابق وزیراعظم بھٹو نے امریکی وزیرخارجہ ہنری کسنجرکی درخواست پر 1973ء کی عرب اسرائیل جنگ بند کرانے کے لیے خفیہ طور پرثالث کا کردارادا کیا تھا ان کا عرب ممالک کا دورہ اسی سلسلے کی کڑی تھا۔
دستاویزات میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بھٹو نے نہ صرف شام کے صدرحافظ الاسد سے ملاقات کرنے سے انکارکردیا بلکہ اسرائیل کے خلاف ان کی فوجی امداد کی درخواست بھی مستردکردی۔ یہ جنگ امریکا کے لیے بے حد اہمیت کی حامل تھی کیونکہ سوویت یونین نے، جو مصر اور شام کو اسلحہ فراہم کررہا تھا امریکی صدرنکسن کو دھمکی دی تھی کہ اگر اس نے اسرائیل کی فوجی امداد جاری رکھی تو خود وہ جنگ میں کود پڑے گا۔ دوسری طرف کسنجر دوہراکھیل کھیل رہے تھے۔
انھوں نے ایک طرف تل ابیب جاکر اسرائیل کو یقین دہانی کرائی کہ امریکا کو اس کی فوجوں کی پیش قدمی پرکوئی اعتراض نہیں، دوسری جانب بھٹو کو ساتھ ملا کر یہ ذمے داری سونپی کہ وہ عرب رہنماؤں کو جنگ بندی کے لیے قائل کریں۔ بھٹو نے عرب ملکوں کے دورے سے واپسی پر کسنجر کو خط لکھ کر مفصل رپورٹ دی۔ ان کا یہ خط پاکستان میں امریکی سفارتخانے کے ذریعے بھجوایا گیا تھا۔ بھٹو نے عرب ملکوں کے ساتھ ایران اورترکی کا بھی دورہ کیا تھا، ان کی تمام ترکوششوں کے باجود عرب رہنماؤں نے کوئی مثبت جواب نہیں دیا۔ سعودی عرب کے فرمانروا شاہ فیصل نے تو صاف کہہ دیا کہ عرب اس وقت تک کوئی پیشکش قبول نہیں کریں گے جب تک اسرائیل تمام مقبوضہ علاقے خالی نہیں کردیتا۔
ایران اور ترکی نے البتہ بحران کے خاتمے میں مدد دینے اورمثبت کردار ادا کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ اسرائیل نے مذکورہ علاقوں پر 1967ء کی جنگ میں قبضہ کیا تھا،اس کے مسلسل انکار پر مصر اور شام نے 6 اکتوبر 1973ء کو بیک وقت سینائی اورجولان کی چوٹیوں سے اسرائیلی فوج پر حملہ کردیا جس سے اسرائیل کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا، تاہم امریکا کو ڈر تھا کہ کہیں سوویت یونین جنگ میں مداخلت نہ کر بیٹھے اس لیے اس نے تجویز دی کہ امریکا اور سوویت یونین مشترکہ طور پر جنگ بندی اور متحارب فوجوں کی 1967ء کی پوزیشن پر واپسی کا مطالبہ کریں، لیکن سوویت یونین نے مصر اور شام جب کہ امریکا نے اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی شروع کردی۔ یہی وہ موقعہ تھا جب امریکا کی طرف سے اسرائیل کی فوجی امدادکے جواب میں تیل پیدا کرنے والے عرب ممالک نے امریکا اور دیگر مغربی ملکوں کے لیے تیل کی شپمنٹ پر پابندی عائدکردی جس کے نتیجے میں سنگین اقتصادی بحران نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
ایسی ہی ایک دوسری ڈی کلاسیفائیڈ دستاویز میں یہ دلچسپ اور حیران کن انکشاف کیا گیا ہے کہ افغانستان نے بڑھتے ہوئے سوویت اقتصادی غلبے سے بچنے کے لیے 1954ء میں پاکستان میں ضم ہونے کی خواہش ظاہرکی تھی لیکن وزیراعظم محمدعلی کی حکومت نے اس کا مثبت جواب نہیں دیا۔ آخری کوشش کے طور پر اس وقت کے افغان وزیر خارجہ نے 14 اکتوبرکو باقاعدہ خط لکھ کر امریکا سے اس سلسلے میں مدد چاہی تھی۔ دستاویزکی رو سے پاکستان اورافغانستان کے سرکاری حلقوں میں ابتدائی طورپردونوں ملکوں پر مشتمل کنفیڈریشن بنانے کے حوالے سے بات چیت بھی ہوئی تھی لیکن بعض عالمی پیچیدگیوں نیز سوویت یونین اوربھارت کی مخالفت کی وجہ سے بات آگے نہ بڑھ سکی۔
ایک اوردستاویز میں بتایا گیا ہے کہ ضیا آمریت کے دور میں بحالی جمہوریت کے 6 ماہ بعد ہی سی آئی اے نے جونیجو حکومت کے برطرف کیے جانے کی پیشگوئی کردی تھی جو 29 مئی 1988ء کو آئین کے آرٹیکل -2b 58 کے نفاذ کی صورت میں درست ثابت ہوئی۔ رپورٹ کے مطابق ضیاء اور جونیجو دونوں ہی اختیارات میں اپنی بالادستی چاہتے تھے، ضیاء کو جونیجوکی یہ جرات رندانہ پسند نہ آئی اور اس وقت ان کے صبرکا پیمانہ لبریزہوگیا جب ان کی مرضی اور پسند کے برعکس جونیجو نے اپنی پسند سے بحریہ کا سربراہ مقررکیا۔ یہی نہیں وہ جنرل ضیا کوآرمی چیف کے عہدے سے بھی ہٹانا چاہتے تھے۔
کتنی عجیب بات ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا دور ہی میں پرویزمشرف کے مارشل لا کی پیش گوئی کردی گئی تھی۔ عام کی جانے والی سی آئی اے کی ایک دوسری دستاویز میں اکتوبر 1987ء کی ایک رپورٹ کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے رویوں اوران کے رہنماؤں کے کردارکے پیش نظر مستقبل میں ایک اور مارشل لا کا نفاذ ناگزیر تھا۔
امریکیوں کا یہ اندازہ 1999ء میں جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا کی صورت میں بالکل صحیح ثابت ہوا۔ اسی رپورٹ میں بینظیر بھٹوکے حوالے سے کہا گیا تھا کہ وہ پاکستان کے لیے امریکی فوجی واقتصادی امداد جاری رہنے کے تو حق میں تھیں مگر ان کا رجحان بائیں بازوکی سیاسی قوتوں کی طرف تھا جو سوویت یونین کی ہمنوا تھیں۔ رپورٹ کے مطابق امریکا مسلم لیگ کو موقع پرستوں کی جماعت سمجھتا تھا اور پیپلز پارٹی کو ناپسند کرنے کے باوجود اس کا خیال تھا کہ اس کی مخالف دوسری جماعتیں بینظیر بھٹوکی مقبولیت کا مقابلہ نہیں کرسکتیں۔ اس میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ پاکستان کی امریکا مخالف سیاسی جماعتوں کو سوویت یونین اورافغانستان سے سیاسی اور مالی امداد ملتی تھی۔
ڈی کلاسیفائی کی جانے والی ایک اور رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکا نے پاکستان پرکبھی بھروسہ اوراعتماد نہیں کیا، بلکہ ہمیشہ پاکستان پر شک کیا۔ ایک طویل عرصے تک اسے یہ خدشہ لاحق رہا کہ پاکستان اس کو دھوکا دے کر چین کو امریکی دفاعی ہتھیاروں اورٹیکنالوجی تک رسائی دے سکتا ہے۔ 1983ء کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 80ء کی دہائی میں بھی یہی صورتحال تھی حالانکہ اس زمانے میں امریکا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات عروج پر تھے۔ امریکا کو خدشہ تھا کہ پاکستان اس کے اعتماد کوٹھیس پہنچا کر چین کو اس کی دفاعی ٹیکنالوجی تک غیرقانونی رسائی دے سکتا ہے۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ 1973ء کی عرب اسرائیل جنگ بند کرانے کے لیے جب امریکا کی درخواست پر بھٹو عرب رہنماؤں کو منانے کے مشن پر تھے، ہم یہاں بغلیں بجا رہے تھے کہ تیل کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کا آئیڈیا بھٹوکا تھا جسے بروئے کار لاکر عربوں نے امریکا سمیت اسرائیل نواز تمام مغربی ملکوں کے چھکے چھڑا دیے تھے۔ کیا پتہ کسنجر نے آگے چل کر بھٹو کا پتہ صاف کرنے کا جواز پیدا کرنے کے لیے ہی انھیں ثالث کا کردار ادا کرنے کے لیے آمادہ کیا ہو اور تیل کے بطور ہتھیار استعمال کا کریڈٹ انھیں دلانے میں بھی امریکا کا ہاتھ رہا ہو کہ اسے جواز بنانا مقصود تھا،کیونکہ یہی کسنجر تھے جنہوں نے بھٹوکو پاکستان کا ایٹمی پروگرام رول بیک نہ کرنے کی صورت میں نشان عبرت بنانے کی دھمکی دی تھی۔ اصل میں ان دستاویزات کے ذریعے امریکا نے ہمیں اپنا اصل چہرہ دکھایا ہے، مگرہم ہیں کہ دیکھنا ہی نہیں چاہتے۔