وطن عزیز کی قابل فخر بیٹیاں جو 2016ء میں پاکستان کی پہچان بنیں

محنت کشوں کے حقوق کے لیے سرگرم پاکستانیوں میں سیدہ غلام فاطمہ ایک نمایاں نام ہے۔

محنت کشوں کے حقوق کے لیے سرگرم پاکستانیوں میں سیدہ غلام فاطمہ ایک نمایاں نام ہے۔ :فوٹو : فائل

معاشرے میں چاہے کتنا ہی صنفی امتیاز کیوں نہ برتا جائے، جن خواتین میں اپنی صلاحیتوں کو منوانے اور اپنی منفرد پہچان بنانے کا جذبہ کارفرما ہو تو پھر کوئی مشکل یا رکاوٹ انھیں آگے بڑھنے سے روک نہیں سکتی، نہ ہی لوگوں کے بدلتے تیور اور معاشرتی دباؤ ان کو اپنے مقصد میں کام یابی سے روک سکتا ہے۔ ذیل کی سطور میں ایسی ہی چند خواتین کا تذکرہ کیا جارہا ہے جنھوں نے گذشتہ برس مختلف شعبوں میں بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا نام روشن کیا اور ہم وطن خواتین کے لیے قابل تقلید مثال قائم کی۔

فائزہ نقوی
پاکستان میں تعلیم و صحت کے شعبوں میں جو این جی اوز مصروف کار ہیں، امن فاؤنڈیشن ان میں ایک نمایاں نام ہے۔ فائزہ نقوی اس ادارے کی چیئرمین اور شریک بانی ہے۔ ان کی نگرانی میں یہ ادارہ گراں قدر خدمات انجام دے رہا ہے۔ انھی خدمات کے اعتراف میں فائزہ کو گذشتہ برس انڈونیشیا میں منعقدہ تقریب میں ' گلوبل ہیومینیٹیرن ایوارڈ فار ویمنز اینڈ چلڈرنز ہیلتھ' دیا گیا۔ اس عالمی ایوارڈ کا حصول امن فاؤنڈیشن اور فائزہ نقوی کے ساتھ ساتھ بلاشبہ پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے بھی اعزاز کی بات تھی۔

منیبہ مزاری
اپنی معذوری کو مجبوری نہ بنانے والی منیبہ مزاری نے وہیل چیئر پر ہوتے ہوئے کام یابیوں کا سفر جاری رکھا۔ منیبہ مزاری نے فائن آرٹ میں بیچلرز کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد مصوری کے ذریعے عورت کی آواز کو بلند کیا۔ صنفی امتیاز کے خلاف آواز اٹھائی۔ اقوام متحدہ کی جانب سے ان کو خیرسگالی کی سفیر مقرر کیا گیا۔ وہ یہ اعزاز حاصل کرنے والی اولین پاکستانی خاتون ہیں۔

منہال سہیل
منہال سہیل نشانے باز ( شوٹر ) ہیں۔ اکیس سالہ منہال سہیل نے گذشتہ برس اولمپک گیمز میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والی اولین نشانے بازکا اعزاز حاصل کیا۔ کھیلوں کے عالمی مقابلوں میں انھوں نے ' دس میٹر ایئر رائفل' کی کیٹیگری میں حصہ لیا۔ وہ کوئی تمغہ حاصل نہیں کرپائیں تاہم ان کی صورت میں خواتین نشانے بازوں میں پاکستان کی نمائندگی بہ ذات خود ایک بڑا اعزاز تھی۔

مونا پرکاش
حیدرآباد سے تعلق رکھنے والی مونا پرکاش مہتانی کو تعلیمی میدان میں ان کی زبردست خدمات کو سراہتے ہوئے ' کامن ویلتھ ایوارڈ برائے ایکسیلینس' دیا گیا۔ لندن میں واقع دولت مشترکہ کے سیکریٹریٹ میں یوتھ افیئرز کی ڈائریکٹر کیتھرین ایلس نے انھیں یہ ایوارڈ دیا۔ تیس سال سے کم عمر کے ان نوجوانوں کو اس ایوارڈ سے نوازا جاتا ہے جنھوں نے سماجی بہبود کے شعبے میں نمایاں کردار ادا کیا ہو۔ مونا پرکاش واحد پاکستانی خاتون تھیں جنھوں نے 2016 میں یہ ایوارڈ وصول کیا۔


سیدہ غلام فاطمہ
محنت کشوں کے حقوق کے لیے سرگرم پاکستانیوں میں سیدہ غلام فاطمہ ایک نمایاں نام ہے۔ ان کی این جی او'' بونڈڈ لیبر لبریشن فرنٹ پاکستان'' بالخصوص بھٹہ مزدوروں کی فلاح و بہبود کے لیے سرگرم عمل ہے۔ اس ادارے کی جنرل سیکریٹری کی حیثیت سے انھوں نے بھٹہ مزدوروں کی فلاح و بہبود کے لیے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں انھیںکلنٹن گلوبل سٹیزن ایوارڈ سے نوازا گیا۔

رخسانہ پروین اور صوفیہ جاوید
باکسنگ کے کھیل میں نمایاں کام یابی حاصل کرکے ملک کا نام روشن کرنے والی خواتین کے نام رخسانہ پروین اور صوفیہ جاوید ہیں۔ یہ پہلی پاکستانی خواتین ہیں جنھوں نے ساؤتھ ایشین گیمز میں تمغے حاصل کرکے ملک کا نام روشن کیا۔

ثمینہ بیگ
عالمی شہرت یافتہ پاکستانی کوہ پیما ثمینہ بیگ نے اکیس برس کی عمر میں ماؤنٹ ایورسٹ پر پاکستانی پرچم لہرا کر دنیا بھر میں یہ ثابت کردیا کہ پاکستانی خواتین کسی سے کم نہیں۔ پہاڑوں کی بلند و بالا چوٹیوں کو سر کرنے والی وہ پہلی مسلمان اور پاکستانی خاتون ہیں۔

اقراسلیم خان
اقرا سلیم خان طالبہ ہیں۔ ان کا تعلق لاہور سے ہے۔ یونیورسٹی آف لندن کے ایل ایل بی کے امتحانات میں مجموعی طور پر سب سے زیادہ نمبر حاصل کرکے انھوں نے وطن عزیز کا نام روشن کیا۔

ٹوئنکل سہیل
ویٹ لفٹنگ عموماً مردوں کا شوق سمجھا جاتا ہے ، لیکن ٹوئنل سہیل نے ثابت کردیا کہ پاکستانی لڑکیاں اس شعبے میں بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ عمان میں منعقدہ ' ایشین بینچ پریس پاور لفٹنگ چیمپیئن شپ' میں انھوں نے سونے کا تمغہ جیت کر پاکستانیوں کا سر فخر سے بلند کردیا۔ واضح رہے کہ ان مقابلوں میں شریک مرد ہم وطن کوئی خاص کارکردگی پیش نہیں کرسکے تھے۔ ٹوئنکل نے سونے کا تمغہ ستاون کلو وزن اٹھانے کی کیٹیگری میں حاصل کیا۔
Load Next Story