آپریشن ردالفساد ہر فسادی کے خلاف
آپریشن ردالفساد کو کامیاب بنانےکیلئے مسلح جھتے ختم کئے جائیں اور اگر کوئی بندوق بردار ہوتو وہ صرف ریاست کا نمائندہ ہو
13 فروری کو امن مشق 2017ء کے سمندری حصے کی رپورٹنگ کے لئے پی ایم ایس نصر پر گہرے پانیوں میں تقریباً 50 ناٹیکل میل کا سفر کیا، الصبح شروع ہونے والا یہ سفر رات گئے تک جاری رہا۔ سمندر میں ہونے کی وجہ سے زمین سے رابطہ منقطع رہا۔ لیکن جیسے ہی بحری جہاز کراچی کے قریب پہنچا تو صبح سے خاموش موبائل فونز یکدم چیخ اُٹھے۔ تمام دن ہنسی مذاق اور سمندر کی ہوا کھانے کے بعد خشکی سے جو پہلی خبر ملی وہ تھی،ل اہور مال روڈ پر خود کش حملے کی، پہلے تو چہروں پر صرف دن بھر کی تھکاوٹ تھی مگر اِس خبر کے سنتے ہی چہرے حقیقی معنوں میں لٹک بھی گئے۔
اِس بم دھماکے نے ساری خوشی کافور کردی، امن مشق کو پاکستان نیوی کی صلاحیت اور پاکستان کی بڑی سفارتی کامیابی کے ساتھ ساتھ ملک میں امن اور سیکیورٹی کی بہتر ہوتی صورتحال کا غماز بھی قرار دی جارہی تھی۔ امن مشق میں 5 سپر طاقتوں سمیت 36 ملکوں کی بحریہ کا حصہ لینا ایک بہت بڑی سفارتی کامیابی قرار دیا جاسکتا ہے۔ یہ مشق اِس قدر بڑی تھی کہ امریکی نیوی پہلے تو کھچی کھچی رہی۔ جس کی وجہ سے چین ترکی اور روس کی شمولیت کا میڈیا میں بہت چرچا ہوا۔ اِس چرچے کی بناء پر امریکی قونصلیٹ کو بھی بیان جاری کرنا پڑا کہ وہ بھی اِس مشق کا حصہ تھے۔
آج میرا موضوعِ بحث امن مشق نہیں، بلکہ دہشت گردی کی حالیہ لہر ہے۔ جس نے ایک مرتبہ پھر پوری قوم کو تفکر میں مبتلا کردیا ہے۔ اِس مرتبہ ہونے والی دہشت گردی میں جو بھی حقائق سامنے آئے ہیں وہ بھی اِس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ حکومتی سطح پر جو اقدامات اٹھائے جانے چاہیئے تھے، اُن میں کمی کوتاہی رہ گئی ہے۔ جس نے اِس دہشت گردی کو دوبارہ ایک مربوط طریقے سے سرانجام دینے میں معاونت کی ہے، مگر 5 مارچ کو پاکستان میں پی ایس ایل کے فائنل نے دہشت گردی سے متعلق پاکستان کے بارے میں رائے کو تبدیل کرنا شروع کردیا ہے۔ لیکن اِس کامیابی کے باوجود حکومت، مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مسلسل چوکنا اور متحرک رہنا ہوگا۔
ملک میں ایک بار پھر امن کو 'آپریشن رد الفساد' سے منسوب کیا جارہا ہے، لیکن یہ آپریشن کیا ہے؟ کیوں شروع کیا گیا؟ اور اِس سے کس قدر پاکستان کو فائدہ ہوسکتا ہے؟ آئیے اِن نکات پر روشنی ڈالتے ہیں۔
دہشت گردی کی نئی لہر کے ساتھ ہی حکومت اور فوجی قیادت نے ملک میں ایک نئے 'آپریشن ردالفساد' کا فیصلہ کیا ہے۔ نیا آپریشن ماضی میں کئے گئے فوجی آپریشن کی توسیع ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے اہداف کے لحاظ سے مختلف ہے۔ اِس سے قبل پاک فوج دہشت گردوں کے خلاف سال 2007ء سے مختلف آپریشن کرچکی ہے، اور کچھ آپریشن تاحال جاری ہیں۔ سب سے پہلے آپریشن راہِ حق، پھر اِسی علاقے میں آپریشن راہِ راست، باجوڑ ایجنسی میں آپریشن شیر دل، اِس کے علاوہ خیبر ایجنسی میں خبیر ون، خیبر ٹو اور خیبر تھری کے نام سے آپریشن کئے گئے ہیں۔
یہ تمام آپریشن زیادہ تر دیہی علاقوں یا ایسے علاقوں میں کئے گئے، جہاں کی مقامی آبادی نے فوجی آپریشن کے آغاز کے بعد ہی نقل مکانی کرلی، چونکہ دہشت گردوں اور فوج کے درمیان انسانی ڈھال موجود نہ تھی۔ اِس لئے مسلح افواج کو دہشت گردوں سے دوبدو لڑائی کا موقع ملا، جہاں ضرورت پڑی پاکستان آرمی کے گن شِپ ہیلی کاپٹرز کے علاوہ دہشت گروں کے ٹھکانوں پر جیٹ طیاروں سے بمباری بھی کی گئی، اور اِن علاقوں میں موجودہ دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کے علاوہ ہتھیار ڈالنے یا بھاگنے پر مجبور کردیا۔
ماضی کے آپریشن خصوصاً آپریشن ضربِ عضب کی حکمتِ عملی میں سیک ڈِسٹرائے کلیئر اینڈ ہولڈ، تلاش کرو تباہ کرو، صفائی کرکے حکومتی رٹ قائم کردو، اور آپریشن ضربِ عضب کے برخلاف ردالفساد میں آپریشن ملک کے اندر رہائشی علاقوں میں موجود دہشت گردوں اور اُن کے سہولت کاروں کے خلاف آپریشن کرنا ہوگا۔ اِس آپریشن کی حکمتِ عملی سرچ، انگیج، نیوٹرل اینڈ کلیئر ہوگی۔
آپریشن کے لئے علاقہ اور رقبہ محدود نہیں ہے۔ یہ آپریشن ملک کے تمام علاقوں شہروں اور قصبوں میں سرانجام دیا جائے گا۔ اپنی نوعیت اور وسعت کے اعتبار سے آپریشن ردالفساد ملک میں دہشت گردوں، اُن کے سہولت کار اور مسلح جتھوں کے خلاف سب سے بڑا آپریشن ہوگا۔ اِس آپریشن کو کامیاب بنانے کے لئے 'ہول آف نیشن تھیوری' کی بنیاد پر سرانجام دیا جائے گا۔ جس میں ملک کی موجود تمام قانون نافذ کرنے والی تنظیموں، اداروں کو شامل کرکے یک جان ہو کر سر انجام دیا جائے گا۔ مسلح افواج کے ترجمان کے مطابق آپریشن ردالفساد میں پاکستان آرمی کے ساتھ ساتھ پاکستان نیوی، فضائیہ، رینجرز اور پولیس، لیویز اور دیگر ادارے مل کر کریں گے۔
ردالفساد اپنی حساسیت کے اعتبار سے بھی اہم ہے۔ اِس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو شہری اور دیہی رہائشی علاقوں میں کارروائیاں کرنا ہوں گی۔ مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہر ممکن احتیاط، مہارت سے کارروائیاں کرنا ہوگیں۔ دہشت گردوں یا مسلح جتھوں کی جانب سے رہائشی علاقوں میں ردِعمل معصوم انسانی جانوں کے زیاں کا سبب بن سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اربن وار فیئرعام جنگ کے مقابلے میں زیادہ پیچیدہ اور مشکل ہوتی ہے۔
چین نے آپریشن ردالفساد کی بھرپور حمایت کی ہے اور اِس آپریشن میں پاکستان کی بھرپور معاونت کا یقین دلایا ہے۔ جبکہ امریکا سمیت مغرب کی جانب سے خاموشی دیکھی جارہی ہے۔ گورنر اسٹیٹ بینک محمود اشرف وتھرا کے مطابق کولیشن سپورٹ فنڈ میں امریکا نے ایک ارب دس کروڑ ڈالر کی ادائیگی کرنی ہے جوکہ تاحال نہیں کی گئی ہے۔
پاک چین اقتصادی راہدری کو مختلف طرح کے دہشت گردوں سے خطرات موجود ہیں، اور اِس منصوبے کو کامیاب بنانے کیلئے ضروری ہے کہ ملک میں تمام طرح کے مسلح جتھوں کا خاتمہ کیا جائے اور ملک میں موجود اسلحے کو ضبط کیا جائے۔
ریاستی سطح پر گزشتہ کئی دہائیوں کی غفلت کی وجہ سے ملک کے طول و عرض میں کئی طرح کے مسلح جتھے بن گئے ہیں۔ یہ مسلح جتھے سیاسی، مذہبی، فرقہ وارانہ اور دیگر سماجی جرائم کے مرتکب افراد کی آمجگاہ ہیں اور دشمن اِن جتھوں کو پاکستان کے خلاف جب چاہے استعمال کرسکتا ہے۔
اگر مذہبی جتھے ختم کردیئے گئے تو وڈیروں اور جاگیرداروں کے پالتو ڈکیت اور فراری، پاکستان دشمن قوتوں کے اہداف ہوں گے اور کسی بھی وقت ملک میں عدم استحکام پیدا کرسکیں گے۔ خصوصاً پاک چین اقتصادی راہدری میں یہ جتھے خلل ڈال سکتے ہیں۔
اگر اِس مرتبہ ایک بڑے آپریشن میں صرف مذہبی دہشت گردی کرنے والوں کو ہدف بنایا گیا تو بہت جلد اُن کی جگہ کوئی اور مسلح گروہ لے گا۔ اِس آپریشن میں ضروری ہے کہ ملک بھر میں موجود تمام چھوٹو گینگ ختم کئے جائیں۔ پولیس اور مسلح افواج کو موقع دیا جائے کہ وہ ملک بھر میں موجود فراری کیمپوں کا خاتمہ کرے۔ اِس کے لئے دریاؤں کے ڈیلٹا اور کچے کے علاقوں میں بھی آپریشن کو سرانجام دینا ہوگا۔
آپریشن ردالفساد کو کامیاب بنانے اور اِس کے منطقی نتائج حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ملک سے ہر طرح کے مسلح جھتے ختم کئے جائیں اور ملک میں اگر کوئی بندوق بردار ہو تو وہ صرف ریاست کا نمائندہ ہو۔
ملک بھر میں شروع کئے جانے والے آپریشن ردالفساد کی کمان تو پاک فوج کے ہاتھ میں ہے، مگر چونکہ یہ آپریشن شہری اور دیہی رہائشی علاقوں میں سرانجام دیا جارہا ہے، اِس لئے اِس آپریشن میں پولیس اور سول خفیہ اداروں کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ 'آپریشن ردالفساد' کو کامیاب بنانے کے لئے نیکٹا کو فعال کیا جائے، اور ملک بھر سے جمع ہونے والی معلومات کا تجزیہ ایک جگہ کیا جائے۔ جس سے ملک میں اُبھرتے کسی بھی دہشت گرد نیٹ ورک کا پتہ چلایا جاسکے۔ اگر معلومات کو ایک جگہ اکھٹا نہ کیا گیا اور ہر ادارے نے اپنی اپنی دستیاب معلومات پر مسلح جتھوں یا دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی تو ممکنہ طور پر وہ کسی اور علاقے یا شہر میں باآسانی روپوش ہوسکتے ہیں۔
ملک بھر میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کے ساتھ ساتھ حکومتی سطح پر بھی بعض اہم اقدامات کرنا ہوں گے۔ اِن اقدامات کی نشاندہی نیشنل ایکشن پروگرام میں کی گئی تھی، مگر کوئی واضح اور بھرپور کام ہوتا نظر نہیں آرہا ہے۔ اُن کا جائزہ بھی پیشِ خدمت ہے۔
پاکستان میں موجود ایک بڑی بلیک معیشت یا غیر رجسٹرڈ کاروبار ملک میں دہشت گرد فنانسنگ کا ایک بڑا ذریعہ بھی ہیں۔ اسٹیٹ بینک نے دہشت گردوں کو مالی معاونت روکنے کی تمام تر ذمہ داری بینکوں پر ڈال دی ہے۔ گزشتہ دِنوں اسٹیٹ بینک نے انسدادِ دہشت گردی فنانسنگ اور اینٹی منی لانڈرنگ کے حوالے سے نئے رہنما اصول جاری کئے ہیں، مگر بینکاروں کا کہنا ہے کہ دہشت گرد نقد معیشت کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور انہوں نے ملک کے اندر بھی ہنڈی حوالے کا کاروبار شروع کیا ہوا ہے۔
پاکستان میں موجود ہنڈی حوالہ نیٹ ورک کی نشاندہی امریکی محکمہ خارجہ کی منی لانڈرنگ کے حوالے سے جاری کردہ رپورٹ میں بھی کی گئی ہے۔ پاکستان کے اندر لین دین کے لئے ایک متوازی بینکاری نظام ہنڈی حوالے کی صورت میں موجود ہے۔ حکومت کی جانب سے بینک ٹرانزکشن پر ٹیکس عائد کئے جانے کے بعد اِس ہنڈی حوالے میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان کی بڑی بڑی مارکیٹس، ٹرک و بس اڈے، سبزی منڈیوں میں بہت سے لوگ بیٹھے ہیں جو کہ اندرونِ ملک ہنڈی حوالہ کرتے ہیں۔ پہلے جو رقم بینکوں کے ذریعے ملک میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتی تھی، اب وہ انہی ہنڈی حوالہ کے مراکز سے منتقل ہوتی ہے۔ اور یہی ہنڈی حوالہ کرنے والے دہشت گرد فنانسنگ میں لین دین کرتے ہیں۔ مقامی ہنڈی حوالے میں سب سے اہم کرنسی کے نوٹوں کی ہوتی ہے۔ نہ تو حکومت نے پانچ ہزار روپے کے کرنسی نوٹ اور نہ ہی چالیس ہزار روپے کے انعامی بانڈ پر کوئی پابندی عائد کی اور نہ ہی اندرون ملک ہنڈی حوالہ پر کوئی کریک ڈاؤن کیا گیا۔
پاکستان کے پڑوسی ملک بھارت کی مسلسل ریشہ دوانیوں اور کشمیر میں جاری جہاد نے بھارت کو پریشانی میں مبتلا کردیا ہے، بھارت مقبوضہ کشمیر میں حالات کو درست کرنے کے بجائے پاکستان کو مسائل میں اُلجھانے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ پاکستان میں موجودہ ہر قسم کی بے چینی کو بھارت ہوا دے رہا ہے، اور اِس کی مثال کلبھوشن یادو کا گرفتار ہونا اور اقبالی بیان ہے۔
کراچی میں ہونے والی سیاسی ٹارگٹ کلنگ، فرقہ وارانہ دہشت گردی یا خودکش بم دھماکوں کے علاوہ بلوچستان اور تحریکِ طالبان پاکستان اور دیگر دہشت گردوں کو بھارت اسلحہ، تربیت اور مالی معاونت فراہم کرتا رہا ہے۔
پاکستان میں بم دھماکوں کے ذریعے دہشت گردی پھیلانے والے بلوچ گروہ ہوں یا تحریک طالبان یا کوئی اور تنظیم، اُن کی قیادت افغانستان میں موجود ہے۔ جہاں اُن پر افغان حکومت کے ساتھ ساتھ بھارتی حکومت کا کنٹرول بھی ہے۔ اِسی لئے افغانستان سے یہ اطلاعات موصول ہورہی ہیں کہ تحریکِ طالبان کے مختلف گروہوں میں صلح کا عمل بھارتی ایماء پر جاری ہے۔ اِس کی سب سے بڑی مثال کالعدم تحریکِ طالبان سے ناراض گروپ حلقہ محسود کا صلح کرنا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کو بھرپور سفارتی کوشش کرنا ہوگی۔ چین، ترکی اور دیگر دوست ممالک کے تعاون سے بھارت اور افغانستان کو سخت پیغام پہنچانا ہوگا۔
مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اشتراک سے شروع کیا جانے والا آپریشن ردالفساد صرف اِسی صورت میں کامیاب ہوسکتا ہے جب وفاقی اور صوبائی حکومتیں تمام شقوں پر اس کی روح کے مطابق عمل کریں۔
[poll id="1343"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔
اِس بم دھماکے نے ساری خوشی کافور کردی، امن مشق کو پاکستان نیوی کی صلاحیت اور پاکستان کی بڑی سفارتی کامیابی کے ساتھ ساتھ ملک میں امن اور سیکیورٹی کی بہتر ہوتی صورتحال کا غماز بھی قرار دی جارہی تھی۔ امن مشق میں 5 سپر طاقتوں سمیت 36 ملکوں کی بحریہ کا حصہ لینا ایک بہت بڑی سفارتی کامیابی قرار دیا جاسکتا ہے۔ یہ مشق اِس قدر بڑی تھی کہ امریکی نیوی پہلے تو کھچی کھچی رہی۔ جس کی وجہ سے چین ترکی اور روس کی شمولیت کا میڈیا میں بہت چرچا ہوا۔ اِس چرچے کی بناء پر امریکی قونصلیٹ کو بھی بیان جاری کرنا پڑا کہ وہ بھی اِس مشق کا حصہ تھے۔
آج میرا موضوعِ بحث امن مشق نہیں، بلکہ دہشت گردی کی حالیہ لہر ہے۔ جس نے ایک مرتبہ پھر پوری قوم کو تفکر میں مبتلا کردیا ہے۔ اِس مرتبہ ہونے والی دہشت گردی میں جو بھی حقائق سامنے آئے ہیں وہ بھی اِس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ حکومتی سطح پر جو اقدامات اٹھائے جانے چاہیئے تھے، اُن میں کمی کوتاہی رہ گئی ہے۔ جس نے اِس دہشت گردی کو دوبارہ ایک مربوط طریقے سے سرانجام دینے میں معاونت کی ہے، مگر 5 مارچ کو پاکستان میں پی ایس ایل کے فائنل نے دہشت گردی سے متعلق پاکستان کے بارے میں رائے کو تبدیل کرنا شروع کردیا ہے۔ لیکن اِس کامیابی کے باوجود حکومت، مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مسلسل چوکنا اور متحرک رہنا ہوگا۔
ملک میں ایک بار پھر امن کو 'آپریشن رد الفساد' سے منسوب کیا جارہا ہے، لیکن یہ آپریشن کیا ہے؟ کیوں شروع کیا گیا؟ اور اِس سے کس قدر پاکستان کو فائدہ ہوسکتا ہے؟ آئیے اِن نکات پر روشنی ڈالتے ہیں۔
آپریشن ردالفساد کی ضرورت کیوں؟
دہشت گردی کی نئی لہر کے ساتھ ہی حکومت اور فوجی قیادت نے ملک میں ایک نئے 'آپریشن ردالفساد' کا فیصلہ کیا ہے۔ نیا آپریشن ماضی میں کئے گئے فوجی آپریشن کی توسیع ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے اہداف کے لحاظ سے مختلف ہے۔ اِس سے قبل پاک فوج دہشت گردوں کے خلاف سال 2007ء سے مختلف آپریشن کرچکی ہے، اور کچھ آپریشن تاحال جاری ہیں۔ سب سے پہلے آپریشن راہِ حق، پھر اِسی علاقے میں آپریشن راہِ راست، باجوڑ ایجنسی میں آپریشن شیر دل، اِس کے علاوہ خیبر ایجنسی میں خبیر ون، خیبر ٹو اور خیبر تھری کے نام سے آپریشن کئے گئے ہیں۔
یہ تمام آپریشن زیادہ تر دیہی علاقوں یا ایسے علاقوں میں کئے گئے، جہاں کی مقامی آبادی نے فوجی آپریشن کے آغاز کے بعد ہی نقل مکانی کرلی، چونکہ دہشت گردوں اور فوج کے درمیان انسانی ڈھال موجود نہ تھی۔ اِس لئے مسلح افواج کو دہشت گردوں سے دوبدو لڑائی کا موقع ملا، جہاں ضرورت پڑی پاکستان آرمی کے گن شِپ ہیلی کاپٹرز کے علاوہ دہشت گروں کے ٹھکانوں پر جیٹ طیاروں سے بمباری بھی کی گئی، اور اِن علاقوں میں موجودہ دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کے علاوہ ہتھیار ڈالنے یا بھاگنے پر مجبور کردیا۔
آپریشنل حکمتِ عملی
ماضی کے آپریشن خصوصاً آپریشن ضربِ عضب کی حکمتِ عملی میں سیک ڈِسٹرائے کلیئر اینڈ ہولڈ، تلاش کرو تباہ کرو، صفائی کرکے حکومتی رٹ قائم کردو، اور آپریشن ضربِ عضب کے برخلاف ردالفساد میں آپریشن ملک کے اندر رہائشی علاقوں میں موجود دہشت گردوں اور اُن کے سہولت کاروں کے خلاف آپریشن کرنا ہوگا۔ اِس آپریشن کی حکمتِ عملی سرچ، انگیج، نیوٹرل اینڈ کلیئر ہوگی۔
آپریشن کے لئے علاقہ اور رقبہ محدود نہیں ہے۔ یہ آپریشن ملک کے تمام علاقوں شہروں اور قصبوں میں سرانجام دیا جائے گا۔ اپنی نوعیت اور وسعت کے اعتبار سے آپریشن ردالفساد ملک میں دہشت گردوں، اُن کے سہولت کار اور مسلح جتھوں کے خلاف سب سے بڑا آپریشن ہوگا۔ اِس آپریشن کو کامیاب بنانے کے لئے 'ہول آف نیشن تھیوری' کی بنیاد پر سرانجام دیا جائے گا۔ جس میں ملک کی موجود تمام قانون نافذ کرنے والی تنظیموں، اداروں کو شامل کرکے یک جان ہو کر سر انجام دیا جائے گا۔ مسلح افواج کے ترجمان کے مطابق آپریشن ردالفساد میں پاکستان آرمی کے ساتھ ساتھ پاکستان نیوی، فضائیہ، رینجرز اور پولیس، لیویز اور دیگر ادارے مل کر کریں گے۔
اربن وارفیئر
ردالفساد اپنی حساسیت کے اعتبار سے بھی اہم ہے۔ اِس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو شہری اور دیہی رہائشی علاقوں میں کارروائیاں کرنا ہوں گی۔ مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہر ممکن احتیاط، مہارت سے کارروائیاں کرنا ہوگیں۔ دہشت گردوں یا مسلح جتھوں کی جانب سے رہائشی علاقوں میں ردِعمل معصوم انسانی جانوں کے زیاں کا سبب بن سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اربن وار فیئرعام جنگ کے مقابلے میں زیادہ پیچیدہ اور مشکل ہوتی ہے۔
پاک چین اقتصادی راہدری سے ہر طرح کے مسلح جتھوں کو ختم کیا جائے گا
چین نے آپریشن ردالفساد کی بھرپور حمایت کی ہے اور اِس آپریشن میں پاکستان کی بھرپور معاونت کا یقین دلایا ہے۔ جبکہ امریکا سمیت مغرب کی جانب سے خاموشی دیکھی جارہی ہے۔ گورنر اسٹیٹ بینک محمود اشرف وتھرا کے مطابق کولیشن سپورٹ فنڈ میں امریکا نے ایک ارب دس کروڑ ڈالر کی ادائیگی کرنی ہے جوکہ تاحال نہیں کی گئی ہے۔
پاک چین اقتصادی راہدری کو مختلف طرح کے دہشت گردوں سے خطرات موجود ہیں، اور اِس منصوبے کو کامیاب بنانے کیلئے ضروری ہے کہ ملک میں تمام طرح کے مسلح جتھوں کا خاتمہ کیا جائے اور ملک میں موجود اسلحے کو ضبط کیا جائے۔
ریاستی سطح پر گزشتہ کئی دہائیوں کی غفلت کی وجہ سے ملک کے طول و عرض میں کئی طرح کے مسلح جتھے بن گئے ہیں۔ یہ مسلح جتھے سیاسی، مذہبی، فرقہ وارانہ اور دیگر سماجی جرائم کے مرتکب افراد کی آمجگاہ ہیں اور دشمن اِن جتھوں کو پاکستان کے خلاف جب چاہے استعمال کرسکتا ہے۔
اگر مذہبی جتھے ختم کردیئے گئے تو وڈیروں اور جاگیرداروں کے پالتو ڈکیت اور فراری، پاکستان دشمن قوتوں کے اہداف ہوں گے اور کسی بھی وقت ملک میں عدم استحکام پیدا کرسکیں گے۔ خصوصاً پاک چین اقتصادی راہدری میں یہ جتھے خلل ڈال سکتے ہیں۔
اگر اِس مرتبہ ایک بڑے آپریشن میں صرف مذہبی دہشت گردی کرنے والوں کو ہدف بنایا گیا تو بہت جلد اُن کی جگہ کوئی اور مسلح گروہ لے گا۔ اِس آپریشن میں ضروری ہے کہ ملک بھر میں موجود تمام چھوٹو گینگ ختم کئے جائیں۔ پولیس اور مسلح افواج کو موقع دیا جائے کہ وہ ملک بھر میں موجود فراری کیمپوں کا خاتمہ کرے۔ اِس کے لئے دریاؤں کے ڈیلٹا اور کچے کے علاقوں میں بھی آپریشن کو سرانجام دینا ہوگا۔
آپریشن ردالفساد کو کامیاب بنانے اور اِس کے منطقی نتائج حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ملک سے ہر طرح کے مسلح جھتے ختم کئے جائیں اور ملک میں اگر کوئی بندوق بردار ہو تو وہ صرف ریاست کا نمائندہ ہو۔
قومی ادارہ برائے انسداد دہشت گردی نیکٹا
ملک بھر میں شروع کئے جانے والے آپریشن ردالفساد کی کمان تو پاک فوج کے ہاتھ میں ہے، مگر چونکہ یہ آپریشن شہری اور دیہی رہائشی علاقوں میں سرانجام دیا جارہا ہے، اِس لئے اِس آپریشن میں پولیس اور سول خفیہ اداروں کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ 'آپریشن ردالفساد' کو کامیاب بنانے کے لئے نیکٹا کو فعال کیا جائے، اور ملک بھر سے جمع ہونے والی معلومات کا تجزیہ ایک جگہ کیا جائے۔ جس سے ملک میں اُبھرتے کسی بھی دہشت گرد نیٹ ورک کا پتہ چلایا جاسکے۔ اگر معلومات کو ایک جگہ اکھٹا نہ کیا گیا اور ہر ادارے نے اپنی اپنی دستیاب معلومات پر مسلح جتھوں یا دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی تو ممکنہ طور پر وہ کسی اور علاقے یا شہر میں باآسانی روپوش ہوسکتے ہیں۔
ملک بھر میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کے ساتھ ساتھ حکومتی سطح پر بھی بعض اہم اقدامات کرنا ہوں گے۔ اِن اقدامات کی نشاندہی نیشنل ایکشن پروگرام میں کی گئی تھی، مگر کوئی واضح اور بھرپور کام ہوتا نظر نہیں آرہا ہے۔ اُن کا جائزہ بھی پیشِ خدمت ہے۔
- دہشت گروں کو مالیات کی فراہمی
پاکستان میں موجود ایک بڑی بلیک معیشت یا غیر رجسٹرڈ کاروبار ملک میں دہشت گرد فنانسنگ کا ایک بڑا ذریعہ بھی ہیں۔ اسٹیٹ بینک نے دہشت گردوں کو مالی معاونت روکنے کی تمام تر ذمہ داری بینکوں پر ڈال دی ہے۔ گزشتہ دِنوں اسٹیٹ بینک نے انسدادِ دہشت گردی فنانسنگ اور اینٹی منی لانڈرنگ کے حوالے سے نئے رہنما اصول جاری کئے ہیں، مگر بینکاروں کا کہنا ہے کہ دہشت گرد نقد معیشت کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور انہوں نے ملک کے اندر بھی ہنڈی حوالے کا کاروبار شروع کیا ہوا ہے۔
- اندرون ملک ہنڈی حوالہ
پاکستان میں موجود ہنڈی حوالہ نیٹ ورک کی نشاندہی امریکی محکمہ خارجہ کی منی لانڈرنگ کے حوالے سے جاری کردہ رپورٹ میں بھی کی گئی ہے۔ پاکستان کے اندر لین دین کے لئے ایک متوازی بینکاری نظام ہنڈی حوالے کی صورت میں موجود ہے۔ حکومت کی جانب سے بینک ٹرانزکشن پر ٹیکس عائد کئے جانے کے بعد اِس ہنڈی حوالے میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان کی بڑی بڑی مارکیٹس، ٹرک و بس اڈے، سبزی منڈیوں میں بہت سے لوگ بیٹھے ہیں جو کہ اندرونِ ملک ہنڈی حوالہ کرتے ہیں۔ پہلے جو رقم بینکوں کے ذریعے ملک میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتی تھی، اب وہ انہی ہنڈی حوالہ کے مراکز سے منتقل ہوتی ہے۔ اور یہی ہنڈی حوالہ کرنے والے دہشت گرد فنانسنگ میں لین دین کرتے ہیں۔ مقامی ہنڈی حوالے میں سب سے اہم کرنسی کے نوٹوں کی ہوتی ہے۔ نہ تو حکومت نے پانچ ہزار روپے کے کرنسی نوٹ اور نہ ہی چالیس ہزار روپے کے انعامی بانڈ پر کوئی پابندی عائد کی اور نہ ہی اندرون ملک ہنڈی حوالہ پر کوئی کریک ڈاؤن کیا گیا۔
دہشت گردوں کا دوبارہ منظم ہونا
پاکستان کے پڑوسی ملک بھارت کی مسلسل ریشہ دوانیوں اور کشمیر میں جاری جہاد نے بھارت کو پریشانی میں مبتلا کردیا ہے، بھارت مقبوضہ کشمیر میں حالات کو درست کرنے کے بجائے پاکستان کو مسائل میں اُلجھانے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ پاکستان میں موجودہ ہر قسم کی بے چینی کو بھارت ہوا دے رہا ہے، اور اِس کی مثال کلبھوشن یادو کا گرفتار ہونا اور اقبالی بیان ہے۔
کراچی میں ہونے والی سیاسی ٹارگٹ کلنگ، فرقہ وارانہ دہشت گردی یا خودکش بم دھماکوں کے علاوہ بلوچستان اور تحریکِ طالبان پاکستان اور دیگر دہشت گردوں کو بھارت اسلحہ، تربیت اور مالی معاونت فراہم کرتا رہا ہے۔
پاکستان میں بم دھماکوں کے ذریعے دہشت گردی پھیلانے والے بلوچ گروہ ہوں یا تحریک طالبان یا کوئی اور تنظیم، اُن کی قیادت افغانستان میں موجود ہے۔ جہاں اُن پر افغان حکومت کے ساتھ ساتھ بھارتی حکومت کا کنٹرول بھی ہے۔ اِسی لئے افغانستان سے یہ اطلاعات موصول ہورہی ہیں کہ تحریکِ طالبان کے مختلف گروہوں میں صلح کا عمل بھارتی ایماء پر جاری ہے۔ اِس کی سب سے بڑی مثال کالعدم تحریکِ طالبان سے ناراض گروپ حلقہ محسود کا صلح کرنا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کو بھرپور سفارتی کوشش کرنا ہوگی۔ چین، ترکی اور دیگر دوست ممالک کے تعاون سے بھارت اور افغانستان کو سخت پیغام پہنچانا ہوگا۔
مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اشتراک سے شروع کیا جانے والا آپریشن ردالفساد صرف اِسی صورت میں کامیاب ہوسکتا ہے جب وفاقی اور صوبائی حکومتیں تمام شقوں پر اس کی روح کے مطابق عمل کریں۔
[poll id="1343"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔