اسلام آباد ہائی کورٹ کا سوشل میڈیا سے گستاخانہ مواد فوری ہٹانے کا حکم

اگر ہم نے محسن انسانیت ﷺ کی گستاخی نہ روکی تو ملک میں خانہ جنگی بھی شروع ہوسکتی ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ


ویب ڈیسک March 08, 2017
اگر حکم پر عمل درآمد نہ ہوا تو متعلقہ حکام کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی، جسٹس شوکت عزیز صدیقی۔ فوٹو: فائل

وفاقی دارالحکومت کی ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا کہنا ہے کہ بحیثیت مسلمان سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کوئی بھی برداشت نہیں کرسکتا اور اگر ہم نے محسن انسانیت ﷺ کی گستاخی نہ روکی تو ملک میں خانہ جنگی بھی شروع ہو سکتی ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی سربراہی میں سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تشہیر کے خلاف کیس کی سماعت ہوئی۔ آئی جی اسلام آباد طارق مسعود یاسین، چیئرمین پی ٹی اے اسماعیل شاہ اور سیکریٹری داخلہ عارف خان عدالت میں پیش ہوئے جب کہ وزیر داخلہ چوہدری نثار نے آنکھ کے آپریشن کے باعث پیش ہونے سے معذرت کر لی۔

اس خبرکوبھی پڑھیں: اسلام آباد ہائی کورٹ نے چوہدری نثارکوطلب کرلیا

جسٹس شوکت صدیقی کا کہنا تھا کہ بحیثیت مسلمان مقدس ہستیوں کے خلاف مواد کوئی بھی برداشت نہیں کرسکتا، گستاخانہ مواد کی تشہیر سے متعلق کیس کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر ہو گی کیوں کہ یہ معاملہ بہت ہی حساس نوعیت کا ہے اور اس کو جلد سے جلد حل کرنے کی ضرورت ہے، اگر ہم نے محسن انسانیت ﷺ اور دیگر مقدس ہستیوں کی گستاخی نہ روکی تو ملک میں خانہ جنگی بھی شروع ہو سکتی ہے۔

عدالت نے سیکرٹری داخلہ کو حکم دیا کہ معاملے کی تحقیقات کے لئے جے آئی ٹی تشکیل دی جائے اور جے آئی ٹی میں ایسا فرد شامل نہ کیا جائے جو آئین کے تحت مسلمان نہیں، پی ٹی اے کی ٹیم بٹھا کر ان تمام صفحات کو بند کیا جائے جن پر گستاخانہ مواد موجود ہے اور اگر پی ٹی اے ملازمین یہ کام نہیں کرسکتے تو انہیں گھر بھیج دیا جائے، اگر حکم پر عمل درآمد نہ ہوا تو متعلقہ حکام کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔

عدالت نے حکم دیا کہ گستاخانہ مواد شائع کرنے والے ملزمان کے نام ای سی ایل پر ڈالے جائیں اور ایسے اقدامات کئے جائیں کہ کسی کو نبی کریم ﷺ اور دیگر مقدس ہستیوں کی شان میں گستاخی کی جرات نہ ہو۔ عدالت نے متعلقہ حکام کو فوری سوشل میڈیا کے تمام صفحات سے گستاخانہ مواد ہٹانے کا حکم دیتے ہوئے کارروائی کی رپورٹ کل تک عدالت میں جمع کرانے کا حکم دے دیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں