امراضِ گُردہ سالانہ بیس ہزار سے زائد پاکستانی موت کا شکار
لوبیے کی شکل کے یہ اخراجی اعضا پسلیوں کے نیچے، ریڑھ کے ہڈی کے دونوں اطراف پائے جاتے ہیں۔
گردے، انسانی جسم کے اعضائے رئیسہ میں شمار ہوتے ہیں۔ جسم کو صحت مند رکھنے میں یہ کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔
لوبیے کی شکل کے یہ اخراجی اعضا پسلیوں کے نیچے، ریڑھ کے ہڈی کے دونوں اطراف پائے جاتے ہیں۔ ان کا کام جسم سے فاسد مادّوں کا اخراج ہے۔ یہ خون میں پیدا ہونے والے غیرضروری اور فاسد مادّوں اور زائد پانی کو الگ کرکے مثانے میں بھیج دیتے ہیں، جہاں سے یہ زہریلا آمیزہ خارج ہوتا رہتا ہے۔ یہ اعضا جسم میں پانی ، نمکیات اور دیگر مادّوں کے مابین توازن برقرار رکھتے ہیں۔ توازن بگڑنے سے انسان مختلف بیماریوں کا شکار ہوسکتا ہے۔
گُردوں سے کئی قسم کے ہارمون کا بھی اخراج ہوتا ہے جو فشار خون ( بلڈ پریشر) کو معتدل رکھتے اور سُرخ جسیموں کی پیدائش کوکنٹرول کرتے ہیں۔ یہ اعضا وٹامن ڈی کی ایک قسم کو تحریک دیتے ہیں جو جسم میں کیلشیئم کے انجذاب میں مدد کرتی ہے۔
گُردوں کے افعال میں خرابی انسانی صحت کو شدید متأثر کرتی ہے۔ انتہائی صورت میں امراض گُردہ جان لیوا بھی ثابت ہوتے ہیں۔ پاکستان میںگردے کے امراض سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد سالانہ بیس ہزار سے زائد ہے، جب کہ تین کروڑ کے لگ بھگ شہری گردوں کی بیماریوں کا شکار ہیں۔
امراض گُردہ
٭ گُردے فیل ہوجانا: سب سے عام مرض گُردوں کا فعل کا متأثر ہوجانا ہے۔ عرف عام میں اسے گُردوں کا فیل ہوجانا بھی کہتے ہیں۔ اس مرض میں گردے کمزور ہوجاتے ہیں اور اپنا کام پوری طرح انجام نہیں دے پاتے۔ اس صورت میں مریض کو ڈائلاسس کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس طریقے میں مشین کے ذریعے خون سے فاسد مادّے اور اضافی پانی نکالا جاتا ہے۔
٭پتھری کا بننا: گُردوں کا دوسرا سب سے عام مرض ان اعضا میں پتھری کا بننا ہے۔ پتھری اس وقت بنتی ہے جب معدنیات اور خون میں موجود فاضل مادّے ٹھوس شکل اختیار کرنے لگتے ہیں۔ پتھری، گُردوں سے فاسد مادّوں کے اخراج میں رکاوٹ پیدا کرتی ہے۔ اس کی وجہ سے مریض کو اخراج بول کے دوران انتہائی تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تاہم پتھری مہلک ثابت نہیں ہوتی۔
٭گُردوں میں سوجن : طبی زبان اس مرض کو glomerulonephritis کہا جاتا ہے۔ گُردے کے اندر انتہائی مہین ساختیں ہوتی ہیں جو glomeruli کہلاتی ہیں۔ یہی ساختیں خون کو صاف کرتی ہیں۔انفیکشن، بعض ادویات کے استعمال یا کسی اور وجہ سے ان ساختوں میں سوجن پیدا ہوجاتی ہے۔
٭ تھیلی نما ساختوں کا بننا: یہ ایک جینیاتی مرض ہے جس میںگُردوں کے اندر چھوٹی چھوٹی تھیلیاں بن جاتے ہیں جن میں مائع بھرا ہوتا ہے۔ یہ تھیلیاں گُردوں کے افعال میں رکاوٹ پیدا کرکے ان کے ناکارہ ہونے کا سبب بن سکتی ہیں۔
٭ نظام بول میں انفیکشن : اس صورت میں بولی نظام میں کہیں بھی انفیکشن ہوجاتا ہے۔ مثانے اور پیشاب کی نالی کا انفیکشن سب سے عام ہے۔ اس کا علاج بہ آسانی ہوجاتا ہے۔ تاہم علاج میں تاخیر گردوں کے ناکارہ ہونے کا سبب بن سکتی ہے۔
علامات
یہ بات قابل توجہ ہے کہ گُردے کی بیماریوں کا پتا اس وقت چلتا ہے جب یہ خاصی بڑھ چکی ہوتی ہیں۔ ایسی صورت میں درج ذیل علامات محسوس ہونے پر فوراً ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے: بھوک کا نہ لگنا، جسمانی و ذہنی تھکن، یادداشت کی کمزوری، نیند کا نہ آنا، پٹھوں میں کھچاؤ، پیروں ؍ ٹخنوں میں سوجن، بیدار ہونے پر آنکھوں کے گرد سوجن محسوس ہونا، جلد کا خشک ہونا، پیشاب کا بار بار آنا ( بالخصوص رات کے پچھلے پہر )۔
متلی یا قے ہونا، بُھوک کا اُڑ جانا، پیشاب کی مقدار میں کمی بیشی، پیشاب کا رُک جانا، خون کی کمی، جنسی اشتہا میں کمی، پوٹاشیئم کی سطح کا اچانک بلند ہوجانا؛ یہ وہ علامات ہیں جن کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ آپ کی بیماری شدت اختیار کررہی ہے اور گُردوں کے ناکارہ ہونے کا باعث بن سکتی ہے۔
وجوہات
ایک شخص کے گُردوں کے امراض کا شکار ہونے کی مختلف وجوہ ہوسکتی ہیں۔ وہ افراد جو ذیابیطس میں مبتلا ہیں، انھیں گُردوں کے امراض لاحق ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ ذیابیطس گُردوں کی بیماریوں کا سب سے اہم سبب ہے۔ گُردوں کے 44 فی صد مریض اس مرض کا بھی شکار ہوتے ہیں۔ اس کا علاوہ بلند فشار خون ( ہائی بلڈ پریشر) بھی گُردوں کے مرض میں مبتلا کرتا ہے۔ مُٹاپا، ورزش نہ کرنا، غذا میں بے اعتدالی، پانی کا کم مقدار میں پینا بھی گُردوں کے مرض کا شکار بناسکتا ہے۔
علاج
گُردوں کے کئی امراض کا علاج ادویہ سے ہوسکتا ہے۔ شدید صورتوں میں ڈائلاسس اور ٹرانسپلانٹ کی ضرورت پڑتی ہے۔ مرض شدید ہونے پر لاعلاج ہوجاتا ہے اور مریض کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔
احتیاط
ہر مرض کی امراض گُردہ سے محفوظ رکھنے میں بھی احتیاط اہم کردار ادا کرتی ہے۔
صحت بخش طرززندگی اپنائیں۔ متوازن غذا اور زیادہ مقدار میں پانی کا استعمال، ورزش، ہر قسم کے نشے سے پرہیز امراض گُردہ سے بچاتا ہے۔ ذیابیطس اور فشارخون کو کنٹرول میں رکھنا بھی گُردے کی بیماریوں سے محفوظ رہنے کے لیے ضروری ہے۔
لوبیے کی شکل کے یہ اخراجی اعضا پسلیوں کے نیچے، ریڑھ کے ہڈی کے دونوں اطراف پائے جاتے ہیں۔ ان کا کام جسم سے فاسد مادّوں کا اخراج ہے۔ یہ خون میں پیدا ہونے والے غیرضروری اور فاسد مادّوں اور زائد پانی کو الگ کرکے مثانے میں بھیج دیتے ہیں، جہاں سے یہ زہریلا آمیزہ خارج ہوتا رہتا ہے۔ یہ اعضا جسم میں پانی ، نمکیات اور دیگر مادّوں کے مابین توازن برقرار رکھتے ہیں۔ توازن بگڑنے سے انسان مختلف بیماریوں کا شکار ہوسکتا ہے۔
گُردوں سے کئی قسم کے ہارمون کا بھی اخراج ہوتا ہے جو فشار خون ( بلڈ پریشر) کو معتدل رکھتے اور سُرخ جسیموں کی پیدائش کوکنٹرول کرتے ہیں۔ یہ اعضا وٹامن ڈی کی ایک قسم کو تحریک دیتے ہیں جو جسم میں کیلشیئم کے انجذاب میں مدد کرتی ہے۔
گُردوں کے افعال میں خرابی انسانی صحت کو شدید متأثر کرتی ہے۔ انتہائی صورت میں امراض گُردہ جان لیوا بھی ثابت ہوتے ہیں۔ پاکستان میںگردے کے امراض سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد سالانہ بیس ہزار سے زائد ہے، جب کہ تین کروڑ کے لگ بھگ شہری گردوں کی بیماریوں کا شکار ہیں۔
امراض گُردہ
٭ گُردے فیل ہوجانا: سب سے عام مرض گُردوں کا فعل کا متأثر ہوجانا ہے۔ عرف عام میں اسے گُردوں کا فیل ہوجانا بھی کہتے ہیں۔ اس مرض میں گردے کمزور ہوجاتے ہیں اور اپنا کام پوری طرح انجام نہیں دے پاتے۔ اس صورت میں مریض کو ڈائلاسس کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس طریقے میں مشین کے ذریعے خون سے فاسد مادّے اور اضافی پانی نکالا جاتا ہے۔
٭پتھری کا بننا: گُردوں کا دوسرا سب سے عام مرض ان اعضا میں پتھری کا بننا ہے۔ پتھری اس وقت بنتی ہے جب معدنیات اور خون میں موجود فاضل مادّے ٹھوس شکل اختیار کرنے لگتے ہیں۔ پتھری، گُردوں سے فاسد مادّوں کے اخراج میں رکاوٹ پیدا کرتی ہے۔ اس کی وجہ سے مریض کو اخراج بول کے دوران انتہائی تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تاہم پتھری مہلک ثابت نہیں ہوتی۔
٭گُردوں میں سوجن : طبی زبان اس مرض کو glomerulonephritis کہا جاتا ہے۔ گُردے کے اندر انتہائی مہین ساختیں ہوتی ہیں جو glomeruli کہلاتی ہیں۔ یہی ساختیں خون کو صاف کرتی ہیں۔انفیکشن، بعض ادویات کے استعمال یا کسی اور وجہ سے ان ساختوں میں سوجن پیدا ہوجاتی ہے۔
٭ تھیلی نما ساختوں کا بننا: یہ ایک جینیاتی مرض ہے جس میںگُردوں کے اندر چھوٹی چھوٹی تھیلیاں بن جاتے ہیں جن میں مائع بھرا ہوتا ہے۔ یہ تھیلیاں گُردوں کے افعال میں رکاوٹ پیدا کرکے ان کے ناکارہ ہونے کا سبب بن سکتی ہیں۔
٭ نظام بول میں انفیکشن : اس صورت میں بولی نظام میں کہیں بھی انفیکشن ہوجاتا ہے۔ مثانے اور پیشاب کی نالی کا انفیکشن سب سے عام ہے۔ اس کا علاج بہ آسانی ہوجاتا ہے۔ تاہم علاج میں تاخیر گردوں کے ناکارہ ہونے کا سبب بن سکتی ہے۔
علامات
یہ بات قابل توجہ ہے کہ گُردے کی بیماریوں کا پتا اس وقت چلتا ہے جب یہ خاصی بڑھ چکی ہوتی ہیں۔ ایسی صورت میں درج ذیل علامات محسوس ہونے پر فوراً ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے: بھوک کا نہ لگنا، جسمانی و ذہنی تھکن، یادداشت کی کمزوری، نیند کا نہ آنا، پٹھوں میں کھچاؤ، پیروں ؍ ٹخنوں میں سوجن، بیدار ہونے پر آنکھوں کے گرد سوجن محسوس ہونا، جلد کا خشک ہونا، پیشاب کا بار بار آنا ( بالخصوص رات کے پچھلے پہر )۔
متلی یا قے ہونا، بُھوک کا اُڑ جانا، پیشاب کی مقدار میں کمی بیشی، پیشاب کا رُک جانا، خون کی کمی، جنسی اشتہا میں کمی، پوٹاشیئم کی سطح کا اچانک بلند ہوجانا؛ یہ وہ علامات ہیں جن کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ آپ کی بیماری شدت اختیار کررہی ہے اور گُردوں کے ناکارہ ہونے کا باعث بن سکتی ہے۔
وجوہات
ایک شخص کے گُردوں کے امراض کا شکار ہونے کی مختلف وجوہ ہوسکتی ہیں۔ وہ افراد جو ذیابیطس میں مبتلا ہیں، انھیں گُردوں کے امراض لاحق ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ ذیابیطس گُردوں کی بیماریوں کا سب سے اہم سبب ہے۔ گُردوں کے 44 فی صد مریض اس مرض کا بھی شکار ہوتے ہیں۔ اس کا علاوہ بلند فشار خون ( ہائی بلڈ پریشر) بھی گُردوں کے مرض میں مبتلا کرتا ہے۔ مُٹاپا، ورزش نہ کرنا، غذا میں بے اعتدالی، پانی کا کم مقدار میں پینا بھی گُردوں کے مرض کا شکار بناسکتا ہے۔
علاج
گُردوں کے کئی امراض کا علاج ادویہ سے ہوسکتا ہے۔ شدید صورتوں میں ڈائلاسس اور ٹرانسپلانٹ کی ضرورت پڑتی ہے۔ مرض شدید ہونے پر لاعلاج ہوجاتا ہے اور مریض کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔
احتیاط
ہر مرض کی امراض گُردہ سے محفوظ رکھنے میں بھی احتیاط اہم کردار ادا کرتی ہے۔
صحت بخش طرززندگی اپنائیں۔ متوازن غذا اور زیادہ مقدار میں پانی کا استعمال، ورزش، ہر قسم کے نشے سے پرہیز امراض گُردہ سے بچاتا ہے۔ ذیابیطس اور فشارخون کو کنٹرول میں رکھنا بھی گُردے کی بیماریوں سے محفوظ رہنے کے لیے ضروری ہے۔