کمٹمنٹ
دنیا کا کوئی بھی شخص جسے قرآن کا ترجمہ پڑھنے کا موقعہ ملے، وہ شرک میں مبتلا ہو ہی نہیں سکتا
OTTAWA:
سیدقاسم محمود سے میرا تعارف ان کی زندگی کے آخری برسوں میں ہوا۔ سید صاحب کی زندگی کا بیشتر حصہ لاہور میں گزرا تھا، ان کا خاندان ہجرت کر کے لاہور ہی آباد ہوا۔ بعد میںجنرل ضیاء کے مارشل لاء کے ابتدائی زمانے میں ان کے لیے مسائل پیدا ہوئے۔انھوں نے ستارطاہر کی لکھی کتاب زندہ بھٹو ، مردہ بھٹو شایع کی تو ان کے ادارہ شاہکارکے لیے کام کرنا ناممکن بنا دیا گیا۔ سید قاسم محمود حیران کن صلاحیتوں کے حامل آدمی تھے۔ انھوںنے انفرادی حیثیت میں وہ کام کیے ،جن کے لیے ادارے درکار ہوتے ہیں۔
انسائیکلو پیڈیا پاکستانیکا، انسائیکلو پیڈیا اسلام ، انسائیکلوپیڈیا سیرت، تاریخ وتہذیب وغیرہ...ایک طویل فہرست ہے ان کے کاموں کی۔اس سے پہلے انھوں نے شاہکار سستی کتابیں چھاپ کر ایک انقلاب برپا کر دیا۔ اگر اس آئیڈیے کو آگے بڑھنے دیا جاتا تو آج بڑے بڑے پبلشرز کی مناپلی ختم ہو چکی ہوتی۔خود سوچیں مولانا آزاد کی شہرہ آفاق کتاب غبار خاطر جو بازار میں چار پانچ سوسے کم نہیں ملتی، شاہکار بکس میں صرف چالیس روپے میں مل جائے تو کون کسی اور طرف جائے گا؟
آخری دنوں میں انھوں نے دوبارہ سے وہ کتابیں چھاپنی شروع کیں،مگران کی زندگی کی مہلت ختم ہوچکی تھی۔ان کا ایک بڑا کام شاہکار ترجمہ قرآن تھا۔ اس میں سید صاحب نے ایک نیا کام یہ کیا تھا کہ قرآن کی آیت کے اردو ترجمہ کے ساتھ علامہ عبداللہ یوسف علی کا مشہور انگریزی ترجمہ قرآن بھی دے دیتے۔ طریقہ کار یہ تھا کہ پہلے مولانا فتح محمد جالندھری کا مشہور لفظی ترجمہ قرآن ، پھر اس کے ساتھ مودودی صاحب کا بامحاورہ ترجمہ قرآن دیا جاتا۔ہر پارے کے ساتھ قرآن کی تعبیر وتشریح کے حوالے سے مولانا امین احسن اصلاحی ، ڈاکٹرحمید اللہ یا کسی اور بڑے اسکالر کا کوئی معلوماتی مضمون بھی شامل ہوتا۔ یہ ترجمہ قرآن آج کل لاہور کے الفیصل پبلشرز شایع کر رہے ہیں۔
بات سید قاسم محمود سے ملاقات کے حوالے سے شروع ہوئی تھی۔ سید صاحب کو نوے کے عشرے کے وسط میں کراچی سے بوریا بستر سمیٹ کر واپس لاہور لوٹنا پڑا۔ کراچی میں ان کے صاحبزادے پرایک لسانی تنظیم کے لڑکوں نے خوفناک تشدد کیا اور وہ مرتے مرتے بچے۔سید صاحب نے عافیت اسی میں جانی کہ اپنے قدیمی مسکن لاہور واپس لوٹا جائے۔ میں ان دنوںلاہور کے ایک جریدے میں کام کر رہا تھا۔سیدقاسم محمود نے وہاں پر لکھنا شروع کیا۔ان سے ملاقاتیں شروع ہوئیں، وہ اپنے مضامین دینے دفتر آتے تو میرے کمرے میں کچھ وقت ضرور گزارتے،میں نے ٹی بیگ والی چائے کا انتظام اپنے طور پر کیا ہوا تھا،ان کی خدمت میں چائے پیش کرتے اور گپ شپ ہوتی۔
مجھے یاد ہے کہ انھوں نے اپنی بے حد دلچسپ آپ بیتی دھوپ چھائوں کے نام سے لکھنی شروع کی۔بعدمیں شائدوہ آپ بیتی کے لیے وقت ہی نہ نکال سکے، آخری دنوں میں انھوں نے انسائیکلو پیڈیا قرآنیات شروع کیا، اس کے پانچ چھ شمارے نکال بھی لیے، بیاسی،تراسی سال کی عمر میں بھی وہ اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے روزانہ کام کرتے تھے۔ ویسے سید صاحب کمال کے تخلیق کار تھے، ان کی ترجیحات مختلف رہیں، انسائیکلو پیڈیاز کے کٹھن کام نے ان کی توانائیاں نچوڑ لیں ،ورنہ بطور فکشن نگار وہ کسی سے کم نہیں تھے۔ ان کے افسانوں کے مجموعہ ''سید قاسم محمود کے افسانے''کے نام سے شایع ہوا تو بہت لوگ حیران رہ گئے۔ ایسے کمال کے افسانے انھوںنے لکھے اور کبھی اس کا تذکرہ تک نہیں کیا۔ میری ناچیز رائے میں تو وہ اردو کے صف اول کے افسانہ نگاروں میں شامل ہیں۔
ایک دن سید قاسم محمود صاحب نے واقعہ سنایا، وہ جاپان میں کسی تعلیمی دورے پر گئے تھے ،چند ماہ وہاں رہنے کا موقع ملا۔ بتانے لگے کہ ٹوکیومیں ایک روز ایک بک اسٹال پرکھڑا کتابیں الٹ پلٹ رہا تھا ، اچانک نظر ایک کتاب پر پڑی۔ ٹائٹل پر لکھا تھا،''دنیاکی عظیم ترین کتاب'' اسے حیرت سے اٹھا کر دیکھا تو وہ قرآن پاک کا جاپانی زبان میں ترجمہ تھا۔عربی آیات کے بغیر ہی کسی دعوتی ادارے نے صرف جاپانی زبان میں ترجمہ شایع کیا، صرف ایک مختصر نوٹ تھا ،'' یہ دنیا کی واحد الہامی کتاب ہے ، اس کا ترجمہ پڑھیے ، آپ کو خود یقین آجائے گا کہ یہ کتاب کسی انسان نے نہیں لکھی۔شروع میں ایک بار ترجمہ پڑھ لیں ،پھر دنیا کی یہ عظیم ترین کتاب عربی آیات مع ترجمہ کے پڑھیے اور پڑھتے رہیے۔''سید قاسم محمود کو یہ آئیڈیاپسند آیا۔
پاکستان آ کر انھوں نے کوشش کی کہ اسی طرز پر صرف ترجمہ قرآن ہی شایع کیا جائے۔ ان دنوں کتابت ہی ہوتی تھی، جب کاتبوں سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے قرآن پاک کی عربی آیات کے بغیر صرف ترجمہ کی کتابت کرنے سے انکار کر دیا۔ یوں یہ منصوبہ ادھورا رہ گیا اور پھر قاسم محمود نے شاہکار ترجمہ قرآن شایع کیا ،جس میں آیات کے ساتھ اردو اور انگریزی دونوںترجمے دیے گئے۔
سید صاحب ہمیں یہ اکثر یہ تلقین کرتے کہ قرآن کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ اس کو ترجمے کے ساتھ پڑھیں تاکہ اس کی عظمت کا درست اندازہ ہوسکے۔ افسوس تو یہ ہے کہ میرے جیسا بندہ جس کے پڑھنے کی رفتار بے حد تیز ہے اور جس نے ایک رات میں علی پور کا ایلی جیساضخیم ناول پڑھ لیاتھا، اپنی سستی ، نالائقی یا درست معنوںمیں غفلت کے باعث ترجمہ قرآن کی طرف توجہ نہ دے سکا۔ رمضان یا دیگر مواقع پر تھوڑی بہت تلاوت ہی کر لیتے،ترجمہ پڑھنے کی کوشش کی ،مگر روانی نہ ہوپاتی، ہر آیت کو پہلے عربی میں پڑھنا اور پھر اس کا ترجمہ پڑھنا، ساتھ میں تفسیر کے نوٹس ہوتے تو توجہ ادھر مبذول ہوجاتی، یوں کام ادھورا رہ جاتا۔
پچھلے رمضان میں مجھے ایک خیال آیا، میں نے سحری کے بعد ایک گھنٹے کے لیے قرآن کا صرف ترجمہ پڑھناشروع کیا۔ پہلے ایک دورکوع تلاوت کرلیتا تاکہ ضمیر مطمئن رہے۔ پھرصرف قرآن کا ترجمہ روانی سے پڑھتا چلا جاتا۔ دو تین دنوں میں مجھے جیسے کسی فسوں نے جکڑ لیا ہو۔ ایک عجیب تجربہ سے دوچار ہوا۔ جب قرآن پاک کے معنی آشکار ہوئے تو بہت سی غلط فہمیاں دور ہوتی گئیں۔ پہلی بات تو یہ ایک بارپھر قطعیت کے ساتھ واضح ہوگئی کہ یہ کلام کسی انسان کا ہو ہی نہیں سکتا۔
ایسی قوت، اتھارٹی، ہیبت اورعظمت کے ساتھ کوئی انسان گفتگو کر ہی نہیں سکتا۔ دوسرااللہ کی واحدانیت اور اس کی مطلق قوت کا درست اندازہ ہوا۔ ہمارے ہاں بعض مسالک کے لوگ شرک کے خلاف بہت زیادہ بولتے اور لکھتے ہیں۔ میرا خیال ہے دنیا کا کوئی بھی شخص جسے قرآن کا ترجمہ پڑھنے کا موقعہ ملے، وہ شرک میں مبتلا ہو ہی نہیں سکتا۔جو قوت، ہیبت اور شان قرآن کے اسلوب میں ہے ،اس کا اندازہ اسے پڑھنے سے ہی ہوسکتا ہے۔ پچھلے سال حسن اتفاق سے میرے پاس کئی ترجمہ قرآن اکٹھے ہوگئے۔ پہلے ہمارے دوست ڈاکٹر اظہار ہاشمی نے تفہیم القرآن کا سیٹ اور سیرت کی مشہور کتاب الرحیق المختوم دی۔پھر ڈاکٹر عاصم اللہ بخش نے ازراہ تلطف مولانا وحیدالدین کی تفسیر تذکیر القرآن بھیجی۔
ڈاکٹر طاہر القادری کا ترجمہ قرآن بھی ایک دوست نے تحفے میں دیا۔ان کے ترجمہ کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ انھوں نے اگر کسی آیت کی تعبیر وتشریح کے بارے میں ایک سے زائد آرا موجود ہیں تو وہ تمام آرا دے دی ہیں، یوں ایک ترجمہ میں کئی تراجم کی خصوصیات جمع ہوگئیں۔کچھ عرصہ پہلے قرآن آسان تحریک کے سید شبیر بخاری مرحوم کا ترتیب دیا گیادو رنگ والا بڑا دلکش ترجمہ قرآن بھی مل گیا۔ برادر عبدالغفارعزیز نے چند دن پہلے نامور مصری عالم دین سید قطب شہید کی مشہور تفسیر ظلال القرآن بھجوانے کا وعدہ کیا۔
یوں تراجم اور تفاسیر کی تو کوئی کمی نہیں، اللہ تعالیٰ سے استقامت کی دعا ہے۔ ویسے میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ ہم میں سے بہت سے لوگ ویسے تو مطالعہ سے دلچسپی کے باعث گھنٹوں کتابیں پڑھنے میں صرف کر دیتے ہیں،مگردنیا کی عظیم ترین کتاب پڑھنے کی طرف خیال ہی نہیں جاتا۔ مجھ سے اکثر نوجوان کتابوں کے بارے میں دریافت کرتے ہیں، بہت سوں کی خواہش ہوتی ہے کہ کسی اچھی کتاب کے بارے میں انھیں بتایا جائے۔ان سطور کی وساطت سے میں ان نوجوانوں سے درخواست کروں گا کہ اس رمضان کو صرف قرآن کے مطالعے کے لیے وقف کریں۔
بہتر طریقہ تو یہی ہے کہ کوئی سا ترجمہ قرآن لیا جائے اور ہر سطر کے ساتھ اس کا اردو ترجمہ پڑھا جائے ،پھرحسب توفیق اس پرغور وفکر کیا جائے۔ تاہم پہلے مرحلے پر قرآن کا صرف ترجمہ ہی پڑھ لیا جائے۔ چند دنوں میں پورا قرآن پڑھ لیا جائے گا اور یوں کم از کم دنیا کی اس واحد الہامی کتاب کا مکمل مفہوم تو پتہ چل جائے گا۔روزے میں وقت گزارنے کے لیے ناول یا ڈائجسٹ پڑھنے سے تو بہتر ہے کہ قرآن ہی پڑھ لیا جائے۔ اس مہینے میںاپنے آپ سے یہی ایک کمٹمنٹ ہی کر لی جائے۔
سیدقاسم محمود سے میرا تعارف ان کی زندگی کے آخری برسوں میں ہوا۔ سید صاحب کی زندگی کا بیشتر حصہ لاہور میں گزرا تھا، ان کا خاندان ہجرت کر کے لاہور ہی آباد ہوا۔ بعد میںجنرل ضیاء کے مارشل لاء کے ابتدائی زمانے میں ان کے لیے مسائل پیدا ہوئے۔انھوں نے ستارطاہر کی لکھی کتاب زندہ بھٹو ، مردہ بھٹو شایع کی تو ان کے ادارہ شاہکارکے لیے کام کرنا ناممکن بنا دیا گیا۔ سید قاسم محمود حیران کن صلاحیتوں کے حامل آدمی تھے۔ انھوںنے انفرادی حیثیت میں وہ کام کیے ،جن کے لیے ادارے درکار ہوتے ہیں۔
انسائیکلو پیڈیا پاکستانیکا، انسائیکلو پیڈیا اسلام ، انسائیکلوپیڈیا سیرت، تاریخ وتہذیب وغیرہ...ایک طویل فہرست ہے ان کے کاموں کی۔اس سے پہلے انھوں نے شاہکار سستی کتابیں چھاپ کر ایک انقلاب برپا کر دیا۔ اگر اس آئیڈیے کو آگے بڑھنے دیا جاتا تو آج بڑے بڑے پبلشرز کی مناپلی ختم ہو چکی ہوتی۔خود سوچیں مولانا آزاد کی شہرہ آفاق کتاب غبار خاطر جو بازار میں چار پانچ سوسے کم نہیں ملتی، شاہکار بکس میں صرف چالیس روپے میں مل جائے تو کون کسی اور طرف جائے گا؟
آخری دنوں میں انھوں نے دوبارہ سے وہ کتابیں چھاپنی شروع کیں،مگران کی زندگی کی مہلت ختم ہوچکی تھی۔ان کا ایک بڑا کام شاہکار ترجمہ قرآن تھا۔ اس میں سید صاحب نے ایک نیا کام یہ کیا تھا کہ قرآن کی آیت کے اردو ترجمہ کے ساتھ علامہ عبداللہ یوسف علی کا مشہور انگریزی ترجمہ قرآن بھی دے دیتے۔ طریقہ کار یہ تھا کہ پہلے مولانا فتح محمد جالندھری کا مشہور لفظی ترجمہ قرآن ، پھر اس کے ساتھ مودودی صاحب کا بامحاورہ ترجمہ قرآن دیا جاتا۔ہر پارے کے ساتھ قرآن کی تعبیر وتشریح کے حوالے سے مولانا امین احسن اصلاحی ، ڈاکٹرحمید اللہ یا کسی اور بڑے اسکالر کا کوئی معلوماتی مضمون بھی شامل ہوتا۔ یہ ترجمہ قرآن آج کل لاہور کے الفیصل پبلشرز شایع کر رہے ہیں۔
بات سید قاسم محمود سے ملاقات کے حوالے سے شروع ہوئی تھی۔ سید صاحب کو نوے کے عشرے کے وسط میں کراچی سے بوریا بستر سمیٹ کر واپس لاہور لوٹنا پڑا۔ کراچی میں ان کے صاحبزادے پرایک لسانی تنظیم کے لڑکوں نے خوفناک تشدد کیا اور وہ مرتے مرتے بچے۔سید صاحب نے عافیت اسی میں جانی کہ اپنے قدیمی مسکن لاہور واپس لوٹا جائے۔ میں ان دنوںلاہور کے ایک جریدے میں کام کر رہا تھا۔سیدقاسم محمود نے وہاں پر لکھنا شروع کیا۔ان سے ملاقاتیں شروع ہوئیں، وہ اپنے مضامین دینے دفتر آتے تو میرے کمرے میں کچھ وقت ضرور گزارتے،میں نے ٹی بیگ والی چائے کا انتظام اپنے طور پر کیا ہوا تھا،ان کی خدمت میں چائے پیش کرتے اور گپ شپ ہوتی۔
مجھے یاد ہے کہ انھوں نے اپنی بے حد دلچسپ آپ بیتی دھوپ چھائوں کے نام سے لکھنی شروع کی۔بعدمیں شائدوہ آپ بیتی کے لیے وقت ہی نہ نکال سکے، آخری دنوں میں انھوں نے انسائیکلو پیڈیا قرآنیات شروع کیا، اس کے پانچ چھ شمارے نکال بھی لیے، بیاسی،تراسی سال کی عمر میں بھی وہ اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے روزانہ کام کرتے تھے۔ ویسے سید صاحب کمال کے تخلیق کار تھے، ان کی ترجیحات مختلف رہیں، انسائیکلو پیڈیاز کے کٹھن کام نے ان کی توانائیاں نچوڑ لیں ،ورنہ بطور فکشن نگار وہ کسی سے کم نہیں تھے۔ ان کے افسانوں کے مجموعہ ''سید قاسم محمود کے افسانے''کے نام سے شایع ہوا تو بہت لوگ حیران رہ گئے۔ ایسے کمال کے افسانے انھوںنے لکھے اور کبھی اس کا تذکرہ تک نہیں کیا۔ میری ناچیز رائے میں تو وہ اردو کے صف اول کے افسانہ نگاروں میں شامل ہیں۔
ایک دن سید قاسم محمود صاحب نے واقعہ سنایا، وہ جاپان میں کسی تعلیمی دورے پر گئے تھے ،چند ماہ وہاں رہنے کا موقع ملا۔ بتانے لگے کہ ٹوکیومیں ایک روز ایک بک اسٹال پرکھڑا کتابیں الٹ پلٹ رہا تھا ، اچانک نظر ایک کتاب پر پڑی۔ ٹائٹل پر لکھا تھا،''دنیاکی عظیم ترین کتاب'' اسے حیرت سے اٹھا کر دیکھا تو وہ قرآن پاک کا جاپانی زبان میں ترجمہ تھا۔عربی آیات کے بغیر ہی کسی دعوتی ادارے نے صرف جاپانی زبان میں ترجمہ شایع کیا، صرف ایک مختصر نوٹ تھا ،'' یہ دنیا کی واحد الہامی کتاب ہے ، اس کا ترجمہ پڑھیے ، آپ کو خود یقین آجائے گا کہ یہ کتاب کسی انسان نے نہیں لکھی۔شروع میں ایک بار ترجمہ پڑھ لیں ،پھر دنیا کی یہ عظیم ترین کتاب عربی آیات مع ترجمہ کے پڑھیے اور پڑھتے رہیے۔''سید قاسم محمود کو یہ آئیڈیاپسند آیا۔
پاکستان آ کر انھوں نے کوشش کی کہ اسی طرز پر صرف ترجمہ قرآن ہی شایع کیا جائے۔ ان دنوں کتابت ہی ہوتی تھی، جب کاتبوں سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے قرآن پاک کی عربی آیات کے بغیر صرف ترجمہ کی کتابت کرنے سے انکار کر دیا۔ یوں یہ منصوبہ ادھورا رہ گیا اور پھر قاسم محمود نے شاہکار ترجمہ قرآن شایع کیا ،جس میں آیات کے ساتھ اردو اور انگریزی دونوںترجمے دیے گئے۔
سید صاحب ہمیں یہ اکثر یہ تلقین کرتے کہ قرآن کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ اس کو ترجمے کے ساتھ پڑھیں تاکہ اس کی عظمت کا درست اندازہ ہوسکے۔ افسوس تو یہ ہے کہ میرے جیسا بندہ جس کے پڑھنے کی رفتار بے حد تیز ہے اور جس نے ایک رات میں علی پور کا ایلی جیساضخیم ناول پڑھ لیاتھا، اپنی سستی ، نالائقی یا درست معنوںمیں غفلت کے باعث ترجمہ قرآن کی طرف توجہ نہ دے سکا۔ رمضان یا دیگر مواقع پر تھوڑی بہت تلاوت ہی کر لیتے،ترجمہ پڑھنے کی کوشش کی ،مگر روانی نہ ہوپاتی، ہر آیت کو پہلے عربی میں پڑھنا اور پھر اس کا ترجمہ پڑھنا، ساتھ میں تفسیر کے نوٹس ہوتے تو توجہ ادھر مبذول ہوجاتی، یوں کام ادھورا رہ جاتا۔
پچھلے رمضان میں مجھے ایک خیال آیا، میں نے سحری کے بعد ایک گھنٹے کے لیے قرآن کا صرف ترجمہ پڑھناشروع کیا۔ پہلے ایک دورکوع تلاوت کرلیتا تاکہ ضمیر مطمئن رہے۔ پھرصرف قرآن کا ترجمہ روانی سے پڑھتا چلا جاتا۔ دو تین دنوں میں مجھے جیسے کسی فسوں نے جکڑ لیا ہو۔ ایک عجیب تجربہ سے دوچار ہوا۔ جب قرآن پاک کے معنی آشکار ہوئے تو بہت سی غلط فہمیاں دور ہوتی گئیں۔ پہلی بات تو یہ ایک بارپھر قطعیت کے ساتھ واضح ہوگئی کہ یہ کلام کسی انسان کا ہو ہی نہیں سکتا۔
ایسی قوت، اتھارٹی، ہیبت اورعظمت کے ساتھ کوئی انسان گفتگو کر ہی نہیں سکتا۔ دوسرااللہ کی واحدانیت اور اس کی مطلق قوت کا درست اندازہ ہوا۔ ہمارے ہاں بعض مسالک کے لوگ شرک کے خلاف بہت زیادہ بولتے اور لکھتے ہیں۔ میرا خیال ہے دنیا کا کوئی بھی شخص جسے قرآن کا ترجمہ پڑھنے کا موقعہ ملے، وہ شرک میں مبتلا ہو ہی نہیں سکتا۔جو قوت، ہیبت اور شان قرآن کے اسلوب میں ہے ،اس کا اندازہ اسے پڑھنے سے ہی ہوسکتا ہے۔ پچھلے سال حسن اتفاق سے میرے پاس کئی ترجمہ قرآن اکٹھے ہوگئے۔ پہلے ہمارے دوست ڈاکٹر اظہار ہاشمی نے تفہیم القرآن کا سیٹ اور سیرت کی مشہور کتاب الرحیق المختوم دی۔پھر ڈاکٹر عاصم اللہ بخش نے ازراہ تلطف مولانا وحیدالدین کی تفسیر تذکیر القرآن بھیجی۔
ڈاکٹر طاہر القادری کا ترجمہ قرآن بھی ایک دوست نے تحفے میں دیا۔ان کے ترجمہ کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ انھوں نے اگر کسی آیت کی تعبیر وتشریح کے بارے میں ایک سے زائد آرا موجود ہیں تو وہ تمام آرا دے دی ہیں، یوں ایک ترجمہ میں کئی تراجم کی خصوصیات جمع ہوگئیں۔کچھ عرصہ پہلے قرآن آسان تحریک کے سید شبیر بخاری مرحوم کا ترتیب دیا گیادو رنگ والا بڑا دلکش ترجمہ قرآن بھی مل گیا۔ برادر عبدالغفارعزیز نے چند دن پہلے نامور مصری عالم دین سید قطب شہید کی مشہور تفسیر ظلال القرآن بھجوانے کا وعدہ کیا۔
یوں تراجم اور تفاسیر کی تو کوئی کمی نہیں، اللہ تعالیٰ سے استقامت کی دعا ہے۔ ویسے میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ ہم میں سے بہت سے لوگ ویسے تو مطالعہ سے دلچسپی کے باعث گھنٹوں کتابیں پڑھنے میں صرف کر دیتے ہیں،مگردنیا کی عظیم ترین کتاب پڑھنے کی طرف خیال ہی نہیں جاتا۔ مجھ سے اکثر نوجوان کتابوں کے بارے میں دریافت کرتے ہیں، بہت سوں کی خواہش ہوتی ہے کہ کسی اچھی کتاب کے بارے میں انھیں بتایا جائے۔ان سطور کی وساطت سے میں ان نوجوانوں سے درخواست کروں گا کہ اس رمضان کو صرف قرآن کے مطالعے کے لیے وقف کریں۔
بہتر طریقہ تو یہی ہے کہ کوئی سا ترجمہ قرآن لیا جائے اور ہر سطر کے ساتھ اس کا اردو ترجمہ پڑھا جائے ،پھرحسب توفیق اس پرغور وفکر کیا جائے۔ تاہم پہلے مرحلے پر قرآن کا صرف ترجمہ ہی پڑھ لیا جائے۔ چند دنوں میں پورا قرآن پڑھ لیا جائے گا اور یوں کم از کم دنیا کی اس واحد الہامی کتاب کا مکمل مفہوم تو پتہ چل جائے گا۔روزے میں وقت گزارنے کے لیے ناول یا ڈائجسٹ پڑھنے سے تو بہتر ہے کہ قرآن ہی پڑھ لیا جائے۔ اس مہینے میںاپنے آپ سے یہی ایک کمٹمنٹ ہی کر لی جائے۔