’سولر پروب پلس‘ خلائی جہاز سورج کے رازوں سے پردہ اٹھائے گا

سیاروں اور سیارچوں کے بعد اب حضرت انسان کی نگاہیں سورج کو کھوجنے پر مرکوز ہیں۔

سورج کے سطحی اور فضائی درجۂ حرارت میں یہ نمایاں فرق سائنس دانوں کے لیے ہنوز ایک بڑا معمّا ہے۔ فوٹو : فائل

خلائے بسیط کے پوشیدہ رازوں سے آگاہی حاصل کرنے کے لیے خلائی جہاز بھیجنے کا سلسلہ بیسویں صدی میں شروع ہوا تھا۔ چند عشروں کے دوران چاند، مریخ، نیپچون، عطارد اور زہرہ کے علاوہ کئی سیارچوں کی جانب خلائی جہاز روانہ کیے گئے۔

جدید تحقیقی آلات سے لیس خلائی جہازوں نے خلا اور اجرام فلکی کے بارے میں انسان کو بیش بہا معلومات ارسال کیں۔ آج بھی مریخ کی سرزمین پر اورکئی سیارچوں کے مدار میں خلائی جہاز فعال ہیں، اور زمین پر قیمتی معلومات ارسال کررہے ہیں۔

سیاروں اور سیارچوں کے بعد اب حضرت انسان کی نگاہیں سورج کو کھوجنے پر مرکوز ہیں۔ وہ نظام شمسی کے مرکز کے بارے میں اپنے علم میں اضافے کے لیے بے چین ہے۔ اسرارشمسی سے پردہ اٹھانے کے لیے ناسا آئندہ برس سورج کی جانب تحقیقی مشن روانہ کررہا ہے۔ اس روبوٹ خلائی جہاز کو Solar Probe Plus کا نام دیا گیا ہے۔

یہاں ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ خلائی جہاز سورج کی سطح پر اترے گا یا اس کے مدار میں معلق رہے گا؟ سورج کی سطح پر خلائی جہاز کا اتارا جانا ممکن نہیں کیوں کہ اب تک ایسا میٹیریل تیار نہیں کیا جاسکا جو اس قدر بلند درجۂ حرارت برداشت کرسکے۔ اسی لیے سولر پروب پلس سورج سے چالیس لاکھ میل کے فاصلے پر پہنچ کر ٹھہر جائے گا۔

سطح شمس پر درجۂ حرارت 10000 ڈگری سیلسیئس تک محدود رہتا ہے لیکن اگر اس کی فضا میں درجۂ حرارت کی پیمائش کی جاسکے تو پارہ 2000000 ڈگری سیلسیئس تک پہنچ جائے گا۔ یہ بڑا حیران کُن مظہر ہے۔ عام مشاہدہ ہے کہ ہم حرارت کے ماخذ سے جتنا دور ہوتے جائیں گے اتنا ہی درجۂ حرارت یا گرمی کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ سورج کے معاملے میں صورت حال برعکس ہے۔ اس کی فضا، سطح کے مقابلے میں بیس گنا زیادہ گرم ہے۔


سورج کے سطحی اور فضائی درجۂ حرارت میں یہ نمایاں فرق سائنس دانوں کے لیے ہنوز ایک بڑا معمّا ہے۔ سولر پروب پلس کی روانگی کے پس پردہ مقصد اسی گتھی کو سلجھانا ہے۔

اس کے علاوہ سائنس داں یہ بھی جاننے کے خواہاں ہیں کہ سورج سے خارج ہونے والی شعاعیں جنھیں شمسی ہوائیں بھی کہا جاتا ہے، انھیں رفتار کیسے ملتی ہے۔ باردار ذرات پر مشتمل یہ شعاعیں لاکھوں میل فی گھنٹہ کی رفتار سے ہر سمت میں پھیلتی چلی جاتی ہیں۔ سائنس داں یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ شمسی شعاعیں اتنی رفتار کیسے حاصل کرلیتی ہیں۔

شمسی شعاعوں کے وجود کا علم انسان کو قدیم زمانوں سے ہے۔ زمانۂ قدیم میں فلکیات سے دل چسپی رکھنے والوں نے مشاہدہ کرلیا تھا کہ دُم دار ستاروں کی دُم کا رُخ ہمیشہ سورج کے مخالف جانب ہوتا ہے چاہے وہ کسی بھی سمت میں گام زن ہوں۔ اس سے انھوں نے اندازہ لگایا کہ کوئی ایسے شے ( شمسی ہوا) سورج سے خارج ہورہی ہے جو ان ستاروں سے بھی زیادہ تیزرفتار ہے۔

تیسرا معمّا، جس کے حل ہونے کی امید اس خلائی جہاز سے کی جارہی ہے وہ یہ ہے کہ وقتاً فوقتاً سورج سے بلند توانائی کے حامل ذرات کا اخراج کیوں ہوتا ہے۔ یہ ذرات خلانوردوں اور خلائی جہازوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

سائنس داں زمین پر رہتے ہوئے ان تینوں کو معموں کو سمجھنے کی کوشش کرتے رہے ہیں مگر، ان کے مطابق، تفہیم کی راہ میں ارض و شمس کا باہمی فاصلہ سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ واضح رہے کہ زمین اور سورج کے درمیان نوکروڑ تیس لاکھ میل کی دوری ہے۔ اتنے فاصلے پر رہتے ہوئے فلکیات اور دوسرے خلائی علوم کے ماہرین کے لیے سطح شمس پر جاری سرگرمیوں کا کُلی علم حاصل کرنا ممکن نہیں۔ اس فاصلے میں کمی تفہیم کی راہیں آسان بنادے گی۔
Load Next Story