پانی کے نمونوں کی لیباریٹری رپورٹس کیا کہتی ہیں
سپریم کورٹ میں پیش کی گئی تجزیاتی رپورٹس کے اعدادو شمار
سپریم کورٹ میں پیش کی گئی رپورٹ میں کراچی ، حیدرآباد، لاڑکانہ، شکار پور، سکھر، بدین، تھرپارکر، ٹھٹھہ، ٹنڈو محمد خان، خیر پور، کشمور، سانگھڑ، مٹیاری، سجاول، جام شورو، عمرکوٹ، میرپورخاص، ٹنڈو الہ یار، جیکب آباد، دادو، گھوٹکی، قمبر شہداد کوٹ اور شہید بے نظیر آباد میں پینے کے پانی کے ذخائر کی جانچ کروائی ہے، یہاں ان میں سے آلودگی کے لحاظ سے سرفہرست شہروں کا ذکر کیا گیا ہے۔
٭ کراچی
سپریم کورٹ میں پیش کی گئی رپورٹس کے مطابق کراچی سے پینے کے پانی کے 84نمونے لیے گئے۔ جن میں سے دس نمونے گدلے پن کی وجہ سے پینے کے لیے غیرمحفوظ قرار دیے گئے۔ ان میں گدلے پن کی شرح 24 این ٹی یو (Nephelometric Turbidity Units) تک پائی گئی۔ عالمی ادارہ برائے صحت (ڈبلیو ایچ او) اور نیشنل انوائر مینٹل کوالٹی اسٹینڈرڈز (این ای کیو ایس) کے متعین کردہ معیار کے مطابق پینے کے پانی کے لیے این ٹی یو کی محفوظ سطح پانچ سے زائد نہیں ہونی چاہیے۔ نو سیمپلز میں ٹی ڈی ایس (ٹوٹل ڈی سولووڈ سالڈز) کی مقدار متعین کردہ شرح سے زیادہ تھی۔
ایک لیٹر پانی میں ٹی ڈی ایس کی مقدار ہزار ملی گرام پر 1ٹی ڈی ایس ہونی چاہیے، جب کہ ان میں اس کی مقدار 3846 ملی گرام فی لیٹر سے زاید پائی گئی۔ سات نمونوں میں ہارڈنیس ویلیوز 11سو ملی گرام فی لیٹر پائی گئی۔ ڈبلیو ایچ اوکے مطابق یہ شرح 5سو ملی گرام فی لیٹر سے تجاوز نہیں کرنی چاہیے۔ گیارہ کوسوڈیم کی مقرر کردہ مقدار (دو سوملی گرام فی لیٹر) سے زاید ہونے پر انسانی استعمال کے لیے غیرمحفوظ قرار دیے گئے۔ ان میں سے کچھ میں سوڈیم کی مقدار 835 ملی گرام فی لیٹر سے بھی زاید تھی۔ ڈبلیو ایچ او نے پینے کے پانی میں گندھک کی شرح 25oملی گرام فی لیٹر متعین کی ہے، جب کہ سات نمونوں میں یہ 440ملی گرام فی لیٹر تک پائی گئی۔
اسی طرح آٹھ نمونوں میں کلورائیڈ آئن کی شرح 1438ملی گرام فی لیٹر تک تھی۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق ایک لیٹر پانی میں کلورائیڈ آئنز کی سطح 250ملی گرام تک ہونی چاہیے ورنہ یہ پانی پینے کے لیے محفوظ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ پانی کے تین نمونوں میں فلورائیڈ کی پیمائش 2.23ملی گرام فی لیٹر پائی گئی۔ ڈبلیوایچ او نے پینے کے پانی میں ڈیڑھ ملی گرام فی لیٹر کی سطح کو محفوظ قرار دیا ہے۔
پانی کے دو نمونوں میں نائٹریٹ۔ نائٹروجن کی شرح ڈبلیو ایچ او کی متعین کردہ شرح (دس ملی گرام فی لیٹر) سے دوگنی ( 20.45ملی گرام فی لیٹر) پائی گئی، جب کہ ایک نمونے میں لوہے کی مقدار ڈبلیو ایچ او کی متعین کردہ شرح (0.3 ملی گرام فی لیٹر) سے زاید پائی گئی۔ خورد بینی آلودگی کی جانچ کے لیے پانی کے ان 84 نمونوں میں سے 67 نمونے سطحی اور زیرزمین آبی ذخائر سے لیے گئے تھے جو انسانی استعمال کے لیے غیرمحفوظ قرار دیے گئے۔ ان 67نمونوں میں کولی فارمز (بیکٹریولوجیکل آلودگی) کی حد ڈبلیو ایچ او کی تجویز کردہ حد (صفرسی ایف یو ملی گرام فی سو ملی لیٹر) سے زاید تھی۔ ان میں سے تیس سیمپل میں ای کولائی (فضلے میں پائے جانے والا بیکٹریا) ہر سو ملی لیٹر میں ایک پایا گیا۔ مائیکرو بایو لوجیکل ٹیسٹ کے بعد 67میں سے صرف سترہ نمونوں کو پینے کے لیے محفوظ قرار دیا گیا۔
٭حیدرآباد
حیدرآباد سے پینے کے پانی کے 33نمونے حاصل کیے گئے، جن میں سے چھے سیمپل پینے کے لیے غیرمحفوظ قرار پائے کیوں کہ ان میں آلودگی کی شرح 60.2این ٹی یو تک پائی گئی۔ پانی کے دو نمونوں کو رنگ کی آمیزش اور تین کو گندھک کی مقدار مقررہ حد (250ملی گرام فی لیٹر) سے زاید ہونے پر پینے اور انسانی استعمال کے لیے غیرمحفوط قرار دیا گیا۔ تین فی صد نمونوں یعنی 33میں سے ایک ایک نمونے میں ٹی ڈی ایس، کیلشیم، سلفیٹ، لوہے اور ہارڈنیس کی شرح ڈبلیو ایچ او کی مقررہ حد زاید پائی گئی۔
ڈبلیو ایچ او کے متعین کردہ معیار کے مطابق پینے کے پانی میں ٹی ڈی ایس کی شرح فی ہزار ملی گرام پر 1، سوڈیم کی مقدار دو سو ملی گرام فی لیٹر، کلورائیڈ آئنز کی مقدار250ملی گرام فی لیٹر اور فلورائیڈ کی سطح ڈیڑھ ملی گرام فی لیٹر مقرر کی گئی ہے۔ پانی کے 33نمونوں میں سے 28 نمونوں کی خرد بینی جانچ کی گئی جس میں کولی فارمز (بیکٹریولوجیکل آلودگی ) کی حد ڈبلیو ایچ او کی تجویز کردہ حد (صفرسی ایف یو ملی گرام فی سو ملی لیٹر) سے زاید تھی۔27فی صد(9) میں نمونوں میں ای کولائی (فضلے میں پائے جانے والا بیکٹریا)1سے 11 سی ایف یو فی ملی لیٹر پایا گیا۔ مجموعی سیمپلز میں سے صرف سترہ نمونوں کو پینے کے محفوظ قرار دیا گیا۔
٭لاڑکانہ
لاڑکانہ سے پانی کے 33 نمونے میں سے 21 فی صد میں گدلے پن کی شرح 42.4 این ٹی یو تک پائی گئی۔61 فی صد میں ٹی ڈی ایس (ٹوٹل ڈی سولووڈ سالڈز) کی مقدار متعین کردہ مقدار سے زیادہ 4646ملی گرام فی لیٹر گئی۔ 21 میں سوڈیم اور سلفیٹ کی مقدار ڈبلیو ایچ او کے متعین کردہ معیار بالترتیب ( 200 اور250 ملی گرام فی لیٹر ) سے زاید تھی۔ جو کہ بالترتیب 1270ملی گرام فی لیٹر اور1440ملی گرام فی لیٹر تھی۔ تیس فی صد نمونوں میں کلورائیڈ آئن کی شرح 886ملی گرام فی لیٹر تک پائی گئی۔ چھے نمونوں میں ہارڈنیس ویلیوز820 ملی گرام فی لیٹر پائی گئی۔ لاڑکانہ سے حاصل کیے گئے پانی کے 33نمونوں میں سے 88فی صد (29) نمونے کولی فارمز کی وجہ سے پینے کے لیے غیرمحفوظ قرار دیے گئے۔ ڈبلیو ایچ او نے صفر سی ایف یو ملی گرام فی سو ملی لیٹر متعین کی ہے۔ تاہم ان میں سے 5نمونوں میں ای کولائی ( فضلے میں پائے جانے والا بیکٹریا) پایا گیا، جب کہ صرف بارہ فی صد سیمپلز کو پینے کے لیے محفوظ قرار دیا گیا۔
٭ شکار پور
شکار پور سے پانی کے 28 نمونوں میں سے چارکو گدلے پن کی بلند شرح، ٹی ڈی ایس کی مقررہ مقدار اور پانی میں رنگ کی آمیزش کی وجہ سے پینے کے لیے غیرمحفوظ قرار دیا گیا۔ 46 فی صد سیمپلز میں ٹی ڈی ایس 2470 ملی گرام فی لیٹر، سوڈیم 670ملی گرام فی لیٹر، کلورائیڈ 851ملی گرام فی لیٹر پایا گیا۔ گیارہ میں سلفیٹ مقرر کردہ حد ( 250ملی گرام فی لیٹر) سے زاید 510ملی گرام فی لیٹر تھا۔ پانچ نمونے ہارڈنیس ویلیوز 850 ملی گرام فی لیٹر کی وجہ سے غیرمحفوظ قرار پائے۔ گیارہ فی صد نمونوں میں پوٹاشیم کی مقدار مقررہ حد ( 30ملی گرام فی لیٹر) سے تین گنا زاید (96ملی گرام فی لیٹر) پائی گئی۔ 22 نمونوں میں کولی فارمز (فضلے میں پائے جانے والے بیکٹریا) پائے گئے۔
٭ سکھر
سکھر سے لیے گئے 40 نمونوں میں سے چالیس فی صد میں گدلاپن اور دس نمونوں میں بیرونی رنگ کی آمیزش پائی گئی۔ آٹھ فی صد کو خراب ذائقے کی بنیاد پر پینے کے لیے غیرمحفوظ قرار دیا گیا۔ پانچ فی صد میں ٹی ڈی ایس 2470 ملی گرام فی لیٹر، سوڈیم 410 ملی گرام فی لیٹر، کلورائیڈ 319ملی گرام فی لیٹر پایا گیا۔ تین نمونوں کو سلفیٹ کی بلند شرح (1120ملی گرام فی لیٹر) کی وجہ سے پینے کے لیے غیرمحفوظ قرار دیا گیا۔ آٹھ فی صد میں فلورائیڈ کی شرح مقررہ شرح سے دگنی پائی گئی۔ سات نمونوں میں آئرن کی مقدار مقرر کردہ شرح ( 0.3 ملی گرام فی لیٹر) سے بہت زیادہ1.7406ملی گرام فی لیٹر پائی گئی۔ تیس فی صد نمونوں میں کولی فارمز پائے گئے۔ چالیس میں سے صرف سات نمونوں کو پینے اور انسانی استعمال کے لیے محفوظ قرار دیا گیا۔
٭بدین، تھرپارکر، ٹھٹھہ، ٹنڈو محمد خان
بدین سے 45نمونوں لیے گئے، نو میں پی ایچ کی بلند سطح پائی گئی۔ بارہ میں ٹی ڈی ایس، گیارہ میں سوڈیم، بارہ میں کلورائیڈ، سات میں سلفیٹ، اور تین میں فلورائیڈ کی بلند مقدار پائی گئی۔ تھرپارکر سے سترہ نمونے لیے گئے، جن میں نو میں ٹی ڈی ایس، دو میں کیلشیم، ایک میں نائٹریٹ، ایک میں پوٹاشیم، ایک میں فلورائیڈ، تین میں میگنیشیم کی بلند مقدار پائی گئی۔
ٹنڈو محمد خان سے پندرہ نمونے لیے گئے، جن میں آٹھ میں ٹی ڈی ایس، دو میں سوڈیم، چار میں ہارڈ ویلیوز اور ایک میں میگنیشیم کی زیادہ مقدار پائی گئی۔
٭ کراچی
سپریم کورٹ میں پیش کی گئی رپورٹس کے مطابق کراچی سے پینے کے پانی کے 84نمونے لیے گئے۔ جن میں سے دس نمونے گدلے پن کی وجہ سے پینے کے لیے غیرمحفوظ قرار دیے گئے۔ ان میں گدلے پن کی شرح 24 این ٹی یو (Nephelometric Turbidity Units) تک پائی گئی۔ عالمی ادارہ برائے صحت (ڈبلیو ایچ او) اور نیشنل انوائر مینٹل کوالٹی اسٹینڈرڈز (این ای کیو ایس) کے متعین کردہ معیار کے مطابق پینے کے پانی کے لیے این ٹی یو کی محفوظ سطح پانچ سے زائد نہیں ہونی چاہیے۔ نو سیمپلز میں ٹی ڈی ایس (ٹوٹل ڈی سولووڈ سالڈز) کی مقدار متعین کردہ شرح سے زیادہ تھی۔
ایک لیٹر پانی میں ٹی ڈی ایس کی مقدار ہزار ملی گرام پر 1ٹی ڈی ایس ہونی چاہیے، جب کہ ان میں اس کی مقدار 3846 ملی گرام فی لیٹر سے زاید پائی گئی۔ سات نمونوں میں ہارڈنیس ویلیوز 11سو ملی گرام فی لیٹر پائی گئی۔ ڈبلیو ایچ اوکے مطابق یہ شرح 5سو ملی گرام فی لیٹر سے تجاوز نہیں کرنی چاہیے۔ گیارہ کوسوڈیم کی مقرر کردہ مقدار (دو سوملی گرام فی لیٹر) سے زاید ہونے پر انسانی استعمال کے لیے غیرمحفوظ قرار دیے گئے۔ ان میں سے کچھ میں سوڈیم کی مقدار 835 ملی گرام فی لیٹر سے بھی زاید تھی۔ ڈبلیو ایچ او نے پینے کے پانی میں گندھک کی شرح 25oملی گرام فی لیٹر متعین کی ہے، جب کہ سات نمونوں میں یہ 440ملی گرام فی لیٹر تک پائی گئی۔
اسی طرح آٹھ نمونوں میں کلورائیڈ آئن کی شرح 1438ملی گرام فی لیٹر تک تھی۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق ایک لیٹر پانی میں کلورائیڈ آئنز کی سطح 250ملی گرام تک ہونی چاہیے ورنہ یہ پانی پینے کے لیے محفوظ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ پانی کے تین نمونوں میں فلورائیڈ کی پیمائش 2.23ملی گرام فی لیٹر پائی گئی۔ ڈبلیوایچ او نے پینے کے پانی میں ڈیڑھ ملی گرام فی لیٹر کی سطح کو محفوظ قرار دیا ہے۔
پانی کے دو نمونوں میں نائٹریٹ۔ نائٹروجن کی شرح ڈبلیو ایچ او کی متعین کردہ شرح (دس ملی گرام فی لیٹر) سے دوگنی ( 20.45ملی گرام فی لیٹر) پائی گئی، جب کہ ایک نمونے میں لوہے کی مقدار ڈبلیو ایچ او کی متعین کردہ شرح (0.3 ملی گرام فی لیٹر) سے زاید پائی گئی۔ خورد بینی آلودگی کی جانچ کے لیے پانی کے ان 84 نمونوں میں سے 67 نمونے سطحی اور زیرزمین آبی ذخائر سے لیے گئے تھے جو انسانی استعمال کے لیے غیرمحفوظ قرار دیے گئے۔ ان 67نمونوں میں کولی فارمز (بیکٹریولوجیکل آلودگی) کی حد ڈبلیو ایچ او کی تجویز کردہ حد (صفرسی ایف یو ملی گرام فی سو ملی لیٹر) سے زاید تھی۔ ان میں سے تیس سیمپل میں ای کولائی (فضلے میں پائے جانے والا بیکٹریا) ہر سو ملی لیٹر میں ایک پایا گیا۔ مائیکرو بایو لوجیکل ٹیسٹ کے بعد 67میں سے صرف سترہ نمونوں کو پینے کے لیے محفوظ قرار دیا گیا۔
٭حیدرآباد
حیدرآباد سے پینے کے پانی کے 33نمونے حاصل کیے گئے، جن میں سے چھے سیمپل پینے کے لیے غیرمحفوظ قرار پائے کیوں کہ ان میں آلودگی کی شرح 60.2این ٹی یو تک پائی گئی۔ پانی کے دو نمونوں کو رنگ کی آمیزش اور تین کو گندھک کی مقدار مقررہ حد (250ملی گرام فی لیٹر) سے زاید ہونے پر پینے اور انسانی استعمال کے لیے غیرمحفوط قرار دیا گیا۔ تین فی صد نمونوں یعنی 33میں سے ایک ایک نمونے میں ٹی ڈی ایس، کیلشیم، سلفیٹ، لوہے اور ہارڈنیس کی شرح ڈبلیو ایچ او کی مقررہ حد زاید پائی گئی۔
ڈبلیو ایچ او کے متعین کردہ معیار کے مطابق پینے کے پانی میں ٹی ڈی ایس کی شرح فی ہزار ملی گرام پر 1، سوڈیم کی مقدار دو سو ملی گرام فی لیٹر، کلورائیڈ آئنز کی مقدار250ملی گرام فی لیٹر اور فلورائیڈ کی سطح ڈیڑھ ملی گرام فی لیٹر مقرر کی گئی ہے۔ پانی کے 33نمونوں میں سے 28 نمونوں کی خرد بینی جانچ کی گئی جس میں کولی فارمز (بیکٹریولوجیکل آلودگی ) کی حد ڈبلیو ایچ او کی تجویز کردہ حد (صفرسی ایف یو ملی گرام فی سو ملی لیٹر) سے زاید تھی۔27فی صد(9) میں نمونوں میں ای کولائی (فضلے میں پائے جانے والا بیکٹریا)1سے 11 سی ایف یو فی ملی لیٹر پایا گیا۔ مجموعی سیمپلز میں سے صرف سترہ نمونوں کو پینے کے محفوظ قرار دیا گیا۔
٭لاڑکانہ
لاڑکانہ سے پانی کے 33 نمونے میں سے 21 فی صد میں گدلے پن کی شرح 42.4 این ٹی یو تک پائی گئی۔61 فی صد میں ٹی ڈی ایس (ٹوٹل ڈی سولووڈ سالڈز) کی مقدار متعین کردہ مقدار سے زیادہ 4646ملی گرام فی لیٹر گئی۔ 21 میں سوڈیم اور سلفیٹ کی مقدار ڈبلیو ایچ او کے متعین کردہ معیار بالترتیب ( 200 اور250 ملی گرام فی لیٹر ) سے زاید تھی۔ جو کہ بالترتیب 1270ملی گرام فی لیٹر اور1440ملی گرام فی لیٹر تھی۔ تیس فی صد نمونوں میں کلورائیڈ آئن کی شرح 886ملی گرام فی لیٹر تک پائی گئی۔ چھے نمونوں میں ہارڈنیس ویلیوز820 ملی گرام فی لیٹر پائی گئی۔ لاڑکانہ سے حاصل کیے گئے پانی کے 33نمونوں میں سے 88فی صد (29) نمونے کولی فارمز کی وجہ سے پینے کے لیے غیرمحفوظ قرار دیے گئے۔ ڈبلیو ایچ او نے صفر سی ایف یو ملی گرام فی سو ملی لیٹر متعین کی ہے۔ تاہم ان میں سے 5نمونوں میں ای کولائی ( فضلے میں پائے جانے والا بیکٹریا) پایا گیا، جب کہ صرف بارہ فی صد سیمپلز کو پینے کے لیے محفوظ قرار دیا گیا۔
٭ شکار پور
شکار پور سے پانی کے 28 نمونوں میں سے چارکو گدلے پن کی بلند شرح، ٹی ڈی ایس کی مقررہ مقدار اور پانی میں رنگ کی آمیزش کی وجہ سے پینے کے لیے غیرمحفوظ قرار دیا گیا۔ 46 فی صد سیمپلز میں ٹی ڈی ایس 2470 ملی گرام فی لیٹر، سوڈیم 670ملی گرام فی لیٹر، کلورائیڈ 851ملی گرام فی لیٹر پایا گیا۔ گیارہ میں سلفیٹ مقرر کردہ حد ( 250ملی گرام فی لیٹر) سے زاید 510ملی گرام فی لیٹر تھا۔ پانچ نمونے ہارڈنیس ویلیوز 850 ملی گرام فی لیٹر کی وجہ سے غیرمحفوظ قرار پائے۔ گیارہ فی صد نمونوں میں پوٹاشیم کی مقدار مقررہ حد ( 30ملی گرام فی لیٹر) سے تین گنا زاید (96ملی گرام فی لیٹر) پائی گئی۔ 22 نمونوں میں کولی فارمز (فضلے میں پائے جانے والے بیکٹریا) پائے گئے۔
٭ سکھر
سکھر سے لیے گئے 40 نمونوں میں سے چالیس فی صد میں گدلاپن اور دس نمونوں میں بیرونی رنگ کی آمیزش پائی گئی۔ آٹھ فی صد کو خراب ذائقے کی بنیاد پر پینے کے لیے غیرمحفوظ قرار دیا گیا۔ پانچ فی صد میں ٹی ڈی ایس 2470 ملی گرام فی لیٹر، سوڈیم 410 ملی گرام فی لیٹر، کلورائیڈ 319ملی گرام فی لیٹر پایا گیا۔ تین نمونوں کو سلفیٹ کی بلند شرح (1120ملی گرام فی لیٹر) کی وجہ سے پینے کے لیے غیرمحفوظ قرار دیا گیا۔ آٹھ فی صد میں فلورائیڈ کی شرح مقررہ شرح سے دگنی پائی گئی۔ سات نمونوں میں آئرن کی مقدار مقرر کردہ شرح ( 0.3 ملی گرام فی لیٹر) سے بہت زیادہ1.7406ملی گرام فی لیٹر پائی گئی۔ تیس فی صد نمونوں میں کولی فارمز پائے گئے۔ چالیس میں سے صرف سات نمونوں کو پینے اور انسانی استعمال کے لیے محفوظ قرار دیا گیا۔
٭بدین، تھرپارکر، ٹھٹھہ، ٹنڈو محمد خان
بدین سے 45نمونوں لیے گئے، نو میں پی ایچ کی بلند سطح پائی گئی۔ بارہ میں ٹی ڈی ایس، گیارہ میں سوڈیم، بارہ میں کلورائیڈ، سات میں سلفیٹ، اور تین میں فلورائیڈ کی بلند مقدار پائی گئی۔ تھرپارکر سے سترہ نمونے لیے گئے، جن میں نو میں ٹی ڈی ایس، دو میں کیلشیم، ایک میں نائٹریٹ، ایک میں پوٹاشیم، ایک میں فلورائیڈ، تین میں میگنیشیم کی بلند مقدار پائی گئی۔
ٹنڈو محمد خان سے پندرہ نمونے لیے گئے، جن میں آٹھ میں ٹی ڈی ایس، دو میں سوڈیم، چار میں ہارڈ ویلیوز اور ایک میں میگنیشیم کی زیادہ مقدار پائی گئی۔